بسم اللہ الرحمن الرحیم
سبحان اللہ و بحمدہ سبحان اللہ العظیم
اللھم صل علی محمد صلی اللہ علیہ وسلم وعلی آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم
زندگي نامہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ عليہا
نام، القاب
نام فاطمہ اور مشہور لقب زہرا، سیدۃ النساء العلمین، راضیۃ، مرضیۃ، شافعۃ، صدیقہ، طاھرہ، زکیہ، خیر النساء اور بتول ہیں۔
کنیت
آپ سلام اللہ علیہا کی مشہور کنیت ام الائمۃ، ام الحسنین، ام السبطین اور امِ ابیہا ہے۔ ان تمام کنیتوں میں سب سے زیادہ حیرت انگیز ام ابیھا ھے، یعنی اپنے باپ کی ماں، یہ لقب اس بات کا ترجمان ھے کہ آپ اپنے والد بزرگوار کو بے حد چاھتی تھیں اور کمسنی کے باوجود اپنے بابا کی روحی اور معنوی پناہ گاہ تھیں ۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نےآپ کو ام ابیھا کا لقب اس لئے دیا . کیونکہ عربی میں اس لفظ کے معنی، ماں کے علاوہ اصل اور مبداء کے بھی ھیں یعنی جڑ اور بنیاد ۔ لھذا اس لقب( ام ابیھا) کا ایک مطلب نبوت اور ولایت کی بنیاد اور مبدا بھی ہے۔ کیونکر یہ آپ ھی کا وجود تھا، جس کی برکت سے شجرہ ٴ امامت اور ولایت نے رشد پایا، جس نے نبوت کو نابودی اور نبی خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو ابتریت کے طعنہ سے بچایا ۔
والدین3 رمضان المبارک ، سیدہء کائنات، سیدۃ النساء اھل الجنۃ، جگر گوشہ سید الانبیاء سیدنا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، ام الحسنین کریمین ، سیدہ فاطمۃ الزاہرا علیھا السلام کا یوم وصال ہے۔
آپ کےوالد ماجد ختمی مرتبت حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اور والدہ ماجدہ حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا بنت خولد ہیں۔ ھم اس باپ کی تعریف میں کیا کھیں جو ختم المرسلین، حبیب خدا اور منجی بشریت ھو ؟ کیا لکھیں اس باپ کی تعریف میں جسکے تمام اوصاف و کمالات لکھنے سے قلم عاجز ہو؟ فصحاء و بلغاء عالم، جس کے محاسن کی توصیف سے ششدر ہوں؟ اور آپ کی والدہ ماجدہ، جناب خدیجہ سلام اللہ علیہا بنت خویلد جو قبل از اسلام قریش کی سب سے زیادہ باعفت اور نیک خاتون تھیں ۔ وہ عالم اسلام کی سب سے پہلی خاتون تھیں جو خورشید اسلام کے طلوع کے بعد حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائیں اور اپنا تمام مال دنیا اسلام کو پروان چڑھانے کےلئے اپنے شوھر کے اختیار میں دے دیا ۔ تاریخ اسلام، حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وفاداری اور جان و مال کی فداکاری کو ھرگز نھیں بھلا سکتی۔ جیسا کہ خود پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے کردار سے ظاھر ھوتا ھے کہ جب تک آپ زندہ تھیں کوئی دوسری شادی نھیں کی اور ھمیشہ آپ کی عظمت کا قصیدہ پڑھا، عائشہ سلام اللہ علیہا زوجہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم فرماتی ھیں :
" ازواج رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں کوئی بھی حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کے مقام و احترام تک نھیں پہنچ پائی ۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم ھمیشہ انکا ذکر خیر کیا کرتے تھے اور اتنا احترام کہ گویا ازواج میں سے کوئی بھی ان جیسی نھیں تھی ۔"پھر عائشہ سلام اللہ علیہا کہتی ھیں : میں نےایک دن پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا :
" وہ محض ایک بیوہ عورت تھیں" تو یہ سن کر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم اس قدر ناراض ھوئے کہ آپ کی پیشانی پر بل پڑ گئے اور پھر فرمایا :
"خدا کی قسم میرے لئے خدیجہ سلام اللہ علیہا سےبہتر کوئی نھیں تھا ۔ جب سب لوگ کافر تھے تو وہ مجھ پر ایمان لائیں، جب سب لوگ مجھ سے رخ پھیر چکے تھے تو انہوں نے اپنی ساری دولت میرے حوالے کر دی ۔ خدا نے مجھے اس سے ایک ایسی بیٹی عطا کی کہ جو تقویٰ، عفت و طھارت کا نمونہ ھے ۔ "پھر عائشہ سلام اللہ علیہا کہتی ھیں : میں یہ بات کہہ کر بہت شرمندہ ھوئی اور میں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا : اس بات سے میرا کوئی غلط مقصد نھیں تھا ۔
حضرت فاطمہ زھراء سلام اللہ علیہا ایسی والدہ اور والد کی آغوش پروردہ ھیں ۔
ذیل میں احادیث مقدسہ میں سے آپ (علیھا السلام) کے فضائل و مناقب پر روشنی ڈالنے کی سعادت حاصل کرکے دنیا و آخرت میں وسیلہء سیدہء عالم (علیھا السلام) سے بارگاہ الہیہ سے خیر و برکات کا ملتجی ہوں۔
’’حضرت صفیہ بنت شیبہ رضی اﷲ عنہا روایت کرتی ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صبح کے وقت باہر تشریف لائے درآنحالیکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک چادر اوڑھی ہوئی تھی جس پر سیاہ اُون سے کجاووں کے نقش بنے ہوئے تھے۔ حضرت حسن بن علی رضی اﷲ عنہما آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُنہیں اُس چادر میں داخل کر لیا، پھر حضرت حسین رضی اللہ عنہ آئے اور ان کے ہمراہ چادر میں داخل ہو گئے، پھر سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا آئیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو اس چادر میں داخل کر لیا، پھر حضرت علی کرم اﷲ وجہہ آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُنہیں بھی چادر میں لے لیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ آیت مبارکہ پڑھی : ’’اے اھلِ بیت! اﷲ تو یہی چاہتا ہے کہ تم سے (ہر طرح کی) آلودگی دُور کردے اور تم کو خوب پاک و صاف کر دے۔اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے۔
’’حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : فاطمہ میرے جسم کا ٹکڑا ہے، پس جس نے اسے ناراض کیا اُس نے مجھے ناراض کیا۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے اور الفاظ امام بخاری کے ہیں۔
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صاحبزادی سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا کے ہاں گئے اور کہا : اے فاطمہ! خدا کی قسم! میں نے آپ کے سوا کسی شخص کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نزدیک محبوب تر نہیں دیکھا اور خدا کی قسم! لوگوں میں سے مجھے بھی آپ کے والد محترم کے بعد کوئی آپ سے زیادہ محبوب نہیں۔‘‘ اسے امام حاکم اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔