Monday 25 November 2013

احادیث مبارکہ کا گلدستہ

اللھم صل علٰی محمد وعلٰی آل محمد کما صلیت علٰی اِبراھیم وعلٰی آل اِبراھیم اِنک حمید مجید ہ
اللھم بارک علٰی محمد وعلٰی آل محمد کما بارکت علٰی اِبراھیم وعلٰی آل اِبراھیم انک حمید مجید ہ









        
مکمل تحریر اور تبصرے>>

گلدستہ احادیث

احادیث مبارکہ کا گلدستہ

بلغ العلےٰ بکمالہ ------------------------------------------ کشف الدجےٰ بجمالہ

حسنت جمیعُ خصالہ ------------------------------------------ صلو علیہِ واٰ لہ 
مکمل تحریر اور تبصرے>>

Sunday 24 November 2013

Daily Hadees In Urdu: Hadith of the day 25-Dec-2012

Daily Hadees In Urdu: Hadith of the day 25-Dec-2012: Hadees of the day 25-Dec-2012 HadayatOnline.com.  Daily hadees in urdu . Hadith of islam. Daily Hadith updates  CLICK HERE TO S...
مکمل تحریر اور تبصرے>>

Thursday 14 November 2013

خشک میوہ جات

خشک میوہ جات
خشک میوہ جات قدرت کی جانب سے سردیوں کا انمول تحفہ ہیں جو خوش ذائقہ ہونے کے ساتھ ساتھ بےشمار طبی فوائد کے حامل بھی ہیں۔ خشک میوہ جات مختلف بیماریوں کے خلاف مضبوط ڈھال کے طور پر کام کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ڈرائی فرو ٹس جسم کے درجہ حرارت کو بڑھانے اور موسم سرما کے مضر اثرات سے بچاو میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اعتدال کے ساتھ ان کا استعمال انسانی جسم کو مضبوط اور توانا بناتا ہے۔

مونگ پھلی

 مونگ پھلی ہردلعزیز میوہ ہے۔سردیوں میں مونگ پھلی کھانے کا اپنا ہی مزا ہوتا ہے تاہم اس کا باقاعدہ استعمال دبلے افراد اور باڈی بلڈنگ کرنے والوں کے لئے انتہائی غذائیت بخش بھی ثابت ہوتا ہے۔ مونگ پھلی میں قدرتی طور پر ایسے اینٹی آکسیڈنٹ پائے جاتے ہیں جو غذائیت کے اعتبار سے سیب‘ گاجر اور چقندر سے بھی زیادہ ہوتے ہیں جو کم وزن افراد سمیت باڈی بلڈنگ کرنے والوں کے لئے بھی نہایت مفید ثابت ہوتے ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ اس کے طبی فوائد کئی امراض سے حفاظت کا بھی بہترین ذریعہ ہیں۔ مونگ پھلی میں پایا جانے والا وٹامن ای کینسر کے خلاف لڑنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے جبکہ اس میں موجود قدرتی فولاد خون کے نئے خلیات بنانے میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔کینیڈا میں کی جانے والے ایک تحقیق کے ذریعے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ذیابطیس کے مریضوں کے لئے مونگ پھلی کا استعمال نہایت مفید ہے ۔ماہرین کے مطابق دوسرے درجے کی ذیابطیس میں گرفتار افراد کے لئے روزانہ ایک چمچہ مونگ پھلی کا استعمال بہت مثبت نتا ئج مرتب کرسکتا ہے۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ مونگ پھلی کا استعمال انسولین استعمال کرنے والے افراد کے خون میں انسولین کی سطح برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔مونگ پھلی میں تیل کافی مقدار میں ہوتا ہے لیکن آپ خواہ کتنی بھی مونگ پھلی کھا جائیں اس کے تیل سے آپ کا وزن نہیں بڑھے گا۔

چلغوزے

چلغوزے گردہ‘مثانہ اور جگر کو طاقت دیتے ہیں اس کے کھانے سے جسم میں گرمی اور فوری توانائی محسوس ہوتی ہے۔ چلغوزہ کھانے سے میموری سیلز میں اضافہ ہو کر یادداشت میں بہتری پیدا ہوتی ہے ۔اگر کوئٹہ سے قلعہ عبداللہ کے راستے ژوپ(فورٹ سنڈیمن)کی طرف جائیں تو تقریبا پانچ گھنٹے کی ڈرائیو کے بعد ژوب کا علاقہ آتا ہے۔جبکہ ڈیرہ اسماعیل خان سے یہی مسافت چار گھنٹے میں طے ہوتی ہے۔یہ علاقہ 2500سے 3500میٹر کی بلندی پر واقع ہے۔گرمیوں میں زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت 37سینٹی گریڈ جبکہ سردیوں میں زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت 15سینٹی گریڈ ہوتا ہے۔ مزید بلندی پر یہ درجہ حرارت مزید کم ہو جاتا ہے-یہی وہ علاقہ ہے جہاں چلغوزے کے دنیا کے سب سے بڑے باغات واقع ہیں۔یہ باغات تقریبا 1200مربع کلومیٹر کے رقبے پر پھیلے ہوئے ہیں ۔اس علاقے میں پیدا ہونے والا چلغوزہ دنیا بھر میں نہایت معیاری اور پسند کیا جاتا ہے۔یہاں پیدا ہونے والا بیشتر چلغوزہ لاہور کی مارکیٹ میں سیل کیا جاتا ہے جہاں اسکی مناسب پیکنگ وغیرہ کر کے اسکو بیرون ملک ایکسپورٹ کر دیا جاتا ہے۔بلوچستان میں پیدا ہونے والے اس چلغوزے کی زیادہ تر مارکیٹ دبئی‘اینگلینڈ‘ فرانس‘مسقطاور دیگر ممالک ہیںجہاں کےخریدار اس علاقے کے پاکستانی چلغوزے کو منہ مانگی قیمت پر خریدنے کو تیار رہتے ہیں۔بیرون ملک مہنگے داموں خریدے جانے کی وجہ سے مقامی مارکیٹ میں بھی چلغوزے انتہائی مہنگے داموں کم و بیش 2500روپے کلوبیچے جا رہے ہیں۔

کاجو

کاجو انتہائی خوش ذائقہ میوہ ہے جسے فرائی کر کے کھایا جاتا ہے ۔اس میں زنک کی کافی مقدار پائی جاتی ہے جس کی وجہ سے اس کے استعمال سے اولاد پیداکرنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوجاتا ہے ۔کینیڈا میں کی گئی ایک حالیہ طبی تحقیق کے بعد ماہرین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ کاجو کا استعمال ذیابطیس کے علاج میں انتہائی اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ کاجو کے بیج میں ایسے قدرتی اجزا پائے جاتے ہیں جو خون میں موجود انسولین کو عضلات کے خلیوں میں جذب کرنے کی بھر پور صلاحیت رکھتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق کاجو میں ایسے ”ایکٹو کمپاونڈز“ پائے جاتے ہیں جو ذیابطیس کو بڑھنے سے روکنے میں انتہائی اہم کردار ادا کرتے ہیں لہذا ذیابطیس کے مریضوں کے لئے کاجو کا باقاعدہ استعمال انتہائی مفید ہے۔

اخروٹ

اخروٹ نہایت غذائیت بخش میوہ شمار ہوتا ہے۔ اس کی بھنی ہوئی گری جاڑوں کی کھانسی میں خاص طور پر مفید ہے۔ اس کے استعمال سے دماغ طاقتور ہوجاتا ہے۔ اخروٹ کو اعتدال سے زیادہ کھانے سے منہ میں چھالے اور حلق میں خراش پیدا ہوجاتی ہے۔ایک حالیہ امریکی تحقیق کے مطا بق اخر وٹ کا استعمال ذہنی نشونما کے لئے نہایت مفید ہے، اوراس کے تیل کا استعما ل ذہنی دباﺅ اور تھکان کو کم کرنے میں مدد دیتا ہے ۔امریکہ کی ریاست پنسلوانیا میں کی جا نےوالی اس تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ اخروٹ میں موجود اجزا خون کی گردش کو معمول پر لاکر ذہن پر موجود دباو کوکم کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔جس کی وجہ سے وہ حضرات جو زیادہ کام کرتے ہیں ان کے ذہنی سکون کے لئے اخرو ٹ اور اس کے تیل کا استعما ل نہایت مفید ثابت ہوتا ہے ۔ ماہرین کے مطابق اخرو ٹ کا استعما ل بلڈپریشر پر قابو پانے اور امراض ِقلب کی روک تھام کے لیے بھی نہایت مفید ہے

بادام


بادام قوت حافظہ‘ دماغ اور بینائی کیلئے بے حد مفید ہے اس میں حیاتین الف اور ب کے علاوہ روغن اور نشاستہ موجود ہوتا ہے۔ اعصاب کو طاقتور کرتا ہے اور قبض کو ختم کرتا ہے۔بادام خشک پھلوں میں بے پناہ مقبولیت کا حامل ہے۔ غذائی اعتبار سے بادام میں غذائیت کا خزانہ موجود ہے بادام کے بارے میں عام طور پر یہی خیال کیا جاتا ہے کہ یہ چکنائی سے بھرپور ہونے کے سبب انسانی صحت خصوصا عارضہ قلب کا شکار افراد کیلئے نقصان دہ ہے تاہم اس حوالے سے متعدد تحقیقات کے مطابق بادام خون میں کولیسٹرول کی سطح کم کرتا ہے اور یوں اس کا استعمال دل کی تکالیف میں فائدہ مند ثابت ہوسکتا ہے نیز اس کی بدولت عارضہ قلب میں مبتلا ہونے کے امکانات بھی کم ہوجاتے ہیں۔ اس حوالے سے ایک تحقیق کے مطابق 3اونس بادام کا روزانہ استعمال انسانی جسم میں کولیسٹرول لیول کو 14فیصد تک کم کرتا ہے ۔بادام میں 90 فیصد چکنائی نان سیچوریٹڈ فیٹس پر مشتمل ہوتی ہے نیز اس میں پروٹین وافر مقدار میں پایا جاتا ہے دیگر معدنیات میں فائبر کیلشیم میگنیٹیم پوٹاشیم وٹامن ای اور دیگر اینٹی آکسیڈنٹس بھی وافر مقدار میں موجود ہوتے ہیں۔ اطباءکی رائے میں بادام کا استعمال آسٹوپورسس میں بھی فائدہ مند ثابت ہوتا ہے تاہم اس کیلئے گندم، خشخاش اور میتھرے کو مخصوص مقدار میں شامل کرکے استعمال کیا جاتا ہے۔

پستہ

پستہ کا استعمال مختلف سویٹس کے ہمرا ہ صدیوں سے مستعمل ہے۔حلوہ‘زردہ اور کھیر کا لازمی جز ہے۔نمکین بھنا ہوا پستہ انتہائی لذت دار ہوتا ہے اور دیگر مغزیات کی طرح بھی استعمال کیا جا تا ہے۔جدید طبی تحقیق کے مطابق دن میں معمولی مقدار میں پستہ کھانے کی عادت انسان کو دل کی بیماری سے دور رکھ سکتی ہے ۔ پستہ خون میں شامل ہو کر خون کے اندر کولیسٹرول کی مقدار کو کم کردیتا ہے۔ اس کے علاوہ خون میں شامل مضر عنصر لیوٹین کو بھی ختم کرنے میں مدد دیتا ہے۔اس تحقیق کے دوران ماہرین نے یہ بھی نوٹ کیا کہ پھل اور پتے دار ہری سبزیاں کھانے سے شریانوں میں جمے کولیسٹرول کو پگھلایا جاسکتاہے ۔طبی ماہرین کا خیال ہے کہ پستہ عام خوراک کی طرح کھانا آسان بھی ہے اور ذائقے دار غذا بھی ‘ اگر ایک آدمی مکھن‘ تیل اور پینر سے بھرپور غذاوں کے بعد ہلکی غذاں کی طرف آنا چاہتا ہے تو اسے پستہ کھانے سے آغاز کرنا چاہیے۔پستہ کا روزانہ استعمال کینسر کے امراض سے بچاﺅ میں مددگار ثابتہ ہوتا ہے۔ ایک جدید تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ روزانہ منا سب مقدار میں پستے کھانے سے پھیپھڑوں اور دیگر کینسرز کا خطرہ کم ہو جاتا ہے۔ کینسر پر کام کر نے والی ایک امریکی ایسوسی ایشن کے تحت کی جانے والی ریسرچ کے مطا بق پستوں میں وٹامن ای کی ایک خاص قسم موجود ہو تی ہے جو کینسر کے خلاف انتہائی مفید ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پستوں میں موجود اس خاص جزو سے نہ صرف پھیپھڑوں بلکہ دیگر کئی اقسام کے کینسرز سے لڑنے کے لیے مضبوط مدا فعتی نظام حاصل کیا جا سکتا ہے۔

تل

موسم سرما میں بوڑھوں اور بچوں کے مثانے کمزور ہوجاتے ہیں جس کی وجہ سے اکثر بستر پر پیشاب کردیتے ہیں۔ اس شکایت سے نجات کیلئے تل کے لڈو بہترین غذا اور دوا ہیں۔ تل اور گڑ سے تیار شدہ ریوڑیاں بھی فائدہ مند ہیں۔

کشمش اور منقہ

کشمش دراصل خشک کیے ہوئے انگور ہیں۔ چھوٹے انگوروں کو خشک کرکے کشمش تیار کی جاتی ہے جبکہ بڑے انگوروں کو خشک کرکے منقی تیار کیا جاتا ہے۔ کشمش اور منقہ قبض کا بہترین علاج ہے۔ نیزہڈیوں کے بھربھرے پن کی مرض میں مفید ہے۔ بہت قوت بخش میوہ ہے۔
مکمل تحریر اور تبصرے>>

Wednesday 13 November 2013

توبہ

:arabic7:
استغفر اللہ استغفر اللہ استغفر اللہ استغفر اللہ

:masha:



                                          
مکمل تحریر اور تبصرے>>

Friday 8 November 2013

فتا وا آن لائن

http://www.thefatwa.com/urdu/questionID/1392/
مکمل تحریر اور تبصرے>>

Wednesday 6 November 2013

سیرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا ، بطور ماں

نقوش سیرت سیدہ فاطمۃ الزاہرا رضی اللہ عنھا ، بطور ماں
 .اللہم صلی علی محمد و علی ال محمد کما صلیت علی ابراھیم وعلی ال ابراھیم انک حمید مجید 
اللھم بارک علی محمد و علی ال محمد کما بارکت علی ابراھیم وعلی ال ابراھیم انک حمید مجید
تحریر : ڈاکٹر علی اکبر الازہری

ماں اولاد کے لئے وہ نعمت عظمیٰ اور انعام خداوندی ہے جس کی دنیا میں کوئی مثال ہے نہ بدل۔ ماں دنیا میں اولاد کے لئے جنت فردوس کا شجر سایہ دار ہے۔ مختصراً یوں کہ ایثار و خلوص کی انتہائی بلندیوں اور مہر و وفا کی اتھاہ گہرائیوں کا نام ’’ماں‘‘ ہے۔ ماں کی محبت کبھی ختم نہیں ہوتی۔ ماں ہی وہ واحد ہستی ہے جو اولاد سے اپنے ایثار کا بدلہ، مہربانیوں کا صلہ اور اپنی وفاؤں کا معاوضہ لینے کے تصور سے بالکل پاک ہوتی ہے۔ اسی لئے ماں کی گود اقوام کی پہلی تربیت گاہ ہے۔ معاشرے کی سرگرم رکن ہونے کی حیثیت سے بھی عورت کا سب سے اہم کردار ماں کی ذمہ داریاں پورا کرنا ہے۔
ماں اگر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا جیسے کردار کی مالکہ ہوگی تو پھر سیدنا حسن و حسین رضی اللہ عنھما اور سیدہ زینب رضی اللہ عنہا جیسی مجاہد اور بہادر اولاد پیدا ہوگی جو وقت کی پکار پر طاغوتی سازشوں اور یزیدیوں کے مقابلے میں اپنے خون کا ہدیہ دے کر دین کے شجر کو سرسبز و شاداب رکھے گی۔ یہی آغوش مادر تھی جس کے پروردہ جگر گوشے امامت کے فرائض سرانجام دیتے رہے۔ کسی یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہونے والا صرف علم سے آشنا ہوتا ہے جبکہ آغوش مادر کا کردار یہ ہے کہ یہاں سے فارغ ہونے والا علم کے ساتھ ساتھ عملی اور تربیتی پہلوؤں سے مزین ہوتا ہے۔

حضرت سیدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا جیسی ماں نے اولاد کی تربیت کا جو سبق دیا ہے کون دے گا؟ جہاں فقر اور زہد و عبادت کی انتہا ہو جاتی ہے وہاں اس مامتا کی تربیت کے پروردہ سادات کی ابتداء ہوتی ہے۔

حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہماری والدہ ماجدہ پوری رات عبادت میں گزار دیتیں اور دعا مانگتے ہوئے اپنا نام بھی نہ لیتیں۔ یہ ہے خود غرضی سے پاک خالص رضائے الہٰی کی خاطر عبادت کی عملی تربیت۔

سیرت سیدہ فاطمہ کی روشنی میں آج کی ماں کے لیے راہنمائی

اولاد کی سیرت و کردار والدین کی تربیت کا پر تو ہوتی ہے۔ بالخصوص ان کے اندر صدق و اخلاص جیسی خوبیاں ماں کی تربیت سے ہی پیدا ہوا کرتی ہیں۔ اس لئے اولاد کی بہتر پرورش کے لئے بچے کے جسم و روح کو ہر قسم کی آلودگیوں سے پاک و صاف رکھنے کی ضرورت ہے۔

اس امانت کو صحیح حالت میں قوم کے سپرد کرنے کے لئے وہ قدرت کے اصولوں کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے شب و روز بسر کرے۔ اس لئے کہ وہی موتی سب سے زیادہ قیمتی ہوتے ہیں جو اصداف کے پردوں میں رہے ہوں۔ گوہر کی قیمت صدف میں رہے بغیر نہیں بن سکتی۔ جب حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے پوچھا گیا کہ عورت کا پردہ کیا ہے؟ تو آپ (ر) نے فرمایا کہ ’’نہ کوئی نامحرم مرد، اسے دیکھ سکے اور نہ وہ کسی غیر محرم کو دیکھے‘‘۔ لہذا عورت وہی کہلائے گی جو حیا کے پردے میں مستور ہوگی۔ سب سے اہم ذمہ داری ماں کی یہ ہے کہ وہ معاشرے کو باکردار اور صالح افراد مہیا کرے۔ گھریلو ماحول میں صداقت، شرافت، دیانت، ایفائے عہد، حسن خلق جیسے عملی ماحول میں اولاد کی پرورش کرے اور قرآن و حدیث کی تعلیمات کے مطابق اولاد کی سیرت کی تعمیر کرے۔ بچوں کی تربیت اور پرورش اپنے ہاتھوں سے کرے۔ لہذا مسلمان خواتین کو چاہئے کہ خاتونِ جنت کے طریقہ پرورش اور انداز تربیت کو سامنے رکھتے ہوئے اس دور میں اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ بر آہوں۔

سب عظمتیں اور رعنائیاں جو کسی بشر میں ہوسکتی ہیں ان کے در کی خیرات ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظیم بیٹی اگر بچوں کی تربیت کی خاطر خود تکلیف اٹھاسکتی ہیں، انہیں اپنا دودھ پلاسکتی ہیں تو آج کی مسلمان عورت اس ذمہ داری سے کیونکر راہ فرار تلاش کرسکتی ہے۔ بچوں کی پرورش و نگہداشت ان کی صفائی، ستھرائی، لباس اور خوراک کا خیال رکھنا اور گھریلو امور کی پاسبانی ہی عورت کا افضل جہاد اور سب سے بڑی قربانی ہے۔ عورت کے اسی کردار کی آج سخت ضرورت ہے تاکہ اس کی گود سے مجاہدین اسلام اور علماء ربّانی پروان چڑھیں اور ایک بار پھر عظمت رفتہ کی یاد تازہ ہوسکے۔

آج کے ترقی یافتہ معاشرے کی غیر محفوظ عورت اگر اپنا وقار، عزت و مرتبہ اور حقیقی مقام دوبارہ حاصل کرنا چاہتی ہے تو اسے چادر زہرہ رضی اللہ عنہا کے سائبان کے نیچے آنا ہوگا اور ان کی کی راہ پر چلنا ہوگا۔ حضرات شبّر رضی اللہ عنہ و شبیر رضی اللہ عنہ جیسے جسور و غیور فرزندان اسلام سے اپنی آغوش کو بھرنا ہوگا اور پھر تہذیب مغرب کے حیاء سوز طوفان اور تباہ کن آندھیوں سے اپنے آپ کو بچانا ہوگا۔ دین اسلام عورت کے لئے سراسر امن، سکون، رعنائی اور محبت و شفقت لے کر آیا ہے لیکن ابلیسیت کو مسلمان عورتوں کا یہ تقدس نامنظور ہے اس لئے اس نے عورت کو برابری کا جھانسہ دے کر ورغلاتے ہوئے اس کے فطری مقام سے اٹھا کر مرد کی صف میں لاکھڑا کیا تاکہ وہ گھریلو ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ تلخی حیات کے گھونٹ بھی بھرتی رہے۔ حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی سیرت طیبہ ہماری ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کے لئے خوبصورت نمونہ عمل ہے۔ انہیں چاہئے کہ وہ دور حاضر کی مکاریوں سے باخبر رہتے ہوئے خود کو بھی اور دوسری بہنوں کو بھی بے پردگی کی آگ کے شعلوں سے محفوظ رکھیں۔ بنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے وفاداری کا ثبوت دیں اور بحیثیت مسلمان اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ بر آہونے کی کوشش کریں۔


سالانہ سیدۂ کائنات رضی اللہ عنہا کانفرنس

حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا کی انہی خدمات اور مثالی سیرت کو عام کرنے کے لئے منہاج القرآن ویمن لیگ ہر سال ’’سیدہ کائنات(ر) کانفرنس‘‘ منعقد کرتی ہے۔ اب تک اس سلسلے کے تین شاندار کل پاکستان پروگرام ہوچکے ہیں۔ یہ اجتماع عام طور پر رمضان المبارک کے پہلے عشرۂ رحمت میں منعقد ہوتا ہے کیونکہ 3 رمضان المبارک آپ کا یوم وصال ہے۔ بلاشبہ یہ تحریک منہاج القرآن کا اعزاز و افتخار ہے کہ جس طرح حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جشن میلاد کی دھوم گلی کوچوں سے نکل کر قومی اور عالمی سطح پر پہنچادی گئی ہے اس طرح آپ کی صاحبزادی کی عظمتوں کو سلام عقیدت پیش کرنے کے لئے ان کے شایانِ شان ایک عظیم الشان تقریب کا اہتمام ہوتا ہے۔
مکمل تحریر اور تبصرے>>

حضرت آمنہ سلام اللہ علیہا

 بسم اللہ الرحمن الرحیم
سبحان اللہ و بحمدہ سبحان اللہ العظیم

اللھم صل علی سیدنا و مولانا محمد وعلی آلہ وصحبہ وبارک وسلم 

رسول خدا کی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ سلام اللہ علیہا

وہب اپنی شریک حیات کے پاس گئے اور کہا
آج عبدالمطلب کے سجیلے بیٹے عبداللہ علیہ السلام نے ایسے کارنامے انجام دیۓ کہ ان کو دیکھ کر میں انگشت بدندان رہ گیا ۔ یہودیوں کےایک گروہ نے ان پر حملہ کر دیا تھا ۔ وہ انہیں قتل کرنا چاہتے تھے ، لیکن عبداللہ علیہ السلام نے ان کے بزدلانہ حملوں کا تن تنہا جواب دیا اور ان میں سے کئی آدمیوں کو ہلاک کر دیا ۔ ایسا حسین و جمیل اور باکمال جوان میں نے نہیں دیکھا ۔ تم ان کے والد کے پاس جاؤ اور عبداللہ علیہ السلام سے اپنی بیٹی آمنہ سلام اللہ علیہا سے شادی کا پیغام دو ! ہو سکتا ہے اس جوان کی وجہ سے ہمارے خاندان کی عزت بڑھ جائے 
وہب کی بیوی خود کو اس لائق نہیں سمجھتی تھی کہ انہیں عبداللہ علیہ السلام جیسا داماد ملے گا ۔ لہذا اس نے کہا :
مکہ کے شرافاء اور رئیس ان سے اپنی لڑکی منسوب کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں ، لیکن عبدالمطلب نے ان میں سے کسی کا رشتہ قبول نہیں کیا ہے ، یہاں تک کہ عراق و شام کے بادشاہوں اور بڑے لوگوں نے بھی ان سے اس سلسلے میں خط و خطابت کی ہے مگر مایوسی کے سوا انہیں کچھ نصیب نہیں ہوا ہے ۔ کیا اس کے باوجود عبداللہ علیہ السلام ہم جیسے غریبوں کی لڑکی سے شادی کرسکتے ہیں ؟

''پھر بھی تمہیں ناامید نہیں ہونا چاہیے ، کیونکہ میں نے عبداللہ علیہ السلام کے خاندان والوں کو ان پر یہودیوں کے حملہ کرنے کی خبر دی ہے لہذا ان کی نظروں میں میرا احترام ہے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ میرے اس مخلصانہ کام کی وجہ سے ہماری بات کو رد نہیں کریں گے ''
وہب کی بیوی نیا لباس پہن کر یاس وامید کی کیفیت کے ساتھ عبدالمطلب کے گھر گئی ۔ خوش قسمتی سے عبدالمطلب اس وقت اپنے بیٹوں سے یہودیوں کے حملہ کے سلسلہ میں گفتگو کر رہے تھے ۔ عورت نے موقع کو غنیمت سمجھا ، عبدالمطلب اور ان کے بیٹوں کے حق میں دعا کی، جواب میں عبدالمطلب نے بھی دعا دی اور اس سے محبت کا اظہار کرتے ہوۓ کہا : '' آج تمہارے شوہر نے ہم پر بڑا احسان کیا ہے ، ہم کبھی اس کا صلہ نہیں دے سکیں گے ۔ ان کی نوازشوں کے ہم تہہ دل سے شکر گزار ہیں ۔''
عبدالمطلب کے طرز گفتگو سے وہب کی بیوی کو کچھ یقین ہوا کہ عبدالمطلب ہماری پیشکش پر غور کریں گے ۔ عبدالمطلب نے مزید کہا کہ
'' ہماری جانب سے اپنے شوہر کو بہت سلام کہیے اور کہیے کہ اگر ہمارے لائق کوئی خدمت ہو تو بتائیں ، انشاءللہ انجام دیں گے ۔

عورت نے موقع کو غنیمت سمجھا اور عبدالمطلب سے اصل مدعا بیان کیا ، نیز کہا : میں چاہتی ہوں کہ آپ ہمیں خوش کر دیں ۔ مجھے معلوم ہوا ہے کہ شام و عراق اور دوسری جگہوں کے رؤساء کی لڑکیاں عبداللہ علیہ السلام کے حبالۂ نکاح میں آنے کو اپنے لۓ باعث افتخار سمجھتی ہیں ۔ کمال عقیدت و اشتیاق کے ساتھ ہماری درخواست یہ ہے کہ عبداللہ علیہ السلام کا نکاح ہماری بیٹی سے کر لیجۓ ، اسی لۓ میں آپ کے پاس آئی ہوں ۔ عبداللہ علیہ السلام کی شخصیت ہمیں بہت زیادہ محبوب ہے ۔ ہم جانتے ہیں کہ مالی لحاظ سے ہم دوسروں کی برابری نہیں کر سکیں گے ۔ لیکن امید ہے کہ عبداللہ علیہ السلام ہمارے اس ہدیہ کو رد نہیں کریں گے ۔وہب کی بیوی کی باتیں سن کر عبدالمطلب نے عبدللہ علیہ السلام کے چہرہ پر نگاہ کی کیونکہ پہلے جب بھی بڑے لوگوں کی لڑکیوں سے رشتہ کی بات چلتی تھی تو عبداللہ علیہ السلام کے چہرے پر ناگواری کے آثار نظر آتے تھے ۔ عبدالمطلب نے اپنے بیٹے عبداللہ علیہ السلام سے کہا : '' بیٹا تمہارا کیا خیال ہے ؟

   بیٹے نے کہا : خدا کی قسم ! مکہ کی لڑکیوں میں اس سے زیادہ پاک دامن اور باعفت لڑکی نہیں ہے ۔ وہ باوقار ، پاکیزہ اور عقلمند و دیندار ہے ۔ پاک دامن اور باتقوی جوانوں کی ہمسری کے لۓ ایسی ہی لڑکیاں موزوں ہیں . عبداللہ علیہ السلام خاموش رہے ۔ عبدالمطلب ان کی خاموشی سے سمجھ گۓ کہ اس رشتہ سے راضی ہیں ، اس لۓ وہب کی بیوی سے کہا : '' مجھے تمہاری بات قبول ہے اور تمہاری لڑکی کو اپنے بیٹے کے لۓ نامزد کرتا ہوں ۔ عبداللہ علیہ السلام کی والدہ ، عبدالمطلب کی شریک حیات ، فاطمہ نے وہب کی بیوی سے کہا : میں بھی تمہارے ساتھ چلتی ہوں تاکہ نزدیک سے آمنہ کو دیکھ لوں ، اگر اس لائق ہو گی تو راضی ہونگی ''
یہ بات تقریبا طے ہو گئی تھی کہ عبداللہ علیہ السلام کی شادی آمنہ سلام اللہ علیہا سے ہو گی ۔ لڑکی والے خصوصا اس کے والدین ، عبداللہ علیہ السلام جیسا صالح داماد مل جانے سے بہت خوش تھے ۔ گویا عالم غیبت سے آمنہ کی ماں کو ہاتف مخاطب کرکے کہہ رہا تھا : مبارک ہو ! محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت میں زیادہ دیر نہیں ہے '' وہب کی زوجہ واپس آئی تو انہوں نے بوچھا : کیا ہوا ؟
جواب ملا کہ آپ کا نصیب جاگ گیا ۔ عبدالمطلب نے آپ کی لڑکی کو پسند کر لیا ہے ۔ لیکن ابھی اطمینان کی سانس نہیں لی جا سکتی کیونکہ عبداللہ علیہ السلام کی ماں لڑکی کو قریب سے دیکھنے کے لۓ آ رہی ہیں ۔ خدانخوستہ اگر انہیں ہماری لڑکی پسند نہ آئی تو ساری محنت ضائع ہو جاۓ گی ''
وہب نے بیوی سے کہا : بیٹی کو نیا لباس پہناؤ اور زیور وغیرہ سے سجا سنوار دو ! کیونکہ لڑکیوں میں اتنی کشش ہونی چاہۓ کہ جس سے پسندیدہ بن جائیں ''
آمنہ سلام اللہ علیہا کی ماں نے بیٹی کو آراستہ کردیا ، جس سے بیٹی کا حسن دوبالا ہو گیا ۔ نیز ماں نے تاکید کر دی کہ فاطمہ کے سامنے ادب و احترام کا خاص لحاظ رکھنا ۔ ہو سکتا ہے فاطمہ بھی اس رشتہ کو پسند کر لیں اور ہماری قسمت جاگ جاۓ ۔
اسی اثناء میں فاطمہ گھر میں داخل ہوئیں ۔ آمنہ ادب و احترام سے ان کی تعظیم کے لۓ کھڑی ہو گئی ۔ فاطمہ اپنی ہونے والی بہو کے حسن و جمال کی شیفتہ ہو گئیں اور آمنہ سلام اللہ علیہا کی والدہ سے کہا : میں نہیں جانتی تھی کہ آپ کی بیٹی اتنی حسین اور باوقار ہے ۔ میں نے بارہا آمنہ سلام اللہ علیہا کو دیکھا تھا لیکن اس کے کمال کی طرف متوجہ نہیں ہو سکی تھی . یہ بھی آپ کے خاندان کی برکت سے ہے . فاطمہ نے آمنہ سلام اللہ علیہا سے کچھ باتیں کیں تو آمنہ سلام اللہ علیہا کو ایسی شائستہ اور شیرین سخن لڑکی پایا کہ مکہ کی عورتوں اور لڑکیوں میں جس کی نظیر نہیں تھی ۔
فاطمہ جو کہ بہت خوش تھیں ، اپنے شوہر اور اپنے بیٹے کے پاس گئیں اور عبداللہ علیہ السلام سے کہا : بیٹا ! آمنہ سلام اللہ علیہا جیسی لڑکی عربوں میں نہیں ہے ۔ میں نے اسے پسند کر لیا ہے ۔ وہ تمہاری ہمسری کے لائق اور تمہارے بچے کے لۓ ایک مثالی ماں ثابت ہو گی ۔

مہر اور دلہن کے لوازمات سے متعلق جو گفتگو ہوئی وہ یہ تھی ۔
لڑکی کے باپ نے عبدالمطلب سے کہا : میری بیٹی آپ کے بیٹے کے لۓ ایک ہدیہ ہے ، مجھے کسی قسم کے مہر کی ضرورت نہیں ہے '' خدا آپ کو جزاء خیر عطا کرے ، اس سے مفر نہیں ہے ۔ لڑکی کا مہر ہونا چاہیے اور ہمارے عزیزوں میں سے بعض کو گواہ بھی ہونا چاہیے ۔''
عبدالمطلب لڑکی کو کچھ دینا چاہتے تھے کہ ایک شور مچا ، وہب نے شمشیر اٹھا لی ۔ ماجرا یہ تھا کہ اس وقت یہودی، مہمانوں پر حملہ آور ہو‎ۓ تھے ۔ یہ وہی لوگ تھے جو عبداللہ علیہ السلام کو قتل کر دینا چاہتے تھے ۔ یہودیوں نے پتھروں سے حملہ کیا لیکن عبدالمطلب اور آپ کے ساتھیوں نے جوان مردی سے کام لیا اور ان کے حملہ کو ناکام کردیا ۔ یہودیوں کی اس بزدلانہ حرکت کی سزا انہیں قتل کرنے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہو سکتی تھی ۔ آخرکارنکاح کو اگلے دن رکھ دیا گیا ۔
اگلے دن صبح کے وقت عبدالمطلب نے اپنے رشتہ داروں کو بلایا ، سب نے فاخرہ لباس ‍زیر تن کیا ، جس سےایک باشکوہ محفل کا سماں بندھ گیا ۔ عبداللہ علیہ السلام محفل میں آۓ حاضرین تعظیم کے لۓ کھڑے ہو گۓ ۔ اس کے بعد عبدالمطلب نے کھڑے ہو کر خطبہ پڑھا 
  خدا کی نعمتوں پر ہم اس کی حمد و سپاس کرتے ہیں ۔ اس نے ہمیں اپنے گھر۔۔۔۔۔
کا ہمسایہ قرار دیا اور اپنے حرم میں سکونت عطا کی ۔ لوگوں کے دلوں میں ہماری محبت ڈالی ،ہمیں آفتوں اور خطروں سے محفوظ رکھا ،ہمیں نکاح کرنے اور حرام سے دور رہنے کا حکم دیا ۔ لوگو: میرا بیٹا عبداللہ علیہ السلام معین مہر پر آمنہ سلام اللہ علیہا سے نکاح کرنا چاہتا ہے ، کیا تم راضی ہو؟
وہب نے کہا !ہم راضی ہیں . عبدالمطلب نے حاضرین کو گواہ قرار دیا ۔ اس پرشکوہ جشن میں سب نے خوشی منائی اور عبدالمطلب نے سب کو اس مثالی شادی کا ولیمہ دیا ، جس کا سلسلہ چار روز تک جاری رہا ۔ مدینہ میں صرف اہل مکہ نے ہی شرکت نہیں کی بلکہ گردو نواح کے لوگوں نے بھی ولیمہ کھایا ۔ آمنہ سلام اللہ علیہا شوہر کے گھر چلی گئی ۔ آپ کی گود میں ایسے بچے نے جنم لیا کہ جس کے علم و ہدایت کی روشنی نے ساری دنیا کو منور کر دیا ۔
یہ عظیم بچہ دنیا میں آنے سے پہلے ہی والد کے سایہ سے محروم ہو گیا ۔ شوہر نامدار کے بعد حضرت آمنہ سلام اللہ علیہا بھی عرصہ دراز تک زندہ نہ رہیں ۔ چنانچہ جب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سات سال کے ہوۓ تو آمنہ سلام اللہ علیہا بھی اللہ کو پیاری ہو گئیں ۔

صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

 
 

مکمل تحریر اور تبصرے>>

Archive