Tuesday 1 October 2013

معجزات نبی کریم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم

حضرت علی کی شہادت:۔

حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اور بعض دوسرے صحابہ کرام حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ میں بتادوں کہ سب سے بڑھ کر دو بدبخت انسان کون ہیں؟ لوگوں نے عرض کیا کہ ہاں یا رسول اﷲ! ( صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ) بتائیے ۔آپ نے ارشاد فرمایا کہ ایک قوم ثمود کا سرخ رنگ والا وہ بدبخت جس نے حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی کو قتل کیا اور دوسرا وہ بدبخت انسان جو اے علی!تمہارے یہاں پر (گردن کی طرف اشارہ کیا) تلوار مارے گا۔ (مستدرک حاکم جلد ۳ ص ۱۴۰ تاص ۱۴۱مطبوعه حيدرآباد)

یہ غیب کی خبر اس طرح ظہور پذیر ہوئی کہ ۱۷ رمضان ۴۰ ھ کو عبدالرحمن بن ملجم خارجی نے حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ پر تلوار سے قاتلانہ حملہ کیا جس سے زخمی ہو کر دو دن بعد حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ شہادت سے سرفراز ہوگئے۔ (تاريخ الخلفاء)

 سورج کو ٹھہرا دیا:
واضح رہے کہ “حبس الشمس” یعنی سورج کو ٹھہرا دینے کا معجزہ یہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام ہی کے لیے مخصوص نہیں بلکہ انبیاء سابقین میں سے حضرت یوشع بن نون علیہ السلام کے لیے بھی یہ معجزہ ظاہر ہو چکا ہے جس کا واقعہ یہ ہے کہ جمعہ کے دن وہ بیت المقدس میں قوم جبارین سے جہاد فرما رہے تھے ناگہاں سورج ڈوبنے لگا اور یہ خطرہ پیدا ہوگیا کہ اگر سورج غروب ہوگیا تو سنیچر کا دن آ جائے گا اورسنیچر کے دن موسوی شریعت کے حکم کے مطابق جہاد نہ ہو سکے گا تو اس وقت اﷲ تعالیٰ نے ایک گھڑی تک سورج کو چلنے سے روک دیا یہاں تک کہ حضرت یوشع بن نون علیہ السلام قوم جبارین پر فتح یاب ہوکر جہاد سے فارغ ہوگئے۔

 سورج ٹھہر گیا:۔

حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے آسمانی معجزات میں سے سورج پلٹ آنے کے معجزہ کی طرح چلتے ہوئے سورج کا ٹھہر جانا بھی ایک بہت ہی عظیم معجزہ ہے جو معراج کی رات گزر کر دن میں وقوع پذیر ہوا۔ چنانچہ یونس بن بکیر نے ابن اسحق سے روایت کی ہے کہ جب کفار قریش نے حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے اپنے اس قافلہ کے حالات دریافت کیے جو ملک شام سے مکہ آ رہا تھا تو آپ نے فرمایا کہ ہاں میں نے تمہارے اس قافلہ کو بیت المقدس کے راستہ میں دیکھا ہے اور وہ بدھ کے دن مکہ آ جائے گا۔ چنانچہ قریش نے بدھ کے دن شہر سے باہر نکل کر اپنے قافلہ کی آمد کا انتظار کیا یہاں تک کہ سورج غروب ہونے لگا اور قافلہ نہیں آیا اس وقت حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے بارگاہ الٰہی میں دعا مانگی تو اﷲ تعالیٰ نے سورج کو ٹھہرا دیا اور ایک گھڑی دن کو بڑھا دیا۔ یہاں تک کہ وہ قافلہ آن پہنچا۔(زرقانی جلد ۵ ص ۱۱۶ و شفاء جلد۱ ص ۱۸۵)

چاند دو ٹکڑے ہوگیا:۔
حضور خاتم النبیین صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے معجزات میں “شق القمر” کا معجزہ بہت ہی عظیم الشان اور فیصلہ کن معجزہ ہے۔ حدیثوں میں آیا ہے کہ کفار مکہ نے آپ سے یہ مطالبہ کیا کہ آپ اپنی نبوت کی صداقت پر بطور دلیل کے کوئی معجزہ اور نشانی دکھایئے۔ اس وقت آپ نے ان لوگوں کو “شق القمر” کا معجزہ دکھایا کہ چاند دو ٹکڑے ہو کر نظر آیا۔ چنانچہ حضرت عبداﷲ بن مسعود، حضرت عبداﷲ بن عباس و حضرت انس بن مالک و حضرت جبیر بن مطعم و حضرت علی بن ابی طالب و حضرت عبداﷲ بن عمر، حضرت حذیفہ بن یمان وغیرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے اس واقعہ کی روایت کی ہے۔(زرقانی علی المواهب جلد۵ ص ۱۲۴)
ان روایات میں سب سے زیادہ صحیح اورمستند حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے جو بخاری و مسلم و ترمذی وغیرہ میں مذکور ہے۔ حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس موقع پر موجود تھے اور انہوں نے اس معجزہ کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ ان کا بیان ہے کہ
حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے زمانے میں چاند دو ٹکڑے ہوگیا۔ ایک ٹکڑا پہاڑ کے اوپر اور ایک ٹکڑا پہاڑ کے نیچے نظر آ رہا تھا۔ آپ نے کفار کو یہ منظر دکھا کر ان سے ارشاد فرمایا کہ گواہ ہو جاؤ گواہ ہو جاؤ ۔(بخاری جلد ۲ ص ۷۲۱،ص ۷۲۲ باب قوله وانشق القمر)
ان احادیث مبارکہ کے علاوہ اس عظیم الشان معجزہ کا ذکر قرآن مجید میں بھی ہے۔ چنانچہ ارشاد ربانی ہے کہ
اِقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ وَاِنْ يَّرَوْا اٰيَةً يُّعْرِضُوْا وَيَقُوْلُوْا سِحْرٌ مُّسْتَمِرٌّ (قمر)

قیامت قریب آگئی اور چاند پھٹ گیا اور یہ کفار اگر کوئی نشانی دیکھتے ہیں تو اس سے منہ پھیر لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ جادو تو ہمیشہ سے ہوتا چلا آیا ہے۔
اس آیت کا صاف و صریح مطلب یہی ہے کہ قیامت قریب آ گئی اور دنیا کی عمر کا قلیل حصہ باقی رہ گیا کیونکہ چاند کا دو ٹکڑے ہو جانا جو علامات قیامت میں سے تھا وہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہو چکا مگر یہ واضح ترین اور فیصلہ کن معجزہ دیکھ کر بھی کفار مکہ مسلمان نہیں ہوئے بلکہ ظالموں نے یہ کہا کہ محمد( صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ) نے ہم لوگوں پر جادو کر دیا اور اس قسم کی جادو کی چیزیں تو ہمیشہ ہوتی ہی رہتی ہیں۔
ایک غلط فہمی کا ازالہ:۔

آیت مذکورہ بالا کے بارے میں بعض ان ملحدین کا جو معجزہ شق القمر کے منکر ہیں یہ خیال ہے کہ اس شق القمر سے مراد خالص قیامت کے دن چاند کا ٹکڑے ٹکڑے ہونا ہے جب کہ آسمان پھٹ جائے گا اور چاند ستارے جھڑ کر بکھر جائیں گے۔
مگر اہل فہم پر روشن ہے کہ ان ملحدوں کی یہ بکواس سراسر لغو اور بالکل ہی بے سروپا خرافات والی بات ہے کیونکہ اولاً تو اس صورت میں بلا کسی قرینہ کے انشق (چاندپھٹ گیا) ماضی کے صیغہ کو ینشق(چاندپھٹ جائے گا) مستقبل کے معنی میں لینا پڑے گا جو بالکل ہی بلا ضرورت ہے۔ دوسرے یہ کہ چاند شق ہونے کا ذکر کرنے کے بعد یہ فرمایا گیا ہے کہ
وَاِنْ يَّرَوْا اٰيَةً يُّعْرِضُوْا وَيَقُوْلُوْا سِحْرٌ مُّسْتَمِرٌّo
یعنی شق القمر کی عظیم الشان نشانی کو دیکھ کر کفار نے یہ کہا کہ یہ جادو ہے جو ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Archive

Blog Archive