Sunday 13 October 2013

فیضانِ اِسمِ اعظم

فیضانِ اِسمِ اعظم ۔ مسائل نہیں وسائل۔

آج دُنیا بھر میں جہاں  کہیں بھی دیکھیں۔ مسلمانوں سے ذیادہ پریشان حال، زِیر عتاب، مشکلوں کا شِکار کوئی اُور نظر نہیں آتا۔ جو صاحب استطاعت لُوگ ہیں۔ جنہیں  بظاہر کوئی معاشی پریشانی لاحق نہیں ہے۔ اگر اُن سے بھی سُوال کیا جائے ۔ تو معلوم ہُوتا ہے۔کہ،، دُنیا بھر کی آسائشیں موجود ہونے کے باوجود قلبی سکون تو اِن لوگوں کو بھی مُیسر نہیں ہے۔۔۔ لیکن آخر ایسا کیوں ہے۔ تمام اُمتوں میں خیرِ اُمت کا لقب پانی والی قُوم کی جگہ جگہ تذلیل کا آخر سبب کیا ہے۔۔۔؟؟؟ یہ ایک ایسا سُوال ہے۔کہ،، جسکا جواب ہر ایک ذِی شعور مُسلمان جانتا ہے۔۔۔لیکن۔۔۔ اِس جواب سے پہلوتہی برتتے ہُوئے بے نِشان منزل کی جانب خومخواہ بڑھتا چلا جاتا ہے۔۔۔ کیوں کہ،، آج کا مسلمان جس قدر بے عملی کا شِکار ہے۔ اُسکی نظیر ظہورِ اِسلام سے لیکر چند دِہائیوں قبل تک نہیں مِلتی۔۔۔۔ اللہ کریم نے جس قدر مسلمانوں پر احسانات فرمائے۔ جتنی آسانیاں مسلمانوں کو اپنے مدنی محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی نعلین پاک کے تصدق میں عطا کی ہیں۔۔۔ اُس کے شُکرانے میں ہُونا تو یہی چاہیئے تھا۔ کہ ،، ہم سب قُوم نوح علیہ السلام کی اُس بڑھیا کی خُواہش کی پیروی کرتے ہُوئے اپنی تمام عُمر سجدہ شکر بجالانے میں بسر کردیتے۔۔۔ لیکن تمام اقوام سے کم عُمر پانے کے باوجود ہماری دُنیا کیلئے کوششیں ایسے ہیں۔ جیسے ہمیں کبھی اِس دُنیا سے ہجرت ہی نہیں کرنی ہُو۔ یہ زمین ہی ہماری دُنیا ہُو۔ یہ زمین ہی ہماری جنت ہُو۔
مجھے وُہ راجگیر آج بھی یاد ہے۔ جِسے تین برس ساتھ رہنے کے باوجود بھی میں نے کبھی مغموم نہیں دیکھا۔ اُسکے چہرے اُور جسم کی پھرتی کو دیکھ کر کبھی لگتا ہی نہیں تھا۔ کہ،، وُہ پنسٹھ برس کا بوڑھا انسان ہے۔ جب میں نے اُسکی طمانیت اُور خُوشگوار زندگی کا سبب جاننے کی کوشش کی ۔۔۔ تو اُس نے بڑی سادگی سے مسکراتے ہُوئے کہا تھا۔کہ،، مجھے یقین ہےکہ،، میرا پروردیگار مجھ سے بے پناہ محبت کرتا ہے۔ سُو جو محبت سے جتنا دے۔ وہی مُناسب ہُوتا ہے۔ شکوہ کرنے سے محبت کرنے والے کی توھین  کا پہلو نِکلتا ہے۔ اِس لئے مجھے دُنیا کی دُوڑ میں شامل ہُونے کا کبھی خیال نہیں آتا۔ وُہ محبت سے جو جو عطا کرتا جاتا ہے۔ میں خوشی خوشی اپنے دامن میں سمیٹتا چلا جاتا ہُوں۔ اُور وُہ جِس جِس چیز سے مجھے  روکے رکھتا ہے۔ میں رُک جاتا ہُوں۔۔۔ اُور یہ یقین رکھتا ہُوں۔کہ،، اگر اُس شئے میں میرے لئے ذرا سا بھی فائدہ ہُوتا۔ تو وُہ کریم مجھے اِس سے ہرگز محروم نہیں رکھتا۔ کیونکہ،، وُہ جیسی بے مِثال محبت اپنے بندُوں سے کرتا ہے۔ اُسکی نہ کوئی مِثل ہے۔ نہ کوئی دُنیا میں ایسا پیمانہ ہے۔ جو اُس پاک ذات کی بندوں سے محبت کو ماپ سکے۔ میں جب بھی اُس راجگیر کے متعلق سُوچتا ہُوں۔ تو مجھے ایک ہی بات سمجھ آتی ہے۔ کہ ،، اُسکے یقین نے اُسے ضرور مقام ولایت پر پُہنچادیا تھا۔
اللہ  کریم قرانِ مجید میں واضح طُور پر اِرشاد فرماتا ہے۔
 وَمَنۡ اَعۡرَضَ عَنۡ ذِكۡرِىۡ فَاِنَّ لَـهٗ مَعِيۡشَةً ضَنۡكًا
اور جس نے میری یاد سے منہ پھیرا تو بیشک اس کے لیے تنگ زندگانی ہے۔
ترجمہ کنزالایمان سورہ طہ آیت نمر ۔۱۲۴
محترم قارئین کرام  بعض مفسرین کرام علیہ الرحمہ اِس آیت کی تفسیر کرتے ہُوئے بیان فرماتے ہیں۔ کہ ،، خُدا کے ذکر سے مُنہ مُوڑنے والا انسان نا صِرف دنیاوی زندگی میں تنگی کا شکار رہے گا۔ بلکہ اُسکی برزخی زندگی بھی انتہائی تکلیف دِہ ہُوگی۔۔۔ اب ذرا سُوچئیے۔کہ،، یہ دُنیاوی زِندگی جو پچاس سے لیکر سُو برس تک محیط ہُوسکتی ہے۔ کسی نا کسی طرح گُزر ہی جاتی ہے۔ لیکن برزخی زِندگی جو ہزاروں برس پر بھی محیط ہُوسکتی ہے۔ اگر وَہاں بھی ذکرِ اللہ سے رُو گردانی کے سبب  چین نہ مِلا۔ تو ہم وُہ ہزاروں برس کی زندگی بھی اللہ کریم کی ناراضگی کے سبب تکلیف و مصیبت  کی حالت میں گزارنے پر مجبور ہُوں گے۔ کیا ہمارے نرم و نازک جسم اُس  عذاب کو برداشت کرنے کے متحمل ہُوسکتے ہیں۔۔۔۔؟؟؟  یقیناً نہیں ہُوسکتے۔۔۔ تو کیوں نہ ہم اپنی زندگی کو اللہ کریم کی اطاعت اُور اُسکے اسمائے مبارک کی رحمتوں اُور برکتوں کے سائے میں گُزاریں۔۔۔ تاکہ دُنیاوی زِندگی کا سفر بھی آسانی سے طے ہُوجائے ۔ اُور برزخی زِندگی میں بھی کامیابی ہمارے قدم چُومے۔۔۔ اِن دُنیاوی مشکلوں کا سامنا کرنے کیلئے اللہ کریم کے اسمائے مُبارک سے مُرتب کئے ہُوئے چند وطائف پیش خدمت ہیں۔۔۔ جنکی برکتوں سے ایک زمانہ فیضیاب ہُورہا ہے۔
یا وَھَّابُ یا  وکِیلُ یا حَسِیبُ اَرشِدنِی۔
کوئی بھی رُکا ہُوا کام ہُو۔ ویزہ کے حصول کیلئے۔ اُور بند گلی میں راستہ بنانے کیلئے بھی نہایت پُر تاثیر وظیفہ ہے۔

یا عَلِیمُ عَلِّمنِی یا خَبِیرُ اَخبِرنِی یا رَشِیدُ اَرشِدنِی۔
عِلم کے حصول،  اِمتحان کی تیاری ،عرفان و آگہی کیلئے، اُور حافظہ قوی کرنے کیلئے بے مِثال وظیفہ ہے۔

یا لَطِیفُ یا کریمُ  یا قَدِیرُ اَرشِدنِی۔
رشتہ، نکاح، اُور من پسند شادی کیلئے۔

یا وَدُودُ یا حَسِیبُ یا عَزِیزُ یا وَکِیلُ۔
میاں بیوی میں محبت کیلئے۔
ہر نماز کے بعد ۷۷ بار ۔۔۔  دُوستوں اور گھر والوں کیلئے بھی پڑھیں ۔جمعہ کو ایک ہزار مرتبہ پڑھ کر چینی اُور نمک پر دَم کردیں۔ اور گھر کے چینی اور نمک کی ڈبیہ میں اِسے شامل کردیں۔ جیسے ہی چینی یا نمک ختم ہُونے کے قریب ہُو۔ مزید چینی، یا نمک ڈال کر ڈبیہ کو پھر سے بھر دیں۔ تین جمعہ تک پڑھتے رہیں۔ انشا اللہ سب کے درمیان محبت قائم ہُوجائے گی۔ اس کے ذریعہ سے ساس بہو، نند بَھابی کی چپقلش پر بھی قابو پایا جا سکتا ہے۔

یا کَبِیرُ یا قَدِیرُ یا رَشِیدُ اَرشِدنِی۔
اُولاد کیلئے۔ رات کو بستر پر جانے کے بعد سب سے پہلے باوضو حالت میں یہ وظیفہ پڑھیں۔ اسکے بعد خُوب دُعا کریں۔ انشااللہ الکریم من کی مُراد پُوری ہُوگی۔ جب حمل واضح ہُوجائے تو بچے کی حرکت  محسوس ہُونے پر وَہاں اُنگلی رکھ کر کہیں کہ۔ میں نے اِسکا نام محمد رکھا۔ انشا اللہ الکریم بیٹا ہی پیدا ہُوگا۔

یا اللہ یا رَحمٰنُ یا رَحِیمُ اَرشِدنِی۔
دِل میں نُور پیدا کرنے کیلئے۔ معرفت کی راہ پر قدم رکھنے کیلئے انتہائی مجرب ہے۔

یا سَلامُ  یا بَرُّ یا رَوٗفُ یا کَرِیمُ۔
بیماری سے نجات حاصل کرنے کیلئے۔ رات کو سُوتے وقت ۱۳۱ مرتبہ مریض، پانی اُور تسبیح پر دَم کریں۔ پانی مریض کو پِلائیں بھی، اُور اُسکے چہرے پر چھڑکیں بھی۔ تسبیح کو مریض کے سرہانے رکھ دیں۔ انشا اللہ بُہت جلد صحتیاب ہُوگا۔

یا عَزِیزُ یا وَھَّابُ یا رَشِیدُ یا وَکِیلُ۔
مقدمے میں کامیابی کیلئے۔


یا رَزَّاقُ  یا وَھَّابُ یا سُبحانُ یا عَلِیُّ
رِزق میں برکت کیلئے ہر نماز کے بعد ۱۰۰ مرتبہ یا ۵۱ مرتبہ پڑھیں۔

یا مُتَکَبِّرُ یا قَہَّارُ یا جَبَّارُ  یا عَزِیزُ اَرشِدنی۔
دُشمن کے ظُلم سے محفوظ رکھنے کیلئے۔
جِن وظائف میں پڑھنے کی تعداد موجود نہیں ہے۔ اُنہیں ہر نماز کے بعد ۴۱ یا بحالتِ مجبوری ۲۱ مرتبہ پڑھ سکتے ہیں۔
دُعا کرائی نہیں جاتی۔۔۔ بلکہ اپنے عَمل سے لی جاتی ہے۔۔۔۔ مخلوق خدا سے محبت کیجئے ۔ غُربا کا خیال رکھیں۔۔۔ تاکہ اُس دُعا کا حصول ممکن ہُو۔ جو دِل سے خُود بخود نکل جاتی ہے۔( اگر کسی  معاملہ میں اِسم اعظم کی کمی نظر آئے۔ تو کمنٹ باکس میں لکھ دیجئے گا۔ میں اللہ کریم کی توفیق سے شامل مضمون کردونگا۔۔۔۔ ) یا ربَّ العالمین اپنے مدنی محبوب ﷺ کی نعلین کے تصدق میں میری اِس کوشش کو قبول فرما۔ اُور مجھ سے جِس جِس نے بھی دُعا کے واسطے کہا۔ تو اپنے خاص فضل سے اُن سب کے دامنوں کو  گوھرِ مُراد سے بھرتے ہُوئے۔ اُنہیں دارین کی بھلائیاں عطا فرمادے۔آمین بِجاہِ النبی الکریم وصلی اللہ تعالی علیہ وَ آلہ واصحابہ وَ اولیائے مِلتہِ اجمعین۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Archive

Blog Archive