Tuesday 22 October 2013

Baba Bulleh Shah

بابا بلّھے شاہ
تحریر۔ سبطین حیدر شاہ آف شاہ کوٹ
صوفی روایت ہماری تاریخ کا ناگزیر حصہ ہے۔ برصغیر کی سیاسی اور سماجی تاریخ میں صوفیا کے ذکر کے بغیر کوئی مورخ بھی معتبر تاریخ رقم نہیں کر سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ برصغیر کے حوالے سے جتنی بھی مستند تورایخ اس وقت موجود ہیں ان میں صوفیا کا تذکرہ قابل لحاظ مقدار میں موجود ہے۔ تاریخ دان چاہے کوئی مسلمان تھا یا غیر مسلم اس نے صوفیا کے برصغیر کی سیاسی وسماجی تشکیل میں کردار کے ذکر سے احتراز نہیں برتا اور برتا بھی نہیں جا سکتا کہ اسکے ذکر کے بغیر تاریخ مکمل نہیں ہوتی۔
حیرت انگیز امر یہ ہے کہ برصغیر میں بے شمار علمائے دین پیدا ہوئے مگر ہر دلعزیزی اور احترام جو صوفیا کے حصے میں آیا وہ ان عالموں کو نصیب نہ ہو سکا۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ صوفی اپنی زندگی میں صلح کل اور احترام آدمیت جیسے اعلیٰ انسانی تصورات کو اہمیت دیتے ہوئے مسلکی امتیاز اور مذہبی منافرت کو جگہ نہیں دیتا۔ بلکہ مذہبی عالم کا فکر سرچشمہ کتابیں اور نظریات تشکیل دیتے ہیں جبکہ صوفی استقرائی طریقے کو اولیت دیتے ہوئے انسانوں کا مشاہدہ کرتا ہے۔ عالم ، علمی بحثوں کےلئے عالموں کے درکھٹکھٹاتا ہے جبکہ صوفی انسان کے ذریعے خدا کو سمجھنے کےلئے انسانوں کے مختلف طبقات سے اپنا تعلق جوڑتا ہے۔ عالم گوشہ نشینی میں بیٹھ کر شرعی امور کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے سماج میں ابھرتے نئے معاشرتی تقاضوں اور نفسیاتی حقیقتوں کے بدلتے رنگوں سے اغماض برتتا ہے جبکہ صوفی انسانی سماج کی نفسیات تک براہ راست رسائی کےلئے قلندرانہ لباس پہن کر سفر اختیار کرتا ہے۔ یہی بنیادی فرق ہے جو ان دومتوازی فکر دھاروں کو ایک دوسرے ممیز کرتا ہے۔ علما کی کتابیں مابعد الطبیعات جیسے مباحث میں الجھ کررہ جاتی ہیں جبکہ صوفی افکار لوگ شاعری میں اس طرح اظہار پاتے ہیں کہ عام آدمی انہیں خود سے قریب محسوس کرتا ہے۔ غالباً انہیں وجوہ کی بنا پر برصغیر میں صوفیا کو زیادہ پذیرائی اور ہر دلعزیزی ملی۔
صوفیا کے تذکرے کے سلسلے میں آج ہم جس بطل رشید کا تذکرہ کریں گے ان کا نام حضرت سید محمد عبداللہ شاہ قادری شطاریؒ ہے جو بلّھے شاہ کے نام سے دنیا بھر میں معروف ہیں۔ بلھے شاہ کو پنجابی شاعری اور کافی کا سب سے بڑا شاعر تسلیم کیا جاتا ہے۔ گردش زمانہ کا انقلاب دیکھئے کہ جس شخص کو روایتی مولویوں نے بعد از وفات مسلمانوں کے قبرستان میں دفن نہ ہونے دیا اور ان پر گمراہ ہونے کا الزام لگایا وہ آج بھی اپنی تابانی قائم رکھے ہوئے ہے اور پوری دنیا انہیں احترام دیتی ہے۔ اس کے برعکس جن مولویوں نے ان پر فتویٰ جات صادر کئے آج گمنامیوں کی دھند میں لپٹ کر غائب ہو چکے ہیں۔
ابتدائی عمر سے ہی بلّھے شاہ نے راہ سلوک کی منزلیں طے کرنی شروع کر دی۔ یوں تو آپ نے قرآن ، تفسیر ، حدیث ،فقہ اور منطق کی مروجہ تعلیم میں رسوخ بھی حاصل کیا اور ایک مدرسے میں کچھ دن تک مدرسی بھی کی مگر آپ کی راہ علما سے مختلف تھی۔ ایک عالم وجد آپ پر طاری رہنے لگا اور آپ نے کہا:
”علموں بس کریں او یار“
آپ کی راہ تو منصور کی راہ تھی۔ ایک بار عالم جذب میں آپ کے منہ سے منصور کا نعرہ ”انالحق“ نکل گیا۔ اس وقت آپ بٹالہ کے ضلع گورداس پور میں قیام پذیر تھے۔ جب لوگوں نے آپ کے منہ سے یہ نعرہ سنا تو آپ کو پکڑ کر قاضی شہر فاضل الدین کے پاس لے گئے ان کے خلاف کفر کا فتویٰ دیا جا سکے۔ شیخ فاضل الدین جو ظاہری علوم کے زیور سے آراستہ ہی نہ تھے بلکہ تصوف کی چاشنی سے بھی لبریزتھے انہوں نے مجذوب کی حالت دیکھی تو کہا:
”ایہہ سچ کہندا اے ، ایہہ حالے الھا (کچا ۔ الھڑ) ہی اے۔ ایہنوں آکھوشاہ عنایت کول جا کے پک آدے“
بلّھے شاہ کے منہ سے نکلنے والہ کلمہ معمولی نہ تھا اور اس پر انہیں موت کی سزا بھی دی جا سکتی تھی مگر شیخ فاضل الدین نے پنجابی زبان کے لفظوں کی رعایت دیتے ہوئے اگلے پڑاﺅ کی طرف بھیج دیا۔ اس واقعہ کے حوالے سے صوفی شاعر اور آپ کے ہمعصر سچل سرمست نے کہا تھا:
بلّھے شاہ دے سراتے تیغ اجل دی تولی
شاہ عنایت کی راہبری نے راہ سلوک کے اس مسافر کی خوب مدد کی۔ بلّھے شاہ بھی فنافی المرشد کے مقام پر پہنچے تو شاہ عنایت کے حوالے سے لکھا:
جیہڑا سانوں سید آکھے دوزخ ملن سزائیاں
جیہڑا سانوں رائیں آکھے بہشتیں پینگھاں پائیاں
آپ نے شاہ عنایت کی بیعت کی تو آپ کے خاندان والوں اور دیگر لوگوں نے آپ کو طعنہ دیا کہ سید ہو کر ایک آرائیں کے مرید ہو گئے ہو مگر آپ جس مقام پر پہنچ چکے تھے اور مرشد کے دریائے محبت میں غرق ہو چکے تھے اس کا تقاضا کچھ اور تھا بلّھے شاہ نے کہا:
تسیں وچ اُچ دے اچے ہو ، اسیں وچ قصور قصوری ہاں
شاہ عنایت دی باغ بہاراں ، اسیں اوہدے وچ لسوہڑی ہاں
بابا بلّھے شاہ فارسی اور عربی کے بے بدل عالم تھے۔ ان کی شاعری میں اسلامی تصورات اور صوفیانہ ادب سے گہری شناسائی کا احساس ہوتا ہے۔ بعد ازاں جب آپ کا رجحان اسلام کی متصوفانہ پہلو کی طرف ہوا تو آپ کا علم آپ کی رہنمائی کرتا گیا۔
بلّھے شاہ کی روحانی ترفع کےلئے سخت ریاضت کے مراحل سے گزرنا پڑا جیسا کہ راہ سلوک کے ہر شخص کو گزرنا پڑتا ہے۔ ان ریاضتوں کو باقاعدہ سمت آپ کے پیرو مرشد عنایت شاہ قادری نے دی بلّھے شاہ نے مقدس کتابوں اور مذہبی تصورات سے جو روشنی حاصل کی اس کے ذریعے وہ حقیقت کا براہ راست مشاہدہ کرنا چاہتے تھے۔ اور ایسا تب ممکن ہوا جب آپ کی ملاقات شاہ عنایت قادری سے ہوئی۔
حضرت شاہ عنایت قادری اپنے دور کے معروف صوفی بزرگ تھے۔ شاہ عنایت کی جائے پیدائش اور تاریخ پیدائش کے حوالے سے مستند شواہد تو دستیاب نہیں ہیں، مگر آپ کی وفات 1728 ءمیں ہوئی۔ ان کا تعلق قادری سلسلے سے تھا۔ برصغیر میں آنے والے اکثر صوفیا کا سلسلہ بھی قادری ہی تھا۔ شاہ عنایت قادری نا صرف روحانی علم سے کما حقہ آگاہ تھے بلکہ دنیا وی علوم پر بھی انہیں عبور حاصل تھا۔ تصوف کے حوالے سے ان کے رسالے اس حقیقت پر دال ہیں۔ عنایت شاہ نے عمِر عزیز کا زیادہ تر حصہ لاہور میں گزارا اسی وجہ سے آپ کو عنایت شاہ لاہوری بھی کہا جاتا ہے۔
بلّھے شاہ نے عنایت شاہ لاہوری سے ملاقات سے قبل ہی صوفیانہ مجاہدے اور ریاضت کو اختیار کرلیا تھا۔ جب پہلی بار مرید صادق اور پیر کامل آمنا سامنا ہوا تو عنایت شاہ قادری کو محسوس ہو اکہ بلّھے شاہ میں تصوف کا صحیح ذوق موجود ہے۔ پہلی ملاقات میں شاہ عنایت نے بلّھے شاہ سے پوچھا:
”یہاں کیا کرنے آئے ہو“
بلّھے شاہ نے جواب دیا:
”میرا نام بلّھا ہے اور میں رب کو پانا چاہتا ہوں“
عنایت شاہ نے طالب حق کو پیار سے دیکھا اور پیاز کے ایک پودے کو زمین سے ایک جگہ سے اکھاڑ کر دوسری جگہ لگا یا اور کہا:
”خدا کو پانا کونسا مشکل کام ہے بس یہ پودا یہاں سے اکھاڑ کر یہاں لگانا ہے“
بلّھے شاہ نے اس استعاراتی زبان کو سمجھ لیا کہ دل کو دنیا سے ہٹا کر خالق دنیا کی طرف لے جانا ہے۔ ایک معروف سکالر نے پیر ومرید کی اس ملاقات کا احوال یوں لکھا ہے:
”بلّھے شاہ میں وہ تمام خصوصیات موجود تھیں جو ایک لائق شاگرد میں ہونی چاہئیں۔ شاہ عنایت نے روحانی اسرار کے تمام راز کھول کر ان کے سامنے رکھ دئیے۔ بلّھے شاہ نے ان کا نظارہ کیا اور پھر دنیا سے بے خبر ہو گئے۔“
یہ انقلاب کیوں آیا؟ سادہ سی وجہ ہے کہ لوگ بلّھے شاہ کی زندگی اور ان کی تعلیمات کی ہمہ گیری سے متاثر ہوئے۔ لوگوں یر جلد ہی یہ راز کھل گیا کہ راہ سلوک کا یہ راہی ان کی عام زندگیوں سے مولویوں کی یہ نسبت کہیں زیادہ قرب تھا۔
بلّھے شاہ کی پیدائش اور وفات کے حوالے سے تاریخ خاموش ہے۔ عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ آپ 1680 ءسے 1758ءکے دوران صفحہ ہستی پر موجود رہے۔ ان کی جائے پیدائش کے حوالے سے بھی ابھی تک محققین کوئی حتمی رائے قائم نہیں کر سکتے ہیں۔ بعض محققین کا کہنا ہے کہ آپ بہاولپور ریاست کے قصبے اُچ میں پیدا ہو ئے تھے اور بعد ازاں جب آپ عمرِ عزیز کے چھٹے مہینے میں تھے آپ کے والد محترم ملک وال ہجرت کرگئے۔ وہ کافی عرصے تک ملک وال میں مقیم رہے۔ اس کے بعد ایک گاﺅں پانڈو کی کے والی نے آپ کے والد شاہ محمد درویش کو استدعا کی کہ وہ گاﺅں کی مسجد میں امامت کے فرائض ادا کریں اور بچوں کو دینی تعلیم دیا کریں۔ اگرچہ محققین کی اکثریت اس روایت کی حامی ہے مگر بعض محققین اس سے اختلاف کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بلّھے شاہ کی پیدائش گاﺅں پانڈو کی میں ہوئی۔ آج کل اس گاﺅں کا نام پانڈو کے بھٹیاں ہے۔ یہ گاﺅں قصور سے 14 کلو میٹر دور جنوب مشرق میں واقع ہے۔
کہا جاتا ہے کہ بلّھے شاہ کے آباﺅ اجداد میں سے سید جلال الدین بخاری آپ کی پیدائش سے 300 سال قبل بخارا سے ملتان تشریف لائے تھے۔ بلّھے شاہ کے والد شاہ محمد درویش عربی اور فارسی کے معتبر عالم تھے۔ وہ نہ صرف دنیاوی علوم سے کما حقہ آگاہ تھے۔ بلکہ ان میں تصوف اور روحانیت کی چاشنی بھی موجود تھی۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کی قلندرانہ زندگی اور راہبانہ طرز معاشرت کے باعث انہیں درویش کا لقب ملا۔ بلّھے شاہ اپنے والد کی زاہدانہ زندگی سے بہت متاثر ہوئے۔ صرف بلھے شاہ ہی نہیں بلکہ ان کا پورا خاندان شاہ محمد درویش کی پاک طینت حیات سے شدید متاثر تھا۔ بلّھے شاہ کی بہن بھی تصوف کی چاشنی سے لبریز تھیں۔ انہوں نے شادی نہ کی اور تجروکی زندگی گزاری۔
بلّھے شاہ کا بچپن اپنے باپ کی زیر نگرانی پانڈو کی گاﺅں میں گزارا۔ اس وقت کے رواج کے مطابق آپ نے اپنی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی۔ بعد ازاں اعلیٰ تعلیم کےلئے انہیں قصور شہر بھیج دیا گیا جو ان دنوں معروف علمی مرکز تھا۔ قصور میں اس وقت حضرت مولانا غلام مرتضیٰ اور مولانا محی الدین کے تبحرعلمی کا شہرہ تھا۔ بلّھے شاہ نے مولانا محی الدین کے سامنے زانوئے تلمندتہ کیا۔ اپنی خداداد ذہنی صلاحیتوں اور روحانی وسعتوں کی وجہ سے بلّھے شاہ نے اپنے استاد سے خوب استفادہ کیا۔
بابا بلّھے شاہ کا دور حیات برصغیر میں مسلمانوں کی سیاسی اور سماجی تاریخ کا اہم ترین موڑ تھا۔ 1680ءسے 1758ءکا دور بر صغیرمیں مسلمانوں کے سیاسی زوال کا نقطہ عروج تھا۔ کئی صدیوں تک برصغیر پر بلا شرکت غیرے حکومت کرنےوالے مغل زیر نقاب بھیک مانگنے پر مجبور ہو چکے تھے۔ ایک ہزار سال سے ہندوﺅں ، مسلمانوں اور دیگر مذہب کے لوگوں کے مابین موجود ہم آہنگی ختم وہ چکی تھی، بابا بلّھے شاہ نے اپنی شاعری کے ذریعے نا صرف باہمی نفرتوں او مسلکی عداوتوں کو مٹانے کی کوشش کی بلکہ اپنی شاعری میں ان سماجی حقائق کو بھی سمویا جو بعد کی نسلوں کےلئے تحقیق میں معاون ثابت ہوں گے۔
بابا بلّھے شاہ کی شاعری میں پنجاب کی کلاسیکی شاعری کے تمام عکس موجود ہیں۔ پنجاب جو ہمیشہ زندہ دلوں کی سرزمین رہا ہے، بابا بلّھے شاہ کے دور میں اپنے زوال کی انتہاﺅں پر تھا۔ یہ زوال فقط سیاسی اور سماجی نہ تھا بلکہ اخلاقی اور روحانی بھی تھا۔ پرانی رسمیں جنہوں نے خاندانوں کو جوڑا ہوا تھا اور سماج می محبت اور الفت کی چاشنی گھلی ہوئی تھی، اس دور میں وہ عنقا ہو گئی۔ ہندو ، مسلمان ، سکھ ، عیسائی جو صدیوں ایک دوسرے کے ساتھ رہے تھے۔ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو چلے تھے۔ روایتیں دم توڑ رہی تھیں اور جدید استعماری طاقتیں اپنے پنجے نا صرف حکومت کے ایوانوں میں گاڑ رہی تھیں بلکہ مقامی سماج کے تارو پود بھی بکھر رہے تھے۔ مسلمانوں کا طویل سیاسی عروج بالآخر اپنے زوال پر پہنچ چکا تھا۔ ہندو خود مسلمانوں کے بعد اقتدار اعلیٰ پر قابض نہ ہو سکے ۔ سو اس صورت میں سیاسی خلا پر کرنے کی طاقتیں سات سمندر پار سے وارد ہوئیں اور دیکھتے ہی دیکھتے حکومت کے بالاخانوں پر اُن کا قبضہ ہو گیا۔ بابا بلّھے شاہ کی شاعری میں اس وقت کی تہذیب و ثقافت ، پنجاب کا سماج ، سیاسی زوال، مغلوں کا نوحہ اور ہند، مسلم ، سکھ فساد کا مرثیہ باسانی ڈھونڈا جا سکتا ہے۔
جدوں اپنی اپنی پے گئی دھی ماں نو لُٹ کے لے گئی
مونہہ بارہویں صدی پساریا سانوں آ مل یار پیاریا
در کھلا حشر عذاب دا برا حال ہویا پنجاب دا
ڈر ہا وے دوزخ ماریا سانوں آ مل یار پیاریا
اور مغلوں کے زوال کی داستان بابا بلّھے شاہ نے ان الفاظ میں بیان کی۔
مغلاں زہر پیالے پیتے بھوریاں والے راجےے کیتے
سب اشراف پھرن چپ کیتے بھلا اوہنانوں جھاڑیا ای
جیہڑے سن ویساں دے راجے نال جنہاں دے وجدے واجے
گئے ہو کے بے تختے تاجے کوئی دنیا دا اعتبار نہیں
اُٹھ جا گھراڑے ماہ نہیں ایہہ سون تیرے درکار نہیں
بابا بلّھے شاہ کا دور پنجابی شاعری کے عروج کا دور کہا جاسکتا ہے بلکہ یہ دور برصغیر کی شاعری کا سنہری دور تھا۔ آپ کے دور میں جہاں ایک طرف شاہ عبدالطیف بھٹائی ایسے معروف سندھی اور سرائیکی صوفی بزرگ شاعر حیات تھے وہاں دوسری طرف پنجاب کی روایتی تاریخی رومانوی داستان ہیر رانجھا کے مصنف وارث شاہ بھی زندہ تھے۔ معروف سندھی صوفی شاعر عبدالواحد جو سچل سرمست کے نام سے جانے جاتے ہیں، کا دور حیات بھی وہی ہے۔ میر تقی میر جیسا اردو کا لازوال شاعر بھی اسی دور میں حیات رہا۔
بابا بلّھے شاہ کی شاعری میں تصوف کے روایتی مضامین اور وحدت اور الوجود کا فلسفہ مہارت سے بیان کیا گیا ہے۔ مقامی ماحول ان کی شاعری میں بولتا محسوس ہوتا ہے۔ آپ چونکہ عام لوگوں سے قریب تھے اس لئے عام لوگوں کی زندگی سے اخذ کی گئی علامتیں آپ کی شاعری میں جگہ پاتی ہیں۔
صوفی اپنی زندگی میں جن تجربات سے گزرتا ہے ان کا اظہار مختلف طریقوں سے کرتا ہے۔ یہ اظہار بعد ازاں انہیں ملامتی فرقے میں شامل کرا دیتا ہے۔ درج ذیل شعر کسی ایسی ہی کیفیت کا بے ساختہ اظہار ہے جو عام لوگوں کو سمجھ نہیں آسکتی۔
بلھیا عاشق ہویوں رب دا ، ملامت ہوئی لاکھ 
تینوں کافر کافر آکھدے توں آہو آہو آکھ
صوفیانہ شاعری میں اہم ترین عنصر وجدان رہا ہے۔ وہ عقلی علوم اور حواس کا بڑی شدت سے انکار کرتا ہے۔ بابا بلّھے شاہ کی شاعری میں بھی یہ عنصر نمایاں طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔
اساں پڑھیا علم تحقیقی اے اوتھے اکو حرف حقیقی اے
ہور جھگڑا سب ودھیکی اے اینویں رولا پایا سبئدی اے
منہ آئی بات نہ رہندی اے
اپنی ذات کی نفی صوفی شاعری کی بنیادی تعلیمات میں سے ایک موضوع رہا ہے۔ مگر فنی ذات کا یہ مرحلہ بہرحال جا کر اثبات حق پر منتج ہوتا ہے۔ صوفی شاعردیوانوں کی طرح فرد فرد سے پوچھ رہا ہوتا ہے کہ میں کون ہوں مگر وہ جانتا ہے کہ ”میں کون ہوں“ آج بھی جب ٹی وی پر ” بلھیا کیہہ جانا میں کون“ سنائی دے تو بلّھے شاہ کا یہ سوال ہمارے سامنے بھی آموجود ہوتا ہے۔
نہ وچ شادی نہ غمنا کی
نہ میں وچ پلیتی پاکی
نہ میں آبی نہ میں خاکی
نہ میں آتش نہ میں پون
بلھیا کیہہ جانا میں کون
نہ میں عربی نہ لاہوری
نہ میں ہندی شہر نگوری
نہ ہندو نہ ترک پشوری
نہ میں رہندا وچ ندون
بلھیا کیہہ جانا میں کون
نہ میں بھیت مذہب دا پایا
نہ میں آدم حوا جایا
نہ میں اپنا نام دھوایا
نہ وچ بیٹھن نہ وچ بھون
بلھیا کیہہ جانا میں کون
اول آخر آپ نوں جاناں
نہ کوئی دوجا ہور پچھاناں
میتھوں ہور نہ کوئی سیاناں
بلھیا شوءکھڑا ہے کون
بلھیا کیہہ جانا میں کون
عشق اور عقل کی جنگ کلاسیکل شاعری کی طرح صوفی شاعری کا بھی بنیادی عنوان رہی ہے۔ صوفی ہمیشہ سے عقل و عشق کی برتری کے قائل رہے ہیں، ان کے نزدیک عشق کی جو ایک جست میں قصہ تمام کر دیتا ہے وہ عقل کی ہزاروں پُر خارروادیاں طے کرنے سے قاصر رہتی ہیں، غالباً یہی وجہ ہے کہ صوفی شاعر نے علم پر طعنے کسے ہیں۔ بابا بلّھے شاہ بار بار اپنے شعروں میں علم پر طنز کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اسی علم کی بنیاد پر دنیا میں منافقتوں اور برائیوں نے جنم لیا۔
علموں بس کریں اور یار
اکو الف ترے درکار
علم نہ آوے وچ شمار
جاندی عمر، نہیں اعتبار
اکو الف ترے درکار
علموں بس کریں اور یار
پڑھ پڑھ ، لکھ لکھ لاویں ڈھیر 
ڈھیر کتاباں چار چوفیر
کر دے چانن ، وچ انھیر
پچھو ”راہ“؟ تے خبر نہ سار
علموں بس کریں او یار
پڑھ پڑھ شیخ مشائخ کہاویں
اُلٹے مسئلے گھروں بتاویں
بے علماں نوں لٹ لٹ کھاویں
چوتھے سچے کریں اقرار
علموںب س کریں او یار
پڑھ پڑھ نفل نماز گزاریں
اچیاں بانگاں چانگاں ماریں
منبر تے چڑھ وعظ پکاریں
کیتا تینوں علم خوار
علموں بس کریں او یار
جد میں سبق عشق دا پڑھیا
دریا دیکھ وحدت دا وڑیا
گھمن گھیراں دے وچ اڑیا
شاہ عنایت لایا یار
علموں بس کریں او یار
عبادت کا ایک تصور وہ ہوتا ہے جو ہمارے مولوی کے پاس ہے جس میں تسبیح پردا نے گن گن کر بندگی کا حساب رکھا جاتا ہے۔ اس کے برعکس صوفی کی عبادت میں شیفتگی ، بے لوثیت اور برجستگی ہوتی ہے اور وہ رسوم عبودیت کی حدوں کا قائل نہیں ہوتا۔ بلّھے شاہ کی درج ذیل نظم میں شاندار علامتوں کے ذریعے اس فرق کو واضح کیا گیا ہے۔
راتیں جاگیں ، کریں عبادت راتیں جاگن کتے
تیتھوں اُتے بھونکنوں بند مول نہ ہوندے
جا رُوڑی تے ستے تیتھوں اُتے
کھسم اپنے دا در نہ چھڈ دے بھانویں وجن جُتے تیتھوں اُتے
٭٭٭

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Archive

Blog Archive