Wednesday 16 October 2013

جشنِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

جشنِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قرآن حکیم سے اِستدلال
قدرت نے مختلف اَشیاء کو ایک دوسرے کے مقابل اِنفرادی طور پر شرف و فضیلت سے بہرہ ور کیا ہے۔ مختلف جہات و حیثیات سے بعض علاقے دوسرے علاقوں پر اور بعض دن دوسرے دنوں پرجدا جدا امتیازی خصوصیات رکھتے ہیں۔ اسی طرح اﷲ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے بھی بعض کو بعض پر فضیلت دیتا ہے۔ انبیاء و رُسل میں سے بعض کو بعض پر فضیلت اور امتیاز بخشا ہے۔ اِرشادِ باری تعالیٰ ہے:
تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ.
’’یہ سب رسول (جو ہم نے مبعوث فرمائے) ہم نے ان میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی۔‘‘
البقرة، 2 : 253
اﷲ رب العزت نے بعض ایام کو دیگر ایام پر، بعض مہینوں کو دوسرے مہینوں پر اور بعض ساعتوں کو بھی دوسری ساعتوں پر شرف و اِمتیاز عطا کیا ہے۔
ماہ رمضان المبارک کی وجہ فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا :
شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْ أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ.
’’رمضان کا مہینہ (وہ ہے) جس میں قرآن اتارا گیا ہے۔‘‘
البقرة، 2 : 185

اسی ماہِ مبارک کی ایک رات (لیلۃ القدر) کو شبِ نزولِ قرآن ہونے کی بناء پر دیگر راتوں پر فوقیت عطا فرمائی۔ اِرشادِ باری تعالیٰ ہے :
إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِO
’’بے شک ہم نے اس (قرآن) کو شبِ قدر میں اتارا ہےo‘‘
القدر، 97 : 1

اِسی طرح دوسرے مقدس مقامات کے باوجود صرف شہر مکہ کی قسم کھاتے ہوئے اُسے دوسرے شہروں پر فضیلت دی، کیوں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ مقدسہ کا بیشتر حصہ اس شہر میں گزرا۔ ارشاد فرمایا :
لَا أُقْسِمُ بِهَذَا الْبَلَدِO وَأَنتَ حِلٌّ بِهَذَا الْبَلَدِO
’’میں اس شہر (مکہ) کی قسم کھاتا ہوںo (اے حبیبِ مکرم!) اس لیے کہ آپ اس شہر میں تشریف فرما ہیںo‘‘
البلد، 90 : 1، 2
اِسی طرح ایمان اور اسلام کے بعد انسانی معاشرے میں عزت وتکریم اور ایک دوسرے پر فضیلت و برتری کا معیار تقویٰ کو قرار دیا۔ ارشاد فرمایا :
إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ.
’’بے شک اﷲ کے نزدیک تم میں زیادہ باعزت وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگار ہو۔‘‘
الحجرات، 49 : 13
الغرض قرآن حکیم کی متعدد آیات میں اللہ تعالیٰ نے مختلف مقامات اور اشیاء کے تقدس کا اظہار اور ان کی فضیلت کی مختلف وجوہ بیان فرمائی ہیں۔ جس طرح لیلۃ القدر ہزار راتوں سے افضل ہے اور رمضان المبارک دیگر مہینوں پر فضیلت رکھتا ہے، اُسی طرح ماہِ ربیع الاول کے امتیاز اور شانِ علو کی وجہ صاحبِ قرآن کی تشریف آوری ہے۔ یہ وہ ماہ سعید ہے جس میں رب کریم نے مومنین پر احسان فرمایا اور اپنے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دنیا میں بھیجا۔ لہٰذا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت کے طفیل ربیع الاول سال کے دیگر مہینوں کے مقابلے میں نمایاں فضیلت و امتیاز کا حامل بن گیا ہے۔ اسے اگر ماہِ میلادِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے موسوم کیا جائے تو زیادہ موزوں ہوگا۔
1۔ جشنِ نزولِ قرآن سے اِستدلال
قرآن مجید اﷲ تبارک و تعالیٰ کا پاکیزہ کلام اور اس کی صفت ہونے کے اعتبار سے شانِ یکتائی رکھتا ہے۔ اس کا نزول انسانیت کے لیے بہت بڑی نعمت ہے۔ اس کے ذریعے انسانیت کو ایسا نور عطا ہوا جس سے جہالت کی تاریکیاں چھٹ گئیں اور اِنسان شرف و تکریم کے اُجالوں میں اپنے اصل مقام کا نظارہ کرنے لگا۔ قرآن ہمیں برگزیدہ اور مکرّم ہستی کے ذریعے عطا ہوا۔ اللہ کی اس کتاب نور کو ایک نور لے کر آیا۔ ارشاد فرمایا :
قَدْ جَاءَكُم مِّنَ اللّهِ نُورٌ وَكِتَابٌ مُّبِينٌO
’’بے شک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور (یعنی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آگیا ہے اور ایک روشن کتاب (یعنی قرآن مجید)o‘‘
المائده، 5 : 15
جب قرآنی علم کے ذریعے انسان کو اﷲ تعالیٰ نے لامتناہی عظمتیں عطا کی ہیں تو اس ہستی کی عظمتوں کا عالم کیا ہوگا جس پر اس کتابِ زندہ کا نزول ہوا اور جس کی تجلیات و تعلیمات سے عالمِ انسانیت کو یہ عظیم ذخیرۂ علم و حکمت اور مصدرِ ہدایت عطا کیا گیا، جس کا قلبِ اطہر وحیء الٰہی کا مہبط بنا اور حسنِ صورت و سیرت قرآنِ ناطق قرار پایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علوِ مقام کا ادراک کون کر سکتا ہے؟ حقیقت تو یہ ہے کہ قرآنِ مجید حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اُسوۂ کامل اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فضائل و خصائل کے ذکرِ جمیل کا ہی مجموعہ ہے۔ یہ ایک ایسا آئینہ ہے جس میں جھانک کر انسان اپنے بگڑے ہوئے خدوخال کو سنوار سکتا ہے۔ بقول اِقبال رحمۃ اللہ علیہ :

زِ قرآن پیش خود آئینہ آویز
دگرگون گشتۂ از خویش بگریز
اِقبال، کلیات (فارسی)، اَرمغانِ حجاز : 816
(اے بندۂ خدا! قرآن کے آئینے میں اپنے کردار کو دیکھ، تیری حالت بگڑ چکی ہے۔ خود کو اپنی اس دگرگوں حالت سے نکال اور اس کردار کی طرف لوٹ جا جس کا نقشہ تجھے آئینۂ قرآن میں نظر آرہا ہے۔)
لہٰذا قرآنِ حکیم جیسی عظیم نعمت پر ہدیۂ تشکر بجالانا قرآن پر ایمان اور اس سے محبت کے اہم ترین تقاضوں میں سے ہے۔ لیکن نعمتِ قرآن پر شکر بجا لانا اس وقت تک ممکن ہے نہ وہ اﷲ جل مجدہ کی بارگاہ میں شرفِ قبولیت حاصل کر سکتا ہے جب تک اُس ذاتِ اَقدس کی ولادتِ باسعادت پر اللہ کا شکر ادا نہ کیا جائے جن کی وساطت سے اﷲ تعالیٰ نے اِنسانیت کو قرآن جیسی نعمت سے فیض یاب فرمایا۔ اِس لیے جب ہم نزولِ قرآن کی رات جشنِ نزولِ قرآن کے طور پر بڑے اہتمام سے مناتے اور اس میں قرآن حکیم کے فضائل و تعلیمات کا ذکر کرتے ہیں؛ تو جس ہستی کی بہ دولت یہ عظیم نعمت ہمیں میسر آئی اُس کی ولادت باسعادت کی رات بہ درجۂ اولیٰ زیادہ اِہتمام کے ساتھ منائی جائے گی۔
شبِ میلاد اور شبِ قدر کا تقابل
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اُسوۂ حسنہ، خلقِ عظیم اور اَوصافِ جمیلہ کاذکر کرنے والی کتاب قرآنِ مجید کے نزول کے سبب ماہِ رمضان المبارک کی صرف ایک رات کو ہزار مہینوں سے بھی افضل قرار دیا گیا۔ جس مبارک رات میں کلامِ الٰہی لوحِ محفوظ سے آسمانِ دنیا پر اتارا گیا اللہ تعالیٰ نے اس رات کو قیامت تک کے انسانوں کے لیے ’’لیلۃ القدر‘‘ کی صورت میں بلندئ درجات کا وسیلہ اور تمام راتوں کی پیشانی کا جھومر بنا دیا۔ تو جس رات صاحبِ قرآن یعنی مقصودِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ظہور ہوا اور بزمِ عالم کے اس تاجدار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زمین و مکاں کو ابدی رحمتوں اور لازوال سعادتوں سے منوّر فرمایا، اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس رات کی قدر و منزلت کیا ہوگی! اس کا اندازہ انسانی شعور کے لیے ناممکن ہے۔ لیلۃ القدر کی فضیلت اس لیے ہے کہ وہ نزولِ قرآن اور نزولِ ملائکہ کی رات ہے جب کہ نزولِ قرآن سیدنا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قلبِ اَطہر پر ہوا۔ اگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہ ہوتے تو قرآن نازل ہوتا نہ شبِ قدر ہوتی اور نہ یہ کائنات تخلیق کی جاتی۔ دَر حقیقت یہ ساری فضیلتیں میلادِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا صدقہ ہیں۔ پس اگر کہا جائے کہ شبِ میلادِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شبِ قدر سے بھی افضل ہے تو اس میں کوئی مبالغہ نہ ہوگا۔ باری تعالیٰ نے لیلۃ القدر کو ہزار مہینوں سے افضل قرار دے کر اس کی فضیلت کی حد مقرر فرما دی جب کہ شبِ میلادِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فضیلت حدِ اِدراک سے ماوراء ہے۔ یہ اَمر بھی ذہن نشین رہے کہ اگرچہ شبِ میلاد کی فضیلت زیادہ ہے تاہم شبِ قدر میں کثرت کے ساتھ عبادات بجا لانی چاہییں کیوں کہ اِس رات بجا لائی جانے والی عبادات پر زیادہ اَجر و ثواب کی نوید ہے اور یہ قرآن و حدیث سے ثابت ہے۔
ائمہ و محدثین نے راتوں کی فضیلت کو موضوعِ بحث بنایا ہے۔ مثلاً شبِ نصف شعبان، شبِ قدر، شبِ یوم الفطر، شبِ یوم العرفہ وغیرہ۔ ان میں شبِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر بھی آیا ہے۔ بہت سے اَئمہ و محدثین اور اہلِ علم و محبت نے شبِ میلاد کو شبِ قدر سے افضل قرار دیا ہے۔
امام قسطلانی (851۔ 923ھ)، شیخ عبد الحق محدث دہلوی (958۔ 1052ھ)، امام زرقانی (1055۔ 1122ھ) اور امام نبہانی (م1350ھ) نے بڑی صراحت کے ساتھ بیان کیا ہے کہ سب راتیں فضیلت والی ہیں مگر شبِ میلادِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سب سے افضل ہے۔
1۔ امام قسطلانی (851۔ 923ھ) اس حوالہ سے لکھتے ہیں :
إذا قلنا بأنه عليه الصلاة والسلام ولد ليلاً، فأيما أفضل : ليلة القدر أو ليلة مولده صلي الله عليه وآله وسلم ؟ أجيب : بأن ليلة مولده عليه الصلاة والسلام أفضل من ليلة القدر من وجوه ثلاثة :
أحدها : أن ليلة المولد ليلة ظهوره صلي الله عليه وآله وسلم ، وليلة القدر معطاة له، وما شرف بظهور ذات المشرف من أجله أشرف مما شرف بسبب ما أعطيه، ولا نزاع في ذلک، فکانت ليلة المولد. بهذا الاعتبار. أفضل.
الثاني : أن ليلة القدر شرفت بنزول الملائکة فيها، و ليلة المولد شرفت بظهوره صلي الله عليه وآله وسلم فيها. وممن شرفت به ليلة المولد أفضل ممن شرفت به ليلة القدر، علي الأصح المرتضي (أي عند جمهور أهل السنة) فتکون ليلة المولد أفضل.
الثالث : ليلة القدر وقع التفضل فيها علي أمة محمد صلي الله عليه وآله وسلم ، وليلة المولد الشريف وقع التفضل فيها علي سائر الموجودات، فهو الذي بعثه اﷲ تعالٰي رحمة للعالمين، فعمّت به النعمة علي جميع الخلائق، فکانت ليلة المولد أعم نفعاً، فکانت أفضل من ليلة القدر بهذا الاعتبار.

1. قسطلاني، المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، 1 : 145
2. عبد الحق، ما ثَبَت مِن السُّنّة في أيّام السَّنَة : 59، 60
3. زرقاني، شرح المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، 1 : 255، 256
4. نبهاني، جواهر البحار في فضائل النبي المختار صلي الله عليه وآله وسلم ، 3 : 424
’’جب ہم یہ کہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رات کے وقت پیدا ہوئے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ شبِ میلادِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم افضل ہے یا لیلۃ القدر؟ میں اس کے جواب میں کہتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی میلاد کی رات تین وجوہ کی بناء پر شبِ قدر سے اَفضل ہے :
(1) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ظہور شبِ میلاد میں ہوا جب کہ لیلۃ القدر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عطا کی گئی، لہٰذا وہ رات جس کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ظہور کا شرف ملا اُس رات سے زیاد شرف والی ہوگی جسے اِس رات میں تشریف لانے والی ہستی کے سبب سے شرف ملا، اور اِس میں کوئی نزاع نہیں۔ لہٰذا اِس اِعتبار سے شبِ میلاد شبِ قدر سے افضل ہوئی۔
(2) اگر لیلۃ القدر کی عظمت اِس بناء پر ہے کہ اِس میں فرشتوں کا نزول ہوتا ہے تو شبِ ولادت کو یہ شرف حاصل ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ کے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کائنات میں جلوہ فرما ہوئے۔ جمہور اہلِ سنت کے قول کے مطابق شبِ میلاد کو جس ہستی (یعنی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے شرف بخشا وہ شبِ قدر کو شرف بخشنے والی ہستیوں (یعنی فرشتوں) سے کہیں زیادہ بلند و برتر اور عظمت والی ہے۔ لہٰذا شبِ ولادت ہی افضل ہے۔
(3) شبِ قدر کے باعث اُمتِ محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فضیلت بخشی گئی اور شبِ میلاد کے ذریعے جمیع موجودات کو فضیلت سے نوازا گیا۔ پس حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے رحمۃً للعالمین بنا کر بھیجا، اور اِس طرح نعمتِ رحمت جمیع کائنات کے لیے عام کر دی گئی۔ لہٰذا شبِ ولادت نفع رسانی میں کہیں زیادہ ہے، اور اِس اعتبار سے بھی یہ لیلۃ القدر سے افضل ٹھہری۔‘‘
2۔ امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ (239۔ 321ھ) بعض شوافع سے نقل کرتے ہیں :
أن أفضل الليالي ليلة مولده صلي الله عليه وآله وسلم ، ثم ليلة القدر، ثم ليلة الإسراء والمعراج، ثم ليلة عرفة، ثم ليلة الجمعة، ثم ليلة النصف من شعبان، ثم ليلة العيد.
’’راتوں میں سے افضل ترین شبِ میلادِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے، پھر شبِ قدر، پھر شبِ اِسراء و معراج، پھر شبِ عرفہ، پھر شبِ جمعہ، پھر شعبان کی پندرہویں شب اور پھر شبِ عید ہے۔‘‘

1. ابن عابدين، رد المحتار علي در المختار علي تنوير الأبصار، 2 : 511
2. شرواني، حاشية علي تحفة المحتاج بشرح المنهاج، 2 : 405
3. نبهاني، جواهر البحار في فضائل النبي المختار صلي الله عليه وآله وسلم ، 3 : 426
3۔ امام نبہانی (م1350ھ) اپنی مشہور تصنیف ’’الانوار المحمدیۃ من المواہب اللدنیۃ (ص : 28)‘‘ میں لکھتے ہیں :
وليلة مولده صلي الله عليه وآله وسلم أفضل من ليلة القدر.

’’اور شبِ میلادِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شبِ قدر سے افضل ہے۔‘‘
4۔ مولانا محمد عبد الحئ فرنگی محلی لکھنوی (1264۔ 1304ھ) شبِ قدر اور شبِ میلاد میں سے زیادہ فضیلت کی حامل رات کے بارے میں پوچھے جانے والے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’تمام راتوں پر شبِ قدر کی بزرگی منصوص اور کئی طرح سے ثابت ہے :
1۔ اِس رات میں اَرواح اور ملائکہ کا نزول زمین پر ہوتا ہے۔
2۔ شام سے صبح تک تجلی باری تعالیٰ آسمانِ اَوّل پر ہوتی ہے۔
3۔ لوحِ محفوظ سے آسمانِ اَوّل پر نزولِ قرآن اِسی رات میں ہوا ہے۔
اور انہی بزرگیوں کی وجہ سے تسکین اور تسلیء اُمتِ محمدیہ کے لیے اس ایک رات کی عبادت ثواب میں ہزار مہینوں کی عبادت سے زائد ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے :
لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِّنْ أَلْفِ شَهْرٍO
’’شبِ قدر (فضیلت و برکت اور اَجر و ثواب میں) ہزار مہینوں سے بہتر ہےo‘‘
القدر، 97 : 3
اور حدیث میں بھی اِس رات کے جاگنے کی تاکید آئی ہے اور بعض محدثین نے جو شبِ میلاد کو شبِ قدر پر فضیلت دی ہے تو اُن کا یہ منشا نہیں کہ شبِ میلاد کی عبادت ثواب میں شبِ قدر کی عبادت کے برابر ہے کیوں کہ ثواب اور عقاب کی حالت یہ ہے کہ جب تک نصِ قطعی نہ پائی جائے کسی کام کو باعثِ ثواب نہیں قرار دے سکتے۔ مگر شبِ میلاد کو شبِ قدر پر اپنے اِفتخارِ ذاتی سے خدا کے سامنے فضیلت حاصل ہے۔‘‘
عبد الحی، مجموعه فتاویٰ، 1 : 86، 87
شبِ قدر کو فضیلت اس لیے ملی کہ اِس میں قرآن حکیم نازل ہوا اور اِس میں فرشتے اترتے ہیں؛ جب کہ ذاتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فضیلت کا یہ عالم ہے آپ پر قرآن نازل ہوا اور روزانہ ستر ہزار فرشتے صبح اور ستر ہزار فرشتے شام کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مزارِ اَقدس کی زیارت اور طواف کرتے ہیں اور بارگاہِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ہدیۂ درود و سلام پیش کرتے ہیں۔ یہ سلسلہ قیامت تک اسی طرح جاری رہے گا اور فرشتوں میں سے جو ایک بار روضۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر حاضری کا شرف پالیتا ہے دوبارہ قیامت تک اُس کی باری نہیں آئے گی۔ (1) فرشتے تو دربارِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خادم اور جاروب کش ہیں۔ وہ اُتریں تو شبِ قدر ہزار مہینوں سے افضل ہو جاتی ہے اور جس رات ساری کائنات کے سردار تشریف لائیں اس کی فضیلت کا اِحاطہ کرنا انسان کے علم و شعور کے لیے ناممکن ہے۔ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کی رات اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کے مہینہ پر کروڑوں اربوں مہینوں کی فضیلتیں قربان! خاص بات یہ ہے کہ شبِ قدر کی فضیلت فقط اہلِ ایمان کے لیے ہے۔ باقی انسانیت اس سے محروم رہتی ہے مگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد فقط اہلِ ایمان کے لیے ہی باعثِ فضل و رحمت نہیں بلکہ کل کائنات کے لیے ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادتِ مبارکہ ساری کائنات میں جملہ مخلوق کے لیے اللہ کا فضل اور اس کی رحمت ہے، اس پر خوشی کا اظہار کرنا باعثِ اَجر و ثواب ہے۔

1. ابن مبارک، الزهد : 558، رقم : 1600
2. دارمي، السنن، 1 : 57، رقم : 94
3. قرطبي، التذکرة في أمور أحوال الموتي وأمور الآخرة : 213، 214، (باب في بعث النبي صلي الله عليه وآله وسلم من قبره)
4. نجار، الرد علي من يقول القرآن مخلوق : 63، رقم : 89
5. ابن حبان، العظمة، 3 : 1018، 1019، رقم : 537
6. أزدي، فضل الصلاة علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم : 92، رقم : 101
7. بيهقي، شعب الإيمان، 3 : 492، 493، رقم : 4170
8. أبونعيم، حلية الأولياء و طبقات الأصفياء، 5 : 390
9. ابن جوزي، الوفا بأحوال المصطفيٰ صلي الله عليه وآله وسلم : 833، رقم : 1578
10. ابن قيم، جلاء الأفهام في الصلاة والسلام علي خير الأنام صلي الله عليه وآله وسلم : 68، رقم : 129
11. سمهودي، وفاء الوفاء بأخبار دار المصطفيٰ صلي الله عليه وآله وسلم ، 2 : 559
12. قسطلاني، المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، 4 : 625
13. سيوطي، کفاية الطالب اللبيب في خصائص الحبيب، 2 : 376
14. صالحي، سبل الهديٰ و الرشاد في سيرة خير العباد صلي الله عليه وآله وسلم ، 12 : 452، 453
15. زرقاني، شرح المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، 12 : 283، 284
2۔ جشنِ نزولِ خوانِ نعمت سے اِستدلال
پہلی اُمتوں کو بھی اﷲ رب العزت نے اپنی نعمتوں سے نوازا جس پر وہ اﷲ کے حضور شکر بجا لاتے اور حصولِ نعمت کا دن بطورِ عید مناتے تھے۔ جیسے خوانِ نعمت ملنے کا دن جشنِ عید کے طور پر منایا جاتا تھا۔ اِس مثال سے مقصود یہ باور کرانا ہے کہ سابقہ اُمتیں اپنی روایات کے مطابق مخصوص دن مناتی چلی آرہی ہیں اور قرآن نے ان کے اس عمل کا ذکر بھی کیا ہے۔
رَبَّنَا أَنزِلْ عَلَيْنَا مَآئِدَةً مِّنَ السَّمَاءِ تَكُونُ لَنَا عِيداً لِّأَوَّلِنَا وَآخِرِنَا وَآيَةً مِّنكَ.
المائدة، 5 : 114
’’اے اﷲ! اے ہمارے رب! ہم پر آسمان سے خوانِ (نعمت) نازل فرما دے کہ (اس کے اُترنے کا دن) ہمارے لیے عید ہوجائے ہمار ے اگلوں کے لیے (بھی) اور ہمارے پچھلوں کے لیے (بھی) اور (وہ خوان) تیری طرف سے نشانی ہو۔‘‘
لہٰذا جب سابقہ اُمتیں معمولی سی نعمت پر شکر بجا لاتی تھیں تو اُمت مسلمہ پر بہ درجۂ اَتم لازم آتا ہے کہ وہ اپنے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کی خوشی منا کر اس عظیم ترین نعمت کا شکر شرحِ صدر کے ساتھ بجا لائے، کیوں کہ ایسا کرنے کا حکم اللہ تعالیٰ نے خود دیا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے :
وَاذْكُرُواْ نِعْمَتَ اللّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا.
’’اور اپنے اوپر (کی گئی) اﷲ کی اس نعمت کو یاد کرو کہ جب تم (ایک دوسرے کے) دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت پیدا کر دی پس تم اس کی نعمت کے باعث آپس میں بھائی بھائی ہوگئے۔‘‘
آل عمران، 3 : 103
بلاشبہ یہ اﷲ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے کہ اس نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے بندوں کے ٹوٹے ہوئے دلوں کو جوڑ دیا۔ جو ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے ان کو ایک دوسرے کا غم خوار بنا دیا۔ ان کی نفرتوں اور عداوتوں کو محبتوں اور مروّتوں سے بدل دیا۔ حقیقتاً یہ نعمت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کے تصدق سے عالمِ انسانیت کو نصیب ہوئی، اس نعمت کا مبداء و مرجع بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اَقدس ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اس دنیا میں تشریف لانا اور لوگوں کا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لاکر حلقہ بگوش ہونا اور خون کے پیاسوں کا باہم شیر و شکر ہونا اس اَمر کا تقاضا کرتا ہے کہ ہم رحمتِ دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد کے موقع پر بارگاہِ خداوندی میں سراپا تشکر بن جائیں۔
3۔ جشنِ آزادی منانے سے اِستدلال
اﷲ تعالیٰ کی نعمتوں کو یاد کرکے ان پر شکر بجا لانا صرف اُمتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی پر واجب نہیں بلکہ سابقہ اُمتوں کو بھی یہی حکم تھا۔ بنی اسرائیل سے فرمایا گیا :
يَا بَنِي إِسْرَآئِيلَ اذْكُرُواْ نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَO
’’اے اولادِ یعقوب! میرے وہ اِنعام یاد کرو جو میں نے تم پر کیے اور یہ کہ میں نے تمہیں (اُس زمانے میں) سب لوگوں پر فضیلت دیo‘‘
البقرة، 2 : 47
اسی طرح دیگر آیات میں اﷲ تعالیٰ نے بنی اسرائیل پر اپنے اِحسانات گنوائے ہیں۔ ایک مقام پر فرمایا :
وَإِذْ نَجَّيْنَاكُمْ مِّنْ آلِ فِرْعَوْنَ يَسُومُونَكُمْ سُوْءَ الْعَذَابِ.
’’اور (اے آلِ یعقوب! اپنی قومی تاریخ کا وہ واقعہ بھی یاد کرو) جب ہم نے تمہیں فرعون کے لوگوں سے رہائی دی جو تمہیں انتہائی سخت عذاب دیتے تھے۔‘‘
البقرة، 2 : 49
قرآن حکیم کی محولہ بالا آیاتِ مبارکہ سے یہ نکتہ مستنبط ہوتا ہے کہ قومی آزادی بھی ایک نعمتِ غیر مترقبہ ہے اور بنی اسرائیل کو حکم دیا گیا کہ فرعون کی غلامی سے آزادی حاصل ہونے پر اﷲ تعالیٰ کا شکر بجا لاؤ۔ قومی آزادی بلا شبہ ایک نعمتِ خداوندی ہے اور اس کے حصول پر شکر بجا لانا حکمِ ایزدی کی تعمیل ہے۔ ہمارے وطن پاکستان کا برطانوی اِستعمار کے تسلط سے آزاد ہونا اور ایک نئی اسلامی ریاست کے طور پر معرضِ وجود میں آنا اﷲ تعالیٰ کی عظیم نعمت ہے۔ جب ہم ہر سال 14 اگست کو نعمتِ آزادی کے حصول پر خوشی مناتے ہیں تو یہ قرآن حکیم کے حکمِ تشکر کے حوالے سے بھی ہم پر لازم آتا ہے۔
اِسی طرح نصِ قرآنی سے یہ اَمر بھی واضح ہوگیا کہ قومی آزادی کے موقع پر ہر سال اس کی یاد منانا اور مختلف طریقوں سے شکر بجا لانا محض دنیوی اور سیاسی نہیں بلکہ دینی اور شرعی فعل ہے اور اِسے نہ ماننا حکمِ الٰہی سے انحراف کے مترادف ہے۔ ہر زمانے، ہر صدی اور ہر دور کا ایک عالمی کلچر ہوتا ہے۔ ہر ملک، ہر قوم اور ہر قبیلہ اپنے اپنے تاریخی حوالوں سے ایامِ تشکر یا ایامِ مسرت مناتا ہے۔ دنیا کا کوئی ملک یا خطہ ایسا نہیں جہاں کے رہنے والے لوگ مذہبی تہوار یا کوئی نہ کوئی قومی تہوار نہ مناتے ہوں۔ یہودی، عیسائی، بدھ، ہندو حتیٰ کہ ملحد قومیں بھی اپنے اپنے ثقافتی پس منظر اور روایات سے ہم آہنگی قائم رکھتے ہوئے خوشی کے دن مناتی ہیں۔ مسلمانوں کو اللہ رب العزت نے ایام اللہ عنایت فرمائے ہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ اقدس ہماری زندگی کے لیے ہدایت و شریعت اور تہذیب و ثقافت کا سرچشمہ ہے۔ آج کے عالمی کلچر کے پیشِ نظر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جشنِ میلاد اِسلامی ثقافت کے اِبلاغ کے لیے مرکزی حیثیت کا حامل ہے۔
تہذیبی تسلسل کا اَہم تقاضا
مذکورہ بالا آیات میں جہاں تک تذکیرِ نعمت کا حکم ہے تو یہ واضح ہے کہ قرآنِ حکیم کا اشارہ ایک خاص واقعہ کی طرف ہے۔ لیکن شکر بجا لانے کا تقاضایہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی نعمت ہر وقت یاد رہے اور اسے کسی لمحے بھی دل و دماغ سے محو نہ ہونے دیا جائے تاکہ ہر گھڑی بندے کا دل اﷲ کے شکر کی کیفیت سے معمور رہے۔ مگر یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ سال بھر یاد رکھنے کے باوجود جب گردشِ ایام کے نتیجے میں وہی دن اور وہی وقت پلٹ کر آتا ہے تو وہ خوشی خود بخود غیر شعوری طور پر کئی گنا زیادہ ہو جاتی ہے کیوں کہ یہ انسان کا طبعی و فطری تقاضا اور ثقافتی لازمہ ہے کہ عین اُس وقت بطورِ خاص اُس نعمت کو یاد کیا جائے اور خوشی و مسرت میں اس کا ذکر کثرت و تواتر کے ساتھ کیا جائے۔ نعمت کے شکرانے کے طور پر باقاعدگی اور اِہتمام سے خوشی و مسرت کا اظہار کرنا اس لیے لازم ہے کہ آئندہ نسلوں کو وہ نعمت یاد رہے اور اس دن کی اہمیت ان پر واضح ہو سکے۔ تاریخ کے اوراق میں ایک زندہ و پائندہ قوم کی طرح اپنے آپ کو محفوظ رکھنا تہذیب و ثقافت کے تسلسل ہی سے ممکن ہوتا ہے۔
اگر ہم اللہ تعالیٰ کے اِحسانات پر شکر ادا نہیں کر سکتے اور اپنی تاریخ کے اہم واقعات کو اچھی روایات کے ساتھ آئندہ نسلوں تک منتقل نہیں کر سکتے تو بعید نہیں کہ آنے والی نسلیں اﷲ کے ان احسانات سے بے خبر ہو جائیں اور ان کی نظروں سے اس دن حاصل ہونے والی نعمت کی قدر و منزلت بھی محو ہو جائے۔ لہٰذا حکمِ اِلٰہی کا تقاضا یہ ہے کہ سال بھر تواﷲ تعالیٰ کا عام شکر بجا لایا جاتا رہے لیکن جب وہ دن آئے۔ جس دن اﷲ تعالیٰ نے آزادی کی نعمت اَرزانی فرمائی۔ تو خصوصی طور پر خوشیوں کا اِظہار کیا جائے تاکہ وہ دن جشن کی حیثیت اختیار کر جائے اور آئندہ نسلوں پر اس دن کی حقیقت کھل کر واضح ہو جائے۔ پس اگر آزادی کی نعمت پر شکر منانا قرآن سے ثابت ہے تو اُس ذاتِ اَقدس کی آمد کی خوشی منانا کیوں جائز و مستحسن نہ ہوگا جو وجہ تخلیقِ کائنات ہیں اور جن کے توسل اور تصدّق سے تمام نعمتیں عطا کی گئیں۔
4۔ نعمتوں پر خوشی منانا سنتِ انبیاء علیہم السلام ہے
حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے جب اﷲ رب العزت کی بارگاہ میں اپنی اُمت کے لیے مائدہ کی نعمت طلب کی تو یوں عرض کیا :
رَبَّنَا أَنزِلْ عَلَيْنَا مَآئِدَةً مِّنَ السَّمَاءِ تَكُونُ لَنَا عِيداً لِّأَوَّلِنَا وَآخِرِنَا وَآيَةً مِّنكَ.
’’اے اﷲ! اے ہمارے رب! ہم پر آسمان سے خوانِ (نعمت) نازل فرما دے کہ (اس کے اترنے کا دن) ہمارے لیے عید ہوجائے ہمار ے اگلوں کے لیے (بھی) اور ہمارے پچھلوں کے لیے (بھی) اور (وہ خوان) تیری طرف سے نشانی ہو۔‘‘
المائده، 5 : 114
قرآن مجید نے اس آیت میں نبی کی زبان سے یہ تصور دیا ہے کہ جس دن اﷲ تعالیٰ کی نعمت اُترے اس دن کو بطور عید منانا اس نعمت کے شکرانے کی مستحسن صورت ہے۔ ’’اَوَّلِنَا‘‘ اور ’’اٰخِرِنَا‘‘ کے کلمات اس امر پر دلالت کر رہے ہیں کہ نزولِ نعمت کے بعد جو امت آئے اس کے دورِ اوائل میں بھی لوگ ہوں گے اور دور اواخر میں بھی، سو جو پہلے دور میں ہوئے انہوں نے عید منائی اور جو رہتی دنیا تک آخر میں آئیں گے وہ بھی یہی وطیرہ اپنائے رکھیں۔
قابلِ غور نکتہ
آیت میں مذکور اَلفاظ۔ ’’اَوَّلِنَا‘‘ اور ’’اٰخِرِنَا‘‘۔ میں کلمہ ’’نَا‘‘ اِس اَمر کی طرف اشارہ کر رہا ہے کہ نعمت کی خوشیاں وہی منائے گا جو اس نعمت کے شکر میں ہمارے ساتھ شریک ہوگا، اور جو اس خوشی میں ہمارے ساتھ شریک نہیں اس کا عید منانا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ یہاں قرآن نے لوگوں کے دلوں کے اَحوال پرکھنے کے لیے ایک معیار دے دیا ہے۔ وہ تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی امت تھی اور یہ آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت ہے اور اس پر مستزاد یہ کہ وہ مائدہ کی عارضی نعمت تھی اور یہاں ولادتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دائمی نعمت ہے لیکن یہاں ہمارے لیے بھی وہی معیار ہے کہ جب ماہِ ربیع الاول میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادتِ مبارکہ کا دن آئے اور عید میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سعید ساعتیں ہم پر طلوع ہوں تو دیکھنا ہے کہ ہم میں سے کون اپنے دلوں کو خوشیوں اور مسرتوں کا گہوارہ بنا لیتا ہے اور اپنے آپ کو ’’اَوَّلِنَا وَ اٰخِرِنَا‘‘ میں شامل کر لیتا ہے۔ اگر اس کے برعکس میلادِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کسی کادل خوشی سے لبریز نہ ہو بلکہ دل میں ہچکچاہٹ، شکوک و شبہات اور کینے کی سی کیفیت پیدا ہو تو اسے چاہئے کہ اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں توبہ کرے۔ کیوں کہ یہ انتہائی خطرناک بیماری ہے اور اس سے اجتناب دولتِ ایمان کی حفاظت کے لیے ضروری ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام لیوا اور اُمتی ہو کر بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت پر خوشیاں نہ منائے۔
میلاد مبارک پر دلائل طلب کرنا اور اس کے عدمِ جواز پر بحث و مناظرہ کرنا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کے تقاضوں کے منافی ہے، محبت کبھی دلیل کی محتاج نہیں ہوتی۔ لہٰذا جب سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت کا مبارک مہینہ آئے تو ایک مومن کی قلبی کیفیت یہ ہونی چاہیے کہ خوشیاں منانے کے لیے اُس کا دل بے قرار اور طبیعت بے چین ہو جائے، اسے یوں لگے کہ اس کے لیے کائنات کی ساری خوشیاں ہیچ ہیں اور میلادِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشی ہی حقیقی خوشی ہے۔ وہ محسوس کرے کہ اس دن کائنات کی ساری خوشیاں سمٹ کر اس کے دامن میں آگری ہیں۔ اس سے بڑھ کر اس کے لیے مسرت و شادمانی کا اور کون سا موقع ہوگا، وہ تو اس خوشی سے بڑھ کر کائنات میں کسی خوشی کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔
5۔ میلادِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشیاں منانے کا حکمِ خداوندی
اﷲ تعالیٰ کے فضل اور اُس کی نعمتوں کا شکر بجا لانے کا ایک مقبولِ عام طریقہ خوشی و مسرت کا اِعلانیہ اظہار ہے۔ میلادِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بڑی نعمت اور کیا ہو سکتی ہے! یہ وہ نعمتِ عظمیٰ ہے جس کے لیے خود ربِ کریم نے خوشیاں منانے کا حکم فرمایا ہے :
قُلْ بِفَضْلِ اللّهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَلِكَ فَلْيَفْرَحُواْ هُوَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُونَO
’’فرما دیجئے : (یہ سب کچھ) اللہ کے فضل اور اُس کی رحمت کے باعث ہے (جو بعثتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے تم پر ہوا ہے) پس مسلمانوں کو چاہئے کہ اس پر خوشیاں منائیں، یہ (خوشی منانا) اس سے کہیں بہتر ہے جسے وہ جمع کرتے ہیںo‘‘
يونس، 10 : 58
اس آیہ کریمہ میں اللہ تعالیٰ کا رُوئے خطاب اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہے کہ اپنے صحابہ اور ان کے ذریعے پوری اُمت کو بتا دیجئے کہ ان پر اللہ کی جو رحمت نازل ہوئی ہے وہ ان سے اس امر کی متقاضی ہے کہ اس پر جس قدر ممکن ہو سکے خوشی اور مسرت کا اظہار کریں، اور جس دن حبیبِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت مبارکہ کی صورت میں عظیم ترین نعمت اُنہیں عطا کی گئی اسے شایانِ شان طریقے سے منائیں۔ اس آیت میں حصولِ نعمت کی یہ خوشی امت کی اجتماعی خوشی ہے جسے اجتماعی طور پر جشن کی صورت میں ہی منایا جاسکتا ہے۔ چوں کہ حکم ہوگیا ہے کہ خوشی مناؤ، اور اجتماعی طور پر خوشی عید کے طور پر منائی جاتی ہے یا جشن کے طور پر۔ لہٰذا آیہ کریمہ کا مفہوم واضح ہے کہ مسلمان یومِ ولادتِ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ’’عیدِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ‘‘ کے طور پر منائیں۔ اس ضمن میں چند قابلِ ذکر نکات درج ذیل ہیں :
(1) لفظ قُلْ میں مضمر قرآنی فلسفہ
قرآن حکیم میں اﷲ تعالیٰ نے کہیں براہ راست لوگوں کو مخاطب کیا جیسے ’’يَا أَيُّهَا النَّاسُ‘‘ اور ’’يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ‘‘ وغیرہ، اور کہیں بعض حقائق اور اَحکامات صادر کرتے ہوئے لفظ ’’قُلْ‘‘ استعمال کیا، جس سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات گرامی کے واسطہ جلیلہ سے اعلان کرانا مقصود تھا۔ قُلْ اَمر کا صیغہ ہے جس کا معنی ہے : ’’کہہ دے۔‘‘ اُصول یہ ہے کہ قرآن مجید میں جہاں بھی کلمہ ’’قُلْ‘‘ سے کسی اَمر کی نشاندہی کی گئی ہے وہ دین کے بنیادی اور اَہم ترین حقائق سے متعلق ہے، مثلاً جب اﷲ تعالیٰ نے اپنی ربوبیت اور وحدانیت کا اِعلان اور توحید کا صحیح تصور واضح فرمانا چاہا تو فرمایا :
قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌO
’’(اے نبیء مکرّم!) آپ فرما دیجئے : وہ اﷲ ہے جو یکتا ہےo‘‘
الاخلاص، 112 : 1
اِسی طرح اﷲ تعالیٰ نے جب مقصودِ بندگی یعنی محبتِ الٰہی کے حصول کا طریقہ کار بیان کرتے ہوئے اپنے حبیبِ مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع کا حکم دیا تو یہاں بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان اقدس سے کہلوایا :
قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللّهُ.
’’(اے حبیب!) آپ فرما دیں : اگر تم اﷲ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو تب اﷲ تمہیں محبوب بنا لے گا۔‘‘
آل عمران، 3 : 31
پھر کامل اظہارِ عبودیت و بندگی کا مرجع، موت و حیات، عبادات اور ہر قسم کی قربانی کا فلسفہ بیان فرماتے ہوئے واضح کیا کہ یہ سب کچھ اﷲ ہی کے لیے ہے۔ فرمایا :
قُلْ إِنَّ صَلاَتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَO
’’فرما دیجئے کہ بے شک میری نماز اور میرا حج اور قربانی (سمیت سب بندگی) اور میری زندگی اور میری موت اﷲ کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہےo‘‘
الأنعام، 6 : 162
قرآن حکیم کے اس طرزِ بیان کے فلسفہ و حکمت کی درج ذیل توجیہات ہماری توجہ اور غور و فکر کی متقاضی ہیں :
(ا) اِیمان باﷲ سے پہلے اِیمان بالرسالت کی ناگزیریت
اس میں تو کوئی شک نہیں کہ قرآن کلام الٰہی ہے جس کا ہر ہر لفظ زبان نبوت سے ادا ہوا لیکن اس کے باوجود توحید خداوندی، محبت الٰہی کے حصول کا ذریعہ اور دیگر متعدد عقائد و اعمال پر مبنی احکام کا اعلان لفظ ’’قُل‘‘ کے ذریعے کرایا گیا کہ ’’اے محبوب! آپ اپنی زبان سے فرمائیں‘‘ تاکہ لوگ آپ سے سن کر میرے خالق و مالک اور واحد و یکتا ہونے پر ایمان لے آئیں۔ میری ہستی اور اُلوہیت و وحدانیت کا صحیح ادراک صرف آپ کے ذریعے سے ہی ممکن ہے۔ تو پھر مناسب یہی ہے کہ میری وحدانیت کا اعلان بھی آپ ہی کریں تاکہ لوگ آپ کی زبانِ اَقدس سے سن کر میری توحید پر ایمان لائیں اور اس ایمان سے پہلے وہ آپ کی رسالت پر ایمان لائیں۔ پس اگر کوئی شخص حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت و رسالت پر ایمان لائے بغیر اﷲ کو ماننا چاہے تو وہ کچھ بھی ہوسکتا ہے لیکن مسلمان و مومن نہیں ہوسکتا۔ دائرۂ اِسلام میں داخل ہونے کے لیے ایمان بالرسالت کے واسطہ سے ایمان باﷲ ضروری ہے۔ ایسا دعوٰیء ایمان کہ جس میں فقط اُلوہیت ہی کا اقرار ہو اور نبوت و رسالت کا اِنکار تو یہ بذاتِ خود کفر ہے۔ لہٰذا لفظ ’’قُلْ‘‘ میں یہ فلسفہ کار فرما ہے کہ لوگ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو معرفتِ خداوندی کا واحد ذریعہ گردانتے ہوئے عرفانِ توحید کے لیے دہلیز نبوت پر اِطاعت و محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اپنی پیشانی خم کر دیں، کیوں کہ کسی اور واسطہ یا ذریعہ سے ذاتِ حق تک رسائی کا تصور بھی ناممکن ہے۔

بمصطفیٰ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اُوست
اگر بہ اُو نرسیدی، تمام بولہبی است
اِقبال، کلیات (اُردو)، اَرمغانِ حجاز : 691
(دین سارے کا سارا درِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر رسائی کا نام ہے۔ اگر اس دَر تک ہم نہ پہنچ سکے تو ایمان رُخصت ہو جاتا ہے اور بولہبی باقی رہ جاتی ہے۔)
اِس موضوع پر مزید تفصیلات کے لیے راقم کی کتاب ’’کتاب التوحید‘‘ ملاحظہ فرمائیں۔
(ب) لفظ ’’قُلْ‘‘ سے حکم کی اَہمیت اور فضیلت بڑھ جاتی ہے
کلامِ اِلٰہی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے انسانیت تک پہنچا ہے۔ اِس میں بعض مقامات ایسے ہیں جہاں کسی حکم کی اَہمیت اور فضیلت کے پیشِ نظر لوگوں کو اس کی طرف بہ طور خاص راغب اور متوجہ کرنا ضروری تھا۔ اِس کے لیے لفظ ’’قُلْ‘‘ کا استعمال کیا گیا۔ علاوہ ازیں قرآن کے وہ مقامات جہاں قُلْ کہہ کر بات شروع کی گئی ہے، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شانِ توسل کی ناگزیریت پر دال ہیں۔ اس نکتے سے یقیناً آیات قرآنی میں لفظ ’’قُلْ‘‘ کے استعمال میں کار فرما حکمتیں بھی سمجھی جا سکتی ہیں۔ مثلاً محولہ بالا آیت۔ (قُلْ بِفَضْلِ اللّهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَلِكَ فَلْيَفْرَحُواْ)۔ پر غور کریں تو اس میں بے شمار حکمتیں پنہاں نظر آتی ہیں۔ اس آیت مبارکہ میں اﷲ تعالیٰ لفظ ’’قُلْ‘‘ کے بغیر حکم فرما سکتا تھا کہ ’’لوگو! اﷲ کے فضل اور اس کی رحمت کے حصول پر خوشیاں مناؤ۔‘‘ لیکن ایسا نہیں فرمایا بلکہ اسلوب بیان یہ ہے : ’’محبوب! یہ بات آپ اپنی زبان سے ان لوگوں سے فرما دیں۔‘‘
یہاں سوال اٹھتا ہے کہ نعمت عطا کرنے والا تو اللہ رب العزت خود ہے اور خوشی منانے والے اس کے بندے ہیں۔ وہ اپنے بندوں کو یہ حکم خود بھی دے سکتا تھا، مگر اس نے ایساکیوں نہ فرمایا کہ ’’میرے بندو! میری اس نعمت پر خوشی مناؤ۔‘‘ جیسا کہ اس نے سابقہ امتوں سے براہ راست مخاطب ہو کر نعمت کو یاد کرنے کا حکم فرمایا تھا۔ یہاں خوشی منانے کا حکم حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان اقدس سے کیوں دلوایا جا رہا ہے؟ اس سوال کا جواب یہ آیت خود دے رہی ہے کہ اے محبوب! آپ کی ذات ستودہ صفات ہی کائنات کی تمام نعمتوں کا سبب ہے اور چونکہ اس نعمت کا باعث ہی آپ ہیں اس لیے آپ ہی بتا دیں کہ لوگو! یہ نعمت جو میرے وجود، میری بعثت اور میری نبوت و رسالت کی صورت میں اﷲ نے تمہیں عطا فرمائی ہے، اس پر جتنی بھی خوشی مناؤ کم ہے۔
(2) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کا فضل اور اُس کی رحمت ہیں
سورۃ یونس کی آیت نمبر 58 میں دو چیزوں یعنی اللہ کے فضل اور رحمت پر خوشی منانے کا حکم دیا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہاں فضل اور رحمت کا الگ الگ ذکر کیوں کیا گیا اور ان سے کیا مراد ہے؟
قرآن حکیم کے اسالیبِ بیان میں سے ایک اسلوب یہ بھی ہے کہ جب فضل اور رحمت کا ذکر ہو رہا ہو تو اس سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات گرامی مراد ہوتی ہے۔ اس کی مزید شہادت تو بعد میں بیان کی جائے گی، پہلے ہم یہ دیکھیں گے کہ اس آیتِ کریمہ میں فضل اور رحمت سے کیا مراد ہے؟
ایک لطیف علمی نکتہ
زیرنظر آیہ کریمہ میں دو چیزیں مذکور ہیں :

1۔ اﷲ کا فضل
2۔ اﷲ کی رحمت
ان دونوں کے درمیان واؤ عاطفہ ہے۔ عام اصول کے مطابق چاہیے تو یہ تھا کہ جس طرح فضل اور رحمت کا ذکر جدا جدا ہوا، اُن دونوں کے لیے بیان کردہ حرفِ اشارہ۔ ذٰلِکَ (وہ) ۔ بھی اُسی طرح تثنیہ کا ہوتا۔ لیکن یہاں یہ قاعدہ ملحوظ نہیں رکھا گیا (یعنی یوں نہیں کہا گیا : ’’ان کی خاطر خوشیاں مناؤ، ‘‘ بلکہ فرمایا : ’’اس کی خاطر‘‘)۔ گرامر کی رُو سے یوں کہا جاتا ہے : ’’زید اور بکر کمرے میں آئے۔‘‘ نہ کہ اس طرح : ’’زید اور بکر کمرے میں آیا۔‘‘ آنے والے جب دو ہیں تو صیغہ بھی دو کا استعمال ہونا چاہیے۔ اسی طرح عربی زبان میں ذٰلک اِشارۂ واحد کے لیے استعمال ہوتا ہے اور اس کے مقابلے میں جب تثنیہ یا جمع کا ذکر آئے تو اس کے لیے اشارہ بھی بالترتیب ذٰنک یا اُولٰئِک بولا جاتا ہے۔ اس اصول کو ذہن میں رکھ کر اگر مذکورہ آیت پر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ فضل اور رحمت کے ذکر کے بعد واحد اشارہ ذٰلِکَ لایا گیا ہے۔ اس کی کیا حکمت ہے؟ کیا قرآن نے اپنے بیان میں قواعد کو بدل دیا ہے؟ نہیں، ایسا ہرگز نہیں ہوا۔ تو ماننا پڑے گا کہ صیغۂ واحد اِس لیے استعمال کیا گیا ہے کہ اس مقام پر فضل اور رحمت سے مراد بھی کوئی ایک ہی وجود ہے۔ اس اُسلوبِ بیان سے اس بات کی وضاحت مقصود تھی کہ لوگ کہیں اﷲ کے فضل اور رحمت کو کسی اور سمت تلاش کرنے نہ لگ جائیں بلکہ اچھی طرح یہ نکتہ سمجھ لیں کہ اﷲ نے اپنا فضل اور رحمت درحقیقت ایک ہی ذات میں جمع کر دیئے ہیں۔ لہٰذا اس ایک ہی مبارک ہستی کے سبب سے شکر ادا کیا جائے اور خوشیاں منائی جائیں۔
تفسیرالقرآن بالقرآن
اگر ہم مذکورہ آیت کی تفسیر بالقرآن کرتے ہوئے بعض دیگر مقاماتِ قرآنی پر نظر ڈالیں تویہ حقیقت اَظہر من الشمس ہو جاتی ہے کہ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کی ذاتِ گرامی اللہ کا فضل اور اس کی رحمت ہے۔ لفظ رحمت کی تفسیرسورۃ الانبیاء کی اُس آیت سے ہوتی ہے جس میں حضور ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک صفاتی لقب رحمۃ للعالمین بیان ہواہے۔ اﷲ تعالیٰ نے واضح الفاظ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو رحمت قرار دیتے ہوئے فرمایا :
وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَO
’’اور (اے رسولِ محتشم!) ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کرo‘‘
الأنبياء، 21 : 107

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تمام کائنات کے لیے سراپا رحمت بنایا گیا ہے جس میں صرف عالمِ اَرضی ہی نہیں بلکہ دیگر سارے عوالم بھی شامل ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دائرہ رحمت تمام انسانیت کو محیط ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات گرامی کا مجسم رحمت بنایا جانا جملہ بنی نوع انسان کی رُشد و ہدایت کے لیے ہے اور اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو معبوث فرمایا گیا۔ اس سے یہ ظاہر ہوا کہ اللہ کا فضل اور اس کی رحمت رسولِ مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صورت میں متشکل ہو کر منصہ عالم پر جلوہ گر ہوئی۔
قرآن حکیم نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ کا فضل اور اس کی رحمت قرار دیتے ہوئے ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا :
2. فَلَوْلاَ فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ لَكُـنْـتُم مِّنَ الْخَاسِرِينَO
’’پس اگر تم پر اﷲ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو تم یقیناً تباہ ہو جاتےo‘‘
البقره، 2 : 64

درج ذیل آیہ کریمہ بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اللہ کا فضل اور رحمت ہونے کا واضح ثبوت فراہم کرتی ہے :
3. وَلَوْلاَ فَضْلُ اللّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ لاَتَّبَعْتُمُ الشَّيْطَانَ إِلاَّ قَلِيلاًO
’’اور (اے مسلمانو!) اگر تم پر اﷲ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو یقیناً چند ایک کے سوا (سب) شیطان کی پیروی کرنے لگتےo‘‘
النساء، 4 : 83

اس مقام پر اللہ رب العزت کا رُوئے خطاب عام مومنین اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی طرف ہے۔ اس نے اپنے حبیبِ مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد اور بعثت کو اپنا فضل قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ اگر تمہارے پاس میرے حبیب تشریف نہ لاتے تو تم میں سے اکثر لوگ شیطان کے پیروکار ہو چکے ہوتے اور کفر و شرک اور گمراہی و تباہی تمہارا مقدر بن چکی ہوتی۔ پس میرے محبوب پیغمبر کا تمہاری طرف مبعوث ہونا تم پر اللہ کا فضل بن گیا کہ اس کی آمد کے صدقے تمہیں ہدایت نصیب ہوئی اور تم شیطان کی پیروی اور گمراہی سے بچ گئے۔
یہ محض اﷲ کا کرم ہے کہ اس نے راہِ ہدایت سے بھٹکی ہوئی انسانیت میں اپنا حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مبعوث فرمایا اور بنی نوع انسان شیطانی حملوں سے بچ گئی۔ اس رسول معظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دنیا میں تشریف آوری کے بعد سرانجام دیے جانے والے اُمور کی تصریح بھی خود قرآن فرما رہا ہے :
4. لَقَدْ مَنَّ اللّهُ عَلَى الْمُؤمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولاً مِّنْ أَنفُسِهِمْ يَتْلُواْ عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُواْ مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍO
’’بے شک اللہ نے مسلمانوں پر بڑا احسان فرمایا کہ اُن میں اُنہی میں سے (عظمت والا) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھیجا جو اُن پر اس کی آیتیں پڑھتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے اگرچہ وہ لوگ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھےo‘‘
آل عمران، 3 : 164

بعثتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قبل پورا عالم انسانی گمراہی و ضلالت میں مبتلا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے میں اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مبعوث فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کو تلاوتِ آیات اور کتاب وحکمت کی تعلیم کے ذریعے جہالت و گمراہی کے اندھیروں سے باہر نکالا، ان کے دلوں کو ایمان کے نور سے منور کیا اور ان کی جانوں اور روحوں کو نبوی تعلیم و تربیت کی بدولت تمام دنیوی آلائشوں سے پاک اور صاف کیا۔ یہ عالم انسانیت پر اللہ تعالیٰ کا اتنا بڑا فضل اور رحمت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خود اسے اپنے اِحسانِ عظیم کے طور پر ذکر کیاہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت اللہ تعالیٰ کا اتنا بڑا انعام ہے کہ ’’فَلْيَفْرَحُواْ‘‘ کے اس مصداق پر اہلِ اِسلام جتنی بھی خوشی منائیں کم ہے۔ یہ خوشی صرف محسوس ہی نہیں ہونی چاہیے بلکہ اس کا کھلا اظہار ہونا بھی ضروری ہے۔
دوسرے مقام پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مذکورہ بالا صفات کو ان الفاظ میں بیان فرمایا :
5. هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُواْ عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍO
’’وہی ہے جس نے ان پڑھ لوگوں میں انہی میں سے ایک (با عظمت) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھیجا وہ اُن پر اُس کی آیتیں پڑھ کر سناتے ہیں۔ اور اُن (کے ظاہر و باطن) کو پاک کرتے ہیں اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتے ہیں بے شک وہ لوگ ان (کے تشریف لانے) سے پہلے کھلی گمراہی میں تھےo‘‘
الجمعة، 62 : 2

یہ آیۂ کریمہ بتلا رہی ہے کہ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی وہ رسول ہیں جنہوں نے آ کر ان کفر و ضلالت میں ڈوبے ہوئے لوگوں کو اﷲ تعالیٰ کی آیات سنائیں اور اپنے اعجاز نظر سے ان کے باطن کے میل کچیل کو دور کیا اور ان کے من کی دنیا کو صاف ستھرا فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہی انہیں کتاب کی تعلیم دی اور حکمت کا نور عطا فرمایا جس کی بدولت لوگ معرفت و ہدایتِ الٰہی جیسی نعمتوں سے مستفیض ہوئے، ورنہ قبل ازیں تو یہ دنیائے انسانیت کھلی گمراہی کا شکار تھی۔ آمدِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی ہدایتِ الٰہی کے نور کے اظہار کا پیش خیمہ بنی اور یہی اللہ کا فضل اور رحمت ہے جس کے حصول پر اہلِ ایمان پر یہ لازم ہے کہ وہ ہدیہ تشکر بجا لائیں اور اس کا اظہار جشنِ مسرت منا کر کریں۔
اس سے اگلی آیات میں اﷲ تبارک و تعالیٰ نے قیامت تک آنے والی نسلِ انسانی کو بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فیضِ رسالت میں شامل کر لیا، اور بعثتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنا فضل قرار دیتے ہوئے فرمایا :
6. وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُO ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَن يَشَاءُ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِO
’’اور ان میں سے دوسرے لوگوں میں بھی (اِس رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تزکیہ و تعلیم کے لیے بھیجا ہے) جو ابھی اُن لوگوں سے نہیں ملے (جو اِس وقت موجود ہیں یعنی اِن کے بعد کے زمانہ میں آئیں گے)، اور وہ بڑا غالب بڑی حکمت والا ہےo یہ (یعنی اس رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد اور اِن کا فیض و ہدایت) اللہ کا فضل ہے وہ جسے چاہتا ہے اس سے نوازتا ہے، اور اللہ بڑے فضل والا ہےo‘‘
الجمعه، 62 : 3، 4

سورۃ الجمعۃ کی مذکورہ بالا آیات میں اﷲ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پہلے رسول کہا اور بعد ازاں اس نعمتِ رسالت کو اپنے فضل سے تعبیر فرمایا۔ اِن آیات سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہر دور میں آنے والی مخلوق کے لیے اپنا پیغمبر اور رسول بنا کر بھیجا اور اس میں کسی نسل، مقام اور زمانے کا استثنا نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت سے براہِ راست فیض یاب ہونے والے لوگ الاولین کے زمرے میں آتے ہیں اور یہ وہ لوگ ہیں جن کے درمیان آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت ہوئی۔ سورۃ الجمعۃ کی تیسری آیت میں وَاٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ کا ذکر ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات ظاہری کے بعد ہوں گے۔ ان میں دوسری تمام قوموں اور معاشروں کے لوگ بھی شامل ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین میں داخل اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت میں شامل ہوتے رہیں گے۔ یہی وہ لوگ ہیں جو لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ کے زمرے میں آتے ہیں، جنہوں نے نہ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا اور نہ کبھی شرفِ ملاقات سے بہرہ ور ہوئے، وہ زمانی اعتبار سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مختلف اَدوار میں ہوں گے اور ان کا شمار متاخرین میں ہوگا۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت و بعثت کا ذکر کرنے کے بعد سورۃ الجمعۃ کی آیت نمبر 3 میں ذٰلِکَ فَضْلُ اﷲِ فرمایا۔ اِس سے مراد ذاتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے : میرے حبیب کی ولادت و بعثت اور بعد ازاں اس کی معرفت میرا فضل ہے، جس پر چاہوں کروں۔ تو جو کوئی میرے حبیب کی محبت سے سرشار ہے، اور جو تعظیم مصطفیٰ کرتا ہے اس پر میرا فضل ہوتا ہے۔ جس طرح میں نے دورِ نبوی کے لوگوں کو اپنی رحمت اور فضل سے نوازا اسی طرح تم پر بھی اپنے فضل و رحمت کی دولت نچھاور کرتا ہوں۔
سورۃ یونس کی آیت نمبر 58 کی مزید تشریح و توضیح سے پہلے ضروری ہے کہ سورۃ الجمعۃ کی آیت نمبر 4 کے مفاہیم خوب سمجھ لیں۔ ذیل میں ہم اِسی آیت کی تفسیر و تعبیر بیان کریں گے :
(ا) وَاللّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيم کا معنی
اِس کا لفظی معنی ہے : ’’اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ جو تمام کائنات کا خالق ہے، تمام بزرگیوں اور عظمتوں کا مالک ہے، وہ اپنے فضل میں بھی عظیم ہے۔ تمام فضل پر اسی کا تصرف اور اسی کی حکمرانی ہے۔ یہ انتہائی معنی خیز بات ہے جسے سمجھنا ضروری ہے کہ وہ تمام فضل کا مالک کیسے ہے، وہ خود فضل کیوں نہیں ہے؟ اس کی مثال اس طرح ہے کہ کسی مکان کے حوالے سے پوچھا جائے کہ یہ مکان کس کا ہے تو کہنے والا کہے گا کہ یہ مکان فلاں صاحب کا ہے۔ اسی طرح جب کوئی کسی پر احسان کرتا ہے تو کہتا ہے کہ میرا تم پر احسان ہے یعنی میں صاحبِ اِحسان ہوں۔ جب کہ زیادہ احسان کرنے والے کے لیے ذوالاحسان کا لفظ بولا جائے گا۔ اگر آپ عربی لغت کے قواعد دیکھیں تو واضح ہوگا کہ اس میں مضاف اور مضاف الیہ ہوتا ہے۔ یہ دونوں الگ الگ ہوتے ہیں لیکن ایک ساتھ آتے ہیں۔ ایک شخص مضاف ہوتا ہے اور دوسرا مضاف اِلیہ ہوتا ہے، جیسے صاحب الکتاب، ذوالکتاب اور ذوالفضل میں مضاف اور مضاف الیہ علیحدہ علیحدہ ہیں۔ ایسا کبھی نہیں ہوسکتا کہ دونوں ایک ہی شخص ہوں۔ اس کی ایک مثال ’’رَسُوْلُ اﷲِ‘‘ ہے جس میں ’’رسول‘‘ مضاف ہے اور لفظ ’’اللہ‘‘ مضاف الیہ ہے۔ پس اس قاعدہ کی رُو سے رسول، اللہ نہیں ہو سکتا اور اللہ، رسول نہیں ہو سکتا۔
اس نکتہ کی تفہیم کے بعد ہم دوبارہ قرآن حکیم کی طرف آتے ہیں اور اس اصول کا اطلاق کرتے ہیں۔ آیت مذکورہ میں اللہ تعالیٰ کے لیے کہا گیا ہے : وَاللّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيم (اور اﷲ بڑے فضل والا ہے)۔ ’’ذُو الْفَضْلِ‘‘ مضاف اور مضاف الیہ ہے۔ قاعدہ کی رُو سے مضاف اور مضاف اِلیہ ہمیشہ ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔ لہٰذا معلوم ہوا کہ فَضل اور ذُو الْفَضْلِ بھی دو جدا جدا ہستیاں ہیں۔ اﷲ تعالیٰ اُس فضل کا مالک ہے۔ وہ بذاتِ خود فضل نہیں، کیوں کہ فضل وہ چیز ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ ہے۔
یہاں سوال پیدا ہوگا کہ وہ خود فضل نہیں تو فضل کون ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ فضل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات گرامی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے جملہ انسانیت کے لیے رحمت و ہدایت بنا کر بھیجا اور جس کا نامِ نامی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ ذیل میں ہم اسی موقف کی تائید میں چند نام وَر تفاسیر کی عبارات نقل کریں گے تاکہ کوئی اِبہام باقی نہ رہے :
(ب) اَئمہ تفسیر کے نزدیک ’’فَضْلُ اﷲِ‘‘ سے مراد
سورۃ الجمعۃ کی آیت نمبر 4 کے الفاظ ’’ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ‘‘ اور ’’وَاللّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ‘‘ رسولِ رحمت حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کے لیے وحی کیے گئے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ورودِ مسعود عالم انسانیت کے لیے ہوا اور اللہ تعالیٰ نے اسے اپنے فضل سے تعبیر فرمایا ہے۔ اگر کسی نے فضل کو جیتی جاگتی صورت میں دیکھنا ہو تو رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صورت میں دیکھ لے۔ اس نکتے کی توضیح و تشریح خود قرآن مجید نے فرما دی ہے۔ ذیل میں ہم اس خاص آیت کریمہ کے حوالے سے چند اہم تفاسیر کا حوالہ ذکر کر رہے ہیں :
1۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما (م 68ھ) الْفَضْلِ الْعَظِيمِ کی مراد یوں بیان کرتے ہیں :
(وَاﷲُ ذُو الْفَضْلِ) المن (الْعَظِيْمِ) بالإسلام والنبوة علي محمد صلي الله عليه وآله وسلم ، و يقال : بالإسلام علی المؤمنين، ويقال : بالرسول والکتاب علی خلقه.
’’فضلِ عظیم یعنی دینِ اسلام اور نبوتِ محمدی کی صورت میں احسانِ عظیم ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : مومنوں پر اسلام کی صورت میں احسان عظیم ہے، اور یہ بھی کہا گیا ہے : مخلوق پر وجودِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور نزولِ قرآن کی صورت میں احسانِ عظیم ہے۔‘‘
فيروز آبادي، تنوير المقباس من تفسير ابن عباس : 471
2۔ علامہ زمخشری (467۔ 538ھ) نے بیان کرتے ہیں :
(ذٰلِکَ) الفضل الذي أعطاه محمدًا وهو أن يکون نبي أبناء عصره، و نبي أبناء العصور الغوابر، هو (فَضْلُ اﷲِ يُؤْتِيْهِ مَنْ يَّشَآءُ).
’’(ذٰلِکَ) سے مراد وہ فضل ہے جو اللہ تعالیٰ نے محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عطا فرمایا اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اپنے زمانے کے لوگوں کے لیے (تا قیامت) اور پہلے زمانوں کے لوگوں کے لیے بھی نبی ہونا ہے۔ یہی اللہ کا فضل ہے وہ جسے چاہتا ہے اس سے نوازتا ہے۔‘‘
زمخشري، الکشاف عن حقائق غوامض التنزيل وعيون الأقاويل فی وجوه التأويل، 4 : 530
3۔ علامہ طبرسی (م 548 ھ) مذکورہ الفاظ کی مراد یوں واضح کرتے ہیں :
(وَاﷲُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيْمِ) ذو المن العظيم علي خلقه ببعث محمد صلي الله عليه وآله وسلم.
’’وہ اُس اِحسانِ عظیم والا ہے جو اُس نے اپنی مخلوق پر بعثتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے کیا۔‘‘
طبرسي، مجمع البيان فی تفسير القرآن، 10 : 429
یعنی رسولِ محتشم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دنیائے انسانیت کی طرف بھیجا جانا اﷲ تعالیٰ کا عظیم تر فضل اور احسان ہے۔
4۔ علامہ ابن جوزی (510۔ 579ھ) فرماتے ہیں :
(وَاﷲُ ذُوالْفَضْلِ الْعَظِيْمِ) بإرسال محمد صلي الله عليه وآله وسلم.
’’اور اللہ بہت بڑے فضل والا ہے۔ اور (اس کا یہ فضل) بعثتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے ہوا۔‘‘
ابن جوزي، زاد المسير في علم التفسير، 8 : 260
یعنی رسولِ معظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بنی نوع انسان میں تشریف آوری اور بعثت اﷲ کا بہت بڑا فضل (الفضل العظیم) اور انعام ہے۔
5۔ امام نسفی (م 710 ھ) فرماتے ہیں :
(ذٰلِکَ) الفضل الذي أعطاه محمدًا. . . وهو أن يکون نبي أبناء عصره ونبي أبناء العصور الغوابر.
’’(ذٰلِکَ) سے مراد وہ فضل ہے جو اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عطا فرمایا۔ اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اپنے زمانے کے لوگوں کے لیے (تا قیامت) اور پہلے زمانوں کے لوگوں کے لیے بھی نبی ہونا ہے۔‘‘
نسفي، مدارک التنزيل و حقائق التأويل، 5 : 198

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ظہور اور بعثت مبارکہ اُن سب کو اپنے دامنِ رحمت میں لیے ہوئے ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت سے پہلے تھے اور جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال مبارک کے بعد قیامت تک آئیں گے۔ یعنی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے زمانوں میں آنے والے اور بعد میں آنے والے تاقیامِ قیامت آپ کے فیوضاتِ رسالت سے مستفیض ہوں گے۔ یہ ہے ’’ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَن يَشَاءُ‘‘ کی تفسیر جس میں امام نسفی نے دونوں معانی کا اِحاطہ کیا ہے۔ ’’وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ‘‘ میں وہ لوگ شامل ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد پیدا ہوں گے اور انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نہ دیکھا ہوگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے بھی رسول ہوں گے اور ان کا شمار بھی اس زمرے میں ہو گا جن کے لیے ’’فَلْيَفْرَحُواْ‘‘کا حکم اِلٰہی وارِد ہوا ہے۔ لہٰذا ان کے لیے بھی لازم ہے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت کی خوشیاں منائیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ظہور اس عالم ارضی میں ان کے لیے مژدۂ عظیم بن کر آیا ہے جو ماضی، حال اور مستقبل کی صدیوں میں آتے رہے یا آتے رہیں گے۔ اور یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا۔
6۔ امام خازن (678۔ 741ھ) ’’الْفَضْلِ الْعَظِيمِ‘‘ کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
أي علي خلقه حيث أرسل فيهم رسوله محمدا صلي الله عليه وآله وسلم.
’’اس سے مراد اللہ تعالیٰ کا اپنی مخلوق پر فضل ہے جو اس نے اپنے رسول محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھیج کر فرمایا۔‘‘
خازن، لباب التأويل في معاني التنزيل، 4 : 265

7۔ ابو حیان اندلسی (682۔ 749ھ) اس لفظ کی مراد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
و (ذٰلِکَ) إشارة إلی بعثته عليه السلام.
’’ذٰلِکَ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثتِ مبارکہ کی طرف اشارہ ہے۔‘‘
ابوحيان، تفسير البحر المحيط، 8 : 265
8۔ امام ابن کثیر (701۔ 774ھ) تفسیر کرتے ہیں :
يعني ما أعطاء اﷲ محمدًا صلي الله عليه وآله وسلم من النبوة العظيمة، وما خص به أمته من بعثته صلي الله عليه وآله وسلم.
’’اس سے مراد وہ نبوتِ عظیمہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عطا فرمائی، اور (اس سے مراد) وہ خصائص ہیں جن سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کے ذریعے اُمت کو نوازا گیا۔‘‘
ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 4 : 364
پس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ورودِ مسعود اور نبوت دونوں فی الحقیقت اﷲ تعالیٰ کا بہت بڑا فضل ہے۔
9۔ امام سیوطی (849۔ 911ھ) لکھتے ہیں :
(ذٰلِکَ فَضْلُ اﷲِ يُؤْتِيْهِ مَنْ يَّشَآءُ) النبي صلي الله عليه وآله وسلم ومن ذکر معه.
’’(ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَن يَشَاءُ) میں فضل سے مراد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ مذکور لوگ ہیں۔‘‘
سيوطي، تفسير الجلالين : 553
10۔ علامہ آلوسی (1217۔ 1270ھ) اس لفظ کی مراد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں :
(ذٰلِکَ) إشارة إلي ما تقدم من کونه عليه الصلاة والسلام رسولا في الأميين ومن بعدهم معلمًا مزکيا، وما فيه من معني البعد للتعظيم أي ذٰلِک الفضل العظيم.
’’ذٰلِکَ اسی امر کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ سورت کی ابتداء میں جو ذکر کیا گیا ہے کہ رسول معظم حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُمیوں اور ان کے بعد آنے والوں کے درمیان انہیں تعلیم دینے اور ان کا تزکیہ کرنے کے لیے معبوث فرمائے گئے ہیں، اور اِشارۂ بعید۔ ذٰلِکَ۔ تعظیم کے لیے ہے یعنی بے شک وہ فضل عظیم ہیں۔‘‘
آلوسي، روح المعاني في تفيسر القرآن العظيم والسبع المثاني، 28 : 94، 95
11۔ شیخ احمد مصطفیٰ مراغی (1300۔ 1372ھ) مذکورہ الفاظ کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
أي وإرسال هذا الرسول إلي البشر مزکيا مطهرًا لهم، هاديا معلما، فضل من اﷲ، و إحسان منه إلي عباده.
’’اللہ تعالیٰ کا اپنے محبوب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عالم انسانیت کی طرف تزکیہ کرنے والا، پاک کرنے والا، ہدایت دینے والا اور علم دینے والا بنا کر بھیجنا اللہ کا اپنے بندوں پر فضل و اِحسان ہے۔‘‘
احمد مصطفي، تفسير القرآن الکريم، 10!28 : 96
12۔ عصر حاضر کے ایک نام وَر مصری مفسر شیخ طنطاوی جوہری (م 1359 ھ) لکھتے ہیں :
(وَاﷲُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيْمِ) فإذا کان محمد قد أرسلته إليکم أيها الأميون وإلي من يأتي بعدکم.
’’اور اﷲ بہت بڑے فضل والا ہے۔‘‘ میرا یہ فضل تم پر اُس وقت ہوا جب میں نے اے اُمّیو (اَن پڑھ لوگو)! اپنے نبی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تمہاری طرف اور تمہارے بعد آنے والوں کی طرف بھیجا۔‘‘
طنطاوي جوهري، الجواهر في تفسير القرآن الکريم، 24 : 175
آیت کریمہ کی متذکرہ بالا تفاسیر سے واضح ہوگیا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بلااِستثناء سب کے لیے فضل ہیں۔ لہٰذا جب نصِ قطعی سے یہ ثابت ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت سے مراد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں تو یہ اَمر بھی پایہ ثبوت کو پہنچ گیا کہ اس رحمت اور فضل کے حصول پر ’’فَلْيَفْرَحُواْ‘‘ کے حکم کے تحت عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشی منانا بھی عین مدعائے قرآن اور منشائے حکمِ اِلٰہی ہے۔
اَئمہ تفسیر کے نزدیک فضل و رحمت کا مفہوم
گزشتہ صفحات میں سورۃ یونس کی آیت نمبر 58 کی تفسیر بالقرآن کے تحت سورۃ الجمعۃ کی آیات کی تفسیر و توضیح کے بعد اب ہم ذیل میں سورۃ یونس کی آیت نمبر 58 میں مذکور الفاظ۔ فضل اور رحمت۔ کی تفسیر اور توضیح و تشریح چند مستند ائمہ تفاسیر کی آراء کی روشنی میں بیان کریں گے تاکہ نفسِ مضمون زیادہ بہتر طور پر سمجھا جا سکے :
1۔ علامہ ابن جوزی (510۔ 579ھ) سورۃ یونس کی آیت نمبر 58 کی تفسیر میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنھما کا قول نقل کرتے ہیں :
إن فضل اﷲ : العلم، ورحمته : محمد صلي الله عليه وآله وسلم. رواه الضحاک عن ابن عباس.
’’ضحاک نے حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنھما سے روایت کیا ہے کہ بے شک ’’فضل اﷲ‘‘ سے مراد علم (یعنی قرآن) ہے، اور رحمت سے مراد محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔‘‘
ابن جوزي، زاد المسير في علم التفسير، 4 : 40
2۔ ابوحیان اندلسی (682۔ 749ھ) ضحاک کے حوالے سے حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما کی روایت نقل کرتے ہیں :
وقال ابن عباس فيما روي الضحاک عنه : الفضل : العلم، والرحمة : محمد صلي الله عليه وآله وسلم.
’’ضحاک نے حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت کیا ہے کہ فضل سے مراد علم (یعنی قرآن) اور رحمت سے مراد محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔‘‘
ابوحيان، تفسير البحر المحيط، 5 : 171
3۔ امام سیوطی (849۔ 911ھ) نے بھی حضرت عبداللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے مذکورہ بالا قول نقل کیا ہے :
وأخرج أبو الشيخ عن ابن عباس رضي اﷲ عنهما في الآية، قال : فضل اﷲ : العلم، ورحمته : محمد صلي الله عليه وآله وسلم. قال اﷲ تعالي : (وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِيْنَ)(1) - (2)
’’ابو شیخ نے اس آیت کے بارے میں حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت کیا ہے کہ فضل اﷲ سے مراد علم (یعنی قرآن) ہے، اور رحمت سے مراد محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات گرامی ہے۔ اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے : (اور (اے رسولِ محتشم!) ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر)۔‘‘

(1) الأنبياء، 21 : 107
(2) سيوطي، الدر المنثور في التفسير بالمأثور، 4 : 330
4۔ علامہ آلوسی (1217۔ 1270ھ) بیان کرتے ہیں :
و أخرج أبو الشيخ عن ابن عباس رضي اﷲ عنهما أن الفضل العلم والرحمة محمد صلي الله عليه وآله وسلم، وأخرج الخطيب وابن عساکر عنه تفسير الفضل بالنبي عليه الصلاة والسلام.
’’ابو شیخ نے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت کیا ہے کہ فضل سے مراد علم ہے اور رحمت سے مراد محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ خطیب اور ابن عساکر نے ابن عباس رضی اﷲ عنہما سے نقل کیا ہے کہ فضل سے مراد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔‘‘
آلوسي، روح المعاني في تفسير القرآن العظيم والسبع المثاني، 11 : 141
مذکورہ تفاسیر سے واضح ہوتا ہے کہ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما فضل سے مراد العلم لیتے ہیں اور العلم سے مراد قرآن حکیم ہے جس کی تائید درج ذیل آیت سے ہوتی ہے :
وَعَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُ وَكَانَ فَضْلُ اللّهِ عَلَيْكَ عَظِيمًاO
’’اور اس نے آپ کو وہ سب علم عطا کر دیا ہے جو آپ نہیں جانتے تھے، اور آپ پر اللہ کا بہت بڑا فضل ہےo‘‘
النساء، 4 : 113
اگر فضل سے مراد علم یا قرآن حکیم لیں تو پھر بھی اس کا ضمنی مفہوم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں جن کے واسطے سے ہمیں قرآن مجید ملا۔ امام المفسرین جلیل القدر صحابی حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما کا یہ قول۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات گرامی اﷲ کا فضل اور سر تا پا اس کی رحمت ہے۔ سورۃ یونس کی آیت نمبر 58 میں مذکورہ اَلفاظ۔ فَبِذَلِكَ فَلْيَفْرَحُواْ۔ کے مفہوم کو جشنِ میلاد کی خوشیاں منانے کے حوالے سے اُجاگر کرتا ہے۔ جشنِ میلاد کو عید مسرت کی حیثیت سے منانے کو اﷲ کے فضل و رحمت پر خوشی و مسرت کے اظہار کا ذریعہ گردانا گیا ہے اور اس کا ذکر اس قرینے اور شدّ و مد سے کیا گیا ہے کہ کوئی صاحبِ فکر مسلمان اس بات سے انکار نہیں کرے گا۔ مذکورہ بالا عباراتِ تفاسیر نے فضل و رحمت کے معانی اس طرح کھول کر بیان کر دیے ہیں کہ اس کے اَسرار و رموز بالکل عیاں ہوگئے ہیں، اور یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ گئی ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے فضل و رحمت پر مسرتوں اور شادمانیوں کی صورت میں جشنِ عید منانا منشائے خداوندی ہے۔
علامہ طبرسی (م 548 ھ) نے اس آیت کے ذیل میں لکھا ہے :
ومعني الآية قل لهؤلاء الفرحين بالدنيا المعتدين بها الجامعين لها إذا فرحتم بشيء فافرحوا بفضل اﷲ عليکم ورحمته لکم بإنزال هذا القرآن وارسال محمد إليکم فإنکم تحصلون بهما نعيمًا دائمًا مقيمًا هو خير لکم من هذه الدنيا الفانية. . . . عن قتادة ومجاهد وغيرهما قال أبو جعفر الباقر عليه السلام : (فَضْلُ اﷲِ) رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم.
’’اس آیت کا معنی ہے کہ اﷲ تعالیٰ اپنے محبوب پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ارشاد فرما رہا ہے کہ آپ ان لوگوں سے کہہ دیں جو دنیا کی خوشیوں میں مگن اور اس کے ذریعے (دوسروں پر) ظلم و زیادتی کرنے والے اور ہر وقت اس کو جمع کرنے والے ہیں کہ اگر تم کوئی خوشی منانا ہی چاہتے ہو تو اﷲ کے فضل اور اس کی رحمت پر جشنِ مسرت مناؤ جو نزولِ قرآن اور ولادت و بعثتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صورت میں تمہیں عطا ہوئے ہیں۔ پس بے شک تم ان دونوں (نزولِ قرآن اور ولادت و بعثتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر خوشی منانے) کے بدلے میں ہمیشہ قائم رہنے والی نعمت (جنت) حاصل کروگے جو تمہارے لیے اِس فانی دنیا سے بہت بہتر ہے۔ ۔ ۔ ۔ حضرت قتادہ اور مجاہد کے علاوہ دوسرے علماء سے بھی روایت ہے کہ امام ابو جعفر محمد الباقر علیہ السلام نے فرمایا : اللہ کے فضل سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔‘‘
طبرسي، مجمع البيان في تفسير القرآن، 5 : 177، 178
تفاسیر میں بیان کیے گئے تمام معانی، ان کے رموز اور ضمنی تشریحات و تعبیرات سے یہی مفہوم اَخذ ہوتا ہے کہ اﷲ بزرگ و برتر نے جو نعمتیں عطا کی ہیں ان میں سب سے بڑی نعمت جو اُس کے فضل اور رحمت کی صورت میں نازل ہوئی وہ قرآن اور محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات ستودہ صفات ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ جشنِ مسرت و شادمانی منانے کے قابل صرف دو چیزیں ہیں : ایک قرآن کا نزول اور دوسرا ولادتِ محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جس پر فرمان اِلٰہی۔ فَبِذَلِكَ فَلْيَفْرَحُواْ۔ حجت ہے۔ اگر کوئی خوشی منانی ہے تو اس رسولِ محتشم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دنیا میں تشریف آوری کے دن سے زیادہ اور کوئی دن اس کا حق دار و سزاوار نہیں۔
مولانا اَشرف علی تھانوی کا نقطہ نظر
یہاں ضمنًا دیوبندی مکتبہ فکر کے معروف عالم دین مولانا اشرف علی تھانوی (1280۔ 1362ھ) کے نقطہ نظر سے بھی آگاہی حاصل کر لینا زیر نظر موضوع کی وضاحت کے لیے ضروری ہے۔ جیسا کہ اس سے قبل بھی عرض کیا جا چکا ہے کہ رحمت اور فضل سے مراد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں چنانچہ اس سلسلہ میں مولانا موصوف نے بجا طور پر اپنی تقاریر سے مرتب شدہ کتاب ’’میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ میں اس حقیقت کا اظہار کیا ہے کہ بلااِختلاف حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اﷲ تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت اور اس کا کامل ترین فضل ہیں۔ اس لیے اس آیہ کریمہ سے بدلالۃ النص یہ بھی مراد لیا جاسکتا ہے کہ یہاں رحمت اور فضل سے مراد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں جن کی ولادت پر اﷲ تعالیٰ خوشی منانے کا حکم دے رہے ہیں۔ پھر اس کی وضاحت بھی کرتے ہیں کہ جو نعمت تمام دنیوی اور دینی نعمتوں کی اصل اور ان کا سر چشمہ ہے وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تشریف آوری ہے۔ (1)
(1) مولانا اشرف علی تھانوی متذکرہ بالا آیات قرآنی میں فضل اور رحمت کی اصل مراد قرآن کو قرار دیتے ہوئے بیان کرتے ہیں :

’’اب قرآن مجید میں دوسرے مقامات پر دیکھنا چاہئے کہ ان دونوں لفظوں (فضل اور رحمت) سے کیا مراد ہے؟ تو جاننا چاہیے کہ قرآن مجید میں یہ دونوں لفظ بکثرت آتے ہیں۔ کہیں دونوں سے ایک معنی مراد ہیں اور کہیں جدا جدا۔ چنانچہ ایک مقام پر ارشاد ہوتا ہے:
فَلَوْلاَ فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ لَكُـنْـتُم مِّنَ الْخَاسِرِينَO
’’پس اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو تم یقیناً تباہ ہو جاتےo‘‘
البقره، 2 : 64

’’یہاں اکثر مفسرین کے نزدیک فضل اور رحمت سے مراد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وجود باجُود مراد ہے۔ اور دوسری جگہ ارشاد ہے :
وَلَوْلاَ فَضْلُ اللّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ لاَتَّبَعْتُمُ الشَّيْطَانَ إِلاَّ قَلِيلاًO
’’اگر تم پر اللہ کا فضل اور اُس کی رحمت نہ ہوتی تو یقیناً چند ایک کے سوا تم (سب) شیطان کی پیروی کرنے لگتےo‘‘

النساء، 4 : 83
’’اور یہاں بھی بقول اکثر مفسرین حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی مراد ہیں۔

’’بعض آیات میں فضل سے مراد ہے : رحمتِ دنیوی اور رحمت سے رحمتِ دینی مراد ہے۔ پس مجموعہ تمام تفاسیر کا دنیوی رحمتیں اور دینی رحمتیں ہوا۔
مولانا اشرف علی تھانوی مزید لکھتے ہیں :

’’اس مقام پر ہر چند کہ آیت کے سباق پر نظر کرنے کے اعتبار سے قرآن مجید مراد ہے لیکن اگر ایسے معنی عام لیے جائیں کہ قرآن مجید بھی اس کا ایک فرد رہے تو یہ زیادہ بہتر ہے۔ وہ یہ کہ فضل اور رحمت سے مراد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدوم مبارک لیے جائیں۔ اس تفسیر کے موافق جتنی نعمتیں اور رحمتیں ہیں خواہ وہ دینی ہوں یا دنیوی اور ان میں قرآن بھی ہے سب اس میں داخل ہو جائے گی۔ اس لیے کہ حضور کا وجود باجود اصل ہے تمام نعمتوں کی اور مادہ ہے تمام رحمتوں اور فضل کا۔ پس یہ تفسیر اَجمع التفاسیر ہو جائے گی۔ پس اس تفسیر کی بنا پر اس آیت کا حاصل یہ ہوگا کہ ہم کو حق تعالیٰ ارشاد فرما رہے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وجود باجود پر خواہ وجودِ نوری ہو یا ولادتِ ظاہری، اس پر خوش ہونا چاہئے۔ اس لیے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے لیے تمام نعمتوں کے واسطہ ہیں۔ (دوسری عام نعمتوں کے علاوہ) افضل نعمت اور سب سے بڑی دولت ایمان ہے جس کا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہم کو پہنچنا بالکل ظاہر ہے۔ غرض اصل الاصول تمام مواد فضل و رحمت کی حضور کی ذات بابرکات ہوئی۔ پس ایسی ذات بابرکات کے وجود پر جس قدر بھی خوشی اور فرح ہو کم ہے۔‘‘
اشرف علي تهانوي، خطبات ميلاد النبي صلي الله عليه وآله وسلم : 63 - 65
اگرکسی نے فضل اور رحمت الٰہی کو صورۃً اور تمثیلاً دیکھنا ہو تو وہ حضور نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھ لے جن کو اللہ نے اپنا سراپائے فضل اور رحمت بنا دیا ہے۔ اس لیے کہ رحمت اور فضل ایک ہی ذات، ذاتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں مرتکز ہوگئے ہیں جو بلاامتیازِ زمان و مکان سب کے لیے بھیجے گئے ہیں۔ پس اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ فَلْیَفْرَحُوْا کاحکم سب مسلمانوں کے لیے ہے۔ انہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ورودِ مسعود پر جشنِ مسرت و شادمانی منانا چاہئے اور اس موقع پر شرعی حدود و قیود کی پاس داری کرتے ہوئے جس قدر بھی خوشی کی جائے جائز ہوگی۔
(3) فضل و رحمت کی آمد پر خوشی کیوں کر منائی جائے؟
سورۃ یونس کی آیت نمبر 58 میں اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل اور رحمت کے نزول پر خوشی منانے کا حکم کیوں فرمایا؟ وہ کیا سبب ہے جس کی بناء پر اللہ رب العزت نے اس فضل و رحمت کے میسر آنے پر خوشی و مسرت منانے کا حکم فرمایا ہے؟ اس کا جواب جاننے سے قبل یہ سمجھ لینا ضروری ہے کہ فضل اور رحمت کے الفاظ ایک خاص تناظر میں بیان ہوئے ہیں۔ قرآنِ حکیم نے اس پس منظر کومتعدد آیات میں بیان فرمایا ہے جن کاتذکرہ ہم پہلے کر چکے ہیں۔
اﷲ سبحانہ وتعالیٰ مسلمانوں سے مخاطب ہو کر ارشاد فرما رہے ہیں کہ اگر تم پر میرے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تشریف آوری کی صورت میں میرا فضل اور رحمت نہ ہوتی تو تم میں سے اکثر لوگ ماسوائے قلیل تعداد کے گمراہ ہو جاتے اور شیطان کے پیروکار بن کر تباہ ہو جاتے۔ اگر رسول معظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عالم انسانیت کی طرف مبعوث نہ کیا جاتا تو لوگوں کو ضلالت وگمراہی اور کفر و شرک کی تاریکیوں سے نکال کر اُلوہی حق و صداقت اور ہدایت کی روشنی سے کون مستفیض کرتا؟ اگر ہادیء برحق صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مبعوث نہ ہوتے تو لوگوں کو ظلم، بداَمنی اور لاقانونیت کی چکی سے کون نکالتا اور ان کے بنیادی حقوق کے تحفظ کی ضمانت کون فراہم کرتا؟ وہ ذات گرامی جو اندھیروں میں بھٹکنے والی انسانیت کو ہدایت اِلٰہی کی روشنی میں لائی اس کے ظہور پر بنی نوع انسان کو خوشی منانے کا حکم دیاگیا ہے کہ ان کی اس دنیا ئے رنگ وبو میں تشریف آوری اللہ کے فضل اور رحمت کا نتیجہ ہے، جس پر خوشی و شادمانی منانا تقاضائے محبت و ایمان ہے۔
(4) آیت میں حصر کا فائدہ
آیت مذکورہ میں ’’فَبِذَلِكَ فَلْيَفْرَحُواْ‘‘ کے معنوی رموز کو سمجھنا ضروری ہے۔ اس کی تفسیر کرتے ہوئے فخر المفسرین امام رازی (543۔ 606ھ) نے ان الفاظ کے حصر اور اختصاص و امتیاز کو یوں واضح کیا ہے :
قوله : (فَبِذٰلِکَ فَلْيَفْرَحُوْا) يفيد الحصر، يعني يجب أن لايفرح الإنسان إلا بذالک.
’’اﷲ تعالیٰ کا فرمان۔ فَبِذَلِكَ فَلْيَفْرَحُواْ۔ حصر کا فائدہ دے رہا ہے یعنی واجب ہے کہ اِنسان صرف اِسی پرخوشی منائے۔‘‘
رازي، مفاتيح الغيب (التفسيرالکبير)، 17 : 117

امام رازی نے آیت مبارکہ میں معنوی حصر و اختصاص کو شرح و بسط سے بیان کرتے ہوئے فرح یعنی خوشی و مسرت کے اظہار پر روشنی ڈالی ہے۔ اس لفظ کے دامن میں وہ سب خوشیاں اور مسرتیں سمٹ آئی ہیں جو نہ صرف جائز ہیں بلکہ اَز رہِ حکم اس کے منانے کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔ اور فرمایا گیا کہ اللہ کے فضل اور رحمت پر اظہار مسرت کرو اور اس پر خوب خوشیاں مناؤ۔
قارئین کرام! یہ اَمر ذہن نشین رہے کہ اللہ رب العزت نے ایسی خوشیاں منانے سے منع فرمایا ہے جن میں خود نمائی اور دکھاوا ہو۔ اللہ تعالیٰ پسند نہیں فرماتا کہ لوگ کسی دنیاوی نعمت پر اس قدر خوشی کا اظہار کریں کہ وہ آپے سے باہر ہوجائیں اور شائستگی کی تمام حدیں پھلانگتے ہوئے انپے آپ سے بھی بیگانہ ہوجائیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْفَرِحِينَO
’’بے شک اللہ اِترانے والوں کو پسند نہیں فرماتاo‘‘
القصص، 28، : 76
لیکن اس کے برعکس جب اپنے فضل اور رحمت کی بات کی تو اپنے اس حکم میں استثناء (exception) کا اعلان فرما دیا کہ اگر میرا فضل اور رحمت نصیب ہو جائے تو پھر میرا ہی حکم ہے : فَلْيَفْرَحُواْ، یعنی کہ خوب خوشیاں منایا کرو۔ اور وَ هُوَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُونَ کے ذریعہ یہ بتلا دیا کہ جو لوگ جشنِ میلاد کے موقع پر لائٹنگ کے لیے قمقمے لگاتے ہیں، گل پاشیاں کرتے ہیں، قالین اور غالیچے بچھاتے ہیں، جلسے جلوس اور محافل و اجتماعات کا اہتمام کرتے ہیں، لنگر بانٹنے کے لیے کھانا پکاتے ہیں یعنی دھوم دھام سے اِظہار خوشی کے لیے جو کچھ انتظامات کرتے ہیں وہ سب کچھ حبِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اظہار کے لیے کرتے ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کو بہت محبوب ہے۔ لہٰذا ان کے یہ اَخراجات مال و دولت کے انبار لگانے اور انہیں جمع کرنے سے کہیں بہتر ہیں۔ چنانچہ جونہی ماہِ ربیع الاول کا آغاز ہوتا ہے پوری دنیا میں غلامانِ رسول آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کی خوشی میں دیوانہ وار مگن ہو جاتے ہیں، ہر طرف جشن کا سماں ہوتا ہے۔ کائنات کی ساری خوشیاںجملہ مسرتیں اور شادمانیاں اسی ایک خوشی پر ہی قربان ہو جائیں تو بھی اس یومِ سعید کے منانے کا حق ادا نہیں ہوسکتا۔ اس کا جواز نصِ قرآن سے ثابت ہے اور خود اللہ رب العزت نے اس خوشی کے منانے کا نہ صرف اہتمام کیا بلکہ مندرجہ بالا ارشادِ قرآنی کی رو سے ہمیں بھی اس نعمتِ عظمی پر خوشی منانے کا حکم دیا۔
(5) ’’فَبِذَلِكَ‘‘ کے استعمال کی حکمت
اس ضمن میں اگرچہ ہم نے ’’ذَلِكَ‘‘ کے استعمال کی حکمت کے حوالے سے اوپر ایک خاص علمی نکتہ بیان کیا ہے تاہم چند اور باتیں قابل ذکر ہیں۔ مثلًا :
قُلْ بِفَضْلِ اللّهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَلِكَ فَلْيَفْرَحُواْ.
’’فرما دیجئے! (یہ سب کچھ) اﷲ کے فضل اور اس کی رحمت کے باعث ہے (جو بعثتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے تم پر ہوا ہے) پس مسلمانوں کو چاہئے کہ اس پر خوشیاں منائیں۔‘‘
يونس، 10 : 58
اگر قُلْ بِفَضْلِ اللّهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَلِكَ فَلْيَفْرَحُواْ کہا جاتا تو بھی اس آیت میں مضمون اور مدعائے بیان مکمل تھا، لیکن ’’فَبِذَلِكَ‘‘ لا کر تکرار پیدا کیا گیا تاکہ کہیں باعثِ مسرت کسی اور چیز کو نہ ٹھہرا لیا جائے اور دھیان کسی اور طرف نہ چلا جائے۔ اس سے یہ بھی مقصود تھا کہ اُن کی ولادت کے سبب سے جو نعمتِ کبریٰ تمہیں نصیب ہوئی ہے، خوشیاں منانے کا حکم دیتے ہوئے ہم تمہیں یہ نہیں کہتے کہ میرا شکر صرف سجدے کرکے بجا لاؤ، صرف روزوں کی صورت میں بجا لاؤ، صدقات و خیرات کر کے میری نعمت کا شکر بجا لاؤ۔ یہ سب طریقے بجا ہیں مگر یہ طریقے تو عام نعمتوں کے شکرانے کے لیے ہیں۔ اس پیکر رحمت کا تمہارے پاس آنا اتنی بڑی نعمت ہے کہ اس نعمت کے توسط سے ہی تو ہم نے انسانیت کو ساری نعمتیں عطا کیں، لہٰذا اس نعمتِ عظمیٰ کے ملنے کے موقع پر تم چراغاں بھی کرو، جشن بھی مناؤ، کھانے پکا کر غرباء و مساکین کو بھی کھلاؤ غرضیکہ جائز طریقے سے ہر وہ خوشی کرو جو دنیا میں کسی بھی مسرت کے موقع پر کر سکتے ہو۔ گویا اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نعمت کے عطا ہونے پر عید اور جشن کا ایسا سماں دیکھنا چاہتی ہے جو یہ ثابت کر دے کہ امت مسلمہ اپنے عظیم المرتبت نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت اِنتہائی جوش و خروش اور اِہتمام کے ساتھ منا رہی ہے۔
(6) نعمت کے شکرانے کا اِنفرادی و اِجتماعی سطح پر حکم
مشاہدے میں آیا ہے کہ کسی کے ہاں بیٹا پیدا ہو یا قومی آزادی حاصل ہو اور فتح و نصرت کا دن آئے تو جشن کا سماں ہوتا ہے۔ ہم یہ سب خوشیاں انفرادی اور اجتماعی طور پر مناتے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ ہم سے صرف یہ چاہتا ہے کہ جب اس نعمتِ عظمیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ملنے کا دن آئے تو اتنی فرحت و مسرت کا اہتمام کیا جائے کہ دنیا کی ساری خوشیوں پر غالب آجائے۔ یہ بات بالکل واضح ہے کہ خوشیاں و جشن منانے، چراغاں کرنے اور کھانے پکا کر تقسیم کرنے پر مال و دولت خرچ ہوتا ہے۔ معترضین اس پر اعتراض کرتے ہیں کہ عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موقع پر ان کاموں پر مال خرچ کرنے سے کیا فائدہ؟ اس سے بہتر تھا کہ یہ رقم کسی محتاج، غریب، نادار کو دے دی جاتی، کوئی مسجد بنا دی جاتی، کسی مدرسے میں جمع کرا دی جاتی، وغیرہ وغیرہ۔ یعنی اس طرح کے کئی شکوک و شبہات پیدا کیے جاتے ہیں۔ ہمارا جواب یہ ہے کہ مذکورہ کاموں پر خرچ کرنا اپنی جگہ بالکل درست، صحیح اور بجا ہے مگر باری تعالیٰ نے اس خیال کو بھی رد کر دیا کیوں کہ اس موقع پر اُمت کی اجتماعی خوشی زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ اﷲ تعالیٰ کسی کو صدقات و خیرات سے منع تو نہیں کرتا، ہر کوئی غرباء و مساکین اور مستحقین کی خدمت اپنی استطاعت کے مطابق کرے مگر جب حبیب مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت کی خوشی منانے کا موقع آئے تو یہ بہانہ بنا کر نہ بیٹھ جاؤ کہ ہم تو اپنا مال کسی اور نیک کام میں صرف کر دیں گے؛ بلکہ فرمایا : ’’فَلْيَفْرَحُواْ‘‘ انہیں چاہئے کہ وہ میرے حبیب کی خاطر خوشی منائیں۔ اور ’’هُوَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُونَ‘‘ کہہ کر واضح کر دیا کہ اِس خوشی پر خرچ کرنا کسی بھی اور مقصد کے لیے جمع کرنے سے افضل ہے۔
(7) آیتِ مذکورہ میں کثیر تاکیدات کا اِستعمال
قرآن حکیم میں کوئی حکم بیان کرنے کا یہ طریقہ بہت ہی کم اختیار کیا گیا ہے جو جشنِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بیان پر مشتمل اس آیت میں اپنایا گیا ہے۔ اگر غور کیا جائے تو اس آیت مبارکہ میں ہمیں واضح طور پر دس (10) تاکیدیں نظر آتی ہیں :
1۔ قُلْ : قُلْ کہہ کر بات شروع کرنا تاکید کی ایک قسم ہے، جس کا مطلب ہے کہ ہمہ تن گوش ہو جاؤ۔
2۔ بِفَضْلِ اللّهِ : ’’اللہ کے فضل کی وجہ سے۔‘‘ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ کے فضل کی وجہ سے کیا؟ یہ استفہام پیدا کرنا بھی طریقۂ تاکید ہے کہ گویا ابھی اصل بات کو چھپایا جا رہا ہے۔
3۔ وَبِرَحْمَتِهِ : ’’اللہ کی رحمت کی وجہ سے۔‘‘ یہاں پھر استفہام پیدا کر دیا کہ رحمت کی وجہ سے کیا؟ یہ تیسری تاکید ہے۔
4۔ فضل اور رحمت کا اِجتماع : فضل کے بعد رحمت کا ذکر کرنا بھی تاکید ہے۔
5۔ فا کی حکمت : ذَلِكَ پر فا کا اضافہ کیا گیا ہے۔ فا عربی قواعد میں تاکید کے لیے آتی ہے۔
6۔ بِذَلِكَ : فضل اور رحمت کے ذکر کے بعد اِشارۂ بعید لانا بھی تاکید ہے۔
7۔ فَلْيَفْرَحُواْ : لِیَفْرَحُوْا پر پھر فا کا اضافہ کیا گیا جس سے تاکید پیدا ہو رہی ہے۔
8۔ فَلْيَفْرَحُواْ : یَفْرَحُوْا پر عزوجل بھی تاکید کے لیے ہے۔
9۔ هُوَ خَيْرٌ : ھُوَ تاکید کے لیے ہے۔
10۔ مِّمَّا يَجْمَعُونَ : یہ بھی تاکیدی کلام ہے۔
آیتِ مذکورہ میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے 10 تاکیدوں کے ساتھ جو حکم دیا وہ یہ ہے : فَلْيَفْرَحُواْ (خوشیاں مناؤ، جشن مناؤ) کیوں کہ فَبِذَلِكَ محبوب جو آ گیا ہے۔ اگر انسانی معاملہ ہو تو اتنی تاکیدوں سے مضمون بوجھل ہونے لگتا ہے مگر یہاں چونکہ محبوب کی بات ہونے والی ہے اور کلام بھی خدا کا ہے اس لیے اس میں مزید حسن اور نکھار پیدا ہو گیا ہے۔ دس (10) تاکیدوں کے بعد مضمون یہاں آ کر ختم کرنا۔ کہ یہ خوشیاں منانا جمع کرنے سے بہتر ہے۔ خوشی منانے کی اہمیت کو بدرجہ اتم واضح کر رہا ہے۔
تاکیدوں کے تکرار سے کلام میں کیا اثر پیدا ہوتا ہے؟ اس کی مثال اس طرح دی جا سکتی ہے کہ جس طرح کسی بچے کو اس کا باپ کوئی کام کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہے : ’’فلاں کام کیا کرو۔‘‘ اب سمجھ دار اولاد کے لیے باپ کا اتنا کہنا کافی ہوتا ہے لیکن باپ جب اس حکم کے ساتھ یہ بھی کہے : ’’بیٹا! میں تمہیں بتا رہا ہوں کہ فلاں کام کرو۔‘‘ اب بیٹے کے کان کھڑے ہو جائیں گے کیوں کہ اب تاکید بڑھ گئی۔ وہ جان جائے گا کہ والد مجھے جس کام کے لیے حکم دے رہے ہیں وہ کوئی خاص کام ہوگا، لیکن اگر اس بچے کا والد اس سے بھی زیادہ سخت حکم دیتے ہوئے کہے : ’’بیٹا! سن لو میں تمہیں بطور خاص کہہ رہا ہوں کہ فلاں کام ضرور بالضرور کرو۔‘‘ اب باپ کے حکم میں چار تاکیدیں آگئیں اور اگر ان تاکیدوں کے ساتھ باپ اسے یہ بھی کہہ دے کہ بیٹا! کچھ اور کرو نہ کرو ایسا ضرور کرو ورنہ میں ناراض ہو جاؤں گا، تو اب بھلا حکم عدولی کی کوئی گنجائش رہ جاتی ہے؟
ترکِ فعل اور مخالفت تو پہلے بھی خلافِ ادب تھی مگر اتنی تاکیدات کے ساتھ حکم دینے کا تو یہی مطلب بنتا ہے کہ ’’بیٹا! میں فقط تم سے اس حکم کی تعمیل چاہتا ہوں۔‘‘ اب کوئی انتہائی بدبخت بیٹا ہی ہوگا جو اس حکم کی بجا آوری سے پہلو تہی کرے گا۔ یہ مثال صرف سمجھانے کے لیے تھی، وگرنہ باپ کا حکم کہاں اور رب ذوالجلال کا حکم کہاں! چہ نسبت خاک را با عالمِ پاک کے مصداق وہ رب تو اپنے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان حقیقت بیان سے ہی کہلوا رہا ہے : محبوب! آپ میری طرف سے لوگوں کو حکم فرما دیں کہ ان پر جو اﷲ کا فضل اور رحمت اپنے درجہ کمال کو پہنچ کر نبی آخر الزمان کے وجود اقدس کی صورت میں انہیں نصیب ہوئی ہے اس کے شکرانے پر خوب خوشیاں مناؤ، اور یہ بات میں تاکیدات کے ساتھ کہہ رہا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد کی خوشیاں منانے کے حوالے سے صرف ایک قانون برقرار رکھا : عَبْدُہ وَرَسُوْلُہ، یعنی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔ اس تصور کے ساتھ شرعی حدود کے اندر رہ کر جتنی خوشیاں منائی جائیں جائز ہیں، لیکن ان کی کوئی حد نہیں۔ جب اللہ تعالیٰ نے خوشیاں منانے کی کوئی حد مقرر نہیں کی تو کوئی انسان کیسے کر سکتا ہے؟
اللہ تعالیٰ یہ بھی فرما رہا ہے کہ اگر میری منشاء و حکم کے مطابق خوشی مناؤ گے تو اس پر کتنا اَجر و ثواب ملے گا، اس کا اندازہ اس بات سے کر لو کہ تم جو کچھ بھی توشۂ آخرت کے طور پر تیار کررہے ہو اس سے تمہارا یہ خوشی منانا بہرحال میرے نزدیک زیادہ باعثِ اَجر و ثواب ہوگا۔ فرمایا :
هُوَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُونَO
’’یہ (خوشی منانا) اس سے کہیں بہتر ہے جسے وہ جمع کرتے ہیںo‘‘
يونس، 10 : 58
یہ بات واضح فرما دی کہ اگر تم نے میرے اس فضل اور رحمت کی آمد پر خوشی نہ کی تو بے شک تم عبادت و ریاضت کے ڈھیر لگا دو تو مجھے اُن سے کوئی سروکار نہ ہوگا۔ مجھے تو اپنے محبوب کی آمد پر تمہارا خوش ہونا ان عبادتوں سے زیادہ اچھا لگتا ہے۔ بے شک ان عبادات کا حکم بھی میں نے ہی دیا ہے مگر اس نعمت کے شکرانے پر تم عبادات کے علاوہ خوشی بھی مناؤ۔
(8) هُوَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُونَ کی تفسیر
آیت کا عمومی مفہوم یہ ہے کہ اﷲ کے فضل اور اس کی رحمت پر خوشی منانا جمع کرکے رکھنے سے بہتر ہے۔ سوال یہ کہ کیا چیز جمع ہو سکتی ہے؟ دو چیزیں ہی جمع کی جاسکتی ہیں :
1۔ دنیا کے حوالے سے جمع کرنا چاہیں تو مال و اَسباب اور دولت وغیرہ جمع کی جاسکتی ہے۔ اور
2۔ اگر آخرت کے حوالے سے جمع کرنا ہو تو اَعمالِ صالحہ مثلًا نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، صدقات و خیرات وغیرہ جمع ہو سکتے ہیں۔ مگر قرآن حکیم نے یہاں نہ مال و دولت کی تخصیص کی ہے اور نہ ہی اَعمالِ صالحہ اور تقویٰ وغیرہ کی نشان دہی کی ہے۔ بلکہ آیت مبارکہ میں بیان کیا گیا کلمہ مَا عام ہے جواپنے اندر عمومیت کا مفہوم لیے ہوئے ہے اور دنیا و آخرت دونوں کو حاوی ہے۔
مذکورہ بالا دونوں نکات ذہن نشین رکھ کر دیکھا جائے تو اس آیت سے مراد ہوگا : لوگو! تم اگر دنیا کے مال و دولت جمع کرتے ہو، جائیدادیں، کارخانے اور فیکٹریاں بناتے ہو یا سونے چاندی کے ڈھیروں کا ذخیرہ کرتے ہو غرضیکہ انواع و اقسام کی دولت خواہ نقد صورت میں ہو یا کسی جنس کی صورت میں، میرے حبیب کی آمد اور ولادت پر خوشی منانا تمہارے اس قدر مال و دولت جمع کرنے سے بہ ہر حال بہتر ہے۔ اور اگر آخرت کے حوالے سے سجود، رکوع، قیام و قعود کا ذخیرہ کر لو، نفلی عبادات جمع کر لو، فرائض کی بجا آوری سے اجر و ثواب کا ذخیرہ کرلو، غرضیکہ نیکی کے تصور سے جو چاہو کرتے پھرو لیکن اس نعمت پر شکرانے کے لیے جشن منانا اور اس پر اپنا مال و دولت خرچ کرنا، یہ تمہارے اَعمالِ صالحہ کے ذخیرے سے زیادہ گراں اور زیادہ بہتر ہے۔ اس لیے کہ اگر تم نے اس نعمتِ عظمیٰ کی آمد پر خوشی نہ کی تو تم نے اَعمالِ صالحہ کی بھی قدر نہ کی۔ چونکہ سب اعمال تو تمہیں اسی کے سبب سے نصیب ہوئے؛ قرآن اسی کے سبب سے ملا، نماز، روزہ، حج وغیرہ اسی کے توسط سے عطا کیے گئے، ایمان و اسلام بھی اسی کے ذریعے سے ملے، دنیا و آخرت کی ہر نیکی اور عزت و مرتبہ بھی اسی کے سبب سے ملا، بلکہ نیکی، نیکی اِنتخابِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بنی اور برائی، برائی اِجتنابِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قرار پائی۔ اور حق تو یہ ہے کہ یہ سب کچھ عطا کرنے والے رب العزت کی معرفت تمہیں اسی کے سبب سے ملی۔ پس اس ہستی کے عطا کیے جانے پر خوشی اور مسرت کا اظہار کر کے باری تعالیٰ کی بارگاہ میں شکر بجا لانے کا یہ عمل سب سے بڑھ کر ہونا چاہئے۔
6۔ جشنِ میلاد۔ شکرانۂ نعمتِ عظمیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
خالقِ کائنات نے بنی نوع انسان پربے حد و حساب احسانات و انعامات فرمائے ہیں۔ اس نے ہمیں بے شمار نعمتیں عطا کیں۔ کھانے پینے اور دیگر سامانِ آرام و آسائش اور زینت و آرائش سے نوازا۔ ہمارے لیے دن رات کا نظام مرتب کیا۔ سمندروں، پہاڑوں اور فضاؤں کو ہمارے لیے مسخر فرمایا مگر اس نے کبھی اپنی کسی نعمت کا احسان نہیں جتلایا۔ اس ذات رؤف و رحیم نے ہمیں اپنی پوری کائنات میں شرف و بزرگی کا تاج پہنایا اور أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ کے سانچے میں ڈھال کر رشکِ ملائکہ بنایا۔ ہمیں ماں، باپ، بہن، بھائی، بیوی اور بچوں جیسے پیارے رشتے عطا کیے۔ غرضیکہ اَنفس و آفاق کی ہزاروں ایسی نعمتیں جو ہمارے حیطۂ ادراک سے بھی باہر ہیں اس نے ہمیں عطا فرمائیں، لیکن بطور خاص کسی نعمت کا احسان نہیں جتلایا۔ اس لیے کہ وہ تو اتنا سخی ہے کہ کوئی اسے مانے یا نہ مانے وہ سب کو اپنے کرم سے نوازتا ہے اور کسی پر اپنا احسان بھی نہیں جتلاتا۔ لیکن ایک نعمتِ عظمیٰ ایسی تھی کہ اﷲ تعالیٰ نے جب اسے حریمِ کبریائی سے بنی نوع انسان کی طرف بھیجا اور کائنات کو اس نعمت سے سرفراز فرمایا تو نہ صرف اس کا ذکر کیا بلکہ تمام نعمتوں میں سے فقط اس کا احسان جتلایا اور اس کا اظہار عام الفاظ میں نہیں بلکہ دو تاکیدوں۔ لَ اور قَدْ۔ کے ساتھ کیا۔ ارشاد فرمایا :
لَقَدْ مَنَّ اللّهُ عَلَى الْمُؤمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولاً مِّنْ أَنفُسِهِمْ.
’’بے شک اﷲ تعالیٰ نے مسلمانوں پر بڑا اِحسان فرمایا کہ اُن میں اُنہی میں سے (عظمت والا) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھیجا۔‘‘
آل عمران، 3 : 164
آیت مبارکہ واضح کرتی ہے کہ اﷲ رب العزت فرما رہا ہے : اے لوگو! تم پر میرا یہ بہت بڑا احسان اور کرم ہے کہ میں نے اپنے محبوب کو تمہاری جانوں میں سے تمہارے لیے پیدا کیا۔ تمہاری تقدیریں بدل دیں، بگڑے ہوئے حالات سنوار دیے اور تمہیں ذلت و گمراہی کے گڑھے سے اٹھا کر عز و شرف سے ہم کنار کر دیا۔ آگاہ ہو جاؤ کہ میرے کارخانۂ قدرت میں اس سے بڑھ کر کوئی نعمت تھی ہی نہیں۔ جب میں نے وہی محبوب تمہیں دے دیا جس کی خاطر میں کائنات کو عدم سے وجود میں لایا اور اس کو انواع و اقسام کی نعمتوں سے مالا مال کر دیا تو اب ضروری تھا کہ میں رب العالمین ہوتے ہوئے بھی اس عظیم نعمت کا احسان جتلاؤں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ امتِ مصطفوی اسے عام نعمت سمجھتے ہوئے اس کی قدر و منزلت سے بے نیازی کا مظاہرہ کردے اور میرے اس احسانِ عظیم کی ناشکری کرنے لگے۔ اس احسان جتلانے میں بھی اُمت مسلمہ کی بھلائی کو پیش نظر رکھا گیا اور قرآن حکیم نے اس واضح حکم کے ذریعے ہر فرزندِ توحید کو آگاہ کر دیا کہ وہ کبھی اﷲ کے اس عظیم احسان کو فراموش نہ کرے بلکہ اس نعمتِ عظمیٰ پر شکرانہ ادا کرتے ہوئے جشنِ مسرت منائے۔
7۔ نعمتوں کا شکر بجا لانا کیوں ضروری ہے؟
اﷲ تعالیٰ کی نعمتوں اور اس کے فضل و کرم پر شکر بجا لانا تقاضائے بندگی ہے مگر قرآن مجید نے ایک مقام پر اس کی ایک اور حکمت بھی بیان فرمائی ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
لَئِن شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ وَلَئِن كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌO
’’اگر تم شکر ادا کرو گے تو میں تم پر (نعمتوں میں) ضرور اضافہ کروں گا اور اگر تم ناشکری کرو گے تو میرا عذاب یقیناً سخت ہےo‘‘
ابراهيم، 14 : 7
نعمتوں پر شکر بجا لانا اس آیت کے تحت مزید نعمتوں کے حصول کا پیش خیمہ ہے، یعنی اﷲ تعالیٰ اپنے شاکر بندوں پر مزید نعمتیں نچھاور کرتا ہے لیکن کفرانِ نعمت اتنا ناپسندیدہ عمل ہے کہ ایسا کرنے والوں کو عذابِ الٰہی کی وعید سنائی گئی ہے۔ اِس لیے دیگر اِنعاماتِ اِلٰہی کا مستحق قرار پانے کے لیے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت کی صورت میں میسر آنے والی نعمتِ عظمیٰ پر شکر بجالانا ضروری ہے۔
8۔ شکرانۂ نعمت کے معروف طریقے
اِس باب کے آخر میں ہم بالاختصار نعمتوں پر شکر بجا لانے کی مختلف صورتیں بیان کریں گے جن کی سند بھی قرآن حکیم نے ہی فراہم کی ہے۔ نعمتِ میلادِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا شکرانہ ادا کرتے وقت بھی یہی طریقے اختیار کئے جاتے ہیں :
(1) ذکرِ نعمت
قرآن حکیم نے نعمتوں کا شکر بجالانے کی ایک صورت یہ بیان کی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کی نعمت کو یاد رکھا جائے، جیسا کہ گزشتہ صفحات میں بنی اسرائیل پر ہونے والی نعمتوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ سورۃ البقرۃ میں ہے :
يَا بَنِي إِسْرَآئِيلَ اذْكُرُواْ نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ.
’’اے اولادِ یعقوب! میرے وہ انعام یاد کرو جو میں نے تم پر کیے۔‘‘
البقره، 2 : 47
یہی مضمون سورۃ آل عمران کی اس آیت میں بھی ضمناً آیا ہے جہاں اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کو حکم دیا کہ وہ اس کی نعمت کو یاد کریں :
وَاذْكُرُواْ نِعْمَتَ اللّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا.
’’اور اپنے اوپر اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو جب تم (ایک دوسرے کے) دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت پیدا کر دی اور تم اس کی نعمت کے باعث آپس میں بھائی بھائی ہو گئے۔‘‘
آل عمران، 3 : 103
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت و بعثت کو یاد کرنا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صورت و سیرت، فضائل و کمالات اورخصائص و معجزات کا ذکر کرنا بارگاہِ خداوندی میں اس نعمت عظمیٰ کا شکر ادا کرنے کی ہی ایک صور ت ہے۔ اس نعمت جلیلہ کا ذکر کر کے ہم خود کو بلند کرتے ہیں ورنہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر تو وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ کے فرمودۂ خداوندی کے مطابق ہر روز افزوں ہی رہے گا۔ اور ہر آنے والی ساعت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذکر کی رفعتوں کو بلند سے بلند تر ہوتا دیکھے گی۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
وَلَلْآخِرَةُ خَيْرٌ لَّكَ مِنَ الْأُولَىO
’’اور بے شک (ہر) بعد کی گھڑی آپ کے لیے پہلی سے بہتر (یعنی باعثِ عظمت و رفعت) ہےo‘‘
الضحیٰ، 93 : 4
وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَO
’’اور ہم نے آپ کی خاطر آپ کا ذکر (اپنے ذکر کے ساتھ ملا کر دنیا و آخرت میں ہر جگہ) بلند فرما دیاo‘‘
الإنشراح، 94 : 4
اس سے پتہ چلتا ہے کہ اب کوئی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر کرے گا تو اس سے اس کی اپنی ذات کو فائدہ ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد مبارک کے موقع پر اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں بطور شکرانہ خوشی منائے گا تو یہ بھی اس کے اپنے مفاد میں ہے، ایسا کرنے والا کسی پر احسان نہیں کر رہا بلکہ اپنا ہی توشۂ آخرت جمع کر رہا ہے۔ اِمام اَحمد رضا خان (1272۔ 1340ھ) نے کیا خوب کہا ہے :

وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ کا ھے سایہ تجھ پر
بول بالا ہے ترا ذکر ہے اونچا تیرا
احمد رضا خان، حدائقِ بخشش، 1 : 18
(2) عبادت و بندگی
اﷲ کی نعمتوں کا شکر اُس کی عبادت و بندگی کے ذریعے بھی ادا کیا جاتا ہے۔ نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ جیسی فرض عبادات کے علاوہ دیگر نفلی عبادات سب اﷲ کی نعمتوں پر شکرانے کی بہترین صورتیں ہیں۔
علاوہ ازیں صدقات و خیرات دے کر غریب، بے سہارا اور یتیم لوگوں کی پرورش و نگہداشت کر کے بھی اﷲ تعالیٰ کی دی گئی نعمت پر شکر بجا لانا اَمرِ مستحب ہے۔
(3) تحدیثِ نعمت
نعمت کا شکر بجا لانے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ انسان اللہ کی عطا کردہ کسی نعمت پر اُس کا خوب اِظہار کرے۔ خوشی منانے کے ساتھ ساتھ دوسروں کے سامنے اس کا تذکرہ بھی کرے۔ اِس کا ذکر قرآن حکیم نے یوں کیا ہے :
وَ اَمَّا بِنِعْمَة رَبِّکَ فَحَدِّثْo
’’اور اپنے رب کی نعمتوں کا (خوب) تذکرہ کریںo‘‘
الضحیٰ، 93 : 11
گزشتہ صفحات میں بیان کردہ آیاتِ قرآنی میں ذکرِ نعمت کا حکم ہے جس سے مراد ہے کہ نعمت کو دل سے یاد رکھا جائے اور زبان سے اس کا چرچا کیا جائے لیکن وہ ذکر لوگوں کے لیے نہیں بلکہ اﷲ کے لیے ہو۔ مذکورہ بالا آیت میں تحدیثِ نعمت یعنی کھلے بندوں اس نعمت کا تذکرہ کرنے کا حکم دیا گیا جس کا مفہوم یہ ہے کہ مخلوقِ خدا کے سامنے نعمت کا خوب چرچا کیا جائے۔ چنانچہ ذکر اور تحدیثِ نعمت میں بنیادی فرق یہ ہوا کہ ذکر اللہ کے لیے ہوتا ہے جب کہ تحدیث کا تعلق زیادہ تر مخلوق کے ساتھ ہے یعنی لوگوں میں چرچا کرنا۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ہے :
فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ وَاشْكُرُواْ لِي وَلاَ تَكْفُرُونِO
’’سو تم مجھے یاد کیا کرو میں تمہیں یاد رکھوں گا اور میرا شکر ادا کیا کرو اور (میری نعمتوں کا) اِنکار نہ کیا کروo‘‘
البقره، 2 : 152
یہاں ذکر سے مراد اللہ کو یاد کرنا ہے، لیکن تحدیثِ نعمت سے مراد ہے کہ خالی ذکر ہی پر اکتفا نہ کیا جائے بلکہ اس نعمت کا ایسا اظہار کیا جائے کہ اسے خلقِ خدا بھی سنے، اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کے درمیان کیا جائے جو کہ منشائے الٰہی ہے۔
تحدیثِ نعمت کے بیان میں سب سے بڑی حکمت یہ ہے کہ نعمتِ خداوندی کے نزول کا علم زیادہ سے زیادہ خلقِ خدا تک پہنچے اور لوگ کثرت کے ساتھ اس ادائے شکر میں شریک ہوں۔ لہٰذا اب ذکر اور تحدیث میں دوسرا بڑا اور واضح فرق یہ ہوا کہ ذکر تنہا شکر بجا لا کر بھی ہوسکتا ہے مگر تحدیثِ نعمت کا تقاضا ہے کہ اسے بڑے بڑے جلسوں اور اجتماعات میں خلقِ خدا تک پہنچایا جائے۔ اس کے شکرانے کے لیے اس کی نعمت کے شایانِ شان عظیم محافل و مجالس اور اجتماعات کا اہتمام کیا جائے اور ان محافل میں اس نعمتِ کبریٰ کا تذکرہ کیا جائے۔
’’تحدیثِ نعمت‘‘ کیسے کی جائے؟
قابلِ توجہ نکتہ یہ ہے کہ جب اُمتِ مسلمہ اپنے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت جیسی عظیم ترین نعمت کے صلہ میں تحدیثِ نعمت کے فریضہ سے عہدہ برآ ہوگی تو تذکارِ نعمت میں کبھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نعت پڑھی جائے گی، کبھی صلوٰۃ و سلام کا نذرانہ پیش کیا جائے گا، کبھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فضائل و شمائل کا ذکر ہوگا، کبھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت کی بات ہو گی اور کبھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسنِ سیرت کا ذکر چھیڑا جائے گا۔ کوئی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن صورت اور دل رُبا اداؤں کا تذکرہ کرے گا اور کوئی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیاری پیاری اور کریمانہ عادات مبارکہ بیان کرے گا۔ یہ سب چیزیں وَأَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ کی تفسیر میں ہیں اور اس نعمت کبریٰ کی یاد کی مختلف صورتیں ہیں جو ذکرِ نعمت کے ذیل میں آتی ہیں۔ اگر تھوڑا سا بھی غور کر لیا جائے تو تمام محافلِ میلاد کی عام صورت حال یہی ہوتی ہے اور ان ہی چیزوں کے بیان کو ان محافل میں خصوصی اہمیت دی جاتی ہے۔
یہاں اگر کسی کے ذہن میں یہ خیال پیدا ہو کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذکر میلاد میں ان کا ذکر کس طرح کیا جائے، اس کی حدود و قیود کیا ہونی چاہئیں اور افراط و تفریط سے بچتے ہوئے ہم حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یاد میں ان کی مدح سرائی کس طرح کریں؟ تو ان تمام التباسات کے جواب میں نعت گویانِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اِمام، قافلہ عشق کے سرخیل امام شرف الدین بوصیری (608۔ 696ھ) نے چند اشعار میں بڑے صاف اور واضح انداز میں اس سلسلے میں پیش آمدہ ذہنی اشکالات کا کافی و شافی جواب دیا ہے۔ آپ فرماتے ہیں :

1. دع ما ادعَتْه النصاري في نبيّهم
واحکم بما شئت مدحًا فيه واحتکم

2. فانسب إلي ذاته ما شئت من شرف
وانسب إلي قدره ما شئت من عِظم

3. فإن فضل رسول اﷲ ليس له
حدٌّ فيعرب عنه ناطقٌ بفم
امام بوصیری رحمۃ اللہ علیہ یہاں ایک احتیاط کا ذکر کر رہے ہیں کہ
1۔ ’’نصاریٰ (عیسائیوں) نے اپنے نبی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں جو کچھ دعویٰ الوہیت کیا ہے (اور انہیں خدا کا بیٹا وغیرہ بنا کر غلو اور کفر کا ارتکاب کیا ہے) وہ چھوڑ دو۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعریف میں ایسے خطرناک غلو اور زیادتی سے بچتے ہوئے جو کچھ تمہار ا جی چاہے کہو اور پورے یقین اور اذعان کے ساتھ سرکارِ دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوب مدح سرائی کیا کرو۔
2۔ ’’پس ذاتِ اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بزرگی اور بڑائی کا اظہار کرو اور جن جن عظمتوں کو چاہو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات گرامی کے بلند مرتبہ سے منسوب کرو۔
3۔ ’’کیوں کہ بے شک سرکار رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فضل و شرف اور بزرگیء مرتبہ کی کوئی حد و نہایت ہی نہیں کہ کوئی مدح کرنے والا اسے بیان کر سکے۔‘‘
بنا بریں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یاد میں اُن کی تعریف و نعت ہر طرح سے جائز و مستحسن ہے۔ تاہم مقامِ اُلوہیت اورمقامِ نبوت میں حفظِ مراتب کا خیال رکھنا بہرحال فرض اور شرطِ ایمان ہے۔
(4) جشنِ عید
ذکرِ نعمت اور تحدیثِ نعمت کے علاوہ اﷲ کی نعمتوں اور اس کی عنایات کریمانہ پر شکر کے اظہار کا ایک طریقہ اور صورت یہ بھی ہے کہ اس خوشی و مسرت کا اِظہار جشن اور عید کے طور پر کیا جائے۔ پہلی امتوں کا بھی ادائے شکر کے حوالے سے یہی وطیرہ تھا، جس کا ذکر گزشتہ اَوراق میں ہو چکا ہے۔ اور یہ سنتِ انبیاء ہے کہ جس دن اﷲ کی کوئی خاص نعمت میسر آئے اس دن کو بطور عید منایا جائے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اﷲ رب العزت کی بارگاہ میں یوں ملتجی ہوتے ہیں :
رَبَّنَا أَنزِلْ عَلَيْنَا مَآئِدَةً مِّنَ السَّمَاءِ تَكُونُ لَنَا عِيداً لِّأَوَّلِنَا وَآخِرِنَا.
’’اے اﷲ! اے ہمارے رب! ہم پر آسمان سے خوانِ (نعمت) نازل فرما دے کہ (اس کے اترنے کا دن) ہمارے لیے عید ہوجائے، ہمارے اگلوں کے لیے (بھی) اور ہمارے پچھلوں کے لیے (بھی)۔‘‘
المائده، 5 : 114
یہ بات ذہن میں رہے کہ یہاں مائدہ جیسی عارضی نعمت کے حصول پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام عید منانے کا ذکر کرتے ہیں چنانچہ اسی کے پیش نظر عیسائی لوگ آج تک اتوار کے دن اس نعمت کے حصول پر بطور شکرانہ عید مناتے ہیں۔
نزولِ مائدہ کی نعمت کو ہمارے آقا و مولا حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت مبارکہ کے ساتھ کیا نسبت ہو سکتی ہے ؟ کہاں وہ ایک عارضی خوانِ نعمت اور کہاں وہ دائمی اور ابدالاباد بلکہ دونوں جہانوں میں جاری رہنے والی نعمت جو حضور رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صورت میں نوعِ انسانی کو نصیب ہوئی! ان دونوں کا آپس میں تقابل و موازنہ کیا ہی نہیں جاسکتا۔ ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ ہم اس ابدی و دائمی نعمت پر کماحقہ اظہار تشکر کر رہے ہیں یا نہیں۔
یہاں نزولِ مائدہ اور ولادتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں تقابل قطعاً مقصود نہیں، سردست ایک تاریخی حقیقت پر مبنی اہم اور توجہ طلب پہلو کی طرف اشارہ کیا جا رہا ہے۔ عیسائی اُس وقت سے لے کر آج تک اتوار کے روز یہ خوشی مناتے چلے آئے ہیں کیوں کہ اتوار کے دن ہی ان پر مائدہ کی نعمت اتری تھی۔ سابقہ امتیں تو مائدہ جیسی نعمت کے شکرانے پر عیدیں مناتی رہی ہیں جس کا ذکر قران نے بھی محفوظ رکھا ہے کیوں کہ یہ بھی رضائے الٰہی کے حصول کی ایک صورت ہے اور سنت انبیاء ہے۔ تو جب عمومی نعمتوں کے حصول اور ان کے نزول پر عید منانا انبیاء علیہم السلام کی سنت اور اﷲ کے حکم کی پیروی قرار پائی تو پھر میلادِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جیسی نعمتِ عظمیٰ کے حصول پر۔ کہ جس کے توسط سے کائنات ہست و بود کو ساری نعمتیں عطا ہوئی ہیں۔ یہ امت عید اور جشن کیوں نہ منائے۔
تفصیلات سے یہ اَمر بخوبی واضح ہوجاتا ہے کہ جشنِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منانا نصِ قرآن سے ثابت ہے۔ اِس پر کسی قسم کا اِعتراض و اِبہام پیدا کرنا قرآنی تعلیمات سے عدم آگہی کے مترادف ہے۔ ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد پر خوشی منانے کے جائز اور مسات  اِس خوشی میں دل و جان سے شریک ہوکر اُلوہی نعمتوں اور نبوی فیوضسے سیراب ہوا جائے

جشنِ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اَحادیث سے اِستدلال

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عالمِ انسانیت کے لیے اللہ تعالیٰ کا فضل، رحمت اور اِحسانِ عظیم ہیں۔ اُمتِ مسلمہ پر واجب ہے کہ وہ اس نعمتِ عظمیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لائے کیوں کہ شکر اللہ تعالیٰ کو بہت محبوب ہے اور کسی عطا پر اس کا شکر بجا لانا سنتِ انبیاء ہے جیسا کہ احادیثِ صومِ عاشورہ سے واضح ہے۔ اِظہارِ تشکر کے کئی طریقے ہیں : انفرادی طور پر بندہ رب کریم کا شکر ادا کرنے کے لیے نفلی عبادات اور خیرات و عطیات کو ذریعہ اظہار بناتا ہے مگر جو فضل و احسان امت پر اجتماعی سطح پر ہوا ہو اس کا اظہارِ تشکر بھی اجتماعی طریقے سے کیا جاتا ہے۔ چوں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت و بعثت پور ی کائناتِ انسانی پر اللہ تعالیٰ کا احسانِ عظیم اور فضل عمیم ہے اس لیے اس نعمتِ عظمیٰ پر اﷲ عزوجل کا شکر اجتماعی طور پر ادا کرنا واجب ہے۔ اور جو عمل اجتماعی نوعیت کا ہو اس کی ہیئت ترکیبی کی بنیاد معاشرتی تہذیب و ثقافت پر رکھی جاتی ہے۔ یومِ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ثقافتی طور پر عید کی طرح جوش و جذبے سے جشن کے انداز میں منایا جاتا ہے۔ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موقع پر جشن منانے کی تہذیبی تاریخ مختلف معاشروں کے طریقہ ہائے اظہارِ تشکر پر مبنی ہے اور اس کا اِستدلال سابقہ امتوں کے مماثل رویوں سے منسلک ہے۔ درج ذیل مطالعہ اس سلسلہ کی ایک کڑی ہے جس میں احادیثِ یومِ عاشورہ سے جشنِ میلادِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اِستدلال پیش کیا جا رہا ہے :
(1) یومِ موسیٰ علیہ السلام منانے سے اِستدلال
یوم عاشورہ وہ ہے جس دن اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فتح عطا کی اور فرعون کو اس کے لاؤ لشکر سمیت غرقِ نیل کر دیا۔ یوں بنی اِسرائیل کو فرعون کے جبر و استبداد سے نجات ملی۔ چناں چہ یہ دن حضرت موسی علیہ السلام کی فتح کا دن بھی تھا اور قوم بنی اسرائیل کی آزادی کاد ن بھی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لاتے ہوئے اس دن روزہ رکھا۔
جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ منورہ ہجرت فرمائی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہودِ مدینہ کو یومِ عاشورہ کا روزہ رکھتے دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے روزہ رکھنے کی وجہ دریافت فرما ئی تو انہوں نے مذکورہ بالا وجہ بیان کی۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : (ایک نبی ہونے کی حیثیت سے) میرا موسیٰ پر زیادہ حق ہے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو عطا ہونے والی نعمتِ خداوندی پر اِظہارِ تشکر کے طور پر خود بھی روزہ رکھا اور اپنے تمام صحابہ کو بھی روزہ رکھنے کا حکم فرمایا۔ یوم عاشورہ کے روزہ کے حوالے سے چند روایات درج ذیل ہیں :
1۔ حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنھما بیان کرتے ہیں :
قدم النبي صلي الله عليه وآله وسلم المدينة، فرأي اليهود تصوم يوم عاشوراء، فقال : ما هذا؟ قالوا : هذا يوم صالح، هذا يوم نَجَّي اﷲ بني إسرائيل من عدوهم، فصامه موسي. قال : فأنا أحق بموسي منکم. فصامه وأمر بصيامه.
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب مدینہ تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیکھا کہ یہودی یوم عاشورہ (دس محرم) کا روزہ رکھتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے اس دن روزہ رکھنے کا سبب دریافت فرمایا تو انہوں نے جواب دیا : یہ دن (ہمارے لیے) متبرک ہے۔ یہ وہ مبارک دن ہے جس دن اﷲ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو ان کے دشمن (فرعون) سے نجات دلائی (یہ ہمارا یوم آزادی اور یوم نجات ہے)۔ پس حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس دن روزہ رکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم سے زیادہ موسیٰ کا حق دار میں ہوں۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس دن روزہ رکھا اور (صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو بھی) اس دن روزہ رکھنے کا حکم فرمایا۔‘‘

1. بخاري، الصحيح، کتاب الصوم، باب صيام يوم عاشوراء، 2 : 704، رقم : 1900
2. احمد بن حنبل، المسند، 1 : 291، رقم : 2644
3. ابو يعليٰ، المسند، 4 : 441، رقم : 2567
4. ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 1 : 92
2۔ ایک اور طرُق سے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما سے مروی اسی حدیث کے الفاظ درج ذیل ہیں :
لما قدم النبي صلي الله عليه وآله وسلم المدينة. وجد اليهود يصومون عاشوراء، فَسُئِلوا عن ذلک، فقالوا : هذا اليوم الذي أظفر اﷲ فيه موسي وبني إسرائيل علي فرعون، ونحن نصومه تعظيما له، فقال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : نحن أولي بموسي منکم. ثم أمر بصومه.
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب مدینہ تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیکھا کہ یہودی یوم عاشورہ (دس محرم) کا روزہ رکھتے ہیں۔ پس ان سے اس کی بابت دریافت کیا گیا تو انہوں نے کہا : اس دن اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کو فرعون پر غلبہ ونصرت عطا فرمائی تو ہم اس عظیم کامیابی کی تعظیم و تکریم بجا لانے کے لیے اس دن روزہ رکھتے ہیں، (یہ ہمارا یومِ فتح ہے)۔ اس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہم تم سے زیادہ موسیٰ کے حق دار ہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے روزہ رکھنے کا حکم دیا۔‘‘

1. بخاري، الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب إتيان اليهود النبي صلي الله عليه وآله وسلم حين قدم المدينة، 3 : 1434، رقم : 3727
2. مسلم، الصحيح، کتاب الصيام، باب صوم يوم عاشوراء، 2 : 795، رقم : 1130
3. ابوداؤد، السنن، کتاب الصوم، باب في صوم يوم عاشوراء، 2 : 326، رقم : 2444
3۔ ایک روایت میں یہودیوں کا جواب اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان اِس طرح منقول ہے :
فقالوا : هذا يوم عظيم، أنجي اﷲ فيه موسي وقومه، وغرق فرعون وقومه. فصامه موسي شکرا، فنحن نصومه. فقال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : فنحن أحق وأولي بموسي منکم. فصامه رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ، وأمر بصيامه.
’’انہوں نے کہا : یہ بہت عظیم دن ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس میں موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کو نجات عطا کی جب کہ فرعون اور اس کی قوم کو غرق کیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے شکرانے کے طور پر اُسی دن روزہ رکھا، لہٰذا ہم بھی روزہ رکھتے ہیں۔ اس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تمہاری نسبت ہم موسیٰ کے زیادہ حق دار اور قریبی ہیں۔ پس اس دن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود بھی روزہ رکھا اور (صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو بھی) اس دن روزہ رکھنے کا حکم فرمایا۔‘‘

1. مسلم، الصحيح، کتاب الصيام، باب صوم يوم عاشوراء، 2 : 796، رقم : 1130
2. بخاري، الصحيح، کتاب الأنبياء، باب قول اﷲ تعالي : وهل أتاک حديث موسي، 3 : 1244، رقم : 3216
3. ابن ماجة، السنن، کتاب الصيام، باب صيام يوم عاشوراء، 1 : 552، رقم : 1734
4. أحمد بن حنبل، المسند، 1 : 336، رقم : 3112
مذکورہ بالاروایات سے معلوم ہوا کہ بنی اسرائیل فرعون کے جبر و اِستبداد کا شکار تھے جس کی وجہ سے اﷲ کے دین کی پیروی ان کے لیے مشکل تھی۔ لیکن سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی جہدِ مسلسل کے نتیجے میں وہ حسین دن بھی طلوع ہوا جب بنی اسرائیل دریائے نیل پار کر گئے اور ان کے تعاقب میں آنے والا فرعون اپنے لشکر سمیت اِسی دریا میں غرق ہوگیا۔ اس طرح بنی اسرائیل کو ظلم و استبداد سے نجات اور آزادی ملی۔ فتح و آزادی کی یہ نعمت اﷲ کا فضل اور اس کی رحمت تھی۔ چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اﷲ کا شکر ادا کرتے ہوئے روزہ رکھا اور بنی اسرائیل نے بھی روزہ رکھا۔ وہ اس دن کو یوم نجات اور یوم آزادی کے طور پر آج تک منا رہے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نسبت سے اس دن کو روزہ رکھ کر منایا اور مسلمانوں کو بھی اس کا حکم دیا۔ اِمام طحاوی (229. 321ھ) فرماتے ہیں کہ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے موسی علیہ السلام کے فرعون پر غلبہ پا لینے پر اﷲ تعالیٰ کا شکر بجا لانے کے لیے روزہ رکھا۔
طحاوي، شرح معاني الآثار، کتاب الصوم، باب صوم يوم عاشوراء، 2 : 132، رقم : 3209
یہاں قابلِ غور نکتہ یہ ہے کہ اگر یہود اپنے پیغمبر کی فتح اور اپنی آزادی و نجات کا دن قابلِ تعظیم سمجھ کر اسے منانے کا حق رکھتے ہیں تو مسلمان اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یومِ میلاد قابلِ تعظیم سمجھ کر اُسے منانے کا بہ درجہ اَتم حق رکھتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاتم الانبیاء اور سید المرسلین و الانبیاء ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کا فضل اور رحمت بن کر پوری انسانیت کو آزادی عطا کرنے اور ہر ظلم و نااِنصافی سے نجات دلانے کے لیے تشریف لائے۔ ارشادِ ربانی ہے :
وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالْأَغْلاَلَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ.
’’اور (یہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) اُن سے اُن کے بارِ گراں اور طوقِ (قیود) جو اُن پر (نافرمانیوں کے باعث مسلط) تھے، ساقط فرماتے ( اور اُنہیں نعمتِ آزادی سے بہرہ یاب کرتے) ہیں۔‘‘
الأعراف، 7 : 157
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دنیا میں تشریف آوری مظلوم انسانیت کے لیے نجات اور آزادی کی نوید تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت وہ حسین ترین لمحہ تھا جس کی خوشی پوری کائنات میں منائی گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت ایک مومن کی زندگی کی سب سے بڑی خوشی ہے۔ اﷲ رب العزت نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کو امت کے لیے بہت بڑے احسان سے تعبیر فرمایا ہے۔ وہ دن جس میں سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثتِ مبارکہ سے عالم انسانیت کو نواز گیا سب کے لیے تعظیم و تکریم کامستحق ہے۔ ظہورِ قدسی کا وہ عظیم ترین دن اس قابل ہے کہ ہم اس دن عطائے نعمتِ عظمی پر سراپا تشکر بن جائیں، اس کی تعظیم کے لیے اپنے دیدہ و دل فرش راہ کر دیں اور اِسے ہر ممکن جائز طریقے سے والہانہ احترام اور عقیدت و محبت کے جذبات میں ڈوب کرجشن کی صورت میں خوب دھوم دھام سے منائیں۔
(2) حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خود نسبتِ موسیٰ علیہ السلام کے سبب سے دن منانا
مذکورہ بالا اَحادیث سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا میلاد منانے کی ایک اور دلیل بھی اَخذ ہوتی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نسبت سے اِس دن کو منایا اور روزہ رکھا۔ اس سے کسی عظیم دن کو منانے کا جواز خود سنتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مل رہا ہے۔ اور اہلِ ایمان کے لیے یومِ میلادِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بڑھ کر اور کون سا دن عظیم ہوسکتا ہے! لہٰذا یومِ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منانا بھی اِتباعِ سنتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمرے میں آتا ہے۔
(3) یہود یومِ عاشورہ یومِ عید کے طور پر مناتے تھے
بعض ذہنوں میں یہ سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ یہود اپنا یومِ آزادی یعنی عاشورہ کا دن روزہ رکھ کر مناتے تھے، جب کہ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دن یومِ عید کے طور پر منایا جاتا ہے، لیکن اس دن روزہ نہیں رکھا جاتا؟
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ کسی مبارک دن کو یومِ مسرت کے طور پر منانا سنت ہے اور اس کو دائرۂ شریعت میں رہتے ہوئے کسی بھی شکل میں منایا جا سکتا ہے۔ اگر یہود یومِ عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ یوم شکرانہ منانے کو صرف روزہ رکھنے کے عمل تک محدود کرلیا جائے اور اس دن کو روزہ رکھنے کے سوا کسی اور طریقے سے نہ منایا جائے۔ احادیثِ مذکورہ میں اس امر کی طرف کوئی اشارہ موجود نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہود اس خوشی کے موقع پر روزہ ایک اضافی نیک عمل کے طور پر رکھتے تھے اور وہ یہ دن بہ طور عید مناتے تھے۔
قبل اَز اِسلام عرب معاشرہ میں یومِ عاشورہ کے موقع پر عید منائی جاتی تھی۔ اگرچہ عربوں کا اس دن عید منانا مختلف وجوہات کی بنا پر تھا۔ (1) جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہجرت کے بعدمدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیکھا کہ یہودی بھی اس دن صرف روزہ نہیں رکھتے بلکہ عید بھی مناتے تھے، جیسا کہ درج ذیل احادیث سے ثابت ہے :
(1) اِس کی تفصیلات آئندہ صفحات میں آئیں گی۔
1۔ اِمام بخاری (194۔ 256ھ) الصحیح میں روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
کان يوم عاشوراء تَعُدُّه اليهود عيدًا، قال النبي صلي الله عليه وآله وسلم : فصوموه أنتم.
’’یوم عاشورہ کو یہود یومِ عید شمار کرتے تھے، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (مسلمانوں کو حکم دیتے ہوئے) فرمایا : تم ضرور اس دن روزہ رکھا کرو۔‘‘
بخاري، الصحيح، کتاب الصوم، باب صيام يوم عاشوراء، 2 : 704، 705، رقم : 1901
2۔ اِمام مسلم (206۔ 261ھ) نے بھی الصحیح میں حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے حدیث روایت کی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں :
کان يوم عاشوراء يوما تعظّمه اليهود، وتتّخذه عيدًا، فقال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : صوموه أنتم.
’’یہود یوم عاشورہ کی تعظیم کرتے تھے اور اسے عید کے طور پر مناتے تھے۔ پس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (مسلمانوں کو) حکم دیا کہ تم بھی اس دن روزہ رکھو۔‘‘

1. مسلم، الصحيح، 2، 796، کتاب الصيام، باب صيام يوم عاشوراء، رقم : 1131
2. نسائي، السنن الکبري، 2 : 159، رقم : 2848
3. طحاوي، شرح معاني الآثار، کتاب الصوم، باب صوم يوم عاشوراء، 2 : 133، رقم : 3217
4. بيهقي، السنن الکبري، 4 : 289، رقم : 8197
اِمام طحاوی (229۔ 321ھ) اِس حدیث کے ذیل میں فرماتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یومِ عاشورہ کا روزہ رکھنے کا حکم صرف اِس لیے دیا تھا کہ یہود اس دن روزہ رکھتے تھے۔
3۔ اِمام مسلم (206. 261ھ) نے الصحیح میں حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے درج ذیل الفاظ کے ساتھ ایک اور حدیث بھی روایت کی ہے :
کان أهل خيبر يصومون يوم عاشوراء، يتّخذونه عيدًا، ويُلْبِسُوْنَ نساء هم فيه حُلِيَّهمْ وشَارَتَهُمْ. فقال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : فصوموه أنتم.
’’اہلِ خیبر یوم عاشورہ کا روزہ رکھتے اور اسے عید کے طور پر مناتے تھے۔ اس دن وہ اپنی عورتوں کو خوب زیورات پہناتے اور ان کا بناؤ سنگھار کرتے۔ پس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (مسلمانوں سے) فرمایا : تم بھی اس دن روزہ رکھا کرو۔‘‘

1. مسلم، الصحيح، کتاب الصيام، باب صيام يوم عاشوراء، 2 : 796، رقم : 1131
2. ابو نعيم، المسند المستخرج علي صحيح الإمام مسلم، 3 : 212، رقم : 2575
3. إسماعيلي، معجم شيوخ أبي بکر الإسماعيلي، 3 : 722، رقم : 337
4. عسقلاني، فتح الباري، 4 : 248
اِمام بخاری (194۔ 256ھ) اور اِمام مسلم (206۔ 261ھ) کی مذکورہ بالا روایات سے مستنبط ہوتا ہے کہ :
1۔ یومِ عاشورہ یہودیوں کے لیے یومِ نجات اور یومِ کامیابی تھا۔ وہ عرصہ قدیم سے من حیث القوم اِسے یومِ عید کے طور پر شایانِ شان طریقے سے مناتے چلے آرہے تھے۔
2۔ عید کا دن اُن کے لیے یومِ تعظیم تھا، وہ اس کا احترام کرتے اور بطور شکر و اِمتنان ایک اِضافی عمل کے طور پر اس دن روزہ بھی رکھتے تھے۔
3۔ یہ دن صرف روزہ رکھنے پر ہی موقوف نہ تھا بلکہ روزہ رکھنا محض ایک اِضافی عمل تھا جو اس دن انجام دیا جاتا تھا۔
4۔ اِس حوالے سے اگر آج کوئی عید میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں اِعتراض کرے اور کہے کہ روزہ کے بغیر عید میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جشن منانا جائز نہیں، تو یہ درست نہیں اور نہ ہی ایسا اِستدلال احادیث کی روشنی میں ممکن ہے۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بخوبی جانتے تھے کہ یومِ عاشورہ یہودیوں کے نزدیک یومِ عید ہے، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے عید منانے پر کوئی سوال نہیں کیا بلکہ ان کے روزہ رکھنے کے بارے میں اِستفسار فرمایا تو انہوں نے۔ ’’تعظیماً لہ‘‘ اور ’’شکراً لہ‘‘ کہہ کر بہ طور تعظیم و تشکر روزہ رکھنے کی توجیہ بیان کی۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود بھی اس دن روزہ رکھا اور اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو بھی اس کی تلقین فرمائی۔
(4) عید میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر حافظ عسقلانی کا اِستدلال
حافظ ابن حجر عسقلانی (773۔ 852ھ) نے مذکورہ بالا اَحادیثِ مبارکہ سے عید میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اِستدلال کرتے ہوئے اُس دن کی شرعی حیثیت کو واضح طور پر متحقق کیا ہے اور اس سے یوم میلادِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منانے کی اِباحت پر دلیل قائم کی ہے۔ حافظ اِبن حجر عسقلانی کا اِستدلال نقل کرتے ہوئے اِمام جلال الدین سیوطی (849۔ 911ھ) لکھتے ہیں :
وقد سئل شيخ الإسلام حافظ العصر أبوالفضل ابن حجر عن عمل المولد، فأجاب بما نصه : قال :
وقد ظهر لي تخريجها علي أصل ثابت، وهو ما ثبت في الصحيحين من : ’’أن النبي صلي الله عليه وآله وسلم قدم المدينة، فوجد اليهود يصومون يوم عاشوراء، فسألهم، فقالوا : هو يوم أغرق اﷲ فيه فرعون، ونجّي موسي، فنحن نصومه شکرًا ﷲ تعالي.
فيستفاد منه فعل الشکر ﷲ تعالي علي ما منَّ به في يوم معيّن من إسداء نعمة، أو دفع نقمة، ويعاد ذلک في نظير ذلک اليوم من کل سنة.
والشکر ﷲ تعالي يحصل بأنواع العبادات کالسجود والصيام والصدقة والتلاوة، وأيّ نعمة أعظم من النعمة ببروز هذا النبي صلي الله عليه وآله وسلم الذي هو نبي الرحمة في ذلک اليوم.

1. سيوطي، حسن المقصد في عمل المولد : 63
2. سيوطي، الحاوي للفتاوي : 205، 206
3. صالحي، سبل الهديٰ والرشاد في سيرة خير العباد صلي الله عليه وآله وسلم ، 1 : 366
4. زرقاني، شرح المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، 1 : 263
5. احمد بن زيني دحلان، السيرة النبوية، 1 : 54
6. نبهاني، حجة اﷲ علي العالمين في معجزات سيد المرسلين صلي الله عليه وآله وسلم : 237
’’شیخ الاسلام حافظ العصر ابو الفضل ابن حجر سے میلاد شریف کے عمل کے حوالہ سے پوچھا گیا تو آپ نے اس کا جواب کچھ یوں دیا :
’’مجھے میلاد شریف کے بارے میں اصل تخریج کا پتہ چلا ہے۔ ’’صحیحین‘‘ سے ثابت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہود کو عاشورہ کے دن روزہ رکھتے ہوئے پایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے پوچھا : ایسا کیوں کرتے ہو؟ اس پر وہ عرض کناں ہوئے کہ اس دن اﷲ تعالیٰ نے فرعون کو غرق کیا اور موسیٰ علیہ السلام کو نجات دی، سو ہم اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں شکر بجا لانے کے لیے اس دن کا روزہ رکھتے ہیں۔
’’اس حدیث مبارکہ سے ثابت ہوا کہ اﷲ تعالیٰ کی طرف سے کسی اِحسان و اِنعام کے عطا ہونے یا کسی مصیبت کے ٹل جانے پر کسی معین دن میں اﷲ تعالیٰ کا شکر بجا لانا اور ہر سال اس دن کی یاد تازہ کرنا مناسب تر ہے۔
’’اﷲ تعالیٰ کا شکر نماز و سجدہ، روزہ، صدقہ اور تلاوتِ قرآن و دیگر عبادات کے ذریعہ بجا لایا جا سکتا ہے اور حضور نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت سے بڑھ کر اﷲ کی نعمتوں میں سے کون سی نعمت ہے؟ اس لیے اس دن ضرور شکرانہ بجا لانا چاہیے۔‘‘
جشنِ میلاد کی بابت پوچھے گئے سوال کا جواب دیتے ہوئے حافظ عسقلانی (773۔ 852ھ) نے میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منانے کی بنیاد ان اَحادیث کو بنایا ہے جو ’’صحیحین‘‘ میں متفقہ طور پر روایت ہوئیں۔ ان احادیث میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم بنی اسرائیل کو ملنے والی عظیم نعمت اور فتح پر اِظہارِ تشکر کرنے اور اس دن کو عید کے طور پر منانے کی تائید و توثیق فرماتے ہوئے اس عمل کو اپنی سنت کا درجہ دے دیا۔ جب رسولِ معظم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس دنیا میں تشریف لائے، کیا اس دن سے زیادہ کوئی اور بڑی نعمت ہوسکتی ہے؟ پھر کیا وجہ ہے کہ یومِ میلادِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عید کے طور پر نہ منایا جائے! حافظ ابن حجر عسقلانی (773۔ 852ھ) کے موقف کی تائید اِمام سیوطی (849۔ 911ھ) نے ’’الحاوی للفتاوی (ص : 205، 206)‘‘ میں کی ہے۔ حافظ عسقلانی نے صومِ عاشورہ سے جو اِستدلال کیا ہے اس میں باوجود اس کے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی کامیابی گزشتہ زمانہ کے معین یومِ عاشورہ کو ہوئی تھی مگر پورے سال میں صرف اسی روز کو یہ فضیلت حاصل ہے کہ اس نعمت کا شکر ہر سال اسی روز ادا کیا جائے۔ اس سے ثابت ہے کہ گو یہ واقعہ کا اعادہ نہیں مگر اس کی برکت کا اِعادہ ضرور ہوتا ہے جس پر دلیل یہ ہے کہ ہر پیر کے روز ابو لہب کے لیے میلاد کی برکت کا اعادہ ہوتا ہے۔
ماہِ رمضان المبارک کے روزوں کی فرضیت سے قبل عاشورہ کے روزے مسلمانوں پر واجب تھے۔ (1) جب ماہ رمضان المبارک کے روزے فرض ہوئے تو ان کا وجوب منسوخ ہوگیا۔ (2) بعض ذہنوں میں یہ اِشکال پیدا ہوتا ہے کہ صومِ عاشورہ کا وجوب تو منسوخ ہوگیا ہے اس لیے اس کی فضیلت باقی نہیں رہی۔ اس کا پہلاجواب یہ ہے کہ رمضان المبارک کے روزوں کی فرضیت کے بعد اب کسی روزہ کی فرضیت نہیں، لیکن اس سے صومِ عاشورہ کی حِلّت میں کوئی فرق نہیں آیا۔ اس لیے کہ اس روزہ کے حکم وجوبیت کی منسوخی کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ نحن لسنا احق بموسیٰ منکم (ہم تم سے زیادہ موسیٰ علیہ السلام کے حق دار نہیں) جس طرح روزہ رکھتے وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نحن احق بموسیٰ منکم (ہم تم سے زیادہ موسیٰ علیہ السلام کے حق دار ہیں) فرمایا تھا، حالاں کہ موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ گزرے ایک زمانہ بیت چکا تھا۔

1. طحاوي، شرح معاني الآثار، باب صوم يوم عاشوراء، 2 : 129. 132
2. عيني، عمدة القاري شرح صحيح البخاري، 11 : 120
(2) اِمام بخاری (194۔ 256ھ) الصحیح میں روایت کرتے ہیں کہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنھا فرماتی ہیں :
کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم أمر بصيام يوم عاشوراء، فلما فُرض رمضان، کان من شاء صام ومن شاء أفطر.
’’رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یومِ عاشورہ کا روزہ رکھنے کا حکم فرمایا کرتے تھے، تاہم جب ماہِ رمضان کے روزے فرض ہوگئے تو جو چاہتا یہ روزہ رکھ لیتا اور جو چاہتا نہ رکھتا۔‘‘
بخاري، الصحيح، کتاب الصوم، باب صيام يوم عاشوراء، 2 : 704، رقم : 1897، 1898
صومِ عاشورہ کا وجوب منسوخ ہونے کے باوجود اَحادیث میں اس کے فضائل وارد ہیں۔ اس دن کے روزے کی جو فضیلت پہلے تھی وہ اب بھی ہے، اور یہ بات مسلمہ ہے کہ فضائل منسوخ نہیں ہو سکتے۔ اس لیے صومِ عاشورہ کی منسوخی کا حافظ ابن حجر عسقلانی (773۔ 852ھ) کے اِستدلال پر کوئی اثر نہیں۔ اگر بالفرض یہ تسلیم بھی کر لیا جائے کہ اس روزہ کی فضیلت بھی منسوخ ہوگئی تو پھر بھی جشنِ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے اِس سے اِستدلال پر فرق نہیں پڑتا۔ اس لیے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زیادہ خوشی لامحالہ اُن لوگوں کو ہوگی جنہیں اُمتِ موسوی کے افراد ہونے کا دعویٰ تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اس روزہ سے صرف اُمت کو یہ توجہ دلانا مقصود معلوم ہوتا ہے کہ جب ہم ایک نبی کی فتح پر شکر ادا کرتے ہیں تو تمہیں بھی ہماری ولادت کی بے حد خوشی کرنی چاہیے۔ مگر طبعِ غیور کو صراحتاً یہ فرمانا گوارا نہ تھا کہ ہمارے میلاد کے روز تم لوگ روزہ رکھا کرو، بلکہ خود ہی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پیر کے روز ہمیشہ روزہ رکھا کرتے تھے۔ اور اس کی وجہ اس وقت تک نہیں بتائی جب تک کسی نے پوچھا نہیں۔ اس لیے کہ بغیر اِستفسار کے بیان کرنا بھی طبعِ غیور کے مناسبِ حال نہ تھا۔
2. یومِ نوح علیہ السلام کی یاد منانے سے اِستدلال
امام احمد بن حنبل (164۔ 241ھ) اور حافظ ابن حجر عسقلانی (773۔ 852ھ) نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ایک حدیث روایت کی ہے جس میں یومِ عاشورہ منانے کا یہ پہلو بھی بیان ہوا ہے کہ عاشورہ حضرت نوح علیہ السلام اور آپ کے ساتھیوں پر اﷲ تعالیٰ کے فضل و انعام کا دن تھا۔ اس روز وہ بہ حفاظت جودی پہاڑ پر لنگر انداز ہوئے تھے۔ اِس پر حضرت نوح علیہ السلام کی جماعت اس دن کو یوم تشکر کے طور پر منانے لگی، اور یہ دن بعد میں آنے والوں کے لیے باعثِ اِحترام بن گیا۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب یہود سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یوم عاشورہ کا روزہ رکھنے کے بارے میں دریافت فرمایا تو انہوں نے بنی اسرائیل کی آزادی اور فرعون کی غرقابی کا ذکر کرنے کے بعد کہا :
وهذا يوم استَوَتْ فيه السفينة علي الجُودِي، فصامه نوح وموسي شکرًا ﷲ تعالي.
’’اور یہ وہ دن ہے جس میں جودی پہاڑ پر کشتی ٹھہری تو حضرت نوح اورموسی علیھما السلام نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے روزہ رکھا۔‘‘
اِس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
أنا أحق بموسي، وأحق بصوم هذا اليوم.
’’میں موسیٰ کا زیادہ حق دار ہوں اور میں اس دن روزہ رکھنے کا زیادہ حق رکھتا ہوں۔‘‘

1. أحمد بن حنبل، المسند، 2 : 359، 360، رقم : 8702
2. عسقلاني، فتح الباري، 4 : 247
پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو بھی اُس دن روزہ رکھنے کا حکم دیا۔
آدمِ ثانی حضرت نوح علیہ السلام کے حوالے سے یوم عاشورہ کی اہمیت دوچند ہو جاتی ہے۔ حضرت نوح علیہ السلام اور ان کی جماعتِ مومنین کی بقاء دراصل عالم انسانیت کی بقاء اور فروغِ نسلِ اِنسانی کی بنیاد کا درجہ رکھتی ہے۔ اس دن کو آپ کی قوم نے یاد رکھا اور بارگاہِ خداوندی میں ہمیشہ اس کا شکر ادا کیا۔ اس سے یہ اصول سامنے آیا کہ ہر وہ واقعہ جس سے مومنین کی اِجتماعی نجات، آزادی اور بقاء وابستہ ہے اس پر اِظہارِ تشکر اور اِظہارِ مسرت و اِنبساط اِسلامی تہذیب کی علامت رہی ہے۔ لہٰذا سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت کا مبارک دن بھی اَبد تک اہلِ ایمان کے لیے یومِ عید ہے۔
3. غلافِ کعبہ کا دن عید کے طور پر منائے جانے سے اِستدلال
دورِ جاہلیت میں قریشِ مکہ یوم عاشورہ کا روزہ رکھتے اور اس دن کو عید کے طور پر مناتے تھے۔ ہجرت سے قبل حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی اِس دن روزہ رکھا۔ وہ اس دن کو اس وجہ سے مناتے اور اس کا احترام و تعظیم کرتے کہ اس دن کعبۃ اللہ پر پہلی مرتبہ غلاف چڑھایا گیا تھا۔ یہی وہ خاص پس منظر تھا جس کی وجہ سے ہجرت کے بعد آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہودیوں سے عاشورہ کے دن روزہ رکھنے کی وجہ دریافت فرمائی۔
1۔ اِمام بخاری (194۔ 256ھ) الصحیح میں روایت کرتے ہیں کہ اُم المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنھا فرماتی ہیں :
کان يوم عاشوراء تصومه قريش في الجاهلية، وکان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يصومه.
’’زمانۂ جاہلیت میں قریش عاشورہ کا روزہ رکھا کرتے تھے، اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی یہ روزہ رکھتے تھے۔‘‘

1. بخاري، الصحيح، کتاب الصوم، باب صيام يوم عاشوراء، 2 : 704، رقم : 1898
2. بخاري، الصحيح، کتاب المناقب، باب أيام الجاهلية، 3 : 1393، رقم : 3619
3. مسلم، الصحيح، کتاب الصيام، باب صوم يوم عاشوراء، 2 : 792، رقم : 1125
4. ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب الصوم، باب ما جاء في الرخصة في ترک صوم يوم عاشوراء، 3 : 127، رقم : 753
جب پہلی دفعہ زمانۂ جاہلیت میں کعبہ کو غلاف سے ڈھانپا گیا تو یہ دس محرم کا دن تھا۔ اُس وقت سے مکہ کے لوگوں کا یہ معمول رہا کہ وہ ہر سال اسی دن روزہ رکھتے اور یہ ان کے لیے عید کا دن ہوتا تھا۔ ان کا یہ معمول حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت سعیدہ کے بعد بھی جاری رہا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود بھی کعبہ پر غلاف چڑھانے کے دن روزہ رکھنے کا معمول اپنایا۔ کعبہ پر غلاف چڑھانے کو ’’کسوۃ الکعبۃ‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
2۔ اِمام بخاری (194. 256ھ) الصحیح میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنھا سے ہی روایت کرتے ہیں :
کانوا يصومون عاشوراء قبل أن يُفرض رمضان، وکان يوما تستر فيه الکعبة، فلما فرض اﷲ رمضان، قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : من شاء أن يصومه فليصمه، ومن شاء أن يترکه فليترکه.
’’اہلِ عرب رمضان کے روزے فرض ہونے سے قبل یوم عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے اور (اس کی وجہ یہ ہے کہ) اس دن کعبہ پر غلاف چڑھایا جاتا تھا۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے رمضان کے روزے فرض کر دیے تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم میں سے جو اس دن روزہ رکھنا چاہے وہ روزہ رکھ لے، اور جو ترک کرنا چاہے وہ ترک کر دے۔‘‘

1. بخاري، الصحيح، کتاب الحج، باب قول اﷲ : جعل اﷲ الکعبة البيت الحرام، 2 : 578، رقم : 1515
2. طبراني، المعجم الأوسط، 7 : 278، رقم : 7495
3. بيهقي، السنن الکبري، 5 : 159، رقم 9513
4. ابن عبد البر، التمهيد لما في الموطا من المعاني والأسانيد، 7 : 204
حافظ ابن حجر عسقلانی (773۔ 852ھ) درج بالا حدیث پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
فإنه يفيد أن الجاهلية کانوا يعظّمون الکعبة قديمًا بالستور ويقومون بها.
’’اس سے ثابت ہوتا ہے کہ زمانۂ جاہلیت سے ہی وہ کعبہ پر غلاف چڑھا کر اس کی تعظیم کرتے تھے، اور یہ معمول وہ قائم رکھے ہوئے تھے۔‘‘
عسقلاني، فتح الباري، 3 : 455
حافظ ابن حجر عسقلانی (773۔ 852ھ) ایک اور مقام پر قریش کے اس دن روزہ رکھنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
أما صيام قريش لعاشوراء فلعلهم تلقّوه من الشرع السالف، ولهذا کانوا يعظّمونه بکسوة الکعبة فيه.
’’یومِ عاشورہ کو قریش کا روزہ رکھنے کا سبب یہ تھا کہ شاید اُنہوں نے گزشتہ شریعت سے اس کو پایا ہو، اور اِسی لیے وہ اس دن کی تعظیم کعبہ پر غلاف چڑھا کر کیا کرتے تھے۔‘‘
عسقلاني، فتح الباري، 4 : 246
ہر سال کعبہ پر غلاف چڑھانے کا دن منانے پر امام طبرانی (260۔ 360ھ) ’’المعجم الکبیر (5 : 138، رقم : 4876)‘‘ میں حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے درجِ ذیل قول نقل کر تے ہیں :
ليس يوم عاشوراء باليوم الذي يقوله الناس، إنما کان يوم تستر فيه الکعبة وکان يدور في السنة.
’’یومِ عاشورہ سے مراد وہ دن نہیں جو عام طور پر لیا جاتا ہے، بلکہ یہ وہ دن ہے جس میں کعبہ کو غلاف چڑھانے کی رسم کا آغاز ہوا۔ اسی سبب ہر سال اس کی تجدید ہوتی ہے اور اس دن کو منانے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔‘‘

1. هيثمي، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، 3 : 187
2. عسقلاني، فتح الباري، 4 : 248
3. عسقلاني، فتح الباري، 7 : 276
کعبہ پر غلاف چڑھانے کے دن کا اِحترام بعض لوگوں کے لیے باعثِ خلجان بنتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ کعبہ کو غلاف چڑھا دینے کے بعد معاملہ اپنے انجام کو پہنچا۔ لیکن ہر سال اس دن کی تعظیم اور خود حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اس دن کا احترام کرنا چہ معنیٰ دارد؟ اسی طرح بعض لوگ کہتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت چودہ سو سال قبل ہوئی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت ہوئی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بحیثیتِ رسولِ خدا لوگوں کو قرآن و سنت کی تعلیم دی۔ یہ معاملہ بہ خیر انجام پایا۔ اب ہر سال آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے یومِ ولادت کے موقع پر محافل میلاد کے اِنعقاد اور جشنِ عید کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ کیا اتنا کافی نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت اور تعلیمات کی پیروی کی جائے؟
یہ اور اس قبیل کے دوسرے سوالات کے جواب سے پہلے ہر اہل ایمان پر لازم ہے کہ وہ رسول معظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقامِ رسالت سے آگاہ رہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقصدِ بعثت سے اپنے ذہن کو روشن رکھے۔ نزولِ قرآن اور تشکیلِ اُسوئہ حسنہ کی اَہمیت سے اپنے زاویۂ نگاہ کو منور کرے اور عالم اسلام کے وجود میں آنے کے مراحل کو اپنی سوچوں کا محور بنائے۔ پھر اسے میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تقریبات کے بارے میں تمام سوالوں کا جواب مل جائے گا۔ کعبہ کو غلاف چڑھانے کا دن ہر سال آتا تو اہلِ عرب ہمیشہ اس دن کا کعبہ کی وجہ سے اِکرام کرتے جس کے باعث یہ باقاعدہ سالانہ تعظیم و تکریم کا دن بن گیا اور اسے مستقلاً منایا جانے لگا۔ یہی وجہ ہے کہ ولادتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اگرچہ ایک عرصہ گزر گیا ہے لیکن اس دن کے بار بار آنے سے اس کی تعظیم یا اس پر فرحت کا اظہار ایسے ہی ضروری ہے جیسے کہ ابو لہب نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے اپنی لونڈی ثویبہ کو آزاد کر دیا تھا اور ہر پیر کو اس کے عذاب میں تخفیف ہوتی ہے۔ خود حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی اِس عمل کو جاری رکھا۔ پس ولادتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک عرصہ گزر جانے کے بعد بھی یومِ ولادت کو منانا اور اس پر اِظہارِ مسرت و فرحت کرنا نہ صرف درست ہے بلکہ یہ عمل کسی دن کو منانے کی سنتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہے۔
4. اَلْيَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِيْنَکُمْ کا یومِ نزولِ عید کے طور پر منانا
جب سورۃ المائدہ کی تیسری آیت. (الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ)۔ نازل ہوئی تو یہودی اِسے عام طور پر زیرِبحث لاتے ہوئے مسلمانوں کے ساتھ مکالمہ کرتے تھے۔ درج ذیل حدیث میں اسی حوالہ سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور ایک یہودی کا مکالمہ بیان کیا گیا ہے اور اِس سے میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دن بہ طورِ عید منانے پر اِستشہاد کیا گیا ہے :
1۔ اِمام بخاری (194۔ 256ھ) الصحیح میں روایت کرتے ہیں :
عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه : إن رجلا من اليهود قال له : يا أمير المومنين! آية في کتابکم تقرؤونها، لو علينا معشر اليهود نزلت، لاتّخذنا ذلک اليوم عيدًا، قال : أي آية؟ قال : (اَلْيَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِيْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْکُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِيْناً) قال عمر : قد عرفنا ذلک اليوم، والمکان الذي نزلت فيه علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم ، وهو قائم بعرفة يوم جمعة.
’’حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : ایک یہودی نے اُن سے کہا : اے امیر المومنین! آپ اپنی کتاب میں ایک ایسی آیت پڑھتے ہیں کہ اگر وہ آیت ہم گروہِ یہود پر اُترتی تو ہم اس کے نزول کا دن عید بنا لیتے۔ آپ نے پوچھا : کون سی آیت؟ اس نے کہا : (آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو (بہ طورِ) دین (یعنی مکمل نظامِ حیات کی حیثیت سے) پسند کر لیا)۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : جس دن اور جس جگہ یہ آیت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوئی ہم اس کو پہچانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُس وقت جمعہ کے دن عرفات کے مقام پر کھڑے تھے۔‘‘

1. بخاري، الصحيح، کتاب الإيمان، باب زيادة الإيمان ونقصانه، 1 : 25، رقم : 45
2. بخاري، الصحيح، کتاب المغازي، باب حجة الوداع، 4 : 1600، رقم : 4145
3. بخاري، الصحيح، کتاب تفسير القرآن، باب قوله : اليوم أکملت لکم دينکم، 4 : 1683، رقم : 4330
4. بخاري، الصحيح، کتاب الاعتصام بالکتاب والسنة، 6 : 2653، رقم : 6840
5. مسلم، الصحيح، کتاب التفسير، 4 : 2313، رقم : 3017
6. ترمذي، الجامع الصحيح، أبواب تفسير القرآن، باب من سورة المائدة، 5 : 250، رقم : 3043
7. نسائي، السنن، کتاب الإيمان، باب زيادة الإيمان، 8 : 114، رقم : 5012
اِس حدیث میں قابلِ غور نکتہ یہ ہے کہ یہودی نے سوال کیا کہ اگر تکمیلِ دین کی یہ آیت ہم پر اترتی تو ہم اس کے نزول کا دن عید کے طور پر مناتے، آپ ایسا کیوں نہیں کرتے؟ اُنہیں مغالطہ تھا کہ شاید مسلمان اِسے عام دن کے طور پر ہی لیتے ہیں۔ یہاں جواب بھی اسی نوعیت کا ہونا چاہیے تھا، مگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرمانے لگے :
قد عرفنا ذلک اليوم، والمکان الذي نزلت فيه.
’’ہم اُس دن اور مقام کو خوب پہچانتے ہیں جہاں یہ آیت کریمہ نازل ہوئی۔‘‘
وہ دن جمعہ اور حج کا تھا اور وہ جگہ جہاں آیت کا نزول ہوا عرفات کا میدان تھا۔ ظاہراً سوال اور جواب کے مابین کوئی ربط اور مطابقت دکھائی نہیں دیتی لیکن درحقیقت حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا جواب سوال کے عین مطابق ہے۔ آپ صنے عرفہ اور یوم الجمعہ کے الفاظ سے ہی اس کا مکمل جواب دے دیا اور اشارۃً بتا دیا کہ یومِ حج اور یوم جمعہ دونوں ہمارے ہاں عید کے دن ہیں۔ ہم انہیں سالانہ اور ہفتہ وار عید کے طور پر مناتے ہیں۔ پس یہودی کا اس جواب سے خاموش رہنا اور دوبارہ سوال نہ کرنا بھی اس اَمر پر دلالت کرتا ہے کہ وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی وضاحت کے بعد لاجواب ہو کر رہ گیا تھا۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے جواب کو مکمل وضاحت قرار دیتے ہوئے حافظ ابنِ حجر عسقلانی (773۔ 852ھ) تبصرہ کرتے ہیں :
عندي أن هذه الرواية اکتفي فيها بالإشارة.
’’میرے نزدیک اس روایت میں اِشارہ کرنے پر ہی اِکتفا کیا گیا ہے۔‘‘
عسقلاني، فتح الباري، 1 : 105، رقم : 45
2۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے جواب کی تصریح حضرت کعب اَحبار رضی اللہ عنہ کی روایت سے بھی ہوتی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ میں نے عمربن خطاب رضی اللہ عنہ سے کہا کہ میں ایسی قوم کو جانتا ہوں کہ اگر ان پر یہ آیت نازل ہوتی تو وہ اسے عید کے طور پر مناتے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : کون سی آیت ؟ میں نے کہا :
اَلْيَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِيْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْکُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنا.
’’آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لیے اِسلام کو (بہ طور) دین (یعنی مکمل نظامِ حیات کی حیثیت سے) پسند کر لیا۔‘‘
المائدة، 5 : 3
اِس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
إني لأعرف في أي يوم أنزلت : (اَلْيَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِيْنَکُمْ)، يوم جمعة ويوم عرفة، وهما لنا عيدان.
’’میں پہچانتاہوں کہ کس دن الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ نازل ہوئی : جمعہ اور عرفات کے دن، اور وہ دونوں دن (پہلے سے) ہی ہمارے عید کے دن ہیں۔‘‘

1. طبراني، المعجم الأوسط، 1 : 253، رقم : 830
2. عسقلاني، فتح الباري، 1 : 105، رقم : 45
3. ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 2 : 14
مذکورہ بالا روایات ثابت کرتی ہیں کہ یہودی کا نظریہ درست تھا۔ اِسی لیے اُس کی توثیق کی گئی ورنہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اُسی وقت اس کی تردید کر دیتے اور فرماتے کہ شریعت نے ہمارے لیے عید کے دن مقرر کر کھے ہیں، لہٰذا ہم اس دن کو بہ طورِ عید نہیں منا سکتے۔ بہ اَلفاظِ دیگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہودی کو باور کرایا کہ اگر یہ دن تمہارے نصیب میں ہوتا تو تم اس دن ایک عید مناتے مگر ہم تو یومِ عرفہ اور یومِ جمعہ دو عیدیں مناتے ہیں۔
3. اس معنی کی تائید کتب حدیث میں مذکور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما کے اس واقعہ سے بھی ہوتی ہے جسے حضرت عمار بن اَبی عمار رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما نے آیت۔ (الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلاَمَ دِينًا)۔ تلاوت کی تو آپ کے پاس ایک یہودی کھڑا تھا۔ اس نے کہا :
لو أنزلت هذه علينا لاتّخذنا يومها عيدًا.
’’اگر یہ آیت ہم پر نازل ہوتی تو ہم اس کے نزول کا دن عید کے طور پر مناتے۔‘‘
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما نے فرمایا :
فإنها نزلت في يوم عيدين : في يوم الجمعة ويوم عرفة.
’’بے شک یہ آیت دو عیدوں یعنی جمعہ اور عرفہ (حج) کے دن نازل ہوئی۔‘‘

1. ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب تفسير القرآن، باب من سورة المائدة، 5 : 250، رقم : 3044
2. طبراني، المعجم الکبير، 12 : 184، رقم : 12835
3. طبري، جامع البيان في تفسير القرآن، 6 : 82
4. مروزي، تعظيم قدر الصلاة، 1 : 352، رقم : 354
5. ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 2 : 14
6. ابن موسي حنفي، معتصر المختصر، 2 : 169
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنھما نے یہودی کا قول ردّ نہیں کیا بلکہ اس کی تائید کرتے ہوئے فرمایا کہ اس آیت کا نزول جمعہ اور عرفہ (حج) کے دن ہوا جنہیں مسلمان پہلے ہی عیدوں کے طور پر مناتے ہیں۔
اِن اَحادیث سے اِس اَمر کی تائید ہوتی ہے کہ نزولِ نعمت کے دن کو بطور عید منانا جائز ہے۔ جس طرح تکمیلِ دین کی آیت کا یومِ نزول روزِ عید ٹھہرا، اسی طرح وہ دن جب حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود دنیا میں تشریف لائے اور جن کے صدقے ہمیں صرف یہ آیت نہیں بلکہ مکمل قرآن جیسی نعمت عطا ہوئی اس دن کو بطور عید کیوں نہیں منایا جا سکتا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ عید میلاد منانا اَصل حلاوتِ ایمان ہے مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ حبِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایمان کی بنیاد تسلیم کیا جائے ورنہ یہ حقیقت سمجھ میں نہیں آسکتی۔ وہ ذات اقدس جن کے صدقے تمام عالم کو عیدیں نصیب ہوئیں، ان کا جشنِ میلاد منانے کے لیے دل میں گنجائش نہ ہونا کون سی کیفیتِ ایمان کی نشان دہی کرتا ہے؟ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہونے والی سورۃ المائدۃ کی یہ آیت بہت بڑی خوش خبری اور بشارت کی آئینہ دار تھی۔ جس دن اس آیت کا نزول ہوا وہ دن عید الجمعہ اور عید الحج کی خوشیاں لے کر طلوع ہوا۔ لہٰذا اہلِ ایمان کے لیے یہ نکتہ سمجھ لینا کچھ مشکل نہیں کہ جس مبارک دن نبی آخر الزماں حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت مبارکہ ہوئی وہ سب عیدوں سے بڑی عید کا دن ہے۔ جمہور اہلِ اِسلام محافلِ میلاد کے ذریعے اپنی دلی مسرت کا اظہار اور بارگاہ ایزدی میں اس نعمتِ اَبدی کے حصول پر ہدیۂ شکر بجا لاتے ہیں۔ اس دن اظہارِ مسرت و انبساط عینِ ایمان ہے۔ جمہور اُمتِ مسلمہ مداومت سے اس معمول پر عمل پیرا ہے اور رسول محتشم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یومِ ولادت ’’12 ربیع الاول‘‘ ہر سال بڑے تزک و احتشام سے عید کے طور پر مناتی ہے۔
بعض لوگ اِعتراض کرتے ہیں کہ عید الفطر اور عید الاضحی کے سوا کسی دن کے لیے عید کا لفظ استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ ہم یہی سوال حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنھما کی طرف لے جاتے ہیں کہ کیا عید الفطر اور عید الاضحی کے سوا کسی دن کے لیے عید کا لفظ استعمال کر سکتے ہیں یا نہیں؟ ان کی طرف سے جواب آتا ہے :
فإنها نزلت في يوم عيدين : في يوم الجمعة ويوم عرفة.
’’بے شک یہ آیت دو عیدوں یعنی جمعہ اور عرفہ (حج) کے دن نازل ہوئی۔‘‘
اِس جواب پر یہ اعتراض بھی کیا جا سکتا ہے کہ یومِ عرفہ تو عید الاضحی کا دن ہے۔ ہمارا جواب یہ ہے کہ حضرت عمر اور حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اللہ عنھم نے یوم جمعہ کو بھی یومِ عید قرار دیا ہے۔ اور اگر ان اَجل صحابہ کے قول کے مطابق جمعہ کا دن عید ہو سکتا ہے تو پھر میلادِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دن عید کیوں نہیں ہو سکتا؟ بلکہ وہ تو عید الاعیاد (عیدوں کی عید) ہے کہ اُن صاحبِ لولاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صدقہ اور وسیلہ سے پوری نسلِ اِنسانی کو قرآن حکیم جیسے بے مثل صحیفۂ آسمانی اور ہدایتِ ربانی سے فیض یاب ہونے کا موقع ملا۔
5. فضیلتِ جمعہ کا سبب یومِ تخلیقِ آدم علیہ السلام ہے
جمعہ کے دن کی خاص اَہمیت اور فضیلت کی بناء پر اسے سید الایام کہا گیا ہے۔ اس دن غسل کرنا، صاف ستھرے یا نئے کپڑے پہننا، خوشبو لگانا اور کاروبارِ زندگی چھوڑتے ہوئے مسجد میں اِجتماع عام میں شریک ہونا اُمورِ مسنونہ ہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس دن زیادہ سے زیادہ درود شریف پڑھنے کا بھی حکم دیا ہے۔
حضرت اَوس بن اَوس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
إن من أفضل أيامکم يوم الجمعة، فيه خلق آدم، وفيه قبض، وفيه النفخة، وفيه الصعقة، فأکثروا عليّ من الصلاة فيه، فإن صلاتکم معروضة علي.
’’تمہارے دنوں ميں سب سے افضل دن جمعہ کا ہے، اس دن حضرت آدم علیہ السلام کی ولادت ہوئی (یعنی اس دن حضرت آدم علیہ السلام کی خلقت ہوئی اور آپ کو لباسِ بشریت سے سرفراز کیا گیا)، اس روز اُن کی روح قبض کی گئی، اور اِسی روز صور پھونکا جائے گا۔ پس اس روز کثرت سے مجھ پر درود شریف بھیجا کرو، بے شک تمہارا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے۔‘‘

1. أبو داؤد، السنن، کتاب الصلاة، باب تفريع أبواب الجمعة وفضل يوم الجمعة وليلة الجمعة، 1 : 275، رقم : 1047
2. أبو داؤد، السنن، أبواب الوتر، باب في الاستغفار، 2 : 88، رقم : 1531
3. ابن ماجه، السنن، کتاب إقامة الصلاة والسنة فيها، باب في فضل الجمعة، 1 : 345، رقم : 1085
4. نسائي، السنن، کتاب الجمعة، باب إکثار الصلاة علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم يوم الجمعة، 3 : 91، رقم : 1375
5. نسائي، السنن الکبري، باب الأمر بإکثار الصلاة علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم يوم الجمعة، 1 : 519، رقم : 1666
6. دارمي، السنن، 1 : 445، رقم : 1572
7. ابن ابي شيبة، المصنف، 2 : 253، رقم : 8697
8. طبراني، المعجم الکبير، 1 : 216، رقم : 589
9. بيهقي، السنن الکبري، 3 : 248، رقم : 5789
10. بيهقي، السنن الصغري، 1 : 372، رقم : 634
11. هيثمي، موارد الظمان إلي زوائد ابن حبان، 1 : 146، رقم : 550
جمعۃ المبارک عید کا دن ہے، اِس پر کبار محدثین کرام نے اپنی کتب میں درج ذیل احادیث بیان کی ہیں :
1۔ اِبن ماجہ (209۔ 273ھ) حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
إن هذا يوم عيد، جعله اﷲ للمسلمين، فمن جاء إلي الجمعة فليغتسل، وإن کان طيب فليمس منه، وعليکم بالسواک.
’’بے شک یہ عید کا دن ہے جسے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لیے بنایا ہے۔ پس جو کوئی جمعہ کی نماز کے لیے آئے تو غسل کر کے آئے، اور اگر ہوسکے تو خوشبو لگا کر آئے۔ اور تم پر مسواک کرنا لازمی ہے۔‘‘

1. ابن ماجه، السنن، کتاب إقامة الصلٰوة، باب في الزينة يوم الجمعة، 1 : 349، رقم : 1098
2. طبراني، المعجم الأوسط، 7 : 230، رقم : 7355
3. منذري، الترغيب والترهيب من الحديث الشريف، 1 : 286، رقم : 1058
2۔ احمد بن حنبل (164۔ 241ھ) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
إن يوم الجمعة يوم عيد، فلا تجعلوا يوم عيدکم يوم صيامکم إلا أن تصوموا قبله أو بعده.
’’بے شک یومِ جمعہ عید کا دن ہے، پس تم اپنے عید کے دن کو یومِ صیام (روزوں کا دن) مت بناؤ مگر یہ کہ تم اس سے قبل (جمعرات) یا اس کے بعد (ہفتہ) کے دن کا روزہ رکھو (پھر جمعہ کے دن روزہ رکھنے کی اجازت ہے ورنہ نہیں)۔‘‘

1. أحمد بن حنبل، المسند، 2 : 303، 532، رقم : 8012، 10903
2. ابن خزيمه، الصحيح، 3 : 315، 318، رقم : 2161، 2166
3. ابن راهويه، المسند، 1 : 451، رقم : 524
4. حاکم، المستدرک علي الصحيحين، 1 : 603، رقم : 1595
4. اِبن حبان (270۔ 354ھ) روایت کرتے ہیں کہ ابو اوبر بیان کرتے ہیں :
کنت قاعدًا عند أبي هريرة إذ جاء ه رجل فقال : إنک نهيت الناس عن صيام يوم الجمعة؟ قال : ما نهيت الناس أن يصوموا يوم الجمعة، ولکني سمعت رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يقول : لاتصوموا يوم الجمعة، فإنه يوم عيد إلا أن تصلوه بأيام.
’’میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ ایک شخص نے اُن کے پاس آ کر کہا : آپ نے لوگوں کو جمعہ کے دن روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے؟ آپ نے فرمایا : میں نے لوگوں کو جمعہ کے دن روزہ رکھنے سے نہیں روکا بلکہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا : تم جمعہ کے دن روزہ نہ رکھو کیوں کہ یہ عید کا دن ہے، سوائے اس کے کہ تم اس کو اور دنوں کے ساتھ ملا کر (روزہ) رکھو۔‘‘
ابن حبان، الصحيح، 8 : 375، رقم : 3610
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ فضیلتِ جمعہ کا سبب کیا ہے اور اسے کس لیے سب دنوں کا سردار اور یومِ عید قرار دیا گیا؟ اس سوال کا جواب گزشتہ صفحات میں بیان کی گئی حدیث مبارکہ میں موجود ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس دن کی فضیلت کا سبب بیان کرتے ہوئے فرمایا :
فيه خلق آدم.
’’(یوم جمعہ) آدم کے میلاد کا دن ہے (یعنی اس دن آدم علیہ السلام کی خلقت ہوئی اور آپ کو لباسِ بشریت سے سرفراز کیا گیا)۔‘‘
جمعہ کے دن ابو البشر حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق ہوئی جس کی بناء پر اِسے یوم عید کہا گیا ہے اور اس دن کی تکریم کی جاتی ہے۔ اگر یوم الجمعہ حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش کے باعث عزت و اِحترام کے ساتھ منائے جانے کا حق دار ہو سکتا ہے تو یومِ میلادِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پیغمبر آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت کی بناء پر عید الاعیاد (تمام عیدوں کی عید) کے طور پر اسلامی کیلنڈر کی زینت کیوں نہیں بن سکتا۔ اب کوئی کہے کے میلادِ آدم علیہ السلام کی تقریب کا اہتمام اس لیے کیا گیا کہ ان کی تخلیق معروف طریقے سے عمل میں نہیں آئی۔ لیکن اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا کیوں کہ بنیادی نکتہ یہ ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق جمعہ کے دن ہوئی۔ لہذا یوم الجمعہ کو یوم العید بنا دیا گیا کہ یہ بنی نوع انسان کے جد اَمجد اور پہلے نبی کا یومِ تخلیق ہے۔ اِسی بناء پر وجہ تخلیقِ کائنات اور تمام انبیاء کے سردار سیدنا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یومِ ولادت تمام عیدوں کی عید ہے۔
روزِ جمعہ کا اِہتمام برائے محفلِ درود و سلام
جمعۃ المبارک کے سلسلہ میں کیے جانے والے تمام تر اِنتظامات وہ ہیں جو میلاد کے حوالہ سے بھی کیے جاتے ہیں، مثلاً غسل کرنا، خوشبو لگانا، ایک جگہ جمع ہونا، کاروبار ترک کرنا اور مسجد میں حاضری دینا۔ ان کے علاوہ بھی بعض امور کا تذکرہ کتب حدیث میں موجود ہے۔ جمعہ کے دن یہ سارا اہتمام درحقیقت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر زیادہ سے زیادہ درود و سلام بھیجنے کے حوالہ سے ہے اور اس دن کو کثرتِ درود و سلام کے لیے اس لیے چنا گیا کہ یہ حضرت آدم علیہ السلام کا یومِ میلاد ہے۔ جیسا کہ گزشتہ صفحات میں بیان کیا گیا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشادگرامی ہے :
فأکثروا عليّ من الصلاة فيه.
’’پس اس روز کثرت سے مجھ پر درود شریف بھیجا کرو۔‘‘
اِس دن عاشقانِ رسول درود شریف کا اِجتماعی ورد کرتے ہیں اور اس دن محفل میلاد اور محفلِ صلوٰۃ و سلام کا زیادہ سے زیادہ اہتمام کیا جاتا ہے۔ سو یہ دن جہاں ایک طرف میلادِ سیدنا آدم علیہ السلام کے لیے خاص ہے تو دوسری طرف درود و سلام کے ذکر کی نسبت سے میلادِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے بھی ہے۔ اس طرح بہ یک وقت یہ دن جدماجد اور فرزند اَمجد دونوں کے لیے اِظہارِ مسرت کا مژدہ بردار بن گیاہے۔
حدیث مبارکہ میں یہ بھی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے عرض کیا :
يا رسول اﷲ! وَکيف تعرض صلاتنا عليک وقد أرمت؟
’’یا رسول اللہ! ہمارا درود آپ کے وصال کے بعد کیسے آپ پر پیش کیا جائے گا؟‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
إن اﷲ عزوجل حرّم علي الأرض أن تأکل أجساد الأنبياء.
’’بے شک اللہ عزوجل نے زمین پر حرام قرار دیا ہے کہ وہ انبیاء کرام کے جسموں کو کھائے۔‘‘

1. أبو داؤد، السنن، کتاب الصلاة، باب تفريع أبواب الجمعة وفضل يوم الجمعة وليلة الجمعة، 1 : 275، رقم : 1047
2. أبو داؤد، السنن، أبواب الوتر، باب في الاستغفار، 2 : 88، رقم : 1531
3. ابن ماجه، السنن، کتاب إقامة الصلاة والسنة فيها، باب في فضل الجمعة، 1 : 345، رقم : 1085
4. نسائي، السنن، کتاب الجمعة، باب إکثار الصلاة علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم يوم الجمعة، 3 : 91، رقم : 1375
5. نسائي، السنن الکبري، باب الأمر بإکثار الصلاة علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم يوم الجمعة، 1 : 519، رقم : 1666
6. دارمي، السنن، 1 : 445، رقم : 1572
7. ابن ابي شيبة، المصنف، 2 : 253، رقم : 8697
8. طبراني، المعجم الکبير، 1 : 216، رقم : 589
9. بيهقي، السنن الکبري، 3 : 248، رقم : 5789
10. بيهقي، السنن الصغري، 1 : 372، رقم : 634
11. هيثمي، موارد الظمآن إلي زوائد ابن حبان، 1 : 146، رقم : 550
اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو یہ باور کرانا چاہتے تھے کہ میں اِس دنیا سے ظاہری پردہ فرمانے کے بعد بھی اپنے جسم کے ساتھ زندہ رہوں گا، اور تمہیں چاہیے کہ مجھ پر جمعہ کے دن کثرت کے ساتھ درود و سلام پڑھنا اپنا معمول بنا لو۔
6۔ مقامِ میلادِ عیسیٰ علیہ السلام کی زیارت و اَہمیت
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا سفرِ معراج بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ جبرائیل علیہ السلام نے بیت اللحم کے مقام پر مجھ سے کہا : آپ براق سے اتریے اور نماز پڑھیے۔ میں نے اتر کر نماز ادا کی۔ پس اس نے کہا :
أتدري أين صليت؟ صليت ببيت لحم حيث ولد عيسي عليه السلام.
’’پس اس نے کہا : کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ نے کہاں نماز ادا کی ہے؟ آپ نے بیت اللحم میں نماز ادا کی ہے جہاں عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش ہوئی تھی۔‘‘

1. نسائي، السنن، کتاب الصلاة، باب فرض الصلاة، 1 : 222، رقم : 450
2. طبراني، مسند الشاميين، 1 : 194، رقم : 341
درج ذیل کتب میں یہ حدیث حضرت شداد بن اوس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :

3. بزار، البحر الزخار (المسند)، 8 : 410، رقم : 3484
4. طبراني، المعجم الکبير، 7 : 283، رقم : 7142
5. هيثمي، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، 1 : 73
6. عسقلاني، فتح الباري، 7 : 199
اِس حدیثِ مبارکہ سے معلوم ہوا کہ جس طرح جمعہ کو فضیلت اور تکریم حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق کی وجہ سے ملی۔ جو کہ تعظیمِ زمانی ہے۔ اِسی طرح بیت اللحم کو مولدِ عیسیٰ علیہ السلام ہونے کی وجہ سے تعظیمِ مکانی کا شرف حاصل ہوا۔ اِسی وجہ سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وہاں نماز ادا کرنے کی گزارش کی گئی۔ اِس حدیث شریف سے نبی کی جائے ولادت کی اَہمیت اور تعظیم ثابت ہوتی ہے۔ اِسی لیے عاشقانِ رسول مولد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (وہ مکان جہاں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت ہوئی) کی تعظیم اور زیارت کرتے ہیں۔ اہلِ مکہ کا ایک عرصہ تک معمول رہا ہے کہ وہ اِس مکان سے جشنِ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جلوس نکالا کرتے تھے۔ مزید برآں اگر نبی کی ولادت کسی مکان کو متبرک اور یادگار بنا دیتی ہے اور یہ براہِ راست حدیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہے تو وہ دن اور لمحہ جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت ہوئی واجب التعظیم، یادگار اور یومِ عید کیوں نہ ہوگا۔
7۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یومِ میلاد پر روزہ رکھ کر خود خوشی کا اِظہار فرمایا
جشنِ میلاد کی شرعی حیثیت کے حوالہ سے درج بالا دلائل کے ساتھ ساتھ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود اپنے یومِ ولادت کی بابت بالتخصیص کوئی ہدایت یا تلقین فرمائی ہے؟ اس کا جواب اِثبات میں ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود صحابہ کرام ث کو اپنے یومِ میلاد پر اﷲ تعالیٰ کا شکر بجا لانے کی تلقین فرمائی اور ترغیب دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے میلاد کے دن روزہ رکھ کر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اِظہارِ تشکر و اِمتنان فرماتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ عمل مبارک درج ذیل روایات سے ثابت ہے :
اِمام مسلم (206. 261ھ) اپنی الصحیح میں روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابو قتادہ انصاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :
أن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم سُئل عن صوم يوم الإثنين؟ قال : ذاک يوم ولدت فيه ويوم بعثت أو أنزل عليّ فيه.
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پیر کے دن روزہ رکھنے کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اسی روز میری ولادت ہوئی اور اسی روز میری بعثت ہوئی اور اسی روز میرے اوپر قرآن نازل کیا گیا۔‘‘

1. مسلم، الصحيح، کتاب الصيام، باب استحبابِ صيام ثلٰثة أيام من کل شهر، 2 : 819، رقم : 1162
2. بيهقي، السنن الکبري، 4 : 286، رقم : 38182
درج ذیل کتب میں ’’انزلت عليّ فیہ النبوۃ (اسی روز مجھے نبوت سے سرفراز کیا گیا)‘‘ کے الفاظ ہیں :

3. نسائی، السنن الکبری، 2 : 146، رقم : 2777
4. أحمد بن حنبل، المسند، 5 : 296، 297، رقم : 22590، 22594
5. عبد الرزاق، المصنف، 4 : 296، رقم : 7865
6. أبويعلي، المسند، 1 : 134، رقم : 144
7. بيهقي، السنن الکبري، 4 : 300، رقم : 8259
پیر کے دن کی پہلی خصوصیت یہ ہے کہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت مبارکہ کا دن ہے۔ بنا بریں یہ دن شرعی طور پر خصوصی اَہمیت و فضیلت اور معنویت کا حامل ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود روزہ رکھ کر اس دن اظہارِ تشکر فرماتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ عمل امت کے لیے اِظہارِ مسرت کی سنت کا درجہ رکھتا ہے۔ آج بھی حرمین شریفین میں بالخصوص اور دنیا بھر میں بالعموم اہلِ محبت و تصوف پیر کے دن روزہ رکھنے کی سنت پر باقاعدگی سے عمل کرتے ہیں۔
اِسلام میں ولادت کے دن کو خاص اَہمیت حاصل ہے۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ اسلام میں یومِ ولادت کا کوئی تصور نہیں، انہیں علمِ شریعت سے صحیح آگہی نہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمان . کہ ’’یہ میری ولادت کا دن ہے‘‘. اِسلام میں یوم ولادت کے تصور کی نشان دہی کرتا ہے۔ قرآنِ حکیم انبیاء علیھم السلام کے ایامِ میلاد بیان کرتا ہے۔ اِس کی تفصیل گزشتہ اَبواب میں بیان ہوچکی ہے، جس سے واضح ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اپنے پیغمبر کے یوم ولادت کی کیا قدر و منزلت ہے۔ اگر اِس تناظر میں دیکھا جائے تو یومِ میلادِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مقام و مرتبہ سب سے اَرفع و اَعلیٰ ہے۔ یہ دن منانے کے مختلف طریقے ہیں جو قرآن و سنت سے ثابت ہیں۔ جیسے مذکورہ بالا حدیث سے عبادات کی ایک قسم روزہ رکھنا ثابت ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ اﷲ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رضا کے حصول کے لیے صدقہ و خیرات کرنا، کھانا کھلانا، شکر بجا لانا اور خوشی منانا میلاد منانے کی مختلف صورتیں ہیں۔ ہم گزشتہ باب میں شکر بجا لانے کی مختلف صورتوں کے ذیل میں اس پر بحث کر چکے ہیں۔
8. حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا میلاد بکرے ذبح کر کے منایا
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود اپنا میلاد منایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کا شکر بجالاتے ہوئے اپنی ولادت کی خوشی میں بکرے ذبح کیے اور ضیافت کا اہتمام فرمایا۔
1۔ بیہقی (384۔ 458ھ) حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں :
إن النبي صلي الله عليه وآله وسلم عقّ عن نفسه بعد النبوة.
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اِعلانِ نبوت کے بعد اپنا عقیقہ کیا۔‘‘

1. بيهقي، السنن الکبري، 9 : 300، رقم : 43
2. مقدسي، الأحاديث المختارة، 5 : 205، رقم : 1833
3. نووي، تهذيب الأسماء واللغات، 2 : 557، رقم : 962
4. عسقلاني، فتح الباري، 9 : 595
5. عسقلاني، تهذيب التهذيب، 5 : 340، رقم : 661
6. مزي، تهذيب الکمال في أسماء الرجال، 16 : 32، رقم : 3523
2۔ ضیاء مقدسی (569۔ 643ھ) حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں :
أن النبي صلي الله عليه وآله وسلم عق عن نفسه بعد ما بُعِثَ نببًاَ
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بعد اَز بعثت اپنا عقیقہ کیا۔‘‘

1. مقدسي، الأحاديث المختارة، 5 : 205، رقم : 1832
2. طبراني، المعجم الأوسط، 1 : 298، رقم : 994
3. روياني، مسند الصحابة، 2 : 386، رقم : 1371
3۔ حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما نے فرمایا :
لمّا ولد النبي صلي الله عليه وآله وسلم عقّ عنه عبد المطلب بکبش.
’’جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت ہوئی تو حضرت عبد المطلب رضی اللہ عنہ نے آپ کی طرف سے ایک مینڈھے کا عقیقہ کیا۔‘‘

1. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 3 : 32
2. حلبي، إنسان العيون في سيرة الأمين المامون، 1 : 128
3. سيوطي، کفاية الطالب اللبيب في خصائص الحبيب، 1 : 134
2۔ حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما ہی سے روایت ہے :
أن عبد المطلب جعل له مأدبة يوم سابعة.
’’بے شک حضرت عبد المطلب نے ساتویں روز آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (کے عقیقہ) کی دعوت کی۔‘‘

1. ابن عبد البر، التمهيد لما في الموطا من المعاني والأسانيد، 21 : 61
2. ابن عبد البر، الاستيعاب في معرفة الأصحاب، 1 : 51
3. ابن حبان، الثقات، 1 : 42
4. قرطبي، الجامع لأحکام القرآن، 2 : 100
5. ابن قيم، زاد المعاد في هدي خير العباد، 1 : 81
اِس میں تو اَئمہ کا اختلاف ہی نہیں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عقیقہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دادا حضرت عبد المطلب رضی اللہ عنہ نے ساتویں دن کیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چالیس سال تک اپنا عقیقہ کیسے مؤخر کر سکتے تھے، کیوں کہ حدیث مبارکہ کی رُو سے جب تک عقیقہ نہ کر دیا جائے بچہ گروی رہتا ہے۔ حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا :
الغلام مُرْتَهَنٌ بعقيقته يُذبَحُ عنه يوم السابع.
’’بچہ اپنے عقیقہ کے باعث گروی رہتا ہے، اس کی طرف سے ساتویں دن ذبح کیا جائے۔‘‘

1. ترمذي، الجامع الصحيح، 4 : 101، کتاب الأضاحي، باب من العقيقة، رقم : 1522
2. أبوداؤد، السنن، 3 : 106، کتاب الضحايا، باب في العقيقة، رقم : 2837
3. ابن ماجه، السنن، 2 : 1056، کتاب الذبائح، باب العقيقة، رقم : 3165
سوال پیدا ہوتا ہے کہ تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی بعثتِ مبارکہ کے بعد کون سا عقیقہ کیا تھا؟ تو اِس کا جواب یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بعثت کے بعد اپنی ولادت اور میلاد کی خوشی و مسرت اور شکرانے میں بکرے ذبح کیے اور اِہتمامِ ضیافت کیا تھا کیونکہ عقیقہ دو (2) بار نہیں ہوتا۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ صرف عقیقہ ہی تھا جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے اعلانِ نبوت کے بعد کیا۔ اگر ہم اسے عقیقہ ہی تصور کریں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ’’عقیقہ‘‘ کیا ہے؟ عقیقہ فی نفسہ ولادت پر اِظہار تشکر و اِمتنان ہے۔ اسے ولادت کی خوشی کی تقریب کہہ لیں یا تقریبِ میلاد، مفہوم ایک ہی ہے کہ ولادت کے موقع پر خوشی منائی جاتی ہے۔
اِمام جلال الدین سیوطی (849۔ 911ھ) نے اپنی کتاب ’’حسن المقصد فی عمل المولد (ص : 64، 65)‘‘ میں حافظ ابن حجر عسقلانی (773. 852ھ) کے دلائل کی تائید میں ایک اور استدلال پیش کیا ہے جو جشنِ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں ایک مضبوط بنیاد فراہم کرتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں :
وظهر لي تخريجه علي أصلٍ آخر، وهو ما أخرجه البيهقي، عن أنس رضي الله عنه أن النبي عق عن نفسه بعد النبوة. مع أنه قد ورد أن جده عبد المطلب عق عنه في سابع ولادته، والعقيقة لا تعاد مرة ثانية، فيحمل ذلک علي أن الذي فعله النبي صلي الله عليه وآله وسلم إظهارًا للشکر علي إيجاد اﷲ تعالي إياه، رحمة للعالمين وتشريفًا لأمته، کما کان يصلي علي نفسه، لذلک فيستحب لنا أيضًا إظهار الشکر بمولده باجتماع الإخوان، وإطعام الطعام، ونحو ذلک من وجوه القربات، وإظهار المسرات.
’’یوم میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منانے کے حوالہ سے ایک اور دلیل مجھ پر ظاہر ہوئی ہے۔ وہ ہے جو امام بیہقی نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اِعلانِ نبوت کے بعدخود اپنا عقیقہ کیا باوُجود اس کے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دادا عبد المطلب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیدائش کے ساتویں روز آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عقیقہ کر چکے تھے۔ اورعقیقہ دو (2) بار نہیں کیا جاتا۔ پس یہ واقعہ اِسی پر محمول کیا جائے گا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے آپ کو اﷲ کی طرف سے رحمۃً للعالمین اور اپنی اُمت کے مشرف ہونے کی وجہ سے اپنی ولادت کی خوشی کے اظہار کے لیے خود عقیقہ کیا۔ اسی طرح ہمارے لیے مستحب ہے کہ ہم بھی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے یومِ ولادت پر خوشی کا اِظہار کریں اور کھانا کھلائیں اور دیگر عبادات بجا لائیں اور خوشی کا اظہار کریں۔‘‘

1. سيوطي، حسن المقصد في عمل المولد : 64، 65
2. سيوطي، الحاوي للفتاوي : 206
3. صالحي، سبل الهدي والرشاد في سيرة خير العباد صلي الله عليه وآله وسلم ، 1 : 367
4. زرقاني، شرح المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، 1 : 263، 264
5. نبهاني، حجة اﷲ علي العٰلمين في معجزات سيد المرسلين صلي الله عليه وآله وسلم : 237
اِمام سیوطی خود ہی سوال اٹھاتے ہیں کہ کیا وہ حقیقتاً ایک عقیقہ ہی تھا، اور پھر خود ہی جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ دراصل وہ عقیقہ نہیں تھا۔ اگرچہ ’’عق عن نفسہ‘‘ کے الفاظ جو ولادت کی خوشی میں شکرانے کے طور پر جانور کی قربانی دینے سے عبارت ہیں۔ تکنیکی اِعتبار سے عقیقہ کے آئینہ دار ہیں تاہم وہ معروف معنوں میں روایتی طور پر عقیقہ نہیں تھا کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عقیقہ آپ کے دادا حضرت عبد المطلب رضی اللہ عنہ آپ کی ولادت کے ایک ہفتہ بعد ہی کر چکے تھے۔ پھر امام سیوطی اپنا شرعی موقف بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ عقیقہ زندگی میں صرف ایک بار ہوتا ہے اور اسے دہرایا نہیں جاتا۔
اگر کوئی کہے کہ ٹھیک ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عقیقہ آپ کے دادا حضرت عبد المطلب کر چکے تھے لیکن عقیقہ کی وہ رسم دورِ جاہلیت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثتِ مبارکہ سے پہلے ادا کی گئی تھی اس لیے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے عقیقہ کا اِعادہ مناسب خیال کیا ہوگا۔ یہ سوچ جاہلانہ ہے۔ اگر دورِ جاہلیت سے متعلق اس نقطہ نظر کو درست مان لیا جائے تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بعثت کے بعد اُم المومنین حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا سے اپنے نکاح کی بھی تجدید کرنی چاہیے تھی۔ عقیقہ تو محض ایک صدقہ ہے جب کہ نکاح عقدِ ازدواج ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نکاح پر مہر کی ادائیگی بھی حضرت ابو طالب نے اپنی جیب سے کی تھی۔ اگر یہ بات درست ہوتی تو نکاح اور مہر کا اعادہ بھی ہونا چاہئے تھا۔ اِس لیے یہ نقطہ نظر درست نہیں کیوں کہ شریعتِ مطہرہ نے دورِ جاہلیت میں کیے گئے جائز کاموں کو سندِ قبولیت عطا کی ہے اور شرعی اَحکام نزولِ وحی کے بعد نافذ کیے گئے۔ جیسے ’’اِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ (سوائے اس کے کہ جو دورِ جہالت میں گزر چکا)‘‘(1) کے تحت تو قبولِ اسلام کے بعد دورِ جاہلیت کے تمام گناہ بھی معاف ہوتے ہیں، ہر ہر گناہ کی الگ الگ توبہ درکار نہیں ہوتی، چہ جائے کہ اُمورِ صالحہ اور اُمورِ مستحسنہ، نکاح، عقیقہ، معاہدے اور ایسے تمام اُمورِ خیر برقرار رہتے ہیں۔ اس لیے امام سیوطی فرماتے ہیں کہ دوبارہ عقیقہ کرنے کی کوئی ضرورت تھی نہ کوئی شرعی تقاضا تھا۔ پس اس پوری تفصیل سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بعثت کے بعد خود اپنا میلاد مناتے ہوئے بکرے ذبح کیے۔
القرآن، النساء، 4 : 22
9. آمدِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اِظہارِ مسرت پر کافر کے عذاب میں تخفیف
مندرجہ بالا دلائل سے یہ واضح ہوا کہ جشن میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منانا اﷲ تعالیٰ، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی سنت ہے، اس لیے محدثین و اَئمہ کرام اور بزرگانِ دین نے کثیر تعداد میں اس کے فضائل و برکات پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ تمام کتبِ فضائل و سیرت اور تاریخ اس پر شاہد ہیں۔ اِس ضمن میں ایک مشہور واقعہ درج ہے جو اِمام بخاری (194۔ 256ھ) نے الصحیح کی کتاب النکاح میں نقل کیا ہے۔ اس واقعہ کو زیربحث لانے سے پہلے یہ جان لینا ضروری ہے کہ قرآن و حدیث کا مسلمہ اُصول اور اِجماعِ اُمت ہے کہ کافر کی کوئی نیکی اُسے آخرت میں فائدہ نہیں پہنچائے گی۔ اُس کے اُمورِ خیر کے صلہ میں اُسے جنت دی جائے گی نہ اُس کے عذاب میں تخفیف کی جائے گی۔ بلکہ اُس کے اچھے اَعمال کے صلہ میں اُسے دنیا میں ہی کشادگی عطا کر دی جاتی ہے۔ (1) آخرت میں نیک کاموں پر جزا کے مستحق صرف مسلمان ہیں کیوں کہ عند اﷲ اَعمال کے اَجر کا باعث اِیمان ہے۔ (2)

1. ابن حجر عسقلاني، فتح الباري، 9 : 145
2. عيني، عمدة القاري شرح صحيح البخاري، 20 : 95
اِس بابت قرآن حکیم فرماتا ہے :
1. مَن كَانَ يُرِيدُ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا نُوَفِّ إِلَيْهِمْ أَعْمَالَهُمْ فِيهَا وَهُمْ فِيهَا لاَ يُبْخَسُونَO أُوْلَـئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلاَّ النَّارُ وَحَبِطَ مَا صَنَعُواْ فِيهَا وَبَاطِلٌ مَّا كَانُواْ يَعْمَلُونَO
’’جو لوگ (فقط) دنیوی زندگی اور اُس کی زینت (و آرائش) کے طالب ہیں ہم اُن کے اَعمال کا پورا پورا بدلہ اِسی دنیا میں دے دیتے ہیں اور اُنہیں اِس (دنیا کے صلہ) میں کوئی کمی نہیں دی جاتیo یہ وہ لوگ ہیں جن کے لیے آخرت میں کچھ (حصہ) نہیں سوائے آتشِ (دوزخ) کے، اور وہ سب (اَعمال اپنے اُخروی اَجر کے حساب سے) اَکارت ہوگئے جو اُنہوں نے دنیا میں اَنجام دیے تھے اور وہ (سب کچھ) باطل و بے کار ہوگیا جو وہ کرتے رہے تھے (کیوں کہ ان کا حساب پورے اَجر کے ساتھ دنیا میں ہی چکا دیا گیا ہے، اور آخرت کے لئے کچھ نہیں بچا)o‘‘
هود، 11 : 15، 16
2. وَالَّذِينَ كَفَرُوا أَعْمَالُهُمْ كَسَرَابٍ بِقِيعَةٍ يَحْسَبُهُ الظَّمْآنُ مَاءً حَتَّى إِذَا جَاءَهُ لَمْ يَجِدْهُ شَيْئًا وَوَجَدَ اللَّهَ عِندَهُ فَوَفَّاهُ حِسَابَهُ وَاللَّهُ سَرِيعُ الْحِسَابِO
’’اور کافروں کے اَعمال چٹیل میدان میں سراب کی مانند ہیں جس کو پیاسا پانی سمجھتا ہے، یہاں تک کہ جب اُس کے پاس آتا ہے تو اُسے کچھ (بھی) نہیں پاتا، (اِسی طرح اُس نے آخرت میں) اللہ کو اپنے پاس پایا مگر اللہ نے اُس کا پورا حساب (دنیا میں ہی) چکا دیا تھا، اور اللہ جلد حساب کرنے والا ہےo‘‘
النور، 24 : 39
3. وَقَدِمْنَا إِلَى مَا عَمِلُوا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنَاهُ هَبَاءً مَّنثُورًاO
’’اور (پھر) ہم اُن اَعمال کی طرف متوجہ ہوں گے جو (بزعمِ خویش) اُنہوں نے (زندگی میں) کیے تھے تو ہم اُنہیں بکھرا ہوا غبار بنا دیں گےo‘‘
الفرقان، 25 : 23
(2) اِس ضمن میں قرآن حکیم فرماتا ہے :
1. يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِّنَ اللّهِ وَفَضْلٍ وَأَنَّ اللّهَ لاَ يُضِيعُ أَجْرَ الْمُؤْمِنِينَO الَّذِينَ اسْتَجَابُواْ لِلّهِ وَالرَّسُولِ مِن بَعْدِ مَآ أَصَابَهُمُ الْقَرْحُ لِلَّذِينَ أَحْسَنُواْ مِنْهُمْ وَاتَّقَواْ أَجْرٌ عَظِيمٌO
’’وہ اللہ کی (تجليّاتِ قُرب کی) نعمت اور (لذّاتِ وصال کے) فضل سے مسرور رہتے ہیں اور اِس پر (بھی) کہ اللہ اِیمان والوں کا اَجر ضائع نہیں فرماتاo جن لوگوں نے زخم کھا چکنے کے بعد بھی اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم پر لبیک کہا، اُن میں جو صاحبانِ اِحسان ہیں اور پرہیزگار ہیں، اُن کے لئے بڑا اَجر ہےo‘‘
آل عمران، 3 : 171، 172
2. وَلاَ نُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَO وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِّلَّذِينَ آمَنُواْ وَكَانُواْ يَتَّقُونَO
’’اور ہم نیکوکاروں کا اَجر ضائع نہیں کرتےo اور یقیناً آخرت کا اَجر اُن لوگوں کے لیے بہتر ہے جو ایمان لائے اور روشِ تقویٰ پر گامزن رہےo‘‘
يوسف، 12 : 56، 57
3. إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ إِنَّا لاَ نُضِيعُ أَجْرَ مَنْ أَحْسَنَ عَمَلاًO
’’بے شک جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کیے، یقیناً ہم اُس شخص کا اَجر ضائع نہیں کرتے تو نیک عمل کرتا ہےo‘‘
الکهف، 18 : 30
4. وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَO
’’اور نیک اَنجام پرہیزگاروں کے لیے ہےo‘‘

1. الأعراف، 7 : 128
2. القصص، 28 : 83
اب ہم اِمام بخاری کی بیان کردہ اُس روایت کی طرف آتے جس میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک کافر چچا ابولہب کا ذکر ہے کہ اُسے بھی اﷲ تعالیٰ نے آمدِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشی منانے پر اَجر سے محروم نہیں رکھا، حالاں کہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مخالفین میں سرِفہرست تھا۔ یہ ایسا بدبخت شخص تھا کہ اﷲ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں اس کی مذمت میں پوری سورت نازل فرمائی۔ اِرشاد فرمایا :
تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَتَبَّO مَا أَغْنَى عَنْهُ مَالُهُ وَمَا كَسَبَO سَيَصْلَى نَارًا ذَاتَ لَهَبٍO
’’ابو لہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ جائیں اور وہ تباہ ہو جائے (اُس نے ہمارے حبیب پر ہاتھ اُٹھانے کی کوشش کی ہے)o اُسے اُس کے (موروثی) مال نے کچھ فائدہ نہ پہنچایا اور نہ ہی اُس کی کمائی نےo عنقریب وہ شعلوں والی آگ میں جا پڑے گاo‘‘
اللهب، 111 : 1 - 3
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادتِ مبارکہ کے حوالہ سے مشہور واقعہ کتبِ اَحادیث میں مذکور ہے کہ ابو لہب نے اپنی ایک لونڈی ثویبہ کو وقتِ ولادت حضرت سیدہ آمنہ رضی اﷲ عنہا کی خدمت کے لیے بھیجا۔ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت ہوئی تو ثویبہ دوڑتے ہوئے ابولہب کے پاس پہنچی اور اسے بھتیجا پیدا ہونے کی خوش خبری سنائی۔ بھتیجے کی پیدائش کی خبر سن کر ابولہب اتنا خوش ہوا کہ اُس نے وہیں اپنے ہاتھ کی دو انگلیوں سے اشارہ کرتے ہوئے کہا : ’’ثویبہ! جا میں نے تجھے نومولود (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیدائش کی خوشی میں آزاد کیا۔‘‘
ابو لہب جب حالت کفر پر ہی مر گیا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے اسے خواب میں دیکھا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اس سے پوچھا کہ مرنے کے بعد تجھ پر کیا گزر رہی ہے؟ اس نے جواب دیا کہ میں دن رات سخت عذاب میں جلتا ہوں لیکن جب پیر کا دن آتا ہے تو میرے عذاب میں کمی کر دی جاتی ہے اور میری انگلیوں سے پانی جاری ہو جاتا ہے جسے پی کر مجھے سکون ملتا ہے۔ اِس تخفیف کا باعث یہ ہے کہ میں نے پیر کے دن اپنے بھتیجے (محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ولادت کی خوش خبری سن کر اپنی خادمہ ثویبہ کو ان انگلیوں کا اشارہ کرتے ہوئے آزاد کر دیا تھا۔
یہ واقعہ حضرت زینب بنت اَبی سلمہ سے مروی ہے جسے محدثین کی کثیر تعدادنے واقعہ میلاد کے تناظر میں نقل کیا ہے۔ اِمام بخاری (194۔ 256ھ) کی الصحیح میں مروی حدیث کے الفاظ یہ ہیں :
فلما مات أبولهب أريه بعض أهله بشرّ حيبة، قال له : ما ذا لقيت؟ قال أبولهب : لم ألق بعدکم غير أني سقيت في هذه بعتاقتي ثويبة.
’’جب ابولہب مر گیا تو اس کے اہل خانہ میں سے کسی کو اُسے خواب میں دکھایا گیا۔ وہ برے حال میں تھا۔ (دیکھنے والے نے) اس سے پوچھا : کیسے ہو؟ ابولہب نے کہا : میں بہت سخت عذاب میں ہوں، اس سے کبھی چھٹکارا نہیں ملتا۔ ہاں مجھے (اس عمل کی جزا کے طور پر) اس (انگلی) سے قدرے سیراب کر دیا جاتا ہے جس سے میں نے (محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کی خوشی میں) ثویبہ کو آزاد کیا تھا۔‘‘

1. بخاري، الصحيح، کتاب النکاح، باب وأمهاتکم اللاتي أرضعنکم، 5 : 1961، رقم : 4813
2. عبد الرزاق، المصنف، 7 : 478، رقم : 13955
3. عبد الرزاق، المصنف، 9 : 26، رقم : 16350
4. مروزي، السنة : 82، رقم : 290
5. بيهقي، السنن الکبري، 7 : 162، رقم : 13701
6. بيهقي، شعب الإيمان، 1 : 261، رقم : 281
7. بيهقي، دلائل النبوة و معرفة أحوال صاحب الشريعة، 1 : 149
8. ابن سعد، الطبقات الکبري، 1 : 108
9. ابن ابی دنیا نے ’’کتاب المنامات (ص : 154، رقم : 263)‘‘ میں اسے حسن اسناد کے ساتھ روایت کیا ہے۔

10. بغوي، شرح السنة، 9 : 76، رقم : 2282
11. ابن جوزي، صفوة الصفوة، 1 : 62
12. سهيلي، الروض الأنف في تفسير السيرة النبوية لابن هشام، 3 : 98، 99
13. زيلعي، نصب الراية لأحاديث الهداية، 3 : 168
14. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 67 : 171، 172
15. ابن کثير، البداية والنهاية، 2 : 229، 230
16. عسقلاني، فتح الباري، 9 : 145
17. عيني، عمدة القاري شرح صحيح البخاري، 20 : 95
18. شيباني، حدائق الأنوار، 1 : 134
19. عامري، شرح بهجة المحافل، 1 : 41
20. انور شاه کشميري، فيض الباري علي صحيح البخاري، 4 : 278
یہ روایت اگرچہ مُرسَل(1) ہے لیکن مقبول ہے، اِس لیے کہ اِمام بخاری (194۔ 256ھ) نے اسے اپنی ’’الصحیح‘‘ میں نقل کیا ہے اور اَجل علماء و حفاظِ حدیث نے اِس پر اِعتماد کرتے ہوئے اِس سے اِستشہاد و اِستناد کیا ہے۔ ثانیاً یہ روایت فضائل و مناقب کے باب میں ہے نہ کہ حلال و حرام میں؛ اور مناقب و اَحکام کے مابین حدیث کے اِستدلال میں فرق کو علماء خوب جانتے ہیں۔
(1) اُصولِ حدیث میں مرسل اُس حدیث کو کہا جاتا ہے جس کی سند کا آخری حصہ یعنی تابعی سے اوپر کا کوئی راوی ساقط ہو۔
(1) اِس کا حکم یہ ہے کہ جب اَجل تابعی تک یہ روایت صحیح ثابت ہوجائے تو قابلِ حجت ہوگی۔ (2) تین فقہی مذاہب کے بانیان. اِمام اَعظم ابو حنیفہ (80۔ 150ھ)، اِمام مالک (93۔ 179ھ) اور اِمام اَحمد بن حنبل (164۔ 241ھ)۔ اور محدّثین کی کثیر جماعت کے نزدیک مرسل روایت قابلِ حجت ہوتی ہے بشرطیکہ ارسال کرنے والا ثقہ ہو اور وہ ثقہ ہی سے ارسال کرتا ہو۔ (3) ان کی دلیل یہ ہے کہ ثقہ تابعی کے متعلق یقینی ہے کہ وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق ’’قال رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کذا او فعل کذا او فعل بحضرتہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ فرمایا، یا یہ کیا یا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے یہ کیا گیا)‘‘ تب ہی کہے گا جب وہ ثقہ راوی سے سنے گا۔

1. ذهبي، الموقظة في علم مصطلح الحديث : 38
2. ابن کثير، الباعث الحثيث شرح اختصار علوم الحديث : 48
3. ابن حجر عسقلاني، نزهة النظر بشرح نخبة الفکر في مصطلح حديث أهل الأثر : 36، 37
4. سخاوي، کتاب الغاية في شرح الهداية في علم الرواية، 1 : 272

(2) ذهبي، الموقظة في علم مصطلح الحديث : 39

(3) 1. سخاوي، کتاب الغاية في شرح الهداية في علم الرواية، 1 : 273
2. ابن کثير، الباعث الحثيث شرح اختصار علوم الحديث : 48
3. عبد الحق محدث دهلوي، مقدمة في أصول الحديث : 42، 43
حافظ ابن حجر عسقلانی (773۔ 852ھ) ’’نزھۃ النظر بشرح نخبۃ الفکر فی مصطلح حدیث اھل الاثر (ص : 37)‘‘ میں لکھتے ہیں :
’’اِمام اَحمد کے ایک قول اور مالکی و حنفی فقہاء کے مطابق حدیثِ مرسل مطلقاً مقبول ہوتی ہے، اور امام شافعی یہ کہتے ہیں کہ اگر کسی اور سند (خواہ وہ سند متصل ہو یا مرسل) سے مرسل روایت کی تائید ہو جائے تو وہ مقبول ہے ورنہ نہیں۔‘‘
ملا علی قاری حنفی (م 1014ھ) شرح شرح نخبۃ الفکر میں لکھتے ہیں کہ ابن جریر نے یہ تصریح کی ہے کہ حدیث مرسل قبول کرنے پر تمام تابعین کا اِجماع ہے اور کسی تابعی سے اس کا انکار منقول نہیں۔ اور نہ اس کے بعد دو سو (200) سال تک اَئمہ میں سے کسی نے اس کا انکار کیا اور یہی وہ قرونِ فاضلہ ہیں جن کے خیر پر برقرار رہنے کی رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شہادت دی۔
ذیل میں ہم اِس روایت کے بارے میں چند ائمہ کرام کے ملفوظات نقل کریں گے، جنہوں نے اِس واقعہ سے جشنِ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اِستشہاد و اِستناد کیا ہے :
1۔ حافظ شمس الدین محمد بن عبد اﷲ جزری (م 660ھ) اپنی تصنیف ’’عرف التعریف بالمولد الشریف‘‘ میں لکھتے ہیں :
فإذا کان أبولهب الکافر الذي نزل القران بذمه جوزيَ في النار بفرحه ليلة مولد النبي صلي الله عليه وآله وسلم به، فما حال المسلم الموحد من أمة النبي صلي الله عليه وآله وسلم يسر بمولده، وبذل ما تصل إليه قدرته في محبته صلي الله عليه وآله وسلم ؟ لعمري إنما يکون جزاؤه من اﷲ الکريم أن يدخله بفضله جنات النعيم.
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادتِ باسعادت کے موقع پر خوشی منانے کے اَجر میں اُس ابولہب کے عذاب میں بھی تخفیف کر دی جاتی ہے جس کی مذمت میں قرآن حکیم میں ایک مکمل سورت نازل ہوئی ہے۔ تو اُمتِ محمدیہ کے اُس مسلمان کو ملنے والے اَجر و ثواب کا کیا عالم ہوگا جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد کی خوشی مناتا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت و عشق میں حسبِ اِستطاعت خرچ کرتا ہے؟ خدا کی قسم! میرے نزدیک اﷲ تعالیٰ ایسے مسلمان کو اپنے حبیب مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشی منانے کے طفیل اپنی نعمتوں بھری جنت عطا فرمائیں گے۔‘‘

1. سيوطي، الحاوي للفتاوي : 206
2. سيوطي، حسن المقصد في عمل المولد : 65، 66
3. قسطلاني، المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، 1 : 147
4. زرقاني، شرح المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، 1 : 260، 261
5. يوسف صالحي، سبل الهدي والرشاد في سيرة خير العباد صلي الله عليه وآله وسلم ، 1 : 366، 367
6. نبهاني، حجة اﷲ علي العالمين في معجزات سيد المرسلين صلي الله عليه وآله وسلم : 237، 238
2۔ حافظ شمس الدین محمد بن ناصر الدین دمشقی (777۔ 842ھ) ’’مورد الصادی فی مولد الہادی‘‘ میں فرماتے ہیں :
قد صح أن أبالهب يخفّف عنه عذاب النار في مثل يوم الإثنين لإعتاقه ثويبة سرورًا بميلاد النبي صلي الله عليه وآله وسلم.
’’یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشی میں ثویبہ کو آزاد کرنے کے صلہ میں ہر پیر کے روز ابولہب کے عذاب میں کمی کی جاتی ہے۔‘‘
اِس کے بعد محمد بن ناصر الدین دمشقی نے درج ذیل اَشعار پڑھے :

إذا کان هذا کافر جاء ذمه
وتبت يداه في الجحيم مخلَّدا

أتي أنه في يوم الاثنين دائما
يخفّف عنه للسّرور بأحمدا

فما الظن بالعبد الذي طولُ عمره
بأحمد مسروراً ومات موحدا
’’جب ابولہب جیسے کافر کے لیے۔ جس کی مذمت قرآن حکیم میں کی گئی ہے اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں اُس کے ہاتھ ٹوٹتے رہیں گے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد کی خوشی منانے کی وجہ سے ہر سوموار کو اُس کے عذاب میں تخفیف کر دی جاتی ہے۔ تو کتنا خوش نصیب ہوگا وہ مسلمان جس کی ساری زندگی عبادتِ الٰہی اور میلاد کی خوشیوں میں بسر ہوئی اور وہ حالتِ اِیمان پر فوت ہوا۔‘‘

1. سيوطي، الحاوي للفتاوي : 206
2. سيوطي، حسن المقصد في عمل المولد : 66
3. نبهاني، حجة اﷲ علي العالمين في معجزات سيد المرسلين صلي الله عليه وآله وسلم : 238
3۔ شیخ عبد الحق محدث دہلوی (958۔ 1052ھ) اِسی روایت کا تذکرہ کرنے کے بعد لکھتے ہیں :
در اینجا سند است مراہل موالید را کہ در شبِ میلاد آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سرور کنند و بذل اموال نمایند یعنی ابولہب کہ کافر بود، و قرآن بمذمت وے نازل شدہ، چوں بسرور میلاد آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم و بذل شیر جاریہ وے بجہت آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جزا دادہ شد تا حال مسلمان کہ مملوست بمحبت و سرور و بذل مال در وے چہ باشد۔ ولیکن باید کہ از بدعتہا کہ عوام احداث کردہ انداز تغنی وآلات محرمہ ومنکرات خالی باشد تا موجب حرمان اَز طریقہ اِتباع نگردد۔
عبد الحق، مدارج النبوة، 2 : 19
’’یہ روایت موقعِ میلاد پر خوشی منانے اور مال صدقہ کرنے والوں کے لیے دلیل اور سند ہے۔ ابولہب جس کی مذمت میں ایک مکمل سورتِ قرآنی نازل ہوئی جب وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کی خوشی میں لونڈی آزاد کر کے عذاب میں تخفیف حاصل کر لیتا ہے تو اس مسلمان کی خوش نصیبی کا کیا عالم ہوگا جو اپنے دل میں موجزن محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وجہ سے ولادتِ مصطفیٰ کے دن مسرت اور عقیدت کا اظہار کرے۔ ہاں بدعات مثلاً رقص اور غیر اسلامی اعمال وغیرہ سے اجتناب ضروری ہے کیوں کہ انسان اس کے باعث میلاد کی برکات سے محروم ہو جاتا ہے۔‘‘
4۔ مولانا محمد عبد الحئ فرنگی محلی لکھنوی (1264۔ 1304ھ) لکھتے ہیں :
’’پس جب ابولہب ایسے کافر پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کی خوشی کی وجہ سے عذاب میں تخفیف ہو گئی تو جو کوئی امتی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کی خوشی کرے اور اپنی قدرت کے موافق آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت میں خرچ کرے کیوں کر اعلیٰ مرتبہ کو نہ پہنچے گا، جیسا کہ ابن جوزی (510۔ 579ھ) اور شیخ عبد الحق محدث دہلوی (958۔ 1052ھ) نے لکھا ہے۔‘‘
عبد الحئ، مجموعه فتاويٰ، 2 : 282
5۔ مفتی رشید احمد لدھیانوی (و 1341ھ) تحریر کرتے ہیں :
’’جب ابولہب جیسے بدبخت کافر کے لیے میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشی کی وجہ سے عذاب میں تخفیف ہو گئی تو جو کوئی اُمتی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کی خوشی کرے اور حسبِ وسعت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت میں خرچ کرے تو کیوں کر اَعلیٰ مراتب حاصل نہ کرے گا۔‘‘
لدهيانوي، احسن الفتاويٰ، 1 : 347، 348
اِن اَئمہ و علماء کا ثویبہ کے واقعہ سے اِستدلال کرنا اس روایت کی صحت و حقانیت پر بھی دلالت کرتا ہے اور جشنِ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جواز کا بھی بيّن ثبوت ہے۔
کافر کے عذاب میں تخفیف کیوں؟
مذکورہ بالا تفصیل سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ابولہب کے عذاب میں تخفیف کیوں کی گئی جب کہ قرآن و حدیث اور اِجماعِ اُمت کی رُو سے کافر کا کوئی عمل بھی قابلِ اَجر نہیں اور آخرت میں اَجر و ثواب کا مستحق صرف صاحبِ ایمان ہی ہے؟ اِس کا جواب یہ ہے کہ ابولہب کے اِس عمل کا تعلق چوں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ اَقدس سے تھا اور اُس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کی خوشی میں اپنی لونڈی ثویبہ کو آزاد کیا تھا، اِس لیے اﷲ تعالیٰ نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کا جشن منانے پر اُس کافر کے عذاب میں بھی تخفیف کردی جس کی مذمت میں پوری ایک سورۃ نازل فرمائی تھی۔ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کافر کا وہ عمل جس کا تعلق رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہے رائیگاں نہیں جائے گا۔
ابولہب سے ہفتہ وار تخفیفِ عذاب اِس سبب سے نہیں ہوئی کہ اُس نے اپنی لونڈی ثویبہ کو آزاد کیا تھا۔ بلکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت پر خوشی منانا ہی اِس اِنعام کا باعث ہے اور اُس کا یہی عمل کافر ہوتے ہوئے بھی اُس کے عذاب میں رعایت کا سبب بن گیا۔ اﷲ تعالیٰ یہ نہیں دیکھتا کہ عمل کرنے والا کون ہے بلکہ یہ دیکھتا ہے کہ عمل کس کے لیے کیا گیا ہے۔ اُسے اِس سے غرض نہیں کہ عمل کرنے والا ابو لہب ایک کافر تھا کیوں کہ اُس کی ساری شفقتیں تو اپنے حبیبِ مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ خاص ہیں۔
وضاحت کے لیے محدثین کی چندمزید تصریحات درج ذیل ہیں :
1۔ اِمام بیہقی (384۔ 458ھ) شعب الایمان میں لکھتے ہیں کہ یہ خصائص محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں سے ہے کہ کفار کو بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت کا صلہ عطا کیا جاتا ہے :
وهذا أيضا لأن الإحسان کان مرجعه إلي صاحب النبوة، فلم يضع.
’’اور یہ اِس لیے ہے کہ ابو لہب کے اِحسان کا مرجع صاحبِ نبوت ذات تھی، اس لیے اُس کا عمل ضائع نہیں کیا گیا۔‘‘
بيهقي، شعب الإيمان، 1 : 261، رقم : 281
2۔ اِمام بغوی (436۔ 516ھ) لکھتے ہیں :
هذا خاص به إکرامًا له صلي الله عليه وآله وسلم.
’’ابو لہب کے عذاب میں تخفیف آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اِکرام کی وجہ سے ہے۔‘‘
بغوي، شرح السنة، 9 : 76
3۔ اِمام سہیلی (508۔ 581ھ) نے بھی یہی نقطہ نظر اِختیار کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ایک روایت میں ہے :
قال : مالقيت بعدکم راحة، غير أني سُقيت في مثل هذه، وأشار إلي النقرة بين السبابة والإبهام، بعِتقي ثويبة، وفي غير البخاري إن الذي رآه من أهله هو أخوه العباس، قال : مکثت حولا بعد موت أبي لهب لا أراه في نوم، ثم رأيته في شر حال، فقال : ما لقيت بعدکم راحة إلا أن العذاب يخفّف عني کل يوم اثنين. وذلک أن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ولد يوم الإثنين، وکانت ثويبة قد بشّرته بمولده، فقالت له : أشعرت أن آمنة ولدت غلامًا لأخيک عبد اﷲ؟ فقل لها : اذهبي، فأنت حرة، فنفعه ذلک.
’’ابو لہب نے کہا : میں نے تمہارے بعد آرام نہیں پایا سوائے اس کے کہ ثویبہ لونڈی کے آزاد کرنے پر مجھے اتنا پانی پلایا جاتا ہے، اور (یہ کہتے ہوئے) اُس نے سبابہ (انگشتِ شہادت) اور انگوٹھے کے درمیانی فاصلے کی طرف اشارہ کیا۔ صحیح بخاری کے علاوہ دیگر روایات میں ہے کہ اُس کے اہلِ خانہ میں سے جس فرد نے اُسے دیکھا وہ اُس کے بھائی حضرت عباس رضی اللہ عنہ تھے۔ آپ نے فرمایا : میں ابولہب کی موت کے بعد ایک سال تک اُسے خواب میں دیکھتا رہا، پھر میں نے اُسے بہت بری حالت میں دیکھا تو اُس نے کہا : میں نے تمہارے بعد کوئی آرام نہیں پایا سوائے اِس کے کہ ہر پیر کے روز میرے عذاب میں کمی کر دی جاتی ہے۔ اِس کی وجہ یہ ہے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت پیر کے دن ہوئی اور ثویبہ نے ابولہب کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کی خوش خبری سنائی تھی، اور اسے کہا تھا : کیا تجھے پتہ چلا ہے کہ آمنہ (رضی اﷲ عنھا) کے ہاں تیرے بھائی عبد اﷲ (رضی اللہ عنہ) کا بیٹا پیدا ہوا ہے؟ (اِس پر خوش ہوکر) ابو لہب نے اُس سے کہا : جا، تو آزاد ہے۔ اِس (خوشی منانے) نے اُسے دوزخ کی آگ میں فائدہ پہنچایا۔‘‘
سهيلي، الروض الأنف في تفسير السيرة النبوية لابن هشام، 3 : 98، 99
4۔ رئیس المفسرین اِمام قرطبی (م 671 ھ) فرماتے ہیں :
هذا التخفيف خاص بهذا وبمن ورد النص فيه.
’’جب نصِ صحیح میں آچکا ہے کہ کافر کو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت کے صلہ میں اَجر ملتا ہے تو ایسے مقام پر اُسے مانا جائے گا۔‘‘
عيني، عمدة القاري شرح صحيح البخاري، 20 : 95
5۔ شارِحِ صحیح بخاری اِمام کرمانی (717۔ 786ھ) لکھتے ہیں :
يحتمل أن يکون العمل الصالح والخير الذي يتعلق بالرسول صلي الله عليه وآله وسلم مخصوصا من ذالک.
’’اِس واقعہ کو اِس پر محمول کیا جائے گا کہ کافر کے اُس عمل اور بھلائی پر اَجر و ثواب دیا جاتا ہے جس کا تعلق اﷲ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہو۔‘‘
کرماني، الکواکب الدراري في شرح صحيح البخاري، 19 : 79
6۔ شارِحِ صحیح بخاری اِمام بدر الدین عینی (762۔ 855ھ) بیان کرتے ہیں :
يحتمل أن يکون ما يتعلق بالنبي صلي الله عليه وآله وسلم مخصوصا من ذلک.
’’اِس واقعہ کو اِس پر محمول کیا جائے گا کہ وہ اَعمال جن کا تعلق ذات مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہو اُن کے ذریعے کافر کے عذاب میں تخفیف ہو جاتی ہے۔‘‘
عيني، عمدة القاري شرح صحيح البخاري، 20 : 95
7۔ اِمام جلال الدین سیوطی (849۔ 911ھ) نے یہ موقف بالصراحت بیان کیا ہے، جیسا کہ ہم نے گزشتہ صفحات میں اُن کی کتب الحاوی للفتاوی اور حسن المقصد فی عمل المولد سے مختلف عبارات نقل کی ہیں۔
8۔ اِمام عبد الرحمن بن دبیع شیبانی (866۔ 944ھ) لکھتے ہیں :
فتخفيف العذاب عنه إنما هو کرامة النبي صلي الله عليه وآله وسلم.
’’ابولہب کے عذاب میں یہ تخفیف حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اِکرام کی وجہ سے ہوئی۔‘‘
شيباني، حدائق الأنوار، 1 : 134
اِن تصریحات سے ثابت ہوتا ہے کہ نادانستہ طور پر آمدِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشی منانے والے بدترین کافر کو بھی اﷲ تعالیٰ اِس عمل کی جزا دے رہا ہے اور قیامت تک دیتا رہے گا۔ اور یہ صرف اور صرف حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت سے کیے جانے والے اَعمال کی خصوصیت ہے کہ اگر کافر بھی کوئی عمل کرے گا تو اس کو جزا دی جائے گی۔
ایک اِعتراض اور اُس کا جواب
بعض لوگ اِس روایت پر اِعتراض کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ معاملہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے ساتھ خواب میں پیش آیا اور وہ اُس وقت تک ایمان بھی نہیں لائے تھے۔ لہٰذا اِسے شرعی ضابطہ کیوں کر بنایا جا سکتا ہے؟
اِس اِعتراض کا جواب یہ ہے کہ :
1۔ جب ہم اِس واقعہ کو اپنے موقف میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر خوشی منانا باعثِ اَجر و ثواب ہے۔ کی تائید میں بطور دلیل لیتے ہیں تو ہم ابو لہب کا بیان اپنی دلیل کی بنیاد نہیں بناتے۔ ہمارے اِستدلال کی بنیاد حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی روایت پر ہوتی ہے۔
2۔ اگرچہ یہ واقعہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے اِسلام لانے سے پہلے کا ہے لیکن اِسے روایت کرتے وقت اُن کا مشرف بہ اِسلام ہونا شک و شبہ سے بالاتر ہے۔ یہ روایت اُنہوں نے شرفِ صحابیت حاصل کرنے کے بعد مدینہ منورہ میں بیان کی تھی۔ لہٰذا آپ کی یہ روایت نورِ اِسلام حاصل ہوجانے کے بعد کی ہے اور ہر طرح سے قابلِ لحاظ و لائق اِستناد ہے۔
3۔ اس حدیث کی ثقاہت اور قبولیت کی اس سے بڑی دلیل اور کیا ہوسکتی ہے کہ اِس روایت پر اِعتماد کرتے ہوئے اِمام بخاری (194۔ 256ھ) نے اسے الصحیح میں روایت کیا ہے۔ اگر اِمام بخاری کی نظر میں یہ حدیث قابلِ اِستناد نہ ہوتی تو وہ ہرگز اسے اپنی الصحیح میں شامل نہ کرتے بلکہ اِسے مسترد کر دیتے۔ ان کے علاوہ اِمام بخاری کے اُستاد اِمام عبد الرزاق بن ہمام صنعانی (126۔ 211ھ) نے اِسے المصنف میں روایت کیا ہے۔ اِمام مروزی (202۔ 294ھ) نے السنۃ میں درج کیا ہے۔ اِمام بیہقی (384۔ 458ھ) نے یہ روایت اپنی تین کتب. السنن الکبری، شعب الایمان، دلائل النبوۃ و معرفۃ احوال صاحب الشریعۃ. میں بیان کی ہے۔ اِمام ابن کثیر (701۔ 774ھ) نے یہ روایت البدایۃ والنہایۃ میں درج کی ہے۔ ابن سعد (168۔ 230ھ) نے الطبقات الکبری میں، اِمام بغوی (436۔ 516ھ) نے شرح السنۃ میں، ابن جوزی (510۔ 579ھ) نے صفوۃ الصفوۃ میں، سہیلی (508۔ 581ھ) نے الروض الانف فی تفسیر السیرۃ النبویۃ لابن ہشام میں اور ابن عساکر (499۔ 571ھ) نے تاریخ دمشق الکبیر میں اِسے روایت کیا ہے۔ اگر یہ روایت صحیح نہ ہوتی اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کی خوشی منانے کے صلہ میں ابولہب کے عذاب میں تخفیف کا واقعہ درست نہ ہوتا تو مذکورہ بالا اَجل علماء و محدثین سمیت دیگر ائمہ کرام یہ روایت اپنی اپنی کتب میں کیوں بیان فرماتے؟ اِن اَجل ائمہ و محدثین نے نہ صرف اِسے روایت کیا ہے بلکہ اِس سے اِستنباط کرتے ہوئے اِس کی شرح بیان کی ہے جس پر کسی حاشیہ آرائی کی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی۔
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ ہماری نظر میں اِس حدیث کے قابلِ اِستناد و اِستدلال ہونے کی دلیل حضرت عباس رضی اللہ عنہ کا اِسے بیان کرنا، اِمام بخاری کا بطورِ حدیث اِسے قبول کرنا اور درجنوں ائمہ حدیث کا اپنی اپنی کتب میں اِسے شرعی قواعد و ضوابط کے طور پر درج کرکے اس سے میلادِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منانے کی شرعی اِباحت کا اِستدلال و اِستنباط کرنا ہے۔
ایک عبرت آموز حقیقت
مذکورہ بالا واقعہ سے ایک طرف تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خاطر کیا جانے والا معمولی سا عمل بھی بارگاہِ ایزدی میں باعثِ اَجر ہے خواہ وہ کسی کافر کا ہی کیوں نہ ہو۔ دوسری طرف مومنین کے لیے وعید ہے کہ مومن زندگی بھر کروڑوں نیک عمل کرتا رہے لیکن اگر اس سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کوئی ایک معمولی سی بے ادبی سرزد ہو جائے تو مومن ہوتے ہوئے بھی اُس کے سارے اَعمال غارت کردیے جاتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْهَرُوا لَهُ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ.
’’اے ایمان والو! تم اپنی آوازوں کونبیء مکرّم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آواز سے بلند مت کیا کرو اور اُن کے ساتھ اِس طرح بلند آواز سے بات (بھی) نہ کیا کرو جیسے تم ایک دوسرے سے بلند آواز کے ساتھ بات کرتے ہو۔‘‘
الحجرات، 49 : 2
یہاں صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو حکم دیا جا رہا ہے کہ اِحتیاط سے اپنی آوازوں کو پست رکھا کریں اور آپس میں بات کرتے ہوئے اپنی آواز اتنی بلند نہ کیا کریں کہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تبسم شعار لبوں سے نکلی ہوئی شیریں آواز سے اونچی ہو جائے۔ بارگاہِ نبوت کا یہ ادب خود اﷲ رب العزت سکھا رہا ہے۔ بصورتِ دیگر واضح الفاظ میں حکم فرما رہا ہے کہ میرے باز رکھنے کے باوجود اگر نہیں سمجھو گے اور بے احتیاطی سے کام لو گے تو سن لو :
أَن تَحْبَطَ أَعْمَالُكُمْ وَأَنتُمْ لَا تَشْعُرُونَO
’’(ایسا نہ ہو) کہ تمہارے سارے اَعمال ہی (ایمان سمیت) غارت ہو جائیں اور تمہیں (ایمان اور اَعمال کے برباد ہو جانے کا) شعور تک بھی نہ ہوo‘‘
الحجرات، 49 : 2
یہاں توحید کے اِنکار کا ذکر ہے نہ سنت کے انکار کا، نبوت و رسالت کے انکار کا ذکر ہے نہ آخرت کے اِنکار کا، نماز روزے سے اِنحراف کا ذکر ہے نہ حج و زکوٰۃ کے اِنکار کا ذکر ہے۔ صرف آواز ہی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آواز سے بلند ہوگئی تو نتیجتاً پوری زندگی کے نیک اَعمال برباد ہو جانے کی کڑی وعید سنائی جا رہی ہے۔
اِس بحث کی روشنی میں یہ تصور ذہن نشین کر لینا چاہئے کہ اگر ایک طرف کروڑوں عمل ہوں اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں معمولی سی بے ادبی ہو جائے تو آخرت میں ان تمام اَعمال کی جزا سے محروم کر دیا جائے گا، اور دوسری طرف اگر کافر و دشمنِ اِسلام اور توحید و رسالت کا منکر شخص حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد اور تعظیم میں ایک عمل بھی کر دے تو اسے اس عمل کی جزا عالمِ برزخ اور آخرت دونوں میں دی جائے گی۔

ثابت ہوا کہ جملہ فرائض فروع ہیں
اَصل الاصول بندگی اس تاجور کی ہے
اَحمد رضا خان، حدائقِ بخشش، 1 : 135
تمام اِنسانی اَعمال کی عظمت و قبولیت اُسی عمل کے سبب سے ہے جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت میں کیا جائے اور اگر دل محبتِ رسول سے خالی ہے تو کوئی بھی نیک عمل بارگاہِ خداوندی میں باعثِ اَجر و ثواب نہیں ہوگا۔ اِسی لیے اہلِ دل حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہِ اَقدس میں عرض کرتے ہوئے کہتے ہیں :

ای کریمی کہ اَز خزانہ غیب
گبر و ترسا وظیفہ خور داری

دوستاں را کجا کنی محروم
تو کہ با دشمناں نظر داری
سعدی، کلیات (گلستان) : 66
(اے جود و سخا کے پیکرِ اَتم! آپ کی کرم نوازیوں کا یہ عالم ہے کہ اِس خرمنِ جود و سخا سے کوئی بت پرست و آتش پرست بھی محروم نہیں۔ آپ اپنے عاشقوں کو کیسے اپنے کرم سے محروم رکھ سکتے ہیں جب کہ آپ کی نظرِ شفقت تو دشمنوں پر بھی ہے۔)
روایات و اَبحاث سے واضح ہوجاتا ہے کہ آمدِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشی منانا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قول و فعل دونوں سے ثابت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کی خوشی منانا کوئی غیر شرعی فعل نہیں بلکہ منشائے خدا و رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عین مطابق اور تقاضائے اِسلام ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت کا جشن منانے پر کفار بھی اَجر سے محروم نہیں رہتے۔ لہٰذا جب گنہگار اُمتی ایسا کریں گے تو وہ کیسے اُخروی نعمتوں سے محروم رہ سکتے ہیں۔
 

1 comments:

Anwar ul Haq نے لکھا ہے کہ

السلام علیکم وحمۃ اللہ ، ماشاء اللہ ، جزاک اللہ خیر۔ محترم ان سب دلیلوں کے بغیر بھی محبت رسول ﷺ سے دلوں کو سرشار رکھنے والے ولادت باسعادت کو سب سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں ، مگر کچھ مسلمان بھائی جن کے دلوں میں کجی ہے وہ صرف اور صرف قرآن کی سورۃ کا ثبوت مانگتے ہیں کہ کہا میلاد والی رات کا ذکر ہے؟ جہاں اللہ تبارک وتعالیٰ نے اتنی چیزوں کی فضیلت فرمائی ہے وہاں میلاد کی رات کا ذکر کیوں نہ فرمایا؟

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Archive

Blog Archive