Sunday 3 November 2013

سیرت سیدہ کائنات (رض)،بطور بیٹی

نقوش سیرت سیدہ کائنات (رض)،بطور بیٹی
تحریر : ڈاکٹر علی اکبر الازہری​
شہزادی کونین حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بعثت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وقت پانچ سال کی تھیں۔ اس عمر میں بالعموم ہر بچہ خارجی حالات و واقعات کا شعور رکھتا ہے۔ گویا فاران کی چوٹیوں سے چمکنے والا آفتاب نبوت جس کی کرنوں نے پوری انسانیت کو یکسر بدل کر رکھ دیا اس کی پہلی جھلک سے مُستنیر ہونے والے چند خوش قسمت نفوس میں آپ (ر) بھی شامل تھیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب غار حراء سے کئی کئی دنوں بعد لوٹتے ہوں گے تو یقینا ننھی سیدہ دوڑ کر دروازے پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا استقبال کرتی ہوں گی اور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لپک کر ان کو اپنے منور سینے سے لگاتے ہوں گے۔ یوں ابتدائے وحی اور اس کی جملہ کیفیات نہ صرف آپ نے ملاحظہ فرمائیں بلکہ تجلیات الہٰیہ کو بالواسطہ جذب کرنے کا موقع بھی ملتا رہا، نیز اسلام کی خاتون اول حضرت سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی تربیت نے بھی آپ کی زندگی پر گہرے اثرات ثبت کئے۔

حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے آپ فرماتی ہیں ’’میں نے فاطمہ رضی اللہ عنہا سے بڑھ کر روزمرہ زندگی کے معمولات میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مشابہ کسی کو نہیں پایا۔ (ترمذی) مراد یہ ہے کہ حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا اپنے اخلاق، ذات و صفات، عبادت و طاعت اور قول و فعل میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ سب سے زیادہ مشابہ تھیں۔ ایسا کیوں نہ ہوتا، آپ رضی اللہ عنہا بچپن سے لے کر تادمِ زیست حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جتنی قریب رہی ہیں اس کا لازمی تقاضا بھی یہی تھا اور پھر آپ سے ہی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نسب مبارک آگے چلنا تھا۔ اس لئے قدرت نے آپ کو رسالت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مکمل پرتو بنادیا تھا۔ یہی حالت سیدنا امام حسن، سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہما اور بقیہ ائمہ اہل بیت کی تھی جس کو بھی دیکھیں وہ قول وعمل میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مکمل شبیہ لگتا تھا۔
تیری نسل پاک میں ہے بچہ بچہ نور کا
تو ہے عین نور، تیرا سب گھرانہ نور کا​

٭ حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی پوری حیات مقدسہ بناوٹ، تکلف اور زیب و زینت سے پاک تھی۔ حتیٰ کہ عمدہ کھانے یا زرق برق لباس پہننے کی بھی کبھی تمنا نہ ہوئی۔ اس سلسلے میں بعض کتب سیر میں ایک روایت نقل کی گئی ہے کہ ایک بار حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو کسی تقریب میں جانا تھا۔ حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے لئے نیا لباس یا دیگر سامان زیب و زینت نہ تھا۔ دل میں خیال آیا کہ مکہ کی رئیسہ اور بنو ہاشم کے چشم و چراغ کی اہلیہ ہوں، فاطمہ رضی اللہ عنہا اپنی ہم عمر سہیلیوں کو آراستہ و پیراستہ دیکھ کر احساس کمتری کا شکار نہ ہوجائے، یہ سوچ کر تقریب میں جانے کا پروگرام ملتوی کردیا، سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے پوچھا ’’امی جان آپ کیوں نہیں جاتیں؟‘‘ فرمایا ’’بیٹی! میں تمہیں اس حالت میں کیسے لے کر جاؤں؟ عرض کرنے لگیں میرے سامنے اس سامان کی کوئی حیثیت نہیں کیونکہ مجھے اپنے والد بزرگوار نے فرمایا ہوا ہے کہ ’’مسلمان بیٹی کا زیور تقویٰ اور پرہیزگاری ہے‘‘۔

٭ عورت کتنی بھی نیک اور خوش خصال کیوں نہ ہو، دوسری عورت کی عیب جوئی کرنا بالعموم اپنا حق سمجھتی ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود دو صحابیات کو روزہ رکھوا کر ان کے سامنے پیالہ رکھا اور جب قے کروائی تو خون اور گوشت کے لوتھڑے دکھائی دیئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ’’تم نے غیبت کر کے گویا اپنے مسلمان بہن بھائیوں کا گوشت کھایا ہے‘‘۔ قرآن نے بھی غیبت کو زندہ بھائی کا گوشت کھانے کے مترادف قرار دیا ہے لیکن حضرت سیدہ طاہرہ رضی اللہ عنہا بچپن سے ہی غیبت اور عیب جوئی سے نفرت کرتی تھیں۔ ایک بار کچھ عورتیں اکٹھی ہوئیں اور حسب عادت دوسری عورتوں کی غبیت کرنا شروع کردی، آپ فوراً اٹھ کر چلی گئیں، سبب پوچھنے پر فرمایا۔ ’’میرے والد گرامی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غیبت کرنے اور سننے سے منع فرمایا ہے‘‘۔

٭ حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے مبداء فیض صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فیوضات ظاہری و باطنی کے علاوہ ذہانت کا وافر حصہ پایا تھا۔ اس لئے ہر ذہین بچے کی طرح آپ بھی مظاہر قدرت کو دیکھ کر اس کے خالق کا سراغ لگاتی تھیں۔ ایک روایت میں آپ کے اسی قسم کے واقعہ کا ذکر ملتا ہے کہ ایک دن معصومہ کائنات نے والدہ ماجدہ حضرت سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا سے استفسار کیا ’’امی جان! جس اللہ جل مجدہ نے ہمیں اور اس پوری کائنات کو پیدا کیا ہے کیا ہم اسے بھی دیکھ سکتے ہیں؟ اس پر حضرت سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حکمت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی عبادت و بندگی اور اس کی معرفت کے حصول کے طریقے بتائے اور فرمایا کہ اس کے برگزیدہ بندے دنیا میں اللہ تعالیٰ کے جلوؤں کا نظارہ کرتے ہی ہیں، آخرت میں اللہ تعالیٰ انہیں اپنے دیدار سے ضرور مشرف فرمائے گا۔ اس طرح سرور کائنات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب سارا دن دعوت حق کے کٹھن فریضے کی انجام دہی کے بعد گھر واپس آتے تو ازراہ شفقت حضرت سیدہ رضی اللہ عنہا کو معرفت دین پر مبنی باتیں بتاتے جنہیں وہ خداداد ذہانت کے سبب مِنّ و عَن یاد کرلیتیں اور والدہ محترمہ کے پوچھنے پر انہیں سنا بھی دیتیں۔ یوں آپ نے آغوشِ نبوت میں علوم و معارف کے دریا اپنے اندر جذب کئے اور فیوض نبوت کی وارث اور مخزن قرار پائیں۔

٭ اللہ تعالیٰ نے انسان کو دوسری مخلوق کے مقابلے میں اضافی خصائص سے نوازا ہے ان میں جذبہ ایثار و قربانی بھی ایک اہم صفت ہے۔ یہ ایمان کی علامت، تقویٰ کا معیار اور انسانیت کا شرف ہے۔ حضرت سیدہ کائنات رضی اللہ تعالیٰ عنہا میں یہ جذبہ کیوں نہ ہوتا ان کے والد، محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود ایثار کے پیکر اور قربانی کا عنوان تھے۔ آپ رضی اللہ عنہا کے متعلق زیادہ واقعات تو محفوظ نہیں تاہم یہ تو مسلمہ حقیقت ہے کہ آپ نے معصوم عمر میں مصائب و آلام کی جتنی کٹھن گھاٹیاں اہل خاندان کے ساتھ عبور کیں ان میں قدم قدم آپ کی صبرو استقامت اور ایثار و قربانی کا جذبہ کارفرما تھا۔ بعض کتب میں ایک واقعہ مذکور ہے کہ فاطمہ نامی ایک عورت جو شام کے کسی رئیس کی لڑکی تھی، تورات، زبور اور انجیل کی عالمہ تھی۔ وہ ایک مرتبہ شام سے مکہ میں آئی تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر بہت سے تحائف لے کر آئی یہ تحائف اس نے حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی خدمت میں پیش کئے۔ آپ نے خاتون کا استقبال کیا، اس کی خاطر تواضع کی، پھر فرمایا کہ اگر آپ اجازت دیں تو یہ تحائف اہل اسلام میں تقسیم کردوں؟ اس نے بخوشی اجازت دے دی اور آپ نے سب تحائف تقسیم کے لئے بھیج دیئے۔ اس عمر میں ایثار کی یہ شان اور دنیا کے مال و اسباب سے بے رغبتی کی کیفیت دیکھ کر وہ اجنبی عورت ورطہ حیرت میں ڈوب گئی۔ ایسا کیوں نہ ہوتا کہ وہ شہزادی کون و مکاں کی بارگاہ میں بیٹھی تھی جو خدا کی نعمتوں کے قاسم کی حقیقی وارث تھیں۔ جہاں صبح و شام دنیا و آخرت کے خزانے بٹتے تھے اور قیامت تک فیض کا یہ دریا پوری جولانیوں کے ساتھ اسی طرح جاری رہے گا۔

٭ حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراء طاہرہ رضی اللہ عنہا کے بچپن کی سیرت کا تذکرہ ادھور ا رہے گا اگر والدین کے ساتھ آپ کی کیفیت محبت و اطاعت کی جھلک نہ دکھائی جائے، واقعہ یہ ہے کہ سید دو عالم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نور نظر اور لخت جگر ہونے کے ناطے جملہ صفات قدرتی طور پر آپ کی شخصیت مطہرہ کا جزوِ لاینفک تھیں۔ اس لئے والدین کی اطاعت جیسی طبعی، فطری صفت اور اس تعلق محبت کی کیفیت کا اندازہ لگانا ہمارے فہم و ادراک سے ماوراء ہے۔ حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے فیض نظر نے جس طرح حضرت سیدنا اسماعیل علیہ السلام کو کمسنی میں آداب فرزندی سکھادیئے اور وہ پدر بزرگوار کے ایک اشارے پر اپنا سرتن سے جدا کروانے کے لئے تیار ہوگئے تو محبوب خدا، سیدالانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فیضان نظر نے حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا کو کس قدر اعلیٰ اور پاکیزہ آداب سے آراستہ کیا ہوگا؟ اس اطاعت و محبت کی گہرائیوں تک ہمارے تصورات کی رسائی کیسے ممکن ہے کہ اسے ہم الفاظ کا جامہ پہنا سکیں؟

اس کی ایک جھلک دیکھنی ہو تو حضرت سیدنا امام حسن و حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہما کی سیرت و کردار اور دین کی خاطر ان کی قربانیوں کا انداز دیکھا جاسکتا ہے۔ یہ اسی فیضان نظر کے کرشمے تھے کہ کربلا کے ریگزاروں سے لے کر اطراف و اکناف عالم میں آج تک حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے نسبی فرزندوں کی قربانیوں کا لازوال سلسلہ جاری و ساری ہے۔
اتباع فاطمہ رضی اللہ عنہا میں مسلمان بیٹیوں کے فرائض

مندرجہ بالا نقوش سیرت سے حاصل ہونے والے نکات جو ایک مسلمان بیٹی کے لئے راہنما اصول کی حیثیت رکھتے ہیں، خلاصۃًحسب ذیل ہیں۔

* بیٹی پر فرض ہے کہ وہ والدین کی خدمت و اطاعت دل و جان سے کرے۔ جدید نسل اور بالخصوص تعلیم یافتہ نوجوان طبقہ اپنے والدین کی عزت و توقیر نہیں کرتا۔ خاص طور پر مذہبی اور دینی نصیحت کو نفرت کی حد تک رد کرتا ہے، ایسی اولاد دنیا و آخرت میں اللہ تعالیٰ کے غضب کی مستحق ہے۔

* بیٹی والدین کی جائز خواہشات پر مرمٹنے کے لئے تیار رہے، ان کی عزت وناموس کا خیال رکھے، اپنی عفت و حیاء کو داغدار ہونے سے حتی الوسع بچائے رکھے۔

* والدین کے لئے راحت و سکون کا باعث ہو نہ یہ کہ شرم و عار کا سبب بنے۔ حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا تو اس وقت بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ڈھارس تھیں جب اپنوں اور بیگانوں نے تلواریں نیام سے باہر نکال رکھی تھیں اور سب آپ کے جانی دشمن ہوچکے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہا کے لئے یہ دور کھیل کود میں مگن رہنے کا تھا لیکن قربان جائیں اس تقدس مآب شہزادی کی عظمتوں پر کہ اس کم سنی میں بھی سراپا اطاعت اور مونس و غمخوار رہیں۔

* اگر والدین معاشی اعتبار سے تنگ دست ہوں، تو کفایت شعاری پنائے۔ بلاوجہ فرمائشیں، اخراجات میں اضافے کا سبب بنتی ہیں۔ بنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو نازو نعم میں پلنے والی تھیں مگرشعب ابی طالب میں اہل خاندان کے ہمراہ تین سال درختوں کے پتے اور ٹہنیاں کھاکر گزارہ کیا لیکن زبان پر حرف شکایت نہ لایا۔
اس شکم کی قناعت پر لاکھوں سلام​

* تعلیم و تربیت کے حصول میں محنت، لگن اور دلچسپی ضروری ہے۔ والدین یا اساتذہ کی اچھی باتوں کو پلے باندھ کر ان پر عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے کیونکہ یہی اس کے سیکھنے اور علم کو عمل میں ڈھالنے کا سنہری دور ہے۔

* اگر سوتیلی ماں کے ساتھ رہنا پڑے تو صبر و استقامت اور اطاعت و محبت کا ویسا ہی مظاہرہ کرے جیسا کہ اپنی حقیقی ماں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ حضرت سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے انتقال کے بعد حضرت سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا یکے بعد دیگرے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نکاح میں آئیں اور گھر میں آپ کے ساتھ رہتی تھیں مگر کبھی کسی کو آپ سے شکایت نہ ہوئی بلکہ سب کی سب امہات المومنین رضی اللہ عنہن آپ کے محاسن و اخلاق کی دل و جان سے معترف تھیں اور دلچسپ بات یہ ہے کہ آپ کے فضائل و محاسن پر مبنی اکثر احادیث حضرت سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہیں۔
* خویش و اقارب بہن بھائیوں اور عزیزوں سے حسن سلوک بھی سیدہ کی سیرت کا تابناک پہلو ہے۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Archive

Blog Archive