Wednesday 6 November 2013

سیرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا ، بطور ماں

نقوش سیرت سیدہ فاطمۃ الزاہرا رضی اللہ عنھا ، بطور ماں
 .اللہم صلی علی محمد و علی ال محمد کما صلیت علی ابراھیم وعلی ال ابراھیم انک حمید مجید 
اللھم بارک علی محمد و علی ال محمد کما بارکت علی ابراھیم وعلی ال ابراھیم انک حمید مجید
تحریر : ڈاکٹر علی اکبر الازہری

ماں اولاد کے لئے وہ نعمت عظمیٰ اور انعام خداوندی ہے جس کی دنیا میں کوئی مثال ہے نہ بدل۔ ماں دنیا میں اولاد کے لئے جنت فردوس کا شجر سایہ دار ہے۔ مختصراً یوں کہ ایثار و خلوص کی انتہائی بلندیوں اور مہر و وفا کی اتھاہ گہرائیوں کا نام ’’ماں‘‘ ہے۔ ماں کی محبت کبھی ختم نہیں ہوتی۔ ماں ہی وہ واحد ہستی ہے جو اولاد سے اپنے ایثار کا بدلہ، مہربانیوں کا صلہ اور اپنی وفاؤں کا معاوضہ لینے کے تصور سے بالکل پاک ہوتی ہے۔ اسی لئے ماں کی گود اقوام کی پہلی تربیت گاہ ہے۔ معاشرے کی سرگرم رکن ہونے کی حیثیت سے بھی عورت کا سب سے اہم کردار ماں کی ذمہ داریاں پورا کرنا ہے۔
ماں اگر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا جیسے کردار کی مالکہ ہوگی تو پھر سیدنا حسن و حسین رضی اللہ عنھما اور سیدہ زینب رضی اللہ عنہا جیسی مجاہد اور بہادر اولاد پیدا ہوگی جو وقت کی پکار پر طاغوتی سازشوں اور یزیدیوں کے مقابلے میں اپنے خون کا ہدیہ دے کر دین کے شجر کو سرسبز و شاداب رکھے گی۔ یہی آغوش مادر تھی جس کے پروردہ جگر گوشے امامت کے فرائض سرانجام دیتے رہے۔ کسی یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہونے والا صرف علم سے آشنا ہوتا ہے جبکہ آغوش مادر کا کردار یہ ہے کہ یہاں سے فارغ ہونے والا علم کے ساتھ ساتھ عملی اور تربیتی پہلوؤں سے مزین ہوتا ہے۔

حضرت سیدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا جیسی ماں نے اولاد کی تربیت کا جو سبق دیا ہے کون دے گا؟ جہاں فقر اور زہد و عبادت کی انتہا ہو جاتی ہے وہاں اس مامتا کی تربیت کے پروردہ سادات کی ابتداء ہوتی ہے۔

حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہماری والدہ ماجدہ پوری رات عبادت میں گزار دیتیں اور دعا مانگتے ہوئے اپنا نام بھی نہ لیتیں۔ یہ ہے خود غرضی سے پاک خالص رضائے الہٰی کی خاطر عبادت کی عملی تربیت۔

سیرت سیدہ فاطمہ کی روشنی میں آج کی ماں کے لیے راہنمائی

اولاد کی سیرت و کردار والدین کی تربیت کا پر تو ہوتی ہے۔ بالخصوص ان کے اندر صدق و اخلاص جیسی خوبیاں ماں کی تربیت سے ہی پیدا ہوا کرتی ہیں۔ اس لئے اولاد کی بہتر پرورش کے لئے بچے کے جسم و روح کو ہر قسم کی آلودگیوں سے پاک و صاف رکھنے کی ضرورت ہے۔

اس امانت کو صحیح حالت میں قوم کے سپرد کرنے کے لئے وہ قدرت کے اصولوں کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے شب و روز بسر کرے۔ اس لئے کہ وہی موتی سب سے زیادہ قیمتی ہوتے ہیں جو اصداف کے پردوں میں رہے ہوں۔ گوہر کی قیمت صدف میں رہے بغیر نہیں بن سکتی۔ جب حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے پوچھا گیا کہ عورت کا پردہ کیا ہے؟ تو آپ (ر) نے فرمایا کہ ’’نہ کوئی نامحرم مرد، اسے دیکھ سکے اور نہ وہ کسی غیر محرم کو دیکھے‘‘۔ لہذا عورت وہی کہلائے گی جو حیا کے پردے میں مستور ہوگی۔ سب سے اہم ذمہ داری ماں کی یہ ہے کہ وہ معاشرے کو باکردار اور صالح افراد مہیا کرے۔ گھریلو ماحول میں صداقت، شرافت، دیانت، ایفائے عہد، حسن خلق جیسے عملی ماحول میں اولاد کی پرورش کرے اور قرآن و حدیث کی تعلیمات کے مطابق اولاد کی سیرت کی تعمیر کرے۔ بچوں کی تربیت اور پرورش اپنے ہاتھوں سے کرے۔ لہذا مسلمان خواتین کو چاہئے کہ خاتونِ جنت کے طریقہ پرورش اور انداز تربیت کو سامنے رکھتے ہوئے اس دور میں اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ بر آہوں۔

سب عظمتیں اور رعنائیاں جو کسی بشر میں ہوسکتی ہیں ان کے در کی خیرات ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظیم بیٹی اگر بچوں کی تربیت کی خاطر خود تکلیف اٹھاسکتی ہیں، انہیں اپنا دودھ پلاسکتی ہیں تو آج کی مسلمان عورت اس ذمہ داری سے کیونکر راہ فرار تلاش کرسکتی ہے۔ بچوں کی پرورش و نگہداشت ان کی صفائی، ستھرائی، لباس اور خوراک کا خیال رکھنا اور گھریلو امور کی پاسبانی ہی عورت کا افضل جہاد اور سب سے بڑی قربانی ہے۔ عورت کے اسی کردار کی آج سخت ضرورت ہے تاکہ اس کی گود سے مجاہدین اسلام اور علماء ربّانی پروان چڑھیں اور ایک بار پھر عظمت رفتہ کی یاد تازہ ہوسکے۔

آج کے ترقی یافتہ معاشرے کی غیر محفوظ عورت اگر اپنا وقار، عزت و مرتبہ اور حقیقی مقام دوبارہ حاصل کرنا چاہتی ہے تو اسے چادر زہرہ رضی اللہ عنہا کے سائبان کے نیچے آنا ہوگا اور ان کی کی راہ پر چلنا ہوگا۔ حضرات شبّر رضی اللہ عنہ و شبیر رضی اللہ عنہ جیسے جسور و غیور فرزندان اسلام سے اپنی آغوش کو بھرنا ہوگا اور پھر تہذیب مغرب کے حیاء سوز طوفان اور تباہ کن آندھیوں سے اپنے آپ کو بچانا ہوگا۔ دین اسلام عورت کے لئے سراسر امن، سکون، رعنائی اور محبت و شفقت لے کر آیا ہے لیکن ابلیسیت کو مسلمان عورتوں کا یہ تقدس نامنظور ہے اس لئے اس نے عورت کو برابری کا جھانسہ دے کر ورغلاتے ہوئے اس کے فطری مقام سے اٹھا کر مرد کی صف میں لاکھڑا کیا تاکہ وہ گھریلو ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ تلخی حیات کے گھونٹ بھی بھرتی رہے۔ حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی سیرت طیبہ ہماری ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کے لئے خوبصورت نمونہ عمل ہے۔ انہیں چاہئے کہ وہ دور حاضر کی مکاریوں سے باخبر رہتے ہوئے خود کو بھی اور دوسری بہنوں کو بھی بے پردگی کی آگ کے شعلوں سے محفوظ رکھیں۔ بنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے وفاداری کا ثبوت دیں اور بحیثیت مسلمان اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ بر آہونے کی کوشش کریں۔


سالانہ سیدۂ کائنات رضی اللہ عنہا کانفرنس

حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا کی انہی خدمات اور مثالی سیرت کو عام کرنے کے لئے منہاج القرآن ویمن لیگ ہر سال ’’سیدہ کائنات(ر) کانفرنس‘‘ منعقد کرتی ہے۔ اب تک اس سلسلے کے تین شاندار کل پاکستان پروگرام ہوچکے ہیں۔ یہ اجتماع عام طور پر رمضان المبارک کے پہلے عشرۂ رحمت میں منعقد ہوتا ہے کیونکہ 3 رمضان المبارک آپ کا یوم وصال ہے۔ بلاشبہ یہ تحریک منہاج القرآن کا اعزاز و افتخار ہے کہ جس طرح حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جشن میلاد کی دھوم گلی کوچوں سے نکل کر قومی اور عالمی سطح پر پہنچادی گئی ہے اس طرح آپ کی صاحبزادی کی عظمتوں کو سلام عقیدت پیش کرنے کے لئے ان کے شایانِ شان ایک عظیم الشان تقریب کا اہتمام ہوتا ہے۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Archive

Blog Archive