Monday 14 October 2013

دعا

 دعا
 
جلیل القدر انبیاٗ کرام علیہم السلام میں سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا اِسم مبارک بُہت نمایاں ہے۔ جہاں آپ کی ایک خصوصیت بُت شکنی ہے۔ تو دُوسری طرف آپکی مہمان نوازی بھی بُہت مشہور ہے۔ اُور   آپکا یہی وصف آپکے صاحبزادگان سیدنا اسماعیل علیہ السلام میں بالعموم اُور سیدنا اسحق علیہ السلام میں بالخصوص نمایاں نظر آتا ہے۔

حضرت اسحاق علیہ السلام کی زُوجہ حضرت حمصہ سے آپکے دُو جڑواں بیٹے پیدا ہُوئے۔  جنکی ولادت پہلے ہُوئی وُہ عیص کہلائے۔ جب کہ بعد میں پیدا ہُونے والے بچے کو اِسی نسبت سے یعقوب کہا گیا۔ یعقوب عقب سے نِکلا ہے۔ یعنی بعد میں آنے والا۔۔۔ حضرت عیص کے تمام جسم مُبارک پر کثرت سے بال پیدا ہُوتے تھے۔ اُور آپ کا پیشہ شِکار تھا۔۔ جبکہ حضرت یعقوب علیہ السلام جو کہ حضرت یوسف علیہ السلام کے والدِ ماجد ہیں۔ بکریاں اُور بھیڑیں  چَرایا کرتے تھے۔۔۔ حضرت عیص کی جانب سیدنا اسحق علیہ السلام کے دِل کا میلان ذیادہ تھا۔۔۔ جب کہ سیدنا یعقوب علیہ السلام اپنی والدہ کو ذیادہ عزیز تھے۔

ایک مرتبہ جب کہ،، سیدنا اسحق علیہ السلام کی عُمر مُبارک ۱۹۰ برس سے زائد ہُوچُکی تھی۔ اُور آپکی بصارتِ ظاہری کافی کمزور پڑچکی تھی۔۔۔ آپ نے حضرت عیص سے باآواز بُلند فرمائش کی۔کہ،، آج تُم شِکار پر جاوٗ۔ اُور میرے لئے کوئی لذیز سا سالن تیار کرو۔ تاکہ میں خوش ہُو کر آج  وُہ خاص دُعا تُمہارے لئے اپنے پروردیگار سے طلب کروں۔ جو کہ ،، ہر نبی علیہ السلام کو  اللہ کریم کی جانب سے خاص اختیار کے ساتھ مِلتی ہے۔۔۔ (ہمارے پیارے آقا علیہ السلام نے وہی دُعا دُنیا میں مانگنے کے بجائے اپنی اُمت کی خاطر بروز مِحشر کیلئے بچا رکھی ہے۔ تاکہ ،، اُمت کی مغفرت کے لئے مانگی جاسکے۔)

سیدنا اسحق علیہ السلام  چونکہ اللہ کریم کے برگزیدہ  نبی ہیں۔ اِسلئے آپ نے یہ بات حضرت عیص کے کان میں کہنے کے بجائے با آواز بُلند کہی۔ تاکہ،، جس کے مقدر میں وُہ دُعا ہُو۔ وُہ اِس دُعا کو حاصل کرلے۔ اگرچہ آپکی دِلی خُواہش یہی تھی۔کہ،، آپ وُہ خاص دُعا حضرت عیص کے لئے فرمائیں۔ جب حضرت عیص شِکار کیلئے روانہ ہُوگئے۔۔۔ تب حضرت یعقوب علیہ السلام کی والدہ ماجدہ نے اُن سے فرمایا۔ کہ،، اے لخت جگر مجھے لگتا ہے کہ آج تُمہارے بابا جان عیص کیلئے نبوت کی دُعا کا اِرادہ رکھتے ہیں۔ لِہذا تمہیں بھی چاہیئے کہ،، اِس دُعا کیلئے کوشش کرو!


چُنانچہ سیدنا یعقوب علیہ السلام نے اپنی والدہ ماجدہ کے حُکم پر اپنے ریوڑ سے ایک بکری کو ذِبح فرمایا۔ پھر اُسکی دستی سے بہترین اُور لذیز سالن تیار فرمایا۔ چونکہ سالن ایک اللہ کے بنی علیہ السلام کیلئے تیار کیا جارہا تھا۔ اُور تیار کرنے والے بھی اللہ کریم کے ایک نبی علیہ السلام تھے۔ اِس لئے نہایت ہی لذیز سالن تیار ہُوگیا۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کو والدہ کی جانب سے حُکم مِلا کہ،، کھانا سیدنا اِسحق علیہ السلام کے سامنے رکھنے کے بعد خاموشی سے بکری کی کھال پہن کر اِن کے نذدیک بیٹھ جانا۔

لِہذا سیدنا یعقوب علیہ السلام نے اپنی والدہ ماجدہ کے ایما پر بالکل ویسا ہی کیا۔ جیسا کہ،، آپکی والدہ طیبہ طاہرہ کی خاہش تھی۔۔۔ جب کھانا سیدنا اسحق علیہ السلام کے سامنے پروس دِیا گیا۔۔۔ تو آپکی والدہ ماجدہ نے کھانا کھانے کیلئے کہا۔۔۔ سیدنا اسحق علیہ السلام نے آواز دیکر کہا،، کیا عیص  اتنی جلدی شکار سے واپس لُوٹ آیا ہے۔۔۔؟؟؟۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کو والدہ گرامی نے تاکید فرمائی تھی۔ کہ،، جب تک اِسحق علیہ السلام دُعا سے نواز نہ دیں۔ اپنے بابا جان سے گفتگو مت کرنا۔ لہذا سیدنا اِسحق علیہ السلام نے وُہ لذیز بکری کا سالن تناول فرمایا تو بُہت خوش ہُوئے۔۔۔ اُور اِرشاد فرمایاکہ،، اے میرے بیٹے میرے نذدیک آجا۔۔۔ تاکہ،، میں تجھے دُعا دے سکوں۔

جب سیدنا یعقوب علیہ السلام نذدیک آئے۔ تو سیدنا اِسحق علیہ السلام نے محبت سے سیدنا  یعقوب علیہ السلام کے جسم مبارک پر ہاتھ پھیرا۔۔۔ اُسکے بعد آپ نے  وُہ تاریخی جُملہ اِرشاد فرمایا۔۔۔  کہ،، اے میرے بیٹے اگرچہ تونے حُلیہ تو عیص جیسا بنالیا ہے۔۔۔ لیکن تیرے بدن سے یعقوب کی خُوشبو آرہی ہے۔۔۔(( میرے بیٹے دُعا کرانا کمال نہیں ہے۔۔۔ بلکہ دُعا لینا کمال ہے)) پھر آپ نے خُوش ہُوکر سیدنا یعقوب علیہ السلام کیلئے نبوت کی دُعا فرمائی۔۔۔ جب عیص شِکار سے واپس لُوٹے تو اُنہیں والدہ کی زُبانی عِلم ہُوا۔کہ،، وُہ جس دُعا کو حاصل کرنے کیلئے شِکار پر گئے تھے۔ وُہ دُعا تو یعقوب حاصل کرچکے ہیں۔۔۔ تو حضرت عیص غضبناک ہُوکر بھڑک اُٹھے۔ حالانکہ سیدنا اِسحق علیہ السلام نے  عیص کو بھی کثرت اُولاد کی دُعا سے نواز دِیا۔ لیکن عیص کے دِل کی آگ سرد نہ ہُوسکی۔ جسکی وجہ سے سیدنا اِسحق علیہ السلام 
نے یعقوب علیہ السلام کو ہجرت کا حکم فرمایا۔۔۔ اُور آپ والد  گرامی کے شہر  ظاہری وِصال کے بعد  ہی واپس تشریف لا ئے۔


یہی وُہ جملہ تھا۔جسکو پڑھنے کے بعد میرے دِل  کی دُنیا زِیر و زَبر ہُوگئی ۔۔۔ اُور میرے دِل میں کئی دِن سے یہ خاہش پیدا ہُورہی تھی۔ کہ میں جلد از جلد یہ قصہ اپنے قارئین کرام کی بصارت کی نذر کردوں۔کیوں کہ،، اِس واقعہ میں ایک زبردست نصیحت موجود ہے۔۔۔ جو میرے نذدیک زندگی کا اصل مقصد ہے۔۔۔ یعنی دُعا حاصل کرنا۔۔۔ اوُر  دِل سے دُعا تب ہی نِکلتی ہے۔ جب کوئی اپنی راہ چھوڑ کر دوسرے کی خوشی حاصل کرنے کو ترجیح دیتا ہے۔ اِس دُعا کو حاصل کرنا چاہتے ہیں۔۔۔۔۔؟؟؟ تو کسی بوڑھے ، معذور،یا اندھے کو راستہ پار کرا کر دیکھئے۔ یا کسی بھوکے کو ایسے کھانا کھلایئے ۔ جیسے کہ،، وُہ آپکا مُرشِد زادہ ہو۔ کسی دکھی انسان کو چند میٹھے بُولوں سےہمت دِلا کر دیکھئے۔۔۔ کسی کی مشکل میں کام آکر دیکھئے۔۔۔ کسی سفید پُوش کا بھرم بچا کر دیکھئے۔۔ کسی کی عزت بچا کر دیکھئے۔۔۔ کسی کو زندگی کی نوید سُنا کر دیکھیئے۔ کسی کو صبح نو کی آمد دِکھا کر دیکھیئے۔ کسی مفلس کو شرمندگی سے بچا کر دیکھئے۔ کسی کے دفتری کاموں میں سہارا بن کر دیکھیے۔۔۔ کسی مظلوم کو اُسکا حق دِلا کر دیکھئے۔۔۔ کسی یتیم کے سر پہ ہاتھ رکھ کر دیکھیئے۔ کسی بیوہ کے سر پہ عزت کی چادر ڈال کر دیکھئے۔۔۔ کسی غریب کی بچی کا گھر بَسا کر دیکھئے۔۔۔۔ پھر دیکھئے گا۔۔۔ کہ،، دُعا کرانے میں۔ اُور دُعا لینے میں کیا فرق ہُوتا ہے۔

کھانا کِھلا کر دُعا حاصل کرنا سیدنا اِسحق علیہ السلام کی سُنت مبارکہ ہے۔ جسکی یاد میں اُولیائے کاملین نے سالانہ، ماہانہ، اُور ہفتہ وار لنگروں کا اجراء کیا۔۔۔ تاکہ بھوکے لُوگوں کو کھانا کِھلا کر اُنکی دُعاوٗں کو سمیٹا جاسکے۔۔۔ اِس لئے خانقاہی نظام چاہے کسی بھی سلسلے سے تعلق رکھتا ہُو۔ وُہاں مسکینوں کا کھانا کھلانا۔ اور لوگوں کی خیر خواہی کے جذبے کو سب کاموں سے ذیادہ اہمیت دِی جاتی ہے۔


حضرت ابودرداء (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کہتے ہیں کہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو مسلم اپنے مسلمان بھائی کے لئے غائبانہ دعا کرتا ہے تو وہ قبول کی جاتی ہے۔ دعا کرنے والے کے سر کے قریب ایک فرشتہ متعین کر دیا جاتا ہے جب وہ اپنے مسلمان بھائی کے لئے بھلائی کی دعا کرتا ہے تو وہ متعین شدہ فرشتہ کہتا ہے کہ اے اللہ اس کی دعا قبول کر اور (یہ بھی کہتا ہے کہ ) تیرے لئے بھی ایسا ہی ہو۔ (صحیح مسلم، و مشکواۃ شریف)

یا رَبِّ مُصطفےٰ بطُفیل مصطفٰے  عزوجل و صلی اللہ علیہ وسلم۔ ہمیں بھی وُہ دُعا حاصِل کرنے کی توفیق عطا فرما۔ ۔۔ جِسے پانے کیلئے زُبان حال سے کہنا نہیں پڑتا۔ بلکہ جوہمارے  ایک اچھے عمل کی وجہ سے    ہمارے دُوسرے مسلمان بھائی کے دِل سے خُوشی کی حالت میں خُود بخود نِکل جاتی ہے۔۔۔۔
آمین آمین آمین۔۔۔۔ بجاہِ النبی الکریم و صلی اللہ تعالی علیہ وَ آلہ وَ اصحابہ وبارک وسلم۔ 

اِس مضمون کی تیاری میں تفسیر نعیمی سے مدد حاصل کی گئی ہے۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Archive

Blog Archive