Sunday 3 November 2013

حضرت فاطمہ زھراء سلام اللہ علیہا


بسم اللہ الرحمن الرحیم
سبحان اللہ و بحمدہ سبحان اللہ العظیم
اللھم صل علی محمد صلی اللہ علیہ وسلم وعلی آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم

زندگي نامہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ عليہا


نام، القاب
نام فاطمہ اور مشہور لقب زہرا، سیدۃ النساء العلمین، راضیۃ، مرضیۃ، شافعۃ، صدیقہ، طاھرہ، زکیہ، خیر النساء اور بتول ہیں۔

کنیت
آپ سلام اللہ علیہا کی مشہور کنیت ام الائمۃ، ام الحسنین، ام السبطین اور امِ ابیہا ہے۔ ان تمام کنیتوں میں سب سے زیادہ حیرت انگیز ام ابیھا ھے، یعنی اپنے باپ کی ماں، یہ لقب اس بات کا ترجمان ھے کہ آپ اپنے والد بزرگوار کو بے حد چاھتی تھیں اور کمسنی کے باوجود اپنے بابا کی روحی اور معنوی پناہ گاہ تھیں ۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نےآپ کو ام ابیھا کا لقب اس لئے دیا . کیونکہ عربی میں اس لفظ کے معنی، ماں کے علاوہ اصل اور مبداء کے بھی ھیں یعنی جڑ اور بنیاد ۔ لھذا اس لقب( ام ابیھا) کا ایک مطلب نبوت اور ولایت کی بنیاد اور مبدا بھی ہے۔ کیونکر یہ آپ ھی کا وجود تھا، جس کی برکت سے شجرہ ٴ امامت اور ولایت نے رشد پایا، جس نے نبوت کو نابودی اور نبی خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو ابتریت کے طعنہ سے بچایا ۔
والدین

آپ کےوالد ماجد ختمی مرتبت حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اور والدہ ماجدہ حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا بنت خولد ہیں۔ ھم اس باپ کی تعریف میں کیا کھیں جو ختم المرسلین، حبیب خدا اور منجی بشریت ھو ؟ کیا لکھیں اس باپ کی تعریف میں جسکے تمام اوصاف و کمالات لکھنے سے قلم عاجز ہو؟ فصحاء و بلغاء عالم، جس کے محاسن کی توصیف سے ششدر ہوں؟ اور آپ کی والدہ ماجدہ، جناب خدیجہ سلام اللہ علیہا بنت خویلد جو قبل از اسلام قریش کی سب سے زیادہ باعفت اور نیک خاتون تھیں ۔ وہ عالم اسلام کی سب سے پہلی خاتون تھیں جو خورشید اسلام کے طلوع کے بعد حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائیں اور اپنا تمام مال دنیا اسلام کو پروان چڑھانے کےلئے اپنے شوھر کے اختیار میں دے دیا ۔ تاریخ اسلام، حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وفاداری اور جان و مال کی فداکاری کو ھرگز نھیں بھلا سکتی۔ جیسا کہ خود پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے کردار سے ظاھر ھوتا ھے کہ جب تک آپ زندہ تھیں کوئی دوسری شادی نھیں کی اور ھمیشہ آپ کی عظمت کا قصیدہ پڑھا، عائشہ سلام اللہ علیہا زوجہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم فرماتی ھیں :

" ازواج رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں کوئی بھی حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کے مقام و احترام تک نھیں پہنچ پائی ۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم ھمیشہ انکا ذکر خیر کیا کرتے تھے اور اتنا احترام کہ گویا ازواج میں سے کوئی بھی ان جیسی نھیں تھی ۔"پھر عائشہ سلام اللہ علیہا کہتی ھیں : میں نےایک دن پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا :

" وہ محض ایک بیوہ عورت تھیں" تو یہ سن کر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم اس قدر ناراض ھوئے کہ آپ کی پیشانی پر بل پڑ گئے اور پھر فرمایا :

"خدا کی قسم میرے لئے خدیجہ سلام اللہ علیہا سےبہتر کوئی نھیں تھا ۔ جب سب لوگ کافر تھے تو وہ مجھ پر ایمان لائیں، جب سب لوگ مجھ سے رخ پھیر چکے تھے تو انہوں نے اپنی ساری دولت میرے حوالے کر دی ۔ خدا نے مجھے اس سے ایک ایسی بیٹی عطا کی کہ جو تقویٰ، عفت و طھارت کا نمونہ ھے ۔ "پھر عائشہ سلام اللہ علیہا کہتی ھیں : میں یہ بات کہہ کر بہت شرمندہ ھوئی اور میں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا : اس بات سے میرا کوئی غلط مقصد نھیں تھا ۔

حضرت فاطمہ زھراء سلام اللہ علیہا ایسی والدہ اور والد کی آغوش پروردہ ھیں ۔
3 رمضان المبارک ، سیدہء کائنات، سیدۃ النساء اھل الجنۃ، جگر گوشہ سید الانبیاء سیدنا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، ام الحسنین کریمین ، سیدہ فاطمۃ الزاہرا علیھا السلام کا یوم وصال ہے۔
ذیل میں احادیث مقدسہ میں سے آپ (علیھا السلام) کے فضائل و مناقب پر روشنی ڈالنے کی سعادت حاصل کرکے دنیا و آخرت میں وسیلہء سیدہء عالم (علیھا السلام) سے بارگاہ الہیہ سے خیر و برکات کا ملتجی ہوں۔


’’حضرت صفیہ بنت شیبہ رضی اﷲ عنہا روایت کرتی ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صبح کے وقت باہر تشریف لائے درآنحالیکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک چادر اوڑھی ہوئی تھی جس پر سیاہ اُون سے کجاووں کے نقش بنے ہوئے تھے۔ حضرت حسن بن علی رضی اﷲ عنہما آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُنہیں اُس چادر میں داخل کر لیا، پھر حضرت حسین رضی اللہ عنہ آئے اور ان کے ہمراہ چادر میں داخل ہو گئے، پھر سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا آئیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو اس چادر میں داخل کر لیا، پھر حضرت علی کرم اﷲ وجہہ آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُنہیں بھی چادر میں لے لیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ آیت مبارکہ پڑھی : ’’اے اھلِ بیت! اﷲ تو یہی چاہتا ہے کہ تم سے (ہر طرح کی) آلودگی دُور کردے اور تم کو خوب پاک و صاف کر دے۔اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے۔
’’حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : فاطمہ میرے جسم کا ٹکڑا ہے، پس جس نے اسے ناراض کیا اُس نے مجھے ناراض کیا۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے اور الفاظ امام بخاری کے ہیں۔

حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صاحبزادی سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا کے ہاں گئے اور کہا : اے فاطمہ! خدا کی قسم! میں نے آپ کے سوا کسی شخص کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نزدیک محبوب تر نہیں دیکھا اور خدا کی قسم! لوگوں میں سے مجھے بھی آپ کے والد محترم کے بعد کوئی آپ سے زیادہ محبوب نہیں۔‘‘ اسے امام حاکم اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔
   

مکمل تحریر اور تبصرے>>

مثالی شریک حیات‘ حضرت خدیجتہ الکبریٰ

دنیا کی ابتدائی تاریخ اور ارتقائی منازل کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو اس میں عورت کا کردار بالکل مفقود ہے یہ تو گزشتہ محض ایک دو صدیوں قبل حواءکی بیٹی کو عزت واحترام کے قابل تسلیم کیاگیا نیز عورت کو بھی مرد کے برابر قرار دیا گیاجبکہ اسلام کی ابتدائی تاریخ میں مسلم خواتین کا جو کردار رہا وہ آج سب دنیا کےلئے ایک واضح سبق بھی ہے‘ قابل تحسین کارنامہ بھی اور قابل فخر تاریخ بھی بلکہ میں تو یہ کہوں گی کہ اسلام کی تاریخ کی تو ابتداءہی عورت کے شاندار کردار سے ہوتی ہے اس دین حق کا تو نقطہ آغاز ہی عورت کے عظیم الشان کردار سے عبارت ہے یہ بات الگ ہے کہ آج ترقی یافتہ ہونے کا دعویٰ کرنے والی دنیا حقوق نسواں کی علمبردار بنی ہوئی ہے اور چار پانچ صدیوں سے مغرب کی معاندانہ یلغارسے متاثر مسلم معاشرے میں جہالت و پسماندگی کے باعث مسلم عورت سے اس کا تاریخ ساز کردار بھی چھین لیا گیا ہے اور وہ اس کردار سے بھی محروم کردی گئی ہے جو اسے دین اسلام نے عطا کیا تھا۔اس لحاظ سے ام المومنین حضرت خدیجتہ الکبریٰ کو ایک مثالی اورسچی شریک حیات کہا جائے تو کوئی مبالغہ نہیں ہوگا۔ قریش کے ایک نامور سوداگر خویلد بن اسد کی بیٹی تھیں جن کا شجرہ نسب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اجداد قصی سے ملتا ہے۔ خویلد مالی اعتبار سے بہت مستحکم تھے اور ان کی تجارت شام و یمن تک پھیلی ہوئی تھی۔ حضرت خدیجہ 555میں پیدا ہوئیں۔ اس زمانے میں بعض قبائل میں لڑکیوں کو زندہ درگور کردیا جاتا تھا، مگر آپکے والد خویلد نے آپکی پرورش نہایت پیار و محبت سے کی۔ ام المومنین حضرت خدیجتہ الکبریٰ قریش کے ایک نامور سوداگر خویلد بن اسد کی بیٹی تھیں، جن کا شجرہ نسب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اجداد قصی سے ملتا ہے۔ خویلد مالی اعتبار سے بہت مستحکم تھے اور ان کی تجارت شام و یمن تک پھیلی ہوئی تھی۔ حضرت خدیجہ 555میں پیدا ہوئیں۔ اس زمانے میں بعض قبائل میں لڑکیوں کو زندہ درگور کردیا جاتا تھا مگر آپکے والد خویلد نے آپکی پرورش نہایت پیار و محبت سے کی۔ آپ بچپن ہی سے سنجیدہ، نیک اطوار اور شریف الطبع تھیں۔
نیکی کی وجہ سے ’طاہرہ‘اور ’سیدہ النسائ‘کہا جاتا تھا۔ آپ کا پہلا نکاح ابوہالہ سے ہواجن سے آپ کے ہاں دو بیٹے ہند اور ہالہ پیدا ہوئے۔ ہالہ کا کم عمری میں انتقال ہوگیا تھا اور ہند جنگ جمل میں شہید ہوئے۔ ابوہالہ کے انتقال کے بعد حضرت خدیجہ کا دوسرا نکاح عتیق بن عائد مخزومی سے ہوا۔ ان سے ایک بیٹی ہند پیدا ہوئیں۔ یہ بھی مسلمان ہوئیں اور صحابیات میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ عتیق کے انتقال کے بعد صیفی بن امیہ سے حضرت خدیجہ کا نکاح ہوا جو حرب الفجار میں مارا گیا۔
صیفی سے حضرت خدیجہ کا ایک بیٹا محمد تھا۔ اس وقت حضرت خدیجہ کی عمر تیس سال تھی۔ خاندانی اعزاز اور دولت کے ساتھ حسنِ صورت و سیرت سے بھی مالامال تھیں۔ کئی سرداروں نے نکاح کی خواہش کی مگر آپ نے انکار کردیا۔ خویلد نے بڑھاپے کی وجہ سے اپنا کاروبار حضرت خدیجہ کے سپرد کردیا۔ حضرت خدیجہ حجاز مقدس میں سب سے زیادہ متمول خاتون تھیں جن کی تجارت کا سامان شام اور یمن میں سال میں دو مرتبہ جاتا تھا۔ طبقات ابن سعد کے مطابق مکہ کے سارے تجارتی قافلوںکا سامان ملاکر حضرت خدیجہ کے سامان کے برابر ہوتا تھا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی امانت و صداقت کا چرچا حضرت خدیجہ کے کانوں تک پہنچا تو انہوں نے بلا بھیجا۔
انہیں اس وقت ایک قابل بھروسہ اور ایماندار معتمد کی ضرورت تھی۔ اس لیے اپنا سامانِ تجارت نوکروں اور غلاموں کے ساتھ سفر شام کی طرف روانہ کیا اور اپنے غلام میسرہ کو خصوصی ہدایت کی کہ محمد کے کسی معاملے میں دخل اندازی نہ کرنا، راستے میں جو کچھ واقعات پیش آئیں وہ بلاکم و کاست بیان کرنا۔ عرب کے انتہائی بگڑے ہوئے معاشرے میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت اور امانت انہیں عجب سی لگی۔ اہلِ قافلہ کے ساتھ آپ کا برتاﺅانتہائی شریفانہ تھا۔
مکہ پہنچ کر آپ نے ایک ایک پیسے کا حساب حضرت خدیجہ کے سامنے پیش کردیا۔ آپ کی دیانت، شرافت اور معاملہ کی درستی سے حضرت خدیجہ بہت متاثر ہوئیں اور آپ کو نکاح کی پیش کش کی۔ اس وقت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر 25 سال اور حضرت خدیجتہ الکبریٰ کی عمر 40 سال تھی مگر آپ دونوں کی ازدواجی زندگی انتہائی کامیاب گزری۔ نکاح کے بعد حضرت خدیجہ کی زندگی کا مقصد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اور خوشنودی تھا۔ اس سلسلے میں انہوں نے تن من دھن سب کچھ قربان کردیا۔
نبوت ملنے سے پہلے آپ پر پیغمبری کے آثار شروع ہوگئے تھے۔ آپ کو درخت اور پتھر سلام کرتے۔ آپ خوفزدہ ہوجاتے۔ حضرت خدیجہ سے تذکرہ کرتے تو وہ آپ کو تسلی دیتیں اور آپ کی تشویش اور پریشانی کو دلسوزی، محبت اور ہمدردی سے دور فرماتیں۔ حضرت خدیجہ کی دلجوئی سے آپ کو بہت ڈھارس ہوتی اور منتشر خیالات کو سکون ملتا۔ نبوت ملنے سے پہلے آپ غارِ حرا میں جاکر کئی کئی دن عبادت میں گزار دیتے۔ رمضان المبارک میں جب آپ کو نبوت کے عہدے پر فائز کیا گیا تو آپ غارِ حرا میں عبادت میں مشغول تھے۔
حضرت جبرائیل تشریف لائے اور کہا کہ پڑھو۔ آپ نے فرمایا ’میں امّی ہوں۔ حضرت جبرائیل نے سینے سے لگاکر زور سے بھینچا اور سورہ علق کی ابتدائی پانچ آیات پڑھا کر چلے گئے۔ آپ لرزتے کانپتے گھر آئے اور حضرت خدیجہ سے کہا کہ مجھے کپڑا اوڑھا دو۔ جب یہ کیفیت کچھ کم ہوئی تو حضرت خدیجہ کو پورا واقعہ سنایا۔ شریک حیات نے محبت سے دلجوئی کی۔ کسی شخص کو اس کے گھر والوں اور خصوصاً بیوی سے زیادہ کوئی نہیں جان سکتا۔ آپ کی صداقت اور امانت پر صدقِ دل سے ایمان لانے والی سب سے پہلے آپ کی زوجہ محترمہ تھیں جنہوں نے فرمایا کہ آپ خوف نہ کھائیں۔ آپ نے کبھی کوئی بات غلط نہیں کی، کبھی کسی کا دل نہیں دکھایا۔آپ یتیموں کے والی اور بیواﺅں کے مددگار ہیں، مسکینوں کی خدمت کرتے ہیں، خدا سے ڈرتے ہیں اور اس کے بندوں سے اچھا سلوک کرتے ہیں، کنبہ والوں کے ساتھ مہربانی کرتے ہیں، اہلِ قریش آپ کی دیانت و امانت کے معترف ہیں۔ آپ کسی قسم کا خوف نہ کریں۔ خدا آپ کو ضائع نہ کرے گا۔
ام المومنین آپ کو اپنے چچازاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں جو انجیل مقدس اور توریت کے بڑے عالم تھے۔ انہوں نے پورا واقعہ سنا تو کہا کہ محمد کے پاس وہی ناموس اکبر آیا ہے جو موسیٰ پر بھی نازل ہوا تھا۔ اے عبداللہ کے بیٹے خدا نے جس پیغمبر کی انجیل میں بشارت دی ہے وہ تم ہی ہو مگر تمہاری قوم تم کو وطن سے نکالے گی اور تمہیں سخت تکلیف پہنچائے گی، کاش میں اس وقت زندہ ہوتا تو تمہاری حمایت اور مدد کرتا۔
ورقہ بن نوفل کی گفتگو کے بعد آپ کی پریشانی دور ہوگئی۔ ام المومنین حضرت خدیجہ سب سے پہلے آپ پر ایمان لائیں اور خواتین میں اسلام کی تبلیغ شروع کردی۔ آپ کی کوششوں سے ام الفضل، اسما بنت ابوبکر ام جمیل، فاطمہ بنت خطاب، اسما بنت عمیس ایمان لائیں۔ حضرت خدیجہ صحیح معنوں میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رفیقہ اور شریک حیات تھیں۔ وہ اپنے شوہر کی ایسی عاشق زار شریک ِسفر تھیں جنہوں نے اپنے جان و مال، روپے پیسے سے ہر لمحہ آپ کی مدد اور دلجوئی کی۔ ہر وقت ہر خدمت و اطاعت کے لیے تیار اور مستعد رہتیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کئی کئی دن کے لیے غارِ حرا میں جاکر عبادت کرتے توحضرت خدیجہ ان کو ڈھونڈ کر کھانا بھیجتیں۔
شعب ابی طالب کے تین سالہ معاشرتی بائیکاٹ میں ہر لمحہ آپ کے ساتھ رہیں۔ متمول اور دولت مند ہونے کے باوجود فاقہ کشی پر کبھی حرف ِشکایت زبان پر نہیں لائیں۔ آپ بھی ان کی محبت اور صلاحیتوں کو سراہتے اور انہیں بچوں کی ماں اور گھر کی منتظم کہتے۔ ہر معاملے میں ان سے مشورہ لیتے اور مشورے کے مطابق کام کرتے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیغمبری کے جو فرائض انجام دیئے ان میں حضرت خدیجہ کی صائب رائے، بیش بہا مشورے، ان کی ہمدردی، محبت، دلسوزی، دولت و ثروت سب کچھ شامل تھے۔حضرت ابراہیم کے علاوہ آپ کی ساری اولاد یں ام المومنین حضرت خدیجہ سے ہوئیں۔ اسلام کو حضرت خدیجہ کی ذات سے بہت تقویت ملی۔ ان کے زبردست استقلال، استقامت، خلوص و محبت ،رفاقت ، ایثار نے اسلام پھیلانے میں آپ کی بڑی مدد کی۔حقیقت یہ ہے کہ اسلام کی تاریخ تو شروع ہی عورت کے تعمیری و تاریخی کردار سے ہوتی ہے ۔ تاریخ گواہ ہے کہ عورت کی ہمت دانائی حوصلہ مندی اور دور اندیشی کے شاندار اور قابل فخر کردار سے معمور ہے ۔
مکمل تحریر اور تبصرے>>

جنت کے سردار

یہ بہت ہی اعلی و عظیم حدیث پاک ہے جس سے حسنین کریمین علیہما السلام کی عظمت و رفعت کا اظہار ہوتا ہے۔
کیونکہ حضرت ابوہریرہ اور ابوسعید رضی اللہ عنہما سے مروی ایک حدیث پاک میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
" إذا دخل أھل الجنۃ الجنۃ ینادی مناد:أن لکم أن تحیوا فلا تموتوا أبدا، وأن لکم أن تصحوا فلاتسقموا أبدا، وأن لکم أن تشبوا فلا تھرموا أبدا، وأن لکم أن تنعموا فلا تبأسوا أبدا"
’’جب جنتی جنت میں داخل ہوچکیں گے تو ایک پکارنے والا پکار کر کہے گا (اے جنت والو!) تم تندرست رہو گے کبھی بیمار نہ ہو گے، تم زندہ رہو گے کبھی نہ مرو گے، تم جوان رہو گے کبھی بوڑھے نہ ہو گے اور تم آرام سے رہو گے کبھی محنت و مشقت نہ اٹھاؤ گے۔‘‘
مسلم، الصحيح، 4 : 2182، کتاب الجنة و صفة نعمها، رقم : 2837
کہ ہر جنتی "جوان" ہوگا ۔ اس میں انبیائے کرام علیہم السلام سمیت ہر درجہ کے اولیا و متقین و مقربین بھی شامل ہوں گے۔ اور سیدنا امام حسن و امام حسین علیہما السلام ہر جنتی جوان کے سردار ہوں گے۔ تو اندازہ کریں کہ دونوں شہزادگانِ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سرداری و سلطنت کا عالم کیا ہوگا۔
اللھم صلی علی سیدنا ومولانا محمد وعلی آلہ واہلبیتہ وعترتہ واصحابہ اجمعین وبارک وسل
مکمل تحریر اور تبصرے>>

Saturday 2 November 2013

حضرت مولائے کائنات علی مرتضی رضی اللہ عنہ

الســـلام عــليــكــم و رحــمــة الله و بـــركـــاتـــه

حضرت مولائے کائنات علی المرتضی رضی اللہ عنہ ولایت ومعرفت کے مرکز اور قاسم 
اہل بیت کے فرد فرید اور صحابی جلیل
حضرت مولائے کائنات علی مرتضی رضی اللہ عنہ فضائل کے جامع اور کمالات کا سرچشمہ ہیں،آپ کی ذات سراپابرکات کئی ایک خصوصیات کی حامل ہے،آپ اہل بیت کے فرد فرید بھی ہیں اور صحابی جلیل بھی۔​​
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اولاد امجاد کا سلسلہ حضرت علی مرتضی رضی اللہ عنہ اور حضرت فاطمۃ الزھراء رضی اللہ عنہا سے جاری ہوا۔حضرت مولائے کائنات رضی اللہ عنہ کی ولادت بھی امتیازی شان رکھتی ہے،آپ کعبۃ اللہ شریف کے اندر پیدا ہوئے،یہی وجہ ہے کہ آپ کو مولود کعبہ کہا جاتا ہے،آپ کو یہ خصوصی اعزاز حاصل ہے کہ آپ کی ولادت بھی خداکے گھر میں ہوئی اور شہادت بھی خدا کے گھر میں۔​​​
حضرت علی مرتضی کرم اللہ وجہہ نے ولادت کے بعد جب اپنی آنکھ کھولی تو سب سے پہلے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرۂ انور کا دیدار کیا۔وہ اس قدر عظمت ورفعت کے حامل ہوئے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:علی کا چہرہ دیکھنا عبادت ہے۔​​​
حضرت مولائے کائنات رضی اللہ عنہ کو ایمان میں سبقت کا بھی شرف حاصل ہے،تیرہ سالہ مکی دور میں اسلام کے لئے آپ نے عظیم خدمات انجام دیں،مدینہ منورہ میں بھی آپ نے بے شمار قربانیاں پیش کیں،شجاعت وبہادری آپ کا وصف خاص رہا،غزوئہ تبوک کے علاوہ آپ نے ہر معرکہ میں شرکت کی۔​​​
سفر ہجر ت کے موقع پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ سلم نے رفاقت کے لئے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا انتخاب فرمایا اور امانت کو پہنچانے کے لئے حضرت علی مرتضی رضی اللہ عنہ کا انتخاب کیا اور اپنے بستر مبارک پر آرام کرنے کا حکم دیا۔​​​
آپ کا ان دونوں حضرات کا انتخاب فرمانا ان کی صداقت وحقانیت اور ان پر کامل وثوق واعتماد کو آشکار کرتا ہے۔​​​
حضرت مولائے کائنات رضی اللہ عنہ کی محبت ایمان اور نفاق کے درمیان حد فاصل ہے،حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی مرتضی رضی اللہ عنہ سے ارشاد فرمایا:مومن ہی تم سے محبت کرتا ہے اور منافق ہی تم سے بغض رکھتا ہے۔​​​
حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم فرماتے ہیں کہ ہم حضرت علی رضی اللہ عنہ کی محبت کے ذریعہ منافقین کو پہچان لیا کرتے تھے۔
کسی کے سامنے آپ کی عظمت بیان کی جائے اور اس کے چہرہ پر خوشی کے آثار نظر آئیں تو یہ محبت کی علامت ہے اور آپ کی محبت ایمان کی علامت ہے،اگر آپ کی عظمت سن کر چہرہ سکڑجائے تو یہ نفرت کی علامت ہے اور آپ سے نفرت نفاق کی علامت ہے۔​​​
دوران خطاب حضرت مفتی صاحب قبلہ نے جامع ترمذی کے حوالہ سے کہا کہ طائف میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی مرتضی رضی اللہ عنہ سے رازدارانہ گفتگو کی،جب گفتگو کا سلسلہ طویل ہوا تو لوگوں نے کہا کہ حضور نے اپنے چچا زاد کے ساتھ طویل سرگوشی کی،آپ نے ارشاد فرمایا:میں نے سرگوشی نہیں کہ بلکہ اللہ تعالی نے علی سے رازدارانہ گفتگو کی ہے۔​​​
صحیح بخاری میں حدیث پاک ہے،حضوراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ارشاد فرمایا:تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ہوں۔​​​
حضرت مولائے کائنات رضی اللہ عنہ نے براہ راست حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے علوم ومعارف حاصل کئے ہیں،آپ علم وحکمت کے وہ بحر ذخار ہیں جس کی گہرائی اور گیرائی کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان فیض ترجمان سے ہونے والا اعلان آپ کی علمی جلالت پر شاہد عدل ہے،آپ نے ارشاد فرمایا:میں علم وحکمت کا گھر ہوں اور علی (رضی اللہ عنہ)اس کا دروازہ ہیں۔(جامع ترمذی)​​
حضرت علی مرتضی رضی اللہ عنہ ولایت ومعرفت کے نہ صرف مرکز ہیں بلکہ ان کے قاسم بھی ہیں۔حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ قیامت تک جس کسی کو ولایت ملے گی وہ حضرت علی مرتضی رضی اللہ عنہ ہی کے توسط سے ملے گی۔​​
اللہ تعالی نے حضرت علی مرتضی رضی اللہ عنہ کو شہادت کا شرف بھی عطافرمایا،سترہ(17) رمضان المبارک کو آپ نماز فجر کی ادائی کے لئے مسجد تشریف لائے،دوران نماز سجدہ سے سر اٹھارہے تھے کہ ابن ملجم نے سرمبارک پرزہر آلود تلور سے پر شدید وارکیا،جب ابن ملجم کو آپ کے سامنے پیش کیا گیا تو آپ نے فرمایا:لوگو!یہ ہمارا مہمان ہے؛اس پر زیادتی نہ کی جائے!اس کے لئے نرم بچھونا بچھایا جائے،اسے بہترین کھانا کھلاجائے اور ٹھنڈا پانی پلایا جائے۔ آپ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں شربت پیش کیا گیا تو آپ نے فرمایاوہ شخص(دشمن) ہمارا مہمان ہے؛پہلے اسے پلایا جائے،جب ابن ملجم کو شربت دیا گیا تو اس نے کہا :میں ہرگز نہیں پیوں گا،مجھے معلوم ہے کہ اس میں زہر ملایا گیا ہے،آپ رضی اللہ عنہ کی آنکھوں میں اشک بھر آئے،فرمایا:ابن ملجم!یہ تیرا نصیب ہے،اگر میرے کہنے پر آج یہ شربت پی لیتا تو قسم خداکی!بروز قیامت حوض کوثر سے میں اس وقت تک نہ پیتا جب تک تجھے نہ پلاتا۔بیس(20) رمضان المبارک کو آپ کی شہادت ہوئی۔
مکمل تحریر اور تبصرے>>

Free Urdu Novels, Books, Study Couses PDF and Slides: MS OFFICE 2010 IN URDU

Free Urdu Novels, Books, Study Couses PDF and Slides: MS OFFICE 2010 IN URDU: Learn MS Office 2010 in Urdu مائیکرو سافٹ آفس اردو میں سیکھئے   DOWNLOAD
مکمل تحریر اور تبصرے>>

شجرہ علّیہ حضرات عالیہ قادریہ برکاتیہ

شجرہ علّیہ حضرات عالیہ قادریہ برکاتیہ
رضوان اللہ تعالٰی علیہم اجمعین الی یوم الدین


یاالٰہی رحم فرما مصطفی کے واسطے
یارسول اللہ کرم کیجئے خدا کے واسطے

مشکلیں حل کر شہ مشکل کشا کے واسطے
کر بلائیں رد شہید کربلا کے واسطے

سید سجاد کے صدقے میں ساجد رکھ مجھے
علم حق دے باقر علم ہدیٰ کے واسطے

صدق صادق کا تصدق صادق الاسلام کر
بے غضب راضی ہو کاظم اور رضا کے واسطے

بہر معروف و سری معروف دے بے بیخود سری
جند حق میں گن جنید باصفا کے واسطے

بہر شبلی شیر حق دنیا کے کتوں سے بچا
ایک کا رکھ عبد واحد بے ریا کے واسطے

بو الفرح کا صدقہ کر غم کو فرح دے حسن و سعد
بو الحسن اور بو سعید سعد زا کے واسطے

قادری کر قادری رکھ قادریوں میں اٹھا
قدر عبد القادر قدرت نما کے واسطے

احسن اللہ لھم رزقا سے دے رزق حسن
بندہ رزّاق تاج الاصفیاء کے واسطے

نصرابی صالح کا صدقہ صالح و منصور رکھ
دے حیات دیں محئ جانفزا کے واسطے

طور عرفان و علو حمد و حسنیٰ و بہا
دے علی موسیٰ حسن احمد بہا کے واسطے

بہر ابراہیم مجھ پر نار غم گلزار کر
بھیک دے داتا بھکاری بادشاہ کے واسطے

خانہ ٴ دل کو ضیاء دے روئے ایماں کو جمال
شہ ضیاء مولیٰ جمال الاولیاء کے واسطے

دے محمد کے لئے روزی کر احمد کے لئے
خوان فضل اللہ سے حصہ گدا کے واسطے

دین و دنیا کے ہیں برکات دے برکات سے
عشق حق دے عشقی عشق انتما کے واسطے

حب اہل بیت دے آل محمد کے لئے
کر شہید عشق حمزہ پیشوا کے واسطے

دل کو اچھا تن کو ستھرا جان کو پر نور کر
اچھے پیارے شمس و دین بدر العلی کے واسطے

دو جہاں میں خادم آل رسول اللہ کر
حضرت آل رسول مقتدا کے واسطے

صدقہ ان اعیان کا دے چھ عین عزم و علم و عمل
عفو و عرفاں عافیت احمد رضا کے واسطے
مکمل تحریر اور تبصرے>>

Friday 1 November 2013

احادیث

 شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے

حضرت ابو امامہ رضی اللہ تعالی عنہ روایت ہے کے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مسواک کیا کرو اِس لیے کے مسواک منه کو صاف کرنے والی اور پروردگار کو راضی کرنے والی ہے . جب بھی میرے پاس جبرائیل آئے مجھے مسواک کا کہا حتی کے مجھے اندیشہ ہوا کے مسواک مجھ پر اور میری امت پر فرض ہو جائے گی اور اگر مجھے اپنی امت پر مشقت کا خوف نہ ہوتا تو میں مسواک کو اپنی امت پر فرض کر دیتا اور میں اتنا مسواک کرتا ہوں کے مجھے خطرہ ہونے لگتا ہے کہیں میرے مسوڑھے چھل نہ جائیں .
   (سنن ابن ماجہ: جلد اول: حدیث: 289، حدیث مرفوع، مکر رات 3)


 سیدنا جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میرے باپ کی شہادت کے بعد میں رونے لگا اور ابا کے منہ سے کپڑا ہٹا ہٹا کر بار بار ان کے چہرے کو دیکھ رہا تھا۔ صحابہ مجھے منع کرتے تھے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش تھے پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جابر رو مت جب تک تیرے والد کو اٹھایا نہیں گیا فرشتے اپنے پروں سے اس پر سایہ کئے ہوئے ہیں، سیدنا جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے جابر کیا بات ہے کہ تم مجھے غمگین نظر آتے ہو؟ میں نے کہا یا رسول اللہ میرے والد شہید ہو گئے جن پر بار قرض بہت ہے اور میرے چھوٹے چھوٹے بہن بھائی بہت ہیں آپ نے فرمایا سن میں تجھے بتاؤں جس کسی سے اللہ نے کلام کیا پردے کے پیچھے سے کلام کیا لیکن تیرے باپ سے آمنے سامنے بات چیت کی فرمایا مجھ سے مانگ جو مانگے گا دوں گا (سبحان اللہ) تیرے باپ نے کہا اللہ عزوجل میں تجھ سے یہ مانگتا ہوں کہ تو مجھے دنیا میں دوبارہ بھیجے اور میں تیری راہ میں دوسری مرتبہ شہید کیا جاؤں، رب عزوجل نے فرمایا یہ بات تو میں پہلے ہی مقرر کر چکا ہوں کہ کوئی بھی لوٹ کر دوبارہ دنیا میں نہیں جائے گا۔ کہنے لگے پھر اے اللہ میرے بعد والوں کو ان مراتب کی خبر پہنچا دی جائے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آیت (ولا تحسبن) الخ، فرمائی۔


ہم سے ابو الیمان نے حدیث(شریف) بیان کی،ان کو شعیب نے،ان کو ابوالزناد نے اعرج سے انہوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے نقل کی کہ بے شک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ۔تم میں سے کوئی بھی ایماندار نہ ہو گا جب تک میں اس کے والداور اولاد سے زیادہ اس کا محبوب نہ بن جاؤں۔ حدیث شریف 14،صفہ193،جلد1،بخاری شریف

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ نے فرمایا؛قسم اس کی جس کے ہاتھ میں محمد(صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جان ہے۔ایک زمانہ ایسا آئے گاجب تم مجھ کو دیکھ نہ سکو گے ،اور میرا دیکھنا تم کو تمہارے بال بچوں اور مال سے زیادہ عزیز ہو گا(اس لئے میری صحبت غنیمت سمجھو ،زندگی کا اعتبار نہیں اور دین کی باتیں جلد سیکھ لو۔
(حدیث شریف 6129،صفہ 57،جلد6،مسلم شریف )


حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ؛اللہ تعالیٰ کسی مومن پر ایک نیکی کے لئے بھی ظلم نہ کرے گا ۔اس کا بدلہ دنیا میں دے گا اور آخرت میں بھی دے گا،اور کافر کو اس کی نیکیوں کا بدلہ دنیا میں دیا جاتا ہے یہاں تک کہ جب آخرت ہوگی تو اس کے پاس کوئی نیکی نہ رہے گی جس کا وہ بدلہ دیا جاوے۔ حدیث شریف 7089،صفہ 366،جلد 6،مسلم شریف
مکمل تحریر اور تبصرے>>

Wednesday 30 October 2013

Monday 28 October 2013

روحانی غسل

طریقہ روحانی غسل: روحانی غسل کا طریقہ یہ ہے کہ آخری چھ سورتیں مع تسمیہ اول و آخر 3 دفعہ درود شریف کے ساتھ تین مرتبہ پڑھیں اور اسکے بعد بیت الخلاء کی دعا:بِسْمِ اﷲِ اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ  بِکَ مِنَ الْخُبُثِ  وَالْخَبَائِثِ
پڑھ کر بایاں پائوں غسل خانےمیں رکھ کر اندر چلے جائیں‘ سنت کے مطابق غسل کریں‘ نہاتے وقت مسلسل دعا دل ہی دل میں پڑھتے رہیں‘ زبان سے بالکل نہ پڑھیں اور اپنی ہر بیماری اور پریشانی کا تصور کرتے رہیں کہ وہ بھی اس پانی کے ساتھ دھل رہی ہیں اور اس کے بعد جب باہر آئیں تو سیدھا پائوں باہر رکھیں اور پھر اسی ترتیب سے آخری چھ سورتیں پڑھیں جیسے پہلے پڑھیں تھیں۔آخری چھ سورتیں: (1) سورہ کافرون 2) )سورہ نصر (3)سورہ لھب (4)سورہ اخلاص (5)سورہ فلق (6)سورہ ناس۔ نوٹ: غسل جنابت کی صورت میں نہانے سے پہلے چھ سورتیں نہ پڑھیں بلکہ نہانے کے بعد جب باہر آجائیں تو بعد میں چھ مرتبہ پڑھ لیں۔
مکمل تحریر اور تبصرے>>

حدیث قدسی

حدیث قدسی وہ حدیث ہے کہ جس میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جس کی نسبت  اللہ عز و جل کی طرف کریں یعنی نبی ﷺ بیان کریں کہ اللہ تعالی نے یوں فرمایا ہے یا اللہ تعالی ایسے فرماتا ہے۔چنانچہ حدیث قدسی میں اللہ تعالی کے کلام کو جو قرآن کے علاوہ ہوتا ہے اپنے الفاظ میں بیان کرتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بعض اوقات کچھ چیزیں اللہ کی طرف منسوب کر کے فرمایا کرتے تھے مگر قرآن میں وہ موجود نہیں، ایسی احادیث کے صرف معانی اللہ کی طرف سے القاء ہوئے، الفاظ اور اسلوب خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہوتے تھی اس طرح کی احادیث کو ’’حدیثِ قدسی‘‘ کہا جاتا ہے۔ (مباحث فی علوم القرآن ص:25)
                                                                        حدیث نبوی ﷺمیں الفاظ و معانی رسول اللہﷺ کے اپنے ہوتے ہیں،البتہ حدیث نبوی بھی وحی الٰہی کے تابع ہوتی ہےاورحدیث قدسی کو قدسی اس کی عظمت ورفعت کی وجہ سے کہا جاتا ہےیعنی قدسی کی نسبت قدس کی طرف ہے،جو اس حدیث کے عظیم ہونے کی دلیل ہے۔
مکمل تحریر اور تبصرے>>

Archive