Monday 14 October 2013

نظرِ بد کا علاج

فیضانِ اسم اعظم نظرِ بد اور اِس کا علاج

نظرِ بد کا جواز قران مجید اُور صحیح حدیث سے ثابت ہے۔۔۔ اسلئے جب بعض آزاد خیال لُوگ نظر ہونے کا یا نظر بد کے اثرات کا بے علمی میں اِنکار کررہے ہُوتے ہیں۔۔۔ تو دراصل علم کی کمی کے باعث وُہ قران مجید اُور احادیث طیبہ کا اِنکار کرجاتے ہیں۔ جیسا کہ،، بعض لُوگ جنات کا بھی اِنکار کردیتے ہیں۔۔۔۔ اگر یہ انکار لاعلمی میں کیا جائے تو اِنسان صرف گنہگار ہُوتا ہے۔ لیکن اگر کوئی صاحب علم اِسکا اِنکار کرے گا۔ تو وُہ حد کُفر تک بھی پُہنچ سکتا ہے۔۔۔ اللہ کریم ہمیں بے عِلموں کی صحبتِ بے فیض سے ہمیشہ محفوظ رکھے۔ کہ ایسے لوگ شیطانِ لعین کے پیروکار، یا،، آلہ کار ہُوتے ہیں۔۔۔ خود بھی آخرت کے نفع سے دُور ہُوتے ہیں ۔اُور دُوسروں کیلئے بھی خسارے کا باعث بنتے ہیں۔

قران مجید فرقان حمید میں اللہ کریم کفار کی نظر بد کا تذکرہ کرتے ہُوئے اِرشاد فرماتا ہے۔
وَاِنۡ يَّكَادُ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا لَيُزۡلِقُوۡنَكَ بِاَبۡصَارِهِمۡ لَمَّا سَمِعُوا الذِّكۡرَ وَيَقُوۡلُوۡنَ اِنَّهٗ لَمَجۡنُوۡنٌ‌ۘ‏
اور ضرور کافر تو ایسے معلوم ہوتے ہیں کہ گویا اپنی بد نظر لگا کر تمہیں گرادیں گے جب قرآن سنتے ہیں اور کہتے ہیں یہ ضرور عقل سے دور ہیں۔۔۔۔ سورہ القلم آیت نمبر ۵۱۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا ہے کہ،، وہ  (کفار)آپ کو نظر لگا دیں گے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں۔۔۔
اَلْعَيْنُ حَقٌّ وَلَوْ کَانَ شَيْئٌ سَابَقَ الْقَدْرَ سَقَبَتُْ الْعَيْنُ، وَاِذَا اسْتُغْسِلْتُمْ فَاغْسِلُوا
سنن ابی داود وجامع الترمذی
’’نظر لگنا برحق ہے، اگر کوئی چیز تقدیر سے سبقت کرنے والی ہوتی تو نظر سبقت کرتی اور جب تم سے دھونے کا مطالبہ کیا جائے تو تم دھو دیا کرو۔

لَا رُقْيَةَ اِلاَّ مِنْ عَيْنٍ اَوْ حُمَةٍ  ۔۔۔صحیح بخاری
کہ ،،دَم کرنا نظربد  یا بخار کیلئے ہی ہے۔

نظر کے اثرات سے پہاڑ ریزہ ریزہ ہُوجاتے ہیں۔ یہ کہاوت تو آپ نے ضرور سُنی ہُوگی۔۔۔ لیکن ایسا ہُوتا کیوں ہے۔۔۔؟ کیا کبھی آپ نے اِس کے متعلق سُوچا ہے۔۔۔  میں نے اِس معاملے میں کچھ تحقیق کی ہے۔ جِسے آپ کے سامنے پیش کررہا ہُوں۔۔۔دراصل انسانی جسم سے اُسکی دِماغی وَ جِسمانی کیفیات کی نسبت سے منفی اُور مثبت ریز (شعاعیں) نِکلتی رہتی ہیں۔۔۔ یعنی جب انسان پر خُوشی کی کیفیت غالب ہُوتی ہے۔ تو اُسکے تمام جسم سے بالعموم اُور آنکھوں سے بالخصوص مثبت ریز (شعاعیں) نکلتی ہیں۔ جس سے  ماحول میں خوشگوار اَثر پیدا ہُوتا ہے۔ اُور ایسی حالت میں جب کوئی دوسرا نارمل انسان اِسے دیکھتا ہے۔ تو  اُسے بھی اِن برقی ریز کی وجہ سے توانائی حاصل ہوجاتی ہے۔ لیکن جب کوئی شخص غصہ کی حالت میں ہُو۔ یا حَسد کی کیفیت میں مُبتلا ہوتا ہے۔ تب اُسکا جسم بالعموم اُور نِگاہیں بالخصوص منفی برقی شعاعیں (ریز) برآمد کرتی ہیں۔ جسکی وجہ سے جِس شخص کو دیکھا جارہا ہُو۔ وُہ بھی اِن منفی شعاعوں سے متاثر ہوجاتا ہے۔۔۔

جسکی ایک مثال یہ بھی دیکھی  جاسکتی ہے۔کہ،، جب کوئی شخص انتہائی غصہ کی حالت میں ہُوتا ہے۔ تو مُقابل شخص  اُس وقت نظر مِلا کر  اُسے نہیں دیکھ پاتا۔ کیونکہ غصہ کی شدت کی وجہ سے آنکھوں میں سُرخی اُمڈ آتی ہے۔ لیکن نظر کا معاملہ صرف غصہ کا مرہونِ منت نہیں ہُوتا۔ کیونکہ بعض اُوقات انسان کسی  نوجوان یا بچے کو رشک کی حالت میں دیکھتا ہے۔  یہاں تک کہ اپنے بچوں کی شرارتوں یا حرکتوں کا بغور مطالعہ کرتے ہُوئے  بھی انسان کی نِگاہوں سے لاشعوری طُور پر منفی شعاعیں برآمد ہُونے لگتی ہیں۔ جسکی وجہ سے دوست احباب اُور خاص طور پر چھوٹے بچے مُتاثر ہُوجاتے ہیں۔ میں نے  اِن  ریز کا اَثر دیکھنے کے لئے بیشمار مرتبہ ایک تجربہ کیا ہے۔ جِس میں مجھے خاطر خواہ کامیابی حاصِل ہوئی ہے۔

سب سے پہلا مشاہدہ ایک بارہ برس کی بچی پر قریبا بیس برس قبل کیا تھا۔ وُہ میرے ایک دوست کی بھتیجی تھی۔ جِس پر عجیب طرح کے دُورے پڑ رہے تھے۔ میں نے وظائف کیساتھ بے اختیاری طور پر اُس بچی کو اسطرح دیکھنا شروع کیا۔ جیسے وُہ میری بیٹی یا بہن ہُو۔۔۔ میرا خیال جسقدر مضبوط ہوتا چلا گیا۔ وُہ بچی اُسی قدر نارمل ہُوتی چلی گئی۔۔۔ تھوڑی دیر میں  وُہ بچی تو نارمل ہُوگئی۔ لیکن مجھے شدت سے چکر آنے لگے ۔ اُور گھر تک واپسی کا سفر بھی  اپنے قدموں پر بقائمی ہُوش جاری نہیں رکھ پایا۔ شام کو جب کچھ حالت بہتر ہُوئی۔ تو اپنے روحانی اُستاد سے استفادہ حاصل کرنے کیلئے جا پُہنچا۔۔۔ اُنہوں نے مجھے دیکھتے ہی اپنے پاس بِٹھا لیا۔ اُور کچھ دیر مجھ پر دَم کرتے رہے۔۔۔ حیرت انگیز طور پر  مجھے ایسا محسوس ہُونے لگا۔ جیسے مجھے چارج کیا جارَہا ہُو۔ اُورمیں چند منٹوں میں ہی بالکل نارمل ہُوگیا۔

تب اُنہوں نے  مجھے سے  استفسار کیا۔۔۔؟؟؟ کیا آج تُم نے کسی پر دَم کیا تھا۔؟ میں نے اثبات میں جواب دیا۔۔۔ تو  اُنہوں نے مجھ پر  انکشاف کرتے ہُوئے بتایا۔ کہ میں جس بچی پر دَم کرنے گیا تھا۔ وُہ روحانی طور پر بُہت کمزور تھی۔ جِسے چند دِن دَم کردیا جاتا۔ تو وُہ نارمل ہُوسکتی تھی۔ لیکن تُم نے انجانے میں اپنی نظروں سے اپنی  رُوحی پاور اُس لڑکی میں منتقل کرنا شروع کردیں۔ جسکی وجہ سے وُہ لڑکی تو چند منٹوں میں ٹھیک ہُوگئی۔۔۔ لیکن تمہاری روحانی پاور جو  تمہیں چلنے پھرنے، بولنے، سوچنے ، میں معاونت فراہم کرتی ہے۔ اچانک اِس منتقلی سے کمزور پرگئی۔۔۔۔ جیسے ایک بیٹری سے دوسری بیٹری کو چارج کردیا جاتا ہے۔ ۔۔پھر اُنہوں نے مجھے تنبہی کرتے ہُوئے اِرشاد  فرمایا کہ،، کم از کم  اگلے دس برس تک ایسی حماقت پھر نہیں کرنا۔ جب تک کہ،،  ڈائریکٹ گِرڈ اسٹیشن سے رابطہ بحال نہ ہُوجائے۔ میں نے اُس زمانے میں تو اِس عمل کو دوبارہ نہیں آزمایا۔۔۔لیکن۔ گُذشتہ چند برسوں میں  الحمدُ للہ رب العامین اِسی تکنیک سے کئی  روحانی مریضوں کا کامیابی سے علاج کرچکا ہُوں۔

محبت سے دیکھنے پر بھی نظر لگ جانے کا دُورِ رسالتماب صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک عجیب واقعہ۔

امام نسائی اور امام ابن ماجہ رحمہ اللہ  نے روایت کیا ہے کہ عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ  سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ  کے پاس سے گزرے، جب کہ وہ غسل کر رہے تھے اتفاق سے انہوں نے سہل بن حنیف کو دیکھ کر بے ساختہ کہا کہ: ’’میں نے آج تک کسی کنواری دو شیزہ کی بھی اس طرح کی جلد نہیں دیکھی۔‘‘  یہ کہنا تھا کہ سہل بے ہوش ہو کر زمین پر گر پڑے۔ انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے جایا گیا اور عرض کیا گیا: سہل بے ہوش ہو کر گر گئے ہیں۔ آپ نے فرمایا۔۔۔تم ان کے بارے میں کس کو مورد الزام ٹھہراتے ہو۔۔۔؟ صحابہ کرام رضوان اللہ عنہما  نے عرض کیا: عامر بن ربیعہ کو۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اِرشاد فرمایا۔۔
عَلَامَ يَقْتُلُ أَحَدُکُمْ أَخَاهُ إِذَا رَأَی أَحَدُکُمْ مِنْ أَخِيهِ مَا يُعْجِبُهُ فَلْيَدْعُ لَهُ بِالْبَرَکَة۔
تم میں سے کوئی اپنے بھائی کو قتل کرنے  کے درپے کیوں ہے۔۔۔؟ تم میں سے کوئی جب اپنے بھائی کی کوئی خوش کن بات دیکھے ۔تو اس کے لیے برکت کی دعا کرے۔

                پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے پانی منگوایا۔ اور عامر رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ وضو کریں، تو انہوں نے اپنے چہرے اور دونوں ہاتھوں کو کہنیوں تک دھویا، دونوں گھٹنوں اور ازار کے اندر کے حصے کو دھویا اور پھر آپ نے 
حکم دیا کہ وہ پانی نظر لگے ہوئے شخص پر بہا دیں۔۔۔
اِس تمام واقعہ سے بھی نظر کا لگنا ثابت ہے۔ اُور ایک صحابی کے وضو کے پانی  سے دوسرے صحابی کے علاج کا واقعہ معلوم ہوتا ہے۔ جبکہ قران مجید میں اللہ کریم صحابہ کرام کی شان بیان کرتے ہُوئے فرماتا ہے۔ کہ یہ ایک دوسرے کیلئے انتہائی نرم ہیں۔ محبت کرنے والے ہیں۔ تو معلوم یہ ہُوا کہ نظر کے اثرات محبت سے دیکھنے پر بھی واقع ہُوسکتے ہیں۔

چُونکہ حضور علیہ السلام اللہ کریم کی مخلوق میں سب سے ذیادہ حَسین ہیں۔ اسلئے حکم اِلہی سے سیدنا جبرئیل علیہ السلام  نبی ء کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کو حاسدین کی نظروں سے محفوظ رکھنے کیلئے دم کرتے ہوئے یہ کلمات پڑھا کرتے تھے۔

بِاسْمِ اللّٰهِ اَرْقِيْکَ، مِنْ کُلَّ شَيْئٍ يُؤْذِيْکَ، مِنْ شَرِّ کُلِّ نَفْسٍ اَوْ عَيْنٍ حَاسِدٍ، اَللّٰهُ يَشْفِيْکَ، بِاسْمِ اللّٰهِ اَرْقِيْکَ ۔۔۔ صحیح مسلم،

’’اللہ کے نام کے ساتھ میں آپ کو دم کرتا ہوں، ہر اس چیز سے جو آپ کو تکلیف دے، اور ہر انسان کے یا حسد کرنے والی آنکھ کے شر سے، اللہ آپ کو شفا دے، میں اللہ کے نام کے ساتھ آپ کو دم کرتا ہوں۔

حضرت اَمَّاں عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا۔ یا پھر یہ حکم عام دیا۔ کہ،، نظر بد سے دم کروایا جائے۔  بخاری  (الطب/ 5297)-

بچوں کو سب سے ذیادہ نظر لگنے کا اندیشہ رہتا ہے۔ چُنانچہ بُخاری شریف کی ایک حدیث کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خُود بھی حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کی نظر اِن آیات سے اُتارہ کرتے تھے۔
اُعِيْذُکَمَا بِکَلِمَاتِ اللّٰهِ التَّامَّةِ مِنْ کُلِّ شَيْطَانٍ وَّهَامَّةٍ وَمِنْ کُلِّ عَيْنٍ لَامَّةٍ
میں تم دونوں کو اللہ تعالیٰ کے کلمات تامہ کی پناہ میں دیتا ہوں، ہر شیطان اور زہریلی بلا کے ڈر سے اور ہر لگنے والی نظر بد کے شر سے۔۔۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے ایک فرمان غیب نشان کیمطابق  حضرت ابراہیم علیہ السلام  بھی اسماعیل واسحاق علیہما السلام  کو اسی طرح دم کیا کرتے تھے۔

اُمُ المومنین حضرت اُمِ سلمی رضی اللہ عنہا کا مُوئے مُبارک سے نظر بد کا علاج کرنا۔
حضرت عثمان بن عبداللہ بن مُوہب سے رِوایت سے ہے۔کہ،، میرے گھر والوں نے  مجھے پانی کا ایک پیالہ دیکر اُمُ المومنین حضرت اُمِ سلمی رجی اللہ عنہا کے  دَرِ عظمت پر بھیجا۔ اِس لئے کہ،، جب کسی کو نظر لگ جاتی ہے۔ یا کوئی اُور مرض لاحق ہُوجاتا ہے۔ تو وُہ ایک پیالہ حضرت اُمِ سلمی رضی اللہ عنہا کی خِدمت میں پیش کرتا۔ اُمِ سلمی رضی اللہ عنہا سیدُ الانبیاٗ صلی اللہ علیہ وسلم کے مُوئے مُبارک نکال کر جُو کہ،، ایک چاندی کی نلکی میں رکھے ہُوئے ہُوتے تھے۔ آپ اِن متبرک مُوئے مُبارک کو پیالے  کے پانی میں ہِلاتیں۔ اُور مریض کو وُہ پانی پِلا دیا جاتا۔ تو مریض شِفایاب ہُوجاتا۔ رَاوی کا بیان ہےکہ،، جب میں نے چاندی کی اُس نلکی میں نِگاہ کی تو مجھے اُس میں چند ایک سُرخی مائل موئے مُبارک نظر آئے۔(بخاری)۔

نظر بَد اُتارنے کے چند طریقے۔۔۔

نمبر ۱: جس پر نظر لگی ہُو۔ اُسے فرض غسل کی طرح غسل کرنے  کا کہیں۔ اگر معلوم ہُو۔کہ،، فُلاں کی نظر لگی ہے۔ تو جسکی نظر لگی ہُو۔ اُسکے وضو کا پانی مریض پر چھڑکیں۔۔۔ اور یہ آیت ۱۱ مرتبہ پڑھ کر مریض پر دَم کریں۔ دُعا یہ ہے۔  
۱: اَعُوْذُ بِکَلِمَاتِ اللّٰہِ التَّامَّة مِنْ شَرِّ کُلِّ شَیْطَانٍ وَہَامَّة وَمِنْ کُلِّ عَیْنٍ لَامَّة

۲: دُوسری دُعا یہ ہے جو کہ نظر کے علاج میں بُہت نافع ہے۔ درج ذیل دُعا تین مرتبہ بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ کر سات مرتبہ
بِسمِ اللہِ  اللھم اَذھِب حَرَّھا وَ بَردَھَا وَ وَﺻَﺒَﮭَ۔۔۔۔۔ پڑھ کر مریض پر  دَم کریں۔ انشا اللہ نظر اُتر جائے گی۔

نمبر ۳: تین عدد سُرخ  مِرچ لیں۔ اُس پر  سات مرتبہ بسم اللہ شریف، ایک مرتبہ سُورہ الکرسی، تین مرتبہ سُورہ فلق، تین مرتبہ سُورہ والناس، اول آخر درود پاک پڑھ کر مِرچوں پر دم کریں۔ پھر اِن مرچوں کو مریض پر اکیس مرتبہ وار کر چولہے میں ڈال دیں۔۔۔ انشا اللہ نظر  کا اثر دفع ہُوجائے گا۔

نمبر ۴: بچوں کی نظر اُتارنے کیلئے سورہ کوثر سے بھی دَم کیا جاسکتا ہے۔ جسکا طریقہ یہ ہے۔
سب سے پہلے تین مرتبہ درودِ پاک پڑھیں۔ پھر تعوذُ تسمیہ کے بعد ایک مرتبہ سورہ کوثر بچے کے سیدھے گال پر دَم کریں۔ دوسری مرتبہ سورہ کوثر پڑھ کر  اُلٹے گال کی طرف اُور تیسری مرتبہ پڑھ کر بچے کی پیشانی پر دَم کردیں۔۔ انشا اللہ نظر  اُتر جائے گی۔

نمبر ۵  : ہر مرتبہ بسم اللہ شریف کے ساتھ درج ذیل سورہ القلم کی  دُعا پڑھیں۔ مریض اُور پانی پر دَم کرتے رہیں۔ نو(۹) مرتبہ دَم کرنے  کے بعد مریض کو پانی دیں اُور سات گھونٹ  پانی پینے کو کہیں۔ ۔۔پینے والا  مریض ہر گھونٹ پیتے ہُوئے بسم اللہ شریف پڑھ کر پانی پیئے۔ باقی پانی مریض پر چھڑک دیں۔ انشا اللہ  عزوجل نظر فورا ختم ہُوجائے گی۔۔۔۔  
وَاِنۡ يَّكَادُ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا لَيُزۡلِقُوۡنَكَ بِاَبۡصَارِهِمۡ لَمَّا سَمِعُوا الذِّكۡرَ وَيَقُوۡلُوۡنَ اِنَّهٗ لَمَجۡنُوۡنٌ‌ۘ‏وَمَا ھُوَ اِلَّا ذِکرُلِلعَلَمِین۔
سورہ القلم آیت نمبر ۵۱
مکمل تحریر اور تبصرے>>

جادو کی کاٹ کا طریقہ

فیضانِ اِسم اعظم جادو کی کاٹ کا طریقہ۔

محترم قارئین کرام السلامُ علیکم
الحمدُ للہِ عزوجل اللہ کریم کا کروڑہا کروڑ شکر و اِحسان ہے۔کہ،، آج  توفیق  خُداوندی سے اِسمِ اعظم  کی قسط نمبر  ۱۶ تحریر کررہا ہُوں۔۔۔ جسکا عنوان ہے جادو کی کاٹ،، جسمیں آج میں اپنے قارئین کرام کو جادو کا توڑ کرنے کا طریقہ سمجھانے کی کوشش کرونگا۔ اُور میری جانب سے اُن تمام مسلمانوں کو اِس عمل کی اجازت ہوگی۔ جنکے قلوب میں انبیا کرام علیہمُ اسلام کی عظمت،  تمام صحابہ کرام بشمول خلفائے راشدین ( رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین) کی محبت، اور اولیائے کرام (رحم اللہ اجمعین) کا ادب موجود ہے۔ میرے اِس طریقہ سے کوئی بے ادب و گستاخ علاج نہ کرے۔کہ،، اُسے اِس علاج سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہونے والا۔ خوامخواہ مشقت میں پڑےگا۔ اِس طریقے سے  آپ اپنی اُور صرف اپنی فیملی یعنی والدہ، والد، بھائی بہن، میاں،بیوی، اور بچوں کی کاٹ کرسکتے ہیں۔

ایک وقت میں صرف ایک شخص کی کاٹ کریں۔ اپنا علاج کرنے کیلئے ضروری ہے۔ کہ،، آپ صحتیاب ہُوں۔ مطب یہ کہ،، خُود کی حالت ایسی نہ ہُو۔ کہ کاٹ مکمل ہی نہ کرسکیں۔۔۔ اگر کاٹ کرنے کی ہمت نہ ہُو تو مجھے درج ذیل لِنک پر میسج کردیجئے گا۔ میں جمعرات کو اجتماعی کاٹ میں آپکا نام شامل کرلوں گا۔۔۔ یہ طریقہ اُور اِسکی اجازت بھی اِس لئے بتا رہا ہُوں۔ کہ،، بعض لوگوں پر اتنے تواتر سے جادو کے معملات کئے جاتے ہیں۔ کہ،، سائل بھی کاٹ کرواتے کرواتے تھک جاتا ہے۔ اول تو ہماری طرح مفت کاٹ کرنے والے ذیادہ لُوگ میسر نہیں ہیں۔۔۔ جو صرف اللہ کریم کی رضا کیلئے اپنے مسلمان بھائیوں کے جادو کی کاٹ کردیں۔ دوئم،، پیسے لیکر کاٹ کرنے والے لُوگ بھی ایمانداری سے اپنا کام نہیں کرتے۔ سوئم اناڑی اُور فراڈی لُوگوں کی بھی اِس دُنیا میں کمی نہیں ہے۔۔۔ جو صرف مال بٹورنے کیلئے لوگوں کو بے وقوف بناتے ہیں۔۔۔ اور اُن سے جادو کی کاٹ کے نام پر  مسلسل اپنی جیب گرم کرتے رہتے ہیں۔ چہارم،، اِس کاروبار میں ایسے لوگ بھی شامل ہوگئے ہیں۔ جنہوں نے خود پر مذہب کا لبادہ اُوڑھ رکھا ہُوتا ہے۔ اور لُوگ  اُنہیں دیندار  سمجھ کر اُنکے دَامِ فریب میں آجاتے ہیں۔۔۔ اللہ کریم سب کو ہدایت عطا فرمائے۔

جادو کی کاٹ کا طریقہ

سب سے پہلے مغرب کی نماز ادا کریں۔  پھر دو رکعت نفل پڑھ کر اِسکا ثواب جمیع انبیا کرام  علیہم السلام ، صحابہ کرام و  اولیائے عظام  رضوان اللہ اجمعین ، اُور  اپنے استاد کو ایصال کردیں۔ اور بغیر کسی سے کلام کئے مصلے پر چار زانوں بیٹھ جائیں۔ اگر مریض موجود ہُو تو اُسکو اپنے داہنے ہاتھ کی جانب بِٹھا لیں اور ایک بوتل پانی بھی پاس رکھ لیں۔۔۔ ورنہ غائبانہ کاٹ بھی کی جاسکتی ہے۔ چاہے مریض سات سمندر پار ہی کیوں نہ بیٹھا ہُو۔

سب سے پہلے ۱۱ مرتبہ درود پاک پڑھیں۔
اسکے بعد ۱۹ مرتبہ بسم اللہ الرحمن الرحیم۔
۳ ۔مرتبہ سورہ فلق پڑھیں۔
۳۔ مرتبہ سو رہ الناس پڑھیں۔
تین مرتبہ سورہ عَبس پڑھیں۔(عم پارہ میں  ہے)۔

اِسکے بعد یُوں کہیں۔ اے اللہ کریم میں تیرا عاجز بندہ ہُوں۔ تیرے فضل کرم پر نِگاہ رکھتے ہُوئے اپنی جادو کی کاٹ کررہا ہُوں۔  مجھ پر جِس نے بھی  جادو کا معاملہ کیا ہے۔ میں اِس جادو کو اُسی کی جانب لُوٹاتا ہُوں۔ میرے اِس عمل کو قبول فرما۔ اور مجھ لاچار کی مدد فرمادے۔ اتنا کہنے کے بعد اپنا اُلٹا ہاتھ تین مرتبہ اپنی اُلٹی ران پر ماریں اور سات مرتبہ،، فارجِعُو پڑھ کر اپنے اُلٹے ہاتھ کی جانب تین مرتبہ تھتکار دیں۔

اب دوسری مرتبہ صرف تین بار سورہ عبس پڑھیں۔

اِسکے بعد یُوں کہیں۔ اے اللہ کریم میں تیرا عاجز بندہ ہُوں۔ تیرے فضل کرم پر نِگاہ رکھتے ہُوئے اپنی جادو کی کاٹ کررہا ہُوں۔  مجھ پر جِس نے بھی  جادو کا معاملہ کیا ہے۔ میں اِس جادو کو اُسی کی جانب لُوٹاتا ہُوں۔ میرے اِس عمل کو قبول فرما۔ اور مجھ لاچار کی مدد فرمادے۔ اتنا کہنے کے بعد اپنا اُلٹا ہاتھ تین مرتبہ اپنی اُلٹی ران پر ماریں اور سات مرتبہ،، فارجِعُو پڑھ کر اپنے اُلٹے ہاتھ کی جانب تین مرتبہ تھتکار دیں۔

تیسری، چوتھی ،پانچویں، چھٹی، اور ساتویں مرتبہ بھی صرف تین بار سورہ عبس پڑھ کر  ہر بار یہی کہنا ہے۔کہ،،   اے اللہ کریم میں تیرا عاجز بندہ ہُوں۔ تیرے فضل کرم پر نِگاہ رکھتے ہُوئے (اپنی )جادو کی کاٹ کررہا ہُوں۔ ( مجھ )پر جِس نے بھی  جادو کا معاملہ کیا ہے۔ میں اِس جادو کو اُسی کی جانب لُوٹاتا ہُوں۔ میرے اِس عمل کو قبول فرما۔ اور مجھ لاچار کی مدد فرمادے۔ اتنا کہنے کے بعد اپنا اُلٹا ہاتھ تین مرتبہ اپنی اُلٹی ران پر ماریں اور سات مرتبہ،، فارجِعُو پڑھ کر اپنے اُلٹے ہاتھ کی جانب تین مرتبہ تھتکار دیں۔

اِس طرح سورہ عبس کے پڑھنے کی تعداد اکیس مرتبہ ہُوجائے گی۔ اُور کاٹ کا عمل مکمل ہُوجائے گا۔ اُور انشا اللہ فوراً  ہی مریض کو افاقہ محسوس ہُونے لگے گا۔ ۔۔۔ البتہ جسمانی مرض کا علاج  طبیب سے کرواتے رہیں ۔آخر میں اللہ کریم کی بارگاہ میں تمام انبیا کرام، صحابہ کرام، اصحابِ بدر، حضور سیدنا غوث اعظم، اور اپنے مرشد کریم کے وسیلے سے خوب  دِل سے  مریض یا اپنے لئے دعا کریں۔ اگر مریض قریب ہے تو اُس پر بھی دم کریں۔ اور پانی پر دَم کرکے اُسے پینے کیلئے دے دیں۔

اگر کسی دوسرے انسان کی کاٹ مقصود ہُو تو۔ دُواران عمل یوں کہیں گے۔ مثال کے طور پر عکسہ بنت راشدہ کی کاٹ کرنی ہے تو اِس طرح سے  کہنا ہے۔ اے اللہ کریم میں تیرا عاجز بندہ ہُوں۔ تیرے فضل کرم پر نِگاہ رکھتے ہُوئے عکسہ بنت راشدہ کے جادو کی کاٹ کررہا ہُوں۔ ۔ عکسہ بنت راشدہ  پر جِس نے بھی  جادو کا معاملہ کیا ہے۔ میں اِس جادو کو اُسی کی جانب لُوٹاتا ہُوں۔ میرے اِس عمل کو قبول فرما۔ اور مجھ لاچار کی مدد فرمادے۔ اتنا کہنے کے بعد اپنا اُلٹا ہاتھ تین مرتبہ اپنی اُلٹی ران پر ماریں اور سات مرتبہ،، فارجِعُو پڑھ کر اپنے اُلٹے ہاتھ کی جانب تین مرتبہ تھتکار دیں گے۔

جادو کی علامات۔۔۔ جس پر جادو کیا جاتا ہے۔ اُسکے اکثر ناف کی جگہہ درد رہنے لگتا ہے۔ جسکی وجہ سے درد کیساتھ ساتھ ایسا محسوس ہُوتا ہے۔جیسے کسی نے کلیجے کو مٹھی میں بھینچ رکھا ہُو۔۔۔ عبادت کو جی نہیں چاہتا۔ اُور رفتہ رفتہ بندہ زندگی سے ہی بیزار ہُوجاتا ہے۔ بعض   لُوگ جنکا مرض پرانا ہُوجاتا ہے وُہ اُول فول بھی بکنے لگتے ہیں۔بعض لوگ تو کفریہ کلمات بھی دھڑلے سے بکنے لگتے ہیں۔ کچھ لُوگ چُپ سادھ لیتے ہیں۔ جبکہ کچھ لُوگ چارپائی پکڑ لیتے ہیں۔


جادو کی کاٹ ایک مرتبہ کے عمل سے ہی ہُوجاتی ہے۔۔۔ لیکن جس طرح  مفت میں جادو کی کاٹ کرنے والے لُوگ بے شُمار  نہ سہی لیکن تلاش کرنے سے مِل ہی جاتے ہیں۔۔۔۔مگر آپ کو ایک بھی جادوگر ایسا نہیں مِلے گا۔ جو مفت میں لوگوں پر جادو کرتا ہُو۔ اب سُوچنے والی بات یہ ہے۔کہ،، جس نے بھی آپ پر جادو کروایا ہُوگا۔۔۔ اُس کی آپ سے نفرت کس درجہ کی ہُوگی۔کہ،، اُس نے آپکو نقصان پُہنچانے کیلئے اپنے وقت کیساتھ اپنا مال بھی خرچ کیا ہُوگا۔۔۔۔ اسلئے جادو کروانے والے کو جونہی آپکی کاٹ کی اِطلاع مِلے گی۔ وُہ جادو کرنے والے سے اِصرار کرے گا۔کہ،، جادو اثر نہیں کررہا۔ لِہذا پھر سے جادو کرو۔ ہوسکتا ہے جادو گر اِس مرتبہ کم رقم لیکر آپ پر بھر سے جادو کا عمل کرنے بیٹھ جائے۔

اِسلئے میرا مشورہ یہی ہے۔ کہ،، کسی قریب سے قریب تر کو بھی جادو کی کاٹ کا نہیں بتانا چاہیئے۔ ورنہ بات کھل جاتی ہے۔ دوسرا مشورہ یہ ہے کہ کاٹ کا عمل وقتاً فوقتاً کرتے رہیں۔۔۔ یہاں تک کہ،، جادو کرنے والا اُور کروانے والا عاجز آجائے۔۔۔ سوئم یہ کہ،، بار بار کی کاٹ کا ایک فائدہ یہ بھی ہُوتا ہے۔کہ،، جادو کرنے والے پر جادو پلٹ جاتا ہے۔۔۔ اُور وُہ بعض اُوقات جادوئی عملیات سے باز آجاتا ہے۔ یا خُود اپنے ہی کئے جادو کا شِکار ہُوجاتا ہے۔ کاٹ کا عمل کامیاب ہونے کی صورت میں فخر نہ کریں۔۔۔ بلکہ اللہ کریم کا شکر کریں۔کہ،، اُسکی مدد کے بغیر کاٹ کا عمل موثر ہُوہی نہیں سکتا۔ اسلئے اُسکے فضل و احسان کو مانتے ہُوئے  شکرانے  کے نوافل ادا کریں۔

جس پر جادو کے معملات ہُوں اُسے چاہیئے۔کہ،،  کاٹ کے بعد بھی روزانہ سات مرتبہ یا مُمِیتُ پڑھ کر اپنے سینے پر دَم کرے۔ اُور اپنی رُوحانی کمزوری پر قابو پانے کیلئے روزانہ اکتالیس مرتبہ تیسرا کلمہ، اور اکتالیس مرتبہ لَا اِلٰہَ إلاَّ اﷲُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ، لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ، وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ۔ روزانہ خُود پر پڑھ کر دَم کرے۔۔۔ رات کو سونے سے قبل تین مرتبہ سورہ فلق تین مرتبہ سورہ الناس ایک مرتبہ آیت الکرسی  اول آخر درود پاک پڑھ کر  پانی پر بھی دم کرے۔ اُور خود پر بھی دَم کرے اُور اُسی پانی کو پی جائے۔

جادو کی کاٹ کیلئے میں اِسی طریقے کو اپناتا ہُوں۔۔۔ اُور جادو کی کاٹ کیلئے یہ عمل  اکثیر بھی ہے۔ اُور میرا آزمودہ بھی ہے۔
مکمل تحریر اور تبصرے>>

دعا

 دعا
 
جلیل القدر انبیاٗ کرام علیہم السلام میں سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا اِسم مبارک بُہت نمایاں ہے۔ جہاں آپ کی ایک خصوصیت بُت شکنی ہے۔ تو دُوسری طرف آپکی مہمان نوازی بھی بُہت مشہور ہے۔ اُور   آپکا یہی وصف آپکے صاحبزادگان سیدنا اسماعیل علیہ السلام میں بالعموم اُور سیدنا اسحق علیہ السلام میں بالخصوص نمایاں نظر آتا ہے۔

حضرت اسحاق علیہ السلام کی زُوجہ حضرت حمصہ سے آپکے دُو جڑواں بیٹے پیدا ہُوئے۔  جنکی ولادت پہلے ہُوئی وُہ عیص کہلائے۔ جب کہ بعد میں پیدا ہُونے والے بچے کو اِسی نسبت سے یعقوب کہا گیا۔ یعقوب عقب سے نِکلا ہے۔ یعنی بعد میں آنے والا۔۔۔ حضرت عیص کے تمام جسم مُبارک پر کثرت سے بال پیدا ہُوتے تھے۔ اُور آپ کا پیشہ شِکار تھا۔۔ جبکہ حضرت یعقوب علیہ السلام جو کہ حضرت یوسف علیہ السلام کے والدِ ماجد ہیں۔ بکریاں اُور بھیڑیں  چَرایا کرتے تھے۔۔۔ حضرت عیص کی جانب سیدنا اسحق علیہ السلام کے دِل کا میلان ذیادہ تھا۔۔۔ جب کہ سیدنا یعقوب علیہ السلام اپنی والدہ کو ذیادہ عزیز تھے۔

ایک مرتبہ جب کہ،، سیدنا اسحق علیہ السلام کی عُمر مُبارک ۱۹۰ برس سے زائد ہُوچُکی تھی۔ اُور آپکی بصارتِ ظاہری کافی کمزور پڑچکی تھی۔۔۔ آپ نے حضرت عیص سے باآواز بُلند فرمائش کی۔کہ،، آج تُم شِکار پر جاوٗ۔ اُور میرے لئے کوئی لذیز سا سالن تیار کرو۔ تاکہ میں خوش ہُو کر آج  وُہ خاص دُعا تُمہارے لئے اپنے پروردیگار سے طلب کروں۔ جو کہ ،، ہر نبی علیہ السلام کو  اللہ کریم کی جانب سے خاص اختیار کے ساتھ مِلتی ہے۔۔۔ (ہمارے پیارے آقا علیہ السلام نے وہی دُعا دُنیا میں مانگنے کے بجائے اپنی اُمت کی خاطر بروز مِحشر کیلئے بچا رکھی ہے۔ تاکہ ،، اُمت کی مغفرت کے لئے مانگی جاسکے۔)

سیدنا اسحق علیہ السلام  چونکہ اللہ کریم کے برگزیدہ  نبی ہیں۔ اِسلئے آپ نے یہ بات حضرت عیص کے کان میں کہنے کے بجائے با آواز بُلند کہی۔ تاکہ،، جس کے مقدر میں وُہ دُعا ہُو۔ وُہ اِس دُعا کو حاصل کرلے۔ اگرچہ آپکی دِلی خُواہش یہی تھی۔کہ،، آپ وُہ خاص دُعا حضرت عیص کے لئے فرمائیں۔ جب حضرت عیص شِکار کیلئے روانہ ہُوگئے۔۔۔ تب حضرت یعقوب علیہ السلام کی والدہ ماجدہ نے اُن سے فرمایا۔ کہ،، اے لخت جگر مجھے لگتا ہے کہ آج تُمہارے بابا جان عیص کیلئے نبوت کی دُعا کا اِرادہ رکھتے ہیں۔ لِہذا تمہیں بھی چاہیئے کہ،، اِس دُعا کیلئے کوشش کرو!


چُنانچہ سیدنا یعقوب علیہ السلام نے اپنی والدہ ماجدہ کے حُکم پر اپنے ریوڑ سے ایک بکری کو ذِبح فرمایا۔ پھر اُسکی دستی سے بہترین اُور لذیز سالن تیار فرمایا۔ چونکہ سالن ایک اللہ کے بنی علیہ السلام کیلئے تیار کیا جارہا تھا۔ اُور تیار کرنے والے بھی اللہ کریم کے ایک نبی علیہ السلام تھے۔ اِس لئے نہایت ہی لذیز سالن تیار ہُوگیا۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کو والدہ کی جانب سے حُکم مِلا کہ،، کھانا سیدنا اِسحق علیہ السلام کے سامنے رکھنے کے بعد خاموشی سے بکری کی کھال پہن کر اِن کے نذدیک بیٹھ جانا۔

لِہذا سیدنا یعقوب علیہ السلام نے اپنی والدہ ماجدہ کے ایما پر بالکل ویسا ہی کیا۔ جیسا کہ،، آپکی والدہ طیبہ طاہرہ کی خاہش تھی۔۔۔ جب کھانا سیدنا اسحق علیہ السلام کے سامنے پروس دِیا گیا۔۔۔ تو آپکی والدہ ماجدہ نے کھانا کھانے کیلئے کہا۔۔۔ سیدنا اسحق علیہ السلام نے آواز دیکر کہا،، کیا عیص  اتنی جلدی شکار سے واپس لُوٹ آیا ہے۔۔۔؟؟؟۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کو والدہ گرامی نے تاکید فرمائی تھی۔ کہ،، جب تک اِسحق علیہ السلام دُعا سے نواز نہ دیں۔ اپنے بابا جان سے گفتگو مت کرنا۔ لہذا سیدنا اِسحق علیہ السلام نے وُہ لذیز بکری کا سالن تناول فرمایا تو بُہت خوش ہُوئے۔۔۔ اُور اِرشاد فرمایاکہ،، اے میرے بیٹے میرے نذدیک آجا۔۔۔ تاکہ،، میں تجھے دُعا دے سکوں۔

جب سیدنا یعقوب علیہ السلام نذدیک آئے۔ تو سیدنا اِسحق علیہ السلام نے محبت سے سیدنا  یعقوب علیہ السلام کے جسم مبارک پر ہاتھ پھیرا۔۔۔ اُسکے بعد آپ نے  وُہ تاریخی جُملہ اِرشاد فرمایا۔۔۔  کہ،، اے میرے بیٹے اگرچہ تونے حُلیہ تو عیص جیسا بنالیا ہے۔۔۔ لیکن تیرے بدن سے یعقوب کی خُوشبو آرہی ہے۔۔۔(( میرے بیٹے دُعا کرانا کمال نہیں ہے۔۔۔ بلکہ دُعا لینا کمال ہے)) پھر آپ نے خُوش ہُوکر سیدنا یعقوب علیہ السلام کیلئے نبوت کی دُعا فرمائی۔۔۔ جب عیص شِکار سے واپس لُوٹے تو اُنہیں والدہ کی زُبانی عِلم ہُوا۔کہ،، وُہ جس دُعا کو حاصل کرنے کیلئے شِکار پر گئے تھے۔ وُہ دُعا تو یعقوب حاصل کرچکے ہیں۔۔۔ تو حضرت عیص غضبناک ہُوکر بھڑک اُٹھے۔ حالانکہ سیدنا اِسحق علیہ السلام نے  عیص کو بھی کثرت اُولاد کی دُعا سے نواز دِیا۔ لیکن عیص کے دِل کی آگ سرد نہ ہُوسکی۔ جسکی وجہ سے سیدنا اِسحق علیہ السلام 
نے یعقوب علیہ السلام کو ہجرت کا حکم فرمایا۔۔۔ اُور آپ والد  گرامی کے شہر  ظاہری وِصال کے بعد  ہی واپس تشریف لا ئے۔


یہی وُہ جملہ تھا۔جسکو پڑھنے کے بعد میرے دِل  کی دُنیا زِیر و زَبر ہُوگئی ۔۔۔ اُور میرے دِل میں کئی دِن سے یہ خاہش پیدا ہُورہی تھی۔ کہ میں جلد از جلد یہ قصہ اپنے قارئین کرام کی بصارت کی نذر کردوں۔کیوں کہ،، اِس واقعہ میں ایک زبردست نصیحت موجود ہے۔۔۔ جو میرے نذدیک زندگی کا اصل مقصد ہے۔۔۔ یعنی دُعا حاصل کرنا۔۔۔ اوُر  دِل سے دُعا تب ہی نِکلتی ہے۔ جب کوئی اپنی راہ چھوڑ کر دوسرے کی خوشی حاصل کرنے کو ترجیح دیتا ہے۔ اِس دُعا کو حاصل کرنا چاہتے ہیں۔۔۔۔۔؟؟؟ تو کسی بوڑھے ، معذور،یا اندھے کو راستہ پار کرا کر دیکھئے۔ یا کسی بھوکے کو ایسے کھانا کھلایئے ۔ جیسے کہ،، وُہ آپکا مُرشِد زادہ ہو۔ کسی دکھی انسان کو چند میٹھے بُولوں سےہمت دِلا کر دیکھئے۔۔۔ کسی کی مشکل میں کام آکر دیکھئے۔۔۔ کسی سفید پُوش کا بھرم بچا کر دیکھئے۔۔ کسی کی عزت بچا کر دیکھئے۔۔۔ کسی کو زندگی کی نوید سُنا کر دیکھیئے۔ کسی کو صبح نو کی آمد دِکھا کر دیکھیئے۔ کسی مفلس کو شرمندگی سے بچا کر دیکھئے۔ کسی کے دفتری کاموں میں سہارا بن کر دیکھیے۔۔۔ کسی مظلوم کو اُسکا حق دِلا کر دیکھئے۔۔۔ کسی یتیم کے سر پہ ہاتھ رکھ کر دیکھیئے۔ کسی بیوہ کے سر پہ عزت کی چادر ڈال کر دیکھئے۔۔۔ کسی غریب کی بچی کا گھر بَسا کر دیکھئے۔۔۔۔ پھر دیکھئے گا۔۔۔ کہ،، دُعا کرانے میں۔ اُور دُعا لینے میں کیا فرق ہُوتا ہے۔

کھانا کِھلا کر دُعا حاصل کرنا سیدنا اِسحق علیہ السلام کی سُنت مبارکہ ہے۔ جسکی یاد میں اُولیائے کاملین نے سالانہ، ماہانہ، اُور ہفتہ وار لنگروں کا اجراء کیا۔۔۔ تاکہ بھوکے لُوگوں کو کھانا کِھلا کر اُنکی دُعاوٗں کو سمیٹا جاسکے۔۔۔ اِس لئے خانقاہی نظام چاہے کسی بھی سلسلے سے تعلق رکھتا ہُو۔ وُہاں مسکینوں کا کھانا کھلانا۔ اور لوگوں کی خیر خواہی کے جذبے کو سب کاموں سے ذیادہ اہمیت دِی جاتی ہے۔


حضرت ابودرداء (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کہتے ہیں کہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو مسلم اپنے مسلمان بھائی کے لئے غائبانہ دعا کرتا ہے تو وہ قبول کی جاتی ہے۔ دعا کرنے والے کے سر کے قریب ایک فرشتہ متعین کر دیا جاتا ہے جب وہ اپنے مسلمان بھائی کے لئے بھلائی کی دعا کرتا ہے تو وہ متعین شدہ فرشتہ کہتا ہے کہ اے اللہ اس کی دعا قبول کر اور (یہ بھی کہتا ہے کہ ) تیرے لئے بھی ایسا ہی ہو۔ (صحیح مسلم، و مشکواۃ شریف)

یا رَبِّ مُصطفےٰ بطُفیل مصطفٰے  عزوجل و صلی اللہ علیہ وسلم۔ ہمیں بھی وُہ دُعا حاصِل کرنے کی توفیق عطا فرما۔ ۔۔ جِسے پانے کیلئے زُبان حال سے کہنا نہیں پڑتا۔ بلکہ جوہمارے  ایک اچھے عمل کی وجہ سے    ہمارے دُوسرے مسلمان بھائی کے دِل سے خُوشی کی حالت میں خُود بخود نِکل جاتی ہے۔۔۔۔
آمین آمین آمین۔۔۔۔ بجاہِ النبی الکریم و صلی اللہ تعالی علیہ وَ آلہ وَ اصحابہ وبارک وسلم۔ 

اِس مضمون کی تیاری میں تفسیر نعیمی سے مدد حاصل کی گئی ہے۔
مکمل تحریر اور تبصرے>>

Sunday 13 October 2013

صلواۃ الاسرار

صلواۃ الاسرار، نماز غوثیہ کا طریقہ 

نیت :
نیت کرتا یاکرتی ہُوں۔ دُو رکعت نِفل نماز صلواۃُ الاسرار کی۔ واسطے اللہ تعالی کے۔ مُنہ میرا کعبۃ اللہ شریف کی جانب۔وقت بعد نماز مغرب۔۔۔ اللہُ اکبر

اِس نفلی نماز کو بیشمار مرتبہ پڑھنے کے بعد میں اِس نماز کی تعریف میں اسقدر بھی کہوں تو کافی ہُوگا ۔کہ الحمدُ للہِ عزوجل میں نے یہ نماز زندگی میں اگر بالفرض ۵۰۰ مرتبہ بھی ادا کی ہے۔ تو ایک مرتبہ نھی ایسا موقع نہیں آیا کہ مجھے ناکامی کا مُنہ دیکھنا پڑا ہُو۔
اِسلئے میرے پاس جب جب کوئی مُبتلائے مصیبت آتا ہے ۔ تب میں اُسے بھی اِس نفلی نماز کی ترغیب ضرور دِلاتا ہُوں جسکے جواب میں اکثر لوگ یہی کہتے نظر آتے ہیں۔ کہ الحمدُللہ اُنکی زندگیوں سے بھی مشکلات  ختم ہُوتی جارہی ہیں اُور اللہ کریم کے فضل سے اب زندگی نہایت سِہل نظر آنے لگی ہے۔ اِس نماز کا طریقہ دراصل فیضان اُولیائے کرام ہے۔ لِہذا اِس نفلی نماز سے فوائد بھی صِرف وہی حاصل کرپائے گا کہ جس کے دِل میں اُولیائے کاملین کی محبت کا چشمہ بِہتا ہُو۔۔۔

ا‘ور میرے آقائے نعمت اِمام اہلسُنت مُجددِ دین مِلت عاشق ماہِ رسالت الشاہ اِمام احمد رضا علیہ الرحمتہ الرحمن نے اِس نفلی نماز کے لئے اپنے نعتیہ دیوان حدائقِ بخشش میں کیا خُوب اِرشاد فرمایا ہے کہ،،

حُسنِ نیت ہُو۔پھر خَطا جاتا ہی نہیں
ایسا بے مِثل و یگانہ ہے۔ دُوگانہ تیرا

یعنی اِس نفلی  نماز کا طریقہ ایک ایسا بے مِثال و بے نظیر تیر ہے کہ جِسے اخلاصِ نیت کیساتھ اگر کمان سے چُھوڑا جائے تو اِسکا نِشانہ کبھی نہیں چُوکتا ہمیشہ نشانے پر لگتا ہے۔ اُور  پڑھنے والا ہمیشہ ہی بامُراد لُوٹتا ہے۔۔۔ سُبحان اللہ
با اَدب بانصیب بے ادب بد نصیب۔۔۔ آمین آمین آمین ۔ بجاہِ النبی الکریم ﷺ
مکمل تحریر اور تبصرے>>

فیضانِ اِسمِ اعظم

فیضانِ اِسمِ اعظم ۔ مسائل نہیں وسائل۔

آج دُنیا بھر میں جہاں  کہیں بھی دیکھیں۔ مسلمانوں سے ذیادہ پریشان حال، زِیر عتاب، مشکلوں کا شِکار کوئی اُور نظر نہیں آتا۔ جو صاحب استطاعت لُوگ ہیں۔ جنہیں  بظاہر کوئی معاشی پریشانی لاحق نہیں ہے۔ اگر اُن سے بھی سُوال کیا جائے ۔ تو معلوم ہُوتا ہے۔کہ،، دُنیا بھر کی آسائشیں موجود ہونے کے باوجود قلبی سکون تو اِن لوگوں کو بھی مُیسر نہیں ہے۔۔۔ لیکن آخر ایسا کیوں ہے۔ تمام اُمتوں میں خیرِ اُمت کا لقب پانی والی قُوم کی جگہ جگہ تذلیل کا آخر سبب کیا ہے۔۔۔؟؟؟ یہ ایک ایسا سُوال ہے۔کہ،، جسکا جواب ہر ایک ذِی شعور مُسلمان جانتا ہے۔۔۔لیکن۔۔۔ اِس جواب سے پہلوتہی برتتے ہُوئے بے نِشان منزل کی جانب خومخواہ بڑھتا چلا جاتا ہے۔۔۔ کیوں کہ،، آج کا مسلمان جس قدر بے عملی کا شِکار ہے۔ اُسکی نظیر ظہورِ اِسلام سے لیکر چند دِہائیوں قبل تک نہیں مِلتی۔۔۔۔ اللہ کریم نے جس قدر مسلمانوں پر احسانات فرمائے۔ جتنی آسانیاں مسلمانوں کو اپنے مدنی محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی نعلین پاک کے تصدق میں عطا کی ہیں۔۔۔ اُس کے شُکرانے میں ہُونا تو یہی چاہیئے تھا۔ کہ ،، ہم سب قُوم نوح علیہ السلام کی اُس بڑھیا کی خُواہش کی پیروی کرتے ہُوئے اپنی تمام عُمر سجدہ شکر بجالانے میں بسر کردیتے۔۔۔ لیکن تمام اقوام سے کم عُمر پانے کے باوجود ہماری دُنیا کیلئے کوششیں ایسے ہیں۔ جیسے ہمیں کبھی اِس دُنیا سے ہجرت ہی نہیں کرنی ہُو۔ یہ زمین ہی ہماری دُنیا ہُو۔ یہ زمین ہی ہماری جنت ہُو۔
مجھے وُہ راجگیر آج بھی یاد ہے۔ جِسے تین برس ساتھ رہنے کے باوجود بھی میں نے کبھی مغموم نہیں دیکھا۔ اُسکے چہرے اُور جسم کی پھرتی کو دیکھ کر کبھی لگتا ہی نہیں تھا۔ کہ،، وُہ پنسٹھ برس کا بوڑھا انسان ہے۔ جب میں نے اُسکی طمانیت اُور خُوشگوار زندگی کا سبب جاننے کی کوشش کی ۔۔۔ تو اُس نے بڑی سادگی سے مسکراتے ہُوئے کہا تھا۔کہ،، مجھے یقین ہےکہ،، میرا پروردیگار مجھ سے بے پناہ محبت کرتا ہے۔ سُو جو محبت سے جتنا دے۔ وہی مُناسب ہُوتا ہے۔ شکوہ کرنے سے محبت کرنے والے کی توھین  کا پہلو نِکلتا ہے۔ اِس لئے مجھے دُنیا کی دُوڑ میں شامل ہُونے کا کبھی خیال نہیں آتا۔ وُہ محبت سے جو جو عطا کرتا جاتا ہے۔ میں خوشی خوشی اپنے دامن میں سمیٹتا چلا جاتا ہُوں۔ اُور وُہ جِس جِس چیز سے مجھے  روکے رکھتا ہے۔ میں رُک جاتا ہُوں۔۔۔ اُور یہ یقین رکھتا ہُوں۔کہ،، اگر اُس شئے میں میرے لئے ذرا سا بھی فائدہ ہُوتا۔ تو وُہ کریم مجھے اِس سے ہرگز محروم نہیں رکھتا۔ کیونکہ،، وُہ جیسی بے مِثال محبت اپنے بندُوں سے کرتا ہے۔ اُسکی نہ کوئی مِثل ہے۔ نہ کوئی دُنیا میں ایسا پیمانہ ہے۔ جو اُس پاک ذات کی بندوں سے محبت کو ماپ سکے۔ میں جب بھی اُس راجگیر کے متعلق سُوچتا ہُوں۔ تو مجھے ایک ہی بات سمجھ آتی ہے۔ کہ ،، اُسکے یقین نے اُسے ضرور مقام ولایت پر پُہنچادیا تھا۔
اللہ  کریم قرانِ مجید میں واضح طُور پر اِرشاد فرماتا ہے۔
 وَمَنۡ اَعۡرَضَ عَنۡ ذِكۡرِىۡ فَاِنَّ لَـهٗ مَعِيۡشَةً ضَنۡكًا
اور جس نے میری یاد سے منہ پھیرا تو بیشک اس کے لیے تنگ زندگانی ہے۔
ترجمہ کنزالایمان سورہ طہ آیت نمر ۔۱۲۴
محترم قارئین کرام  بعض مفسرین کرام علیہ الرحمہ اِس آیت کی تفسیر کرتے ہُوئے بیان فرماتے ہیں۔ کہ ،، خُدا کے ذکر سے مُنہ مُوڑنے والا انسان نا صِرف دنیاوی زندگی میں تنگی کا شکار رہے گا۔ بلکہ اُسکی برزخی زندگی بھی انتہائی تکلیف دِہ ہُوگی۔۔۔ اب ذرا سُوچئیے۔کہ،، یہ دُنیاوی زِندگی جو پچاس سے لیکر سُو برس تک محیط ہُوسکتی ہے۔ کسی نا کسی طرح گُزر ہی جاتی ہے۔ لیکن برزخی زِندگی جو ہزاروں برس پر بھی محیط ہُوسکتی ہے۔ اگر وَہاں بھی ذکرِ اللہ سے رُو گردانی کے سبب  چین نہ مِلا۔ تو ہم وُہ ہزاروں برس کی زندگی بھی اللہ کریم کی ناراضگی کے سبب تکلیف و مصیبت  کی حالت میں گزارنے پر مجبور ہُوں گے۔ کیا ہمارے نرم و نازک جسم اُس  عذاب کو برداشت کرنے کے متحمل ہُوسکتے ہیں۔۔۔۔؟؟؟  یقیناً نہیں ہُوسکتے۔۔۔ تو کیوں نہ ہم اپنی زندگی کو اللہ کریم کی اطاعت اُور اُسکے اسمائے مبارک کی رحمتوں اُور برکتوں کے سائے میں گُزاریں۔۔۔ تاکہ دُنیاوی زِندگی کا سفر بھی آسانی سے طے ہُوجائے ۔ اُور برزخی زِندگی میں بھی کامیابی ہمارے قدم چُومے۔۔۔ اِن دُنیاوی مشکلوں کا سامنا کرنے کیلئے اللہ کریم کے اسمائے مُبارک سے مُرتب کئے ہُوئے چند وطائف پیش خدمت ہیں۔۔۔ جنکی برکتوں سے ایک زمانہ فیضیاب ہُورہا ہے۔
یا وَھَّابُ یا  وکِیلُ یا حَسِیبُ اَرشِدنِی۔
کوئی بھی رُکا ہُوا کام ہُو۔ ویزہ کے حصول کیلئے۔ اُور بند گلی میں راستہ بنانے کیلئے بھی نہایت پُر تاثیر وظیفہ ہے۔

یا عَلِیمُ عَلِّمنِی یا خَبِیرُ اَخبِرنِی یا رَشِیدُ اَرشِدنِی۔
عِلم کے حصول،  اِمتحان کی تیاری ،عرفان و آگہی کیلئے، اُور حافظہ قوی کرنے کیلئے بے مِثال وظیفہ ہے۔

یا لَطِیفُ یا کریمُ  یا قَدِیرُ اَرشِدنِی۔
رشتہ، نکاح، اُور من پسند شادی کیلئے۔

یا وَدُودُ یا حَسِیبُ یا عَزِیزُ یا وَکِیلُ۔
میاں بیوی میں محبت کیلئے۔
ہر نماز کے بعد ۷۷ بار ۔۔۔  دُوستوں اور گھر والوں کیلئے بھی پڑھیں ۔جمعہ کو ایک ہزار مرتبہ پڑھ کر چینی اُور نمک پر دَم کردیں۔ اور گھر کے چینی اور نمک کی ڈبیہ میں اِسے شامل کردیں۔ جیسے ہی چینی یا نمک ختم ہُونے کے قریب ہُو۔ مزید چینی، یا نمک ڈال کر ڈبیہ کو پھر سے بھر دیں۔ تین جمعہ تک پڑھتے رہیں۔ انشا اللہ سب کے درمیان محبت قائم ہُوجائے گی۔ اس کے ذریعہ سے ساس بہو، نند بَھابی کی چپقلش پر بھی قابو پایا جا سکتا ہے۔

یا کَبِیرُ یا قَدِیرُ یا رَشِیدُ اَرشِدنِی۔
اُولاد کیلئے۔ رات کو بستر پر جانے کے بعد سب سے پہلے باوضو حالت میں یہ وظیفہ پڑھیں۔ اسکے بعد خُوب دُعا کریں۔ انشااللہ الکریم من کی مُراد پُوری ہُوگی۔ جب حمل واضح ہُوجائے تو بچے کی حرکت  محسوس ہُونے پر وَہاں اُنگلی رکھ کر کہیں کہ۔ میں نے اِسکا نام محمد رکھا۔ انشا اللہ الکریم بیٹا ہی پیدا ہُوگا۔

یا اللہ یا رَحمٰنُ یا رَحِیمُ اَرشِدنِی۔
دِل میں نُور پیدا کرنے کیلئے۔ معرفت کی راہ پر قدم رکھنے کیلئے انتہائی مجرب ہے۔

یا سَلامُ  یا بَرُّ یا رَوٗفُ یا کَرِیمُ۔
بیماری سے نجات حاصل کرنے کیلئے۔ رات کو سُوتے وقت ۱۳۱ مرتبہ مریض، پانی اُور تسبیح پر دَم کریں۔ پانی مریض کو پِلائیں بھی، اُور اُسکے چہرے پر چھڑکیں بھی۔ تسبیح کو مریض کے سرہانے رکھ دیں۔ انشا اللہ بُہت جلد صحتیاب ہُوگا۔

یا عَزِیزُ یا وَھَّابُ یا رَشِیدُ یا وَکِیلُ۔
مقدمے میں کامیابی کیلئے۔


یا رَزَّاقُ  یا وَھَّابُ یا سُبحانُ یا عَلِیُّ
رِزق میں برکت کیلئے ہر نماز کے بعد ۱۰۰ مرتبہ یا ۵۱ مرتبہ پڑھیں۔

یا مُتَکَبِّرُ یا قَہَّارُ یا جَبَّارُ  یا عَزِیزُ اَرشِدنی۔
دُشمن کے ظُلم سے محفوظ رکھنے کیلئے۔
جِن وظائف میں پڑھنے کی تعداد موجود نہیں ہے۔ اُنہیں ہر نماز کے بعد ۴۱ یا بحالتِ مجبوری ۲۱ مرتبہ پڑھ سکتے ہیں۔
دُعا کرائی نہیں جاتی۔۔۔ بلکہ اپنے عَمل سے لی جاتی ہے۔۔۔۔ مخلوق خدا سے محبت کیجئے ۔ غُربا کا خیال رکھیں۔۔۔ تاکہ اُس دُعا کا حصول ممکن ہُو۔ جو دِل سے خُود بخود نکل جاتی ہے۔( اگر کسی  معاملہ میں اِسم اعظم کی کمی نظر آئے۔ تو کمنٹ باکس میں لکھ دیجئے گا۔ میں اللہ کریم کی توفیق سے شامل مضمون کردونگا۔۔۔۔ ) یا ربَّ العالمین اپنے مدنی محبوب ﷺ کی نعلین کے تصدق میں میری اِس کوشش کو قبول فرما۔ اُور مجھ سے جِس جِس نے بھی دُعا کے واسطے کہا۔ تو اپنے خاص فضل سے اُن سب کے دامنوں کو  گوھرِ مُراد سے بھرتے ہُوئے۔ اُنہیں دارین کی بھلائیاں عطا فرمادے۔آمین بِجاہِ النبی الکریم وصلی اللہ تعالی علیہ وَ آلہ واصحابہ وَ اولیائے مِلتہِ اجمعین۔
مکمل تحریر اور تبصرے>>

بارگاہ رسالت کی مرغوب غذا

بارگاہ رسالت کی مرغوب غذا ۔۔۔۔ کدو شریف ۔ ۔


تحریر: محمد کامران خان عظیمی

کدو کو عربی میں یقطین کہا جاتا ہے۔ قرآن میں اسی نام سے پکارا گیا ہے۔ عام عرب اسے ‘دباء’ یا ‘قرع’ کہتے ہیں۔ احادیث میں اسے ان دونوں ناموں سے یاد کیا گیا ہے۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں

نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کدو سے محبت کرتے تھے۔
(ابن ماجہ)

حکیم بن جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے والد حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ایک کدو تھا ، میں نے پوچھا یہ کیا چیز ہے ۔ انہوں نے کہا کہ یہ کدو ہے اور ہم اسے بہت کھاتے ہیں
(ابن ماجہ)

حضرت واثلہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کدو کو لازم پکڑو اس لئے کہ یہ دماغ کو بڑھاتا ہے۔ مزید تمھارے لئے مسور کی دال ہے جسے کم از کم ستر انبیاء علیھم السلام کی زبان پر لگنے کا شرف حاصل رہا ہے۔
(طبرانی)

ایک واقعہ
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ایک غلام کو آزاد کردیا۔ اس نے درزی کا کام شروع کیا۔ اللہ نے برکت ڈالی اور ممنونیت کے اظہار میں اس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خادم خاص سمیت کھانے کی دعوت کی۔ اس دعوت کی روئیداد حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ یوں بیان کرتے ہیں ایک درزی نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کھانے کی دعوت کی۔ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ گیا۔ اس نے جو کی روٹی اور سوکھے گوشت کے سالن میں کدو پیش کیا۔ میں نے دیکھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھالی کے اطراف سے کدو کے ٹکڑے تلاش کر کے کھاتے تھے۔ اس دن کے بعد سے مجھے کدو سے محبت ہوگئی۔
(بخاری، ترمذی، ابوداود)

نوٹ کیجئے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کدو سے اس لئے محبت ہوگئی کہ وہ تاجدارِ کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مرغوب غذا تھی۔ اور بے شک یہی محبِ صادق کی پہچان ہے کہ وہ اپنی پسند ناپسند کو محبوب کی پسند نا پسند میں فنا کردیتا ہے۔ محب صادق وہی چاہتا ہے جو اس کا محبوب چاہے اور اسے ہرگز نہیں چاہتا جسے اس کا محبوب نہ چاہے۔

نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کدو سے ایسی محبت کیوں تھی۔۔؟؟؟

اس کی وجہ اسماعیل حقی حنفی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ یہ بتاتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کدو سے کیوں محبت فرماتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا

یہ میرے بھائی یونس علیہ السلام کا درخت ہے۔
(روح البیان ، پ 23 ، سورتہ الصافات)

آخری بات ۔۔۔۔۔۔۔۔

حضرت امام قاضی ابو یوسف رحمتہ اللہ علیہ کے حوالے سے ہے کہ اگر کسی نے کہا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کدو بہت پسند تھا تو اگر کسی دوسرے نے کہدیا کہ مجھے پسند نہیں تو وہ کافر ہوگیا۔
(تفسیر روح البیان جلد 2 صفحہ 489 )

لہٰذا ہمیں لازماً ایک بات یاد رکھنی چاہئے کہ
با ادب با نصیب
مکمل تحریر اور تبصرے>>

Saturday 12 October 2013

حیا کی خوشبو

اور وہ کہ جب کوئی بے حیائی یا اپنی جانوں پر ظلم کریں اﷲ کو یاد کر کے اپنے گناہوں کی معافی چاہیں اور گناہ کون بخشے سوا اﷲ کے اور اپنے کئے پر جان بوجھ کر اَڑ نہ جائیں
(سورت آل عمران آیت ١٣٥)
تم فرماؤ میرے رب نے تو بے حیائیاں حرام فرمائی ہیں جو ان میں کھلی ہیں اور جو چھپی اور گناہ اور ناحق زیادتی اور یہ کہ اﷲ کا شریک کرو جس کی اس نے سند نہ اتاری اور یہ کہ اﷲ پر وہ بات کہو جس کا علم نہیں رکھتے
(سور ت الاعراف آیت ٣٣ )
یہ خِطاب مشرکین سے ہے جو بَرہنہ ہو کر خانۂ کعبہ کا طواف کرتے تھے اور اﷲ تعالیٰ کی حلال کی ہوئی پاک چیزوں کو حرام کر لیتے تھے، ان سے فرمایا جاتا ہے کہ اﷲ نے یہ چیزیں حرام نہیں کیں اور ان سے اپنے بندوں کو نہیں روکا، جن چیزوں کو اس نے حرام فرمایا وہ یہ ہیں جو اﷲ تعالٰی بیان فرماتا ہے ان میں سے بےحیائیاں ہیں جو کھلی ہوئی ہوں یا چھپی ہوئی، قولی ہوں یا فعلی ۔

تفسیر خزائن العرفان
 
عراق کے مشہور شہر بصرہ میں ایک بزرگ گزرے ہیں جنہیں لوگ حضرت مِسکی (رحمتہ اللہ علیہ) کے نام سے پکارا کرتے تھے مسکی عربی لفظ ہے جسکے لغوی معنی ہیں مُشک والا مشکبار یعنی مُشک کی خوشبو میں بسا ہوا اور آپکا نام مِسکی مشہور ہونے کی وجہ صرف یہی بیان کی جاتی ہے کہ آپ سے ہر وقت مشک کی خوشبو آیا کرتی تھی حتیٰ کہ آپ جس راستے سے گزر جاتے وہ راستہ بھی مہک جاتا آپ علیہ الرحمہ جب مسجد تشریف لے جاتے تو لوگوں کو خوشبو کی مہک سے ہی معلوم ہوجاتا کہ حضرت مِسکی علیہ الرحمہ تشریف لا چکے ہیں۔
ایک مرتبہ کسی نے دریافت کیا حضور آپکو خوشبو پر کثیر رقم خرچ کرنی پڑتی ہوگی آپ نے مُسکرا کر جواب دیا نہ ہی میں نے کبھی خوشبو خریدی اور نہ ہی کبھی لگائی ہے مجھ سے جو ہر وقت مُشک کی خوشبو آتی ہے یہ ایک عجیب و غریب واقعہ ہے مزید استفسار پر آپ نے یہ واقعہ سُنایا کہ میں بغداد شریف کے ایک خوشحال گھر میں پیدا ہوا اور میری بھی تعلیم و تربیت اُمرا کے بچوں کے ساتھ ہوئی میں نہایت خوبصورت اور باحیا تھا میری شرم وحیا کو دیکھ کر کسی نے میرے والد کو مشورہ دیا کہ اِسے بازار میں بِٹھاؤ تاکہ اسکی حیا کچھ کم ہو اور اس طرح یہ لوگوں کیساتھ گُھل مِل کے رہنا بھی سیکھ جائے گا چناچہ میرے والد نے مجھے ایک (بَزَار) کپڑے کے تاجر کی دُکان پر بِٹھا دیا ایک دِن ایک بُڑھیا نے کچھ قیمتی کپڑے نِکلوائے پھر بَزَار سے کہنے لگی۔
میرے ساتھ کسی کو بھیج دو تاکہ جو پسند ہوں اُنہیں لینے کے بعد قیمت اور بقیہ کپڑے واپس لے آئے چناچہ دکاندار نے مجھے بھیج دیا بڑھیا مجھے ایک عظیم الشان محل میں لے گئی اور مجھے ایک آراستہ کمرے میں بھیج دیا جہاں پر زیورات سے آراستہ خوش لباس جوان لڑکی تخت پر بیٹھی ہوئی تھی یہ کمرہ اتنا حسین اور سجا ہوا تھا کہ اس سے قبل میری آنکھوں نے نہ دیکھا تھا مجھے دیکھتے ہی اُس لڑکی پر شیطان غالب آگیا وہ میرے قریب آکر مجھ سے چھیڑ خانی کرنے لگی اور مجھے گناہ کی دعوت دینے لگی میں نے گھبرا کر کہا اللہ عزوجل سے ڈر۔ مگر شیطان اُس لڑکی پر پوری طرح مُسلط تھا وہ نہ مانی۔
جب میں نے اُسکی ضد دیکھی تو میرے دِل میں گناہ سے بچنے کی ایک تدبیر آئی اور میں نے اُس لڑکی سے کہا کہ مجھے استنجا کی حاجت محسوس ہورہی ہے اُس کی آواز پر بیشمار کنیزیں حاضرہو گئیں اُس نے کہا اپنے آقا کو بیت الخلا لے جاؤ۔ میں جب بیت الخلا پہنچا تو فرار کی کوئی راہ نہ ملی اور مجھے اُس عورت کے ساتھ بدکاری کرتے ہوئے اپنے رب عزوجل سے حیا آرہی تھی چُناچہ مجھے ایک ہی رستہ سمجھ آیا اور میں نے استنجا خانے کی غلاظت سے اپنے ہاتھ منہ اور جسم بھر لئے اور کنیزوں کو خود سے ڈرانے لگا اور دیوانوں کی طرح چیخنے چلانے لگا کنیزیں خوفزدہ ہو کر پاگل پاگل چِلانے لگیں تمام کنیزوں نے مِل کر مجھے ایک ٹاٹ میں لپیٹا اور مجھے ایک باغ میں پھینک دیا گیا جب مجھے یقین ہوگیا کہ سب جاچُکے ہیں تب میں اُٹھا اور اپنے جسم اور کپڑوں کو دھو کر پاک کیااور اپنے گھر خاموشی سے چلا گیا اور اِس بات کا کسی سے تذکرہ نہیں کیا اُسی رات میں نے خواب میں ایک بُزرگ کو خواب میں دیکھا اُنہوں نے مجھ سے پوچھا کیا تُم مجھے جانتے ہو؟ میں نے عرض کیا نہیں اُنہوں نے کہا ـ 
میں جبرایئل ( علیہ السلام ) ہوں اُسکے بعد اُنہوں نے میرے منہ اور جسم پر ہاتھ پھیرا اور اُس وقت سے میرے جسم سے مُشک کی بہترین خوشبو آنے لگی ۔ یہ سیدنا جبرایئل علیہ السلام کے دست مُبارک کی خوشبو ہے۔
حوالہ ۔روض الریاحین
یا رب عزوجل ہمیں بھی اپنے پیارے محبوب ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی حیا دار چشمان کرم کے صدقے حیا کی دولت عطا فرما اور بے حیائی سے بچا - آمین بجاہِ نبی الامین وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم
مکمل تحریر اور تبصرے>>

Archive