Monday 4 November 2013

حضرت اویس قرنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ


بلاشبہ تمام تعریفوں کا مالک اللہ رب العزت ہے جو کہ تمام تر دیدہ و نادیدہ مخلوقات اور جہانوں کا مالک و خالق ہے ۔ اس کی کروڑہا عنایت کریمانہ میں سے ایک عنایت ہم زمین والوں پر یہ بھی ہے کہ اس نے ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا امتی بنایا ۔ اسلام کے لازوال عاشقِ صلی اللہ علیہ وسلم صادقِ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یعنی حضرت اویس قرنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سیرت مقدسہ پر مبنی ہے یقینا اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عشق و محبت کو اپنی خوشنودی اور اپنی رضا کا سر چشمہ قرار دیا اور یہی وجہ ہے کہ اس کائنات کا ذرہ ذرہ آپ کے عشقِ و محبت میں سر شار ہے ۔
یہ عشق کا ایک اندازہ ہی تو ہے کہ ایک شاعر نے وارفتگی کے عالم میں یہ لکھا ۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تیرے در کی فضاؤں کو سلام گنبدِ خضریٰ کی ٹھنڈی ٹھنڈی چھاؤں کو سلام والہانہ جو طوافِ روضہ اطہر کریں مست و بے خود وجد میں آتی ہواؤں کو سلام تا قیامت عشقِ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں سر شار اہل اسلام دکھائی دیں گے مگر جو مقام حضرت اویس قرنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تاریخ اسلام میں حاصل ہو چکا ہے وہ شائد ہی کوئی دوسرا حاصل کرسکے بلکہ یقینا کوئی بھی دوسرا یہ مقام حاصل نہیں کر سکتا کیونکہ اگرچہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدار بظاہر تو نہیں کیا تھا مگر اس دور میں موجود تو تھے اب بھلا یہ فضیلت کوئی دوسرا کیسے حاصل کر سکتا ہے ۔

مجھے یہاں ایک واقعہ یاد آرہا ہے کہ مالک بن نویرہ نے جو کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دستِ اقدس پر بیعت اسلام کر چکا تھا یہ جب مرتد ہوا تو اس نے ایک نبیہ عورت یعنی سجاح کا ساتھ دیا اور اس کا سپہ سالار بن گیا ۔ مختصر یہ کہ جب یہ شخص گرفتار ہو کر حضرت سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آیا تو اس نے دورانِ گفتگو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر توہین آمیز الفاظ میں کیا ۔ وہ بار بار یہ کہتا تھا کہ ’’تمہارے صاحب یہ کہتے ہیں‘‘ یہ لب و لہجہ بھلا سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کیسے برداشت کرتے آن واحد میں اس کی گردن اڑا دی ۔ آپ جانتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کرنے والا شخص واجب القتل ہے ۔ اس کی باوجود کہ اہل اسلام یہ جانتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس میں گستاخی قابل گردن زدنی جرم ہے پھر بھی بعض لوگ اس کے بڑی ہی دیدہ دلیرہ کے ساتھ مرتکب ہوتے ہیں کبھی یہ کہتے ہیں کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہنا شرک ہے تو کبھی یہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نور نہیں ہیں تو کبھی یہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حاضر و ناظر نہیں ہیں ۔ یہ سب باتیں وہ لوگ جس بد تمیزی اور دریدہ دہنی کے ساتھ کرتے ہیں وہ یقینا قابل افسوس ہے یقینی بات یہ ہے کہ رسول کریم رؤف الرحیم صلی اللہ علیہ وسلم کو نور تسلیم نہ کرنے والے بھی یہ بات تو بحر حال تسلیم ہی کرتے ہیں کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا سایہ نہ تھا۔ ان علماء و فضلاء کو شائد فقیر کی یہ بات ہی سمجھ میں آجائے۔

اہل اسلام کیلئے سب سے اہم اور اولین بات ہی حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس کے ساتھ ہر چیز سے زیادہ محبت کرنا ہے یعنی ماں باپ ، بہن بھائی اور آل و اولاد سے بھی زیادہ ۔ آئیے دعا کریں کہ ہم سب کو عشق مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا سچا جذبہ اللہ کریم عزوجل بہ صدقہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عطا فرمائے۔ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات

صحیح مسلم شریف کے باب اویس قرنی کی فضیلت میں اور مشکوٰۃ شریف کے خصوصی باب ذکر یمن و شام کے علاوہ ذکر اویس قرنی میں یہ حدیث مبارکہ درج ہے کہ ۔ ترجمہ: حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! ایک شخص یمن سے آئے گا جس کا نام اویس ہو گا ۔ وہ یمن میں اپنی ماں کے سوا کسی کو نہیں چھوڑے گا۔ اس کے بدن میں سفیدی (برص کی بیماری ) تھی ۔ اس نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی اور اللہ تعالیٰ نے اس کے بدن سے سفیدی کو ختم کر دیا ۔ ہاں! ایک درہم یا ایک دینار کے برابر سفید رہ گئی ۔ پس تم میں سے جو شخص اس (اویس ) سے ملے اس کو چاہیے کہ اس سے اپنے لئے مغفرت کی دعا کرائے۔ اسیر بن جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ۔

’’ایک دفعہ میں نے حضرت اویس قرنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ میرے لئے دعائے مغفرت کریں ۔ انہوں نے فرمایا کہ میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لئے کیسے دعا کر سکتا ہوں ۔ آپ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ہیں ( مجھے تو صحابیت کا درجہ حاصل نہیں ہوا) انہوں نے کہا کہ میں نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ ’’خیر التابعین ایک شخص ہے اس کو اویس کہا جاتا ہے ۔ ‘‘

صحیح مسلم شریف میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ ’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں تمہارے پاس اویس بن عامر یمن والوں کی امدادی فوج کے ساتھ آئے گا ۔ وہ مراد قبیلہ کا ہے جو بنو قرن کی شاخ ہے ۔ اس کو برص تھا ۔ وہ اچھا ہو گیا لیکن درہم کے برابر باقی ہے ۔ اس کی ایک ماں ہے ۔ اس کا یہ حال ہے کہ اگر خدا کے بھروسے پر قسم کھا بیٹھے تو خدا اس کو سچا کر ے ۔ پھر اگر تجھ سے ہو سکے تو اس سے اپنے لئے دعا کرانا دعا کرنا میرے لئے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان سے (اویس) سے دعائے مغفرت کیلئے کہا تو حضرت اویس قرنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کے لئے بخشش کی دُعا کی ۔

اسلامی تاریخ میں بلاشبہ حضرت اویس قرنی اویس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ایک لازوال مقام حاصل ہے اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو عاشقانِ مصطفی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں سر فہرست شمار کیا جاتا ہے ۔ اس سلسلہ میں یہ واقعہ تقریباً تمام تذکرہ نگاروں نے نقل کیا ہے کہ غزوہ احد میں رسول کریم رؤف الرحیم صلی اللہ علیہ وسلم کا دندان مبارک شہید ہوا تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے تمام دانت توڑ ڈالے تھے۔

روایت ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد عالیشان کی تکمیل میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملے اور مسلمانوں کے حق میں دعا کرنے کیلئے کہا تو دوران گفتگو حضرت اویس قرنی رضی اللہی تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ ۔

’’جب جنگِ احد میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دانت مبارک شہید ہونے کی خبر ملی تو میں نے اپنا ایک دانت توڑ ڈالا۔ پھر خیال آیا کہ شائد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی دوسرا دانت شہید ہوا ہو تو میں نے دوسرا دانت بھی توڑ ڈالا۔ اسی طرح ایک ایک کرکے میں نے اپنے سارے دانت توڑے تو مجھے سکون حاصل ہوا۔ ‘‘ یہ بات سن کر دونوں عظیم المرتبہ صحابہ پر رقت طاری ہو گئی ۔

ایک محیر القول واقعہ اس سلسلہ میں جناب ڈاکٹر سید عامر گیلانی صاحب نے اپنی کتاب سیرت اویس قرنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے صفحہ نمبر۴۷ پر رقم فرمایا ہے کہ ۔ ’’حضرت اویس قرنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے تمام دانت مبارک شہید کر دیئے تو کوئی بھی سخت غذا نہیں کھا سکتے تھے ۔ اللہ تعالیٰ کو حضرت اویس قرنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنے محبوب کے عشق کی یہ ادا اتنی پسند آئی کہ اللہ تعالیٰ نے کیلے کا درخت پیدا فرمایا تاکہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نرم غذا مل سکے۔ جبکہ اس سے قبل کیلے کے درخت یا پھل کا وجود زمین پر نہ تھا۔ ‘‘

آپ کے متعدد مزارات کے متعلق روایات موجود ہے جن کی تفصیل کچھ یوں بیان کی جاتی ہے جناب علامہ فیض احمد اویسی صاحب نے ’’ذِکر اویس ‘‘ کے صفحہ نمبر ۱۶۹ پر درج فرمایا ہے کہ ’’ مختلف مقامات پر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سات مزار پائے جاتے ہیں ۔ ‘‘ مگر آپ نے ان میں سے پانچ کی تفصیل درج کی ہے ۔ 1۔ آپ کا ایک مزار نوح سندھ ( حدود ٹھٹہ ) میں واقع ہے ۔ اکثر حاجت مند اور درویش حضرات اس مزار پر آکر چلہ کشی کرتے ہیں اور آپ کی روحانیت سے مستفیض ہوتے ہیں اور حاجت مندوں کی حاجتیں پوری ہوتی ہیں چنانچہ بندگی سلطان محمد چیلہ نور اللہ مرقدہ اس مزار شریف پر تشریف لے گئے تھے۔ وہاں انہوں نے دو چلے کئے اور ان دو چلوںسے خدا کے فضل سے قطرہ سے دریااور زرہ سے آفتاب بن گئے اور جو کچھ پایا اسی آستانہ سے پایا۔

2۔ آپ کا مزار بندرگاہ زبید میں واقع ہے حاجی لوگ اس مزار کی بھی زیارت سے مشرف ہو کر آتے ہیں ۔ 3۔ آپ کا مزار غزنی افغانستان میں موجود ہے ۔ 4۔ آپ کا مزار بغداد شریف سے دور سر حد ایران کے قریب واقع ہے ۔ ددس 5۔ ملک شام میں اہے علامہ الحاج نے خدا بخش اظہر شجاع آبادی نے اپنے سفر نامہ میں اس کا ذکر فرمایا ہے اس ذکر کی حاضری کی تفصیل بھی لکھی ہے ۔ اور متعدد مزار ہونے کی وجہ سے یہ بتلائی جاتی ہے کہ ایک دفعہ جب آپ خاص حالت میں بیٹھے ہوئے تھے اور چھ دیگر درویش بھی آپ کی خدمت میں حاضر تھے تو آپ پر روحانی کیفیت طاری ہوئی جس سے مغلوب ہوکر دریا کی طرح جوش میں آگئے اور اسی حالت میںمستی و سکر میں آپ کی آنکھیں ان چھ درویشوں پر پڑ گئیں اور ایسی کاری او ربا اثر پڑیں کہ ان سب کو اپنا سا بنا دیا یعنی ان کی ہیت اصل بدل گئی اور سب کے سب حضرت اویس قرنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہم شکل اور ہم وضع ہو گئے۔ پھر کسی نے نہ پہچانا کہ خواجہ اویس قرنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کون ہیں ۔ جب وہ درویش آپ سے رخصت ہو کر اپنے اپنے مقامات پر چلے گئے تو وہاں کے لوگوں نے یہی جانا کہ یہ اویس قرنی ہیں اور جب ان کا انتقال ہوا تو ان کی قبر بھی خواجہ ہی کے نام سے مشہور ہوئی ۔ مگر حقیقت اس کی خدا ہی بہتر جانتا ہے ۔ کہ اصلی قبر کون سی ہے ۔ ‘‘

ان مزارات کے علاوہ علامہ صاحب نے اپنی کتاب کے صفحہ نمبر ۱۷۱ پر ایک اور مزار شریف کا بھی ذکر کیا ہے آپ فرماتے ہیں کہ ۔ چنانچہ آپ کا ایک مزار یمن میں ہے وہ بھی زیارت گاہ خاص و عام ہے اور آپ کے مزار مقدس پر حضرت مظہر جمال اللہ ، معشوق اللہ ، جلال الدین گہلہ ۔ قدس سرہ نے چالیس چلے کھینچے ہیں اور ان چلوں میں فی چلہ چالیس لوگوں سے افطار کیا ہے اور وہ لوگ روانہ بھی محض روزہ افطاری کے لئے سنت سمجھ کر کھاتے تھے اور آپ کے مزار پر انوار پر چلہ کشی سے اس قدر روحانی فیض حاصل کیا تھا کہ قطرہ سے دریا بن گئے تھے۔ واللہ علم بالصواب

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Archive

Blog Archive