Monday 21 October 2013

محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم















فہرست

ابتدائی حالات




ولادت با سعادت

حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سن ایک عام الفیل (570ء) میں ربیع الاول کے مبارک مہینےمیں بعثت سے چالیس سال پہلے مکہ میں پیدا ہوئے۔ ان کی پیدائش پر معجزات نمودار ہوئے جن کا ذکر قدیم آسمانی کتب میں تھا۔ مثلاً آتشکدہ فارس جو ھزار سال سے زیادہ سے روشن تھا بجھ گیا۔ مشکوٰۃ کی ایک حدیث ہے جس کے مطابق حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ' میں اس وقت بھی نبی تھا جب آدم مٹی اور پانی کے درمیان تھے۔ ۔ ۔ میں ابراہیم علیہ السلام کی دعا، عیسیٰ علیہ السلام کی بشارت اور اپنی والدہ کا وہ خواب ہوں جو انہوں نے میری پیدائش کے وقت دیکھا اور ان سے ایک ایسا نور ظاہر ہوا جس سے شام کے محلات روشن ہو گئے'[3][4]۔
جس سال آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پیدائش ہوئی اس سے پہلے قریش معاشی بدحالی کا شکار تھےمگر اس سال ویران زمین سرسبز و شاداب ہوئی، سوکھے ہوئے درخت ہرے ہو گئے اور قریش خوشحال ہو گئے[5] ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تاریخ پیدائش کے بارے میں مختلف روایات ہیں۔ اہل سنت کے نزدیک زیادہ روایات 12 ربیع الاول کی ہیں اگرچہ کچھ علماء 9 ربیع الاول کو درست مانتے ہیں۔ اہلِ تشیع 17 ربیع الاول کو درست سمجھتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا نام آپ کے دادا حضرت عبدالمطلب نے رکھا۔ یہ نام اس سے پہلے کبھی نہیں رکھا گیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ولادت مکہ کے علاقے شعب ابی طالب کے جس گھر میں ہوئی وہ بعد میں کافی عرصہ ایک مسجد رہی جسے آج کل ایک کتاب خانہ (لائبریری) بنا دیا گیا ہے۔

خاندانِ مبارک

  • تفصیلی مضمون کے لئے ملاحظہ کریں:
آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا تعلق قریشِ عرب کے معزز ترین قبیلہ بنو ھاشم سے تھا۔ اس خاندان کی شرافت ، ایمانداری اور سخاوت بہت مشہور تھی۔ یہ خاندان حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دین پر تھا جسے دینِ حنیف کہتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے والد عبداللہ بن عبدالمطلب اپنی خوبصورتی کے لیے مشہور تھے مگر ان کا انتقال آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پیدائش سے چھ ماہ پہلے ہوگیا تھا۔ والدہ کا نام حضرت آمنہ بنت وھب تھا جو قبیلہ بنی زھرہ کے سردار وھب بن عبدمناف بن قصی بن کلاب کی بیٹی تھیں۔ یعنی ان کا شجرہ ان کے شوھر عبداللہ بن عبدالمطلب کے ساتھ عبد مناف بن قصی کے ساتھ مل جاتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دادا عبدالمطلب قریش کے سردار تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا شجرہ نسب حضرت عدنان سے جا ملتا ہے جو حضرت اسماعیل علیہ السلام ابن حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں سے تھے۔ اور مشہور ترین عربوں میں سے تھے۔ حضرت عدنان کی اولاد کو بنو عدنان کہا جاتا ہے۔ یہ شجرہ یوں ہے۔
محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب بن ھاشم بن عبد مناف بن قصی بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لوی بن غالب بن فھر بن مالک بن نضر بن کنانہ بن خزیمہ بن مدرکہ بن الیاس بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان
(عربی میں : محمد بن عبدالله بن عبد المطلب بن هاشم بن عبد مناف بن قصي بن كلاب بن مرة بن كعب بن لؤي بن غالب بن فهر بن مالك بن النضر بن كنانة بن خزيمة بن مدركة بن الياس بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان )

بچپن







آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے والد محترم حضرت عبداللہ ابن عبدالمطلب آپ کی ولادت سے چھ ماہ قبل وفات پا چکے تھے اور آپ کی پرورش آپ کے دادا حضرت عبدالمطلب نے کی۔ اس دوران آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کچھ مدت ایک بدوی قبیلہ کے ساتھ بسر کی جیسا عرب کا رواج تھا۔ اس کا مقصد بچوں کو فصیح عربی زبان سکھانا اور کھلی آب و ہوا میں صحت مند طریقے سے پرورش کرنا تھا۔ اس دوران آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو حضرت حلیمہ بنت عبداللہ اور حضرت ثویبہ(درست تلفظ: ثُوَیبہ) نے دودھ پلایا۔ چھ سال کی عمر میں آپ کی والدہ اور آٹھ سال کی عمر میں آپ کے دادا بھی وفات پا گئے۔ اس کے بعد آپ کی پرورش کی ذمہ داریاں آپ کے چچا اور بنو ہاشم کے نۓ سردار حضرت ابو طالب نے سرانجام دیں۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت ابو طالب کے ساتھ شام کا تجارتی سفر بھی اختیار کیا اور تجارت کے امور سے واقفیت حاصل کی۔ اس سفر کے دوران ایک بحیرا نامی عیسائی راہب نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں کچھ ایسی نشانیاں دیکھیں جو ایک آنے والے پیغمبر کے بارے میں قدیم آسمانی کتب میں لکھی تھیں۔ اس نے حضرت ابوطالب کو بتایا کہ اگر شام کے یہود یا نصاریٰ نے یہ نشانیاں پا لیں تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی جان کو خطرہ ہو سکتا ہے۔ چنانچہ حضرت ابوطالب نے یہ سفر ملتوی کر دیا اور واپس مکہ آ گئے۔[6] اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا بچپن عام بچوں کی طرح کھیل کود میں نہیں گذرا ہوگا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں نبوت کی نشانیاں شروع سے موجود تھیں۔ اس قسم کا ایک واقعہ اس وقت بھی پیش آیا جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بدوی قبیلہ میں اپنی دایہ کے پاس تھے۔ وہاں حبشہ کے کچھ عیسائیوں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو بغور دیکھا اور کچھ سوالات کیے یہاں تک کہ نبوت کی نشانیاں پائیں اور پھر کہنے لگے کہ ہم اس بچے کو پکڑ کر اپنی سرزمین میں لے جائیں گے۔ اس واقعہ کے بعد حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو مکہ لوٹا دیا گیا۔ [7]۔[8]۔

شام کا دوسرا سفر اور شادی

تقریباً 25 سال کی عمر میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے شام کا دوسرا بڑا سفر کیا جو حضرت خدیجہ علیہا السلام کے تجارتی قافلہ کے لیے تھا۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایمانداری کی بنا پر اپنے آپ کو ایک اچھا تاجر ثابت کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم دوسرے لوگوں کا مال تجارت بھی تجارت کی غرض سے لے کر جایا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم یہ خدمات حضرت خدیجہ علیہا السلام کے لیۓ بھی انجام دیا کرتے تھے۔ اس سفر سے واپسی پر حضرت خدیجہ کے غلام میسرہ نے ان کو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ایمانداری اور اخلاق کی کچھ باتیں بتائیں۔ انہوں نے جب یہ باتیں اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل کو بتائیں تو ورقہ بن نوفل نے کہا کہ جو باتیں آپ نے بتائیں ہیں اگر صحیح ہیں تو یہ شخص یقیناً نبی ہیں[9]۔ آپ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اچھے اخلاق اور ایمانداری سے بہت متاثر ہوئیں اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو شادی کا پیغام دیا جس کو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت ابوطالب کے مشورے سے قبول کر لیا۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عمر 25 سال تھی۔حضرت خدیجہ علیہا السلام قریش کی مالدار ترین اور معزز ترین خواتین میں سے تھیں۔ حضرت خدیجہ علیہا السلام سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی چار بیٹیاں حضرت زینب رضی اللہ تعالٰی عنہ ، حضرت رقیہ رضی اللہ تعالٰی عنہ ، حضرت ام کلثوم رضی اللہ تعالٰی عنہ اور حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنہ پیدا ہوئیں۔ بعض علمائے اہلِ تشیع کے مطابق حضرت فاطمہ علیہا السلام کے علاوہ باقی بیٹیاں حضرت خدیجہ علیہا السلام کے پہلے خاوند سے تھیں۔

بعثت (پہلی وحی)

حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم غوروفکر کے لیۓ مکہ سے باہر ایک غار حرا میں تشریف لے جاتے تھے۔ یہ کوہ حرا کا ایک غار ہے جسے کوہِ فاران بھی کہا جاتا تھا۔ 610ء میں فرشتہ جبرائیل علیہ السلام پہلی وحی لے کر تشریف لائے، اس وقت سورۃ العلق کی وہ آیات نازل ہوئیں جن کا تذکرہ شروع میں ہوا ہے۔ اس وقت حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عمر مبارک تقریباً چالیس برس تھی۔ شروع ہی میں حضرت خدیجہرضی اللہ عنہا، آپ کے چچا زاد حضرت علیرضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے قریبی دوست حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ ، اور آپ کے آزاد کردہ غلام اور صحابی حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر ایمان لے آئے۔ مکہ کے باہر سے پہلے شخص حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ تھے جو اسلام لائے۔ پہلے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے قریبی ساتھیوں میں تبلیغ کی پھر تقریباً پہلی وحی کے تین سال بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دعوتِ ذوالعشیرہ کے بعد سے اسلام کے پیغام کی کھلی تبلیغ شروع کی۔ اکثر لوگوں نے مخالفت کی مگر کچھ لوگ آہستہ آہستہ اسلام کی دعوت قبول کرتے گئے۔

مخالفت

جیسے جیسے اسلام قبول کرنے والوں کی تعداد بڑھتی جا رہی تھی مقامی قبیلوں اور لیڈروں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اپنے لیۓ خطرہ سمجھنا شروع کر دیا۔ ان کی دولت اور عزت کعبہ کی وجہ سے تھی۔ اگر وہ اپنے بت کعبے سے باہر پھینک کر ایک اللہ کی عبادت کرنے لگتے تو انہیں خوف تھا کہ تجارت کا مرکز ان کے ہاتھ سے نکل جاۓ گا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اپنے قبیلے سے بھی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا کونکہ وہ ہی کعبے کے رکھوالے تھے۔ قبائل نے ایک معاہدہ کے تحت مسلمانوں کا معاشی اور معاشرتی بائیکاٹ کیا یہاں تک کہ مسلمان تین سال شعبِ ابی طالب میں محصور رہے۔ یہ بائیکاٹ اس وقت ختم ہوا جب کعبہ پر لٹکے ہوئے معاہدے میں یہ دیکھا گیا کہ لفظ 'اللہ' کے علاوہ تمام حروف دیمک کی وجہ سے کھائے گئے ہیں۔ جب مخالفت حد سے بڑھ گئی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے ساتھیوں کو حبشہ جہاں ایک عیسائی بادشاہ حکومت کرتا تھا کی طرف ہجرت کرنے کی اجازت دے دی۔
619ء میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بیوی حضرت خدیجہ اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پیارے چچا حضرت ابوطالب انتقال فرما گئے۔ اسی لیے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس سال کو عام الحزن یعنی دکھ کا سال قرار دیا۔

معراج

مسجدِ اقصیٰ، جہاں سے سفرِ معراج کی ابتداء ہوئی
620ء میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم معراج پر تشریف لے گئے۔ اس سفر کے دوران آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مکہ سے مسجد اقصیٰ گئے اور وہاں تمام انبیائے کرام کی نماز کی امامت فرمائی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آسمانوں میں اللہ تعالٰی سے ملاقات کرنے تشریف لے گئے۔ وہاں اللہ تعالٰی نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو جنت اور دوزخ دکھایا۔ وہاں آپکی ملاقات مختلف انبیائے کرام سے بھی ہوئی۔ اسی سفر میں نماز بھی فرض ہوئی۔[10]۔

مدنی زندگی

ہجرت

622ء تک مسلمانوں کےلئے مکہ میں رہنا ممکن نہیں رہا تھا۔ کئی دفعہ مسلمانوں اور خود حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو تکالیف دیں گئیں۔ اس وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مسلمانوں کو مدینہ ہجرت کرنے کی اجازت دے دی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اللہ کے حکم سے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ ستمبر 622ء میں مدینہ کی طرف روانہ ہوئے اور مدینہ میں اپنی جگہ حضرت علی علیہ السلام کو امانتوں کی واپسی کے لیے چھوڑا۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مدینہ پہنچنے پر ان کا انصار نے شاندار استقبال کیا اور اپنے تمام وسائل پیش کر دیے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مدینہ پہنچے تو انصار استقبال کے لیے آئے اور خواتین چھتوں پر سے دیکھ رہی تھیں۔ اور دف بجا کر کچھ اشعار پڑھ رہی تھیں جن کا ترجمہ یہ ہے۔
ہم پر چودھویں کی رات کا چاند طلوع ہوگیا وداع کی پہاڑیوں سے ہم پر شکر واجب ہے جب تک کوئی اللہ کو پکارنے والا باقی رہے۔
آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اونٹنی حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے گھر کے سامنے رکی اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کے گھر قیام فرمایا۔ جس جگہ اونٹنی رکی تھی اسے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے قیمتاً خرید کر ایک مسجد کی تعمیر شروع کی جو مسجد نبوی کہلائی۔ اس تعمیر میں انہوں نے خود بھی حصہ لیا۔ یہاں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مسلمانوں کے درمیان عقدِ مؤاخات کیا یعنی مسلمانوں کو اس طرح بھائی بنایا کہ انصار میں سے ایک کو مہاجرین میں سے ایک کا بھائی بنایا۔ خود حضرت علی علیہ السلام کو اپنا بھائی قرار دیا۔ انصار نے مہاجریں کی مثالی مدد کی۔ ہجرت کے ساتھ ہی اسلامی کیلنڈر کا آغاز بھی ہوا۔ آپ کے مدینہ آنے سے، اوس اور خزرج، یہاں کے دو قبائل جن نے بعد میں اسلام قبول بھی کیا میں لڑائی جھگڑا ختم ہوا اور ان میں اتحاد اور بھائی چارہ پیدا ہو گیا۔ اس کے علاوہ یہاں کچھ یہودیوں کے قبائل بھی تھے جو ہمیشہ فساد کا باعث تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے آنے کے بعد یہودیوں اور مسلمانوں کے درمیان ہونے والے معاہدہ 'میثاق مدینہ' نے مدینہ میں امن کی فضا پیدا کر دی۔ اسی دور میں مسلمانوں کو کعبہ کی طرف نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا، اس سے پہلے مسلمان بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز ادا کرتے تھے جو کہ یہودیوں کا بھی قبلہ تھا۔



میثاقِ مدینہ

میثاق مدینہ کو بجا طور پر تاریخ انسانی کا پہلا تحریری دستور قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہ 730 الفاظ پر مشتمل ایک جامع دستور ہے جو ریاست مدینہ کا آئین تھا۔ 622ء میں ہونے والے اس معاہدے کی 53دفعات تھیں۔ یہ معاہدہ اور تحریری دستور مدینہ کے قبائل (بشمول یہود و نصاریٰ) کے درمیان جنگ نہ کرنے کا بھی عہد تھا۔ معاہدے کا بکثرت ثبوت پوری تفصیل کے ساتھ کتبِ تواریخ میں ملتا ہے مگر اس کے باوجود مغربی مصنفین اسے نظر انداز کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔

یہود و مشرکین کی سازشیں

میثاقِ مدینہ کے بعد یہود مجبور تھے کہ وہ علی الاعلان حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور اسلام کے خلاف بات نہ کر سکتے تھے اسی لیے انہوں نے خفیہ سازشیں شروع کیں جن میں سے ایک ادب اور اظہارِ آزادی کی آڑ میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذاتِ گرامی حملہ کرنا تھا۔ عرب لوگ جو شعر و شاعری کے بڑے خوگر تھے ان کے لیے شاعری کے ذریعے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ہتک کرنے کی کوشش کی گئی کیونکہ اسلام میں ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہوتا جب تک حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات کی اہمیت و درجہ مال و جان و اولاد سے زیادہ نہ ہوجائے۔ اس سلسلے میں تین شعراء نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خلاف ہجو لکھیں۔ ایک کا نام کعب بن الاشرف تھا جو یہودی تھا دوسری کا نام اسماء بنت مروان تھا اور تیسرے کا نام ابوعنک تھا۔ جب وہ شاعر حد سے گذر گئے اور ان کے رکیک اشعار سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو شدید رنج پہنچا تو ان تینوں کو انہی کے قبیلے کے افراد نے قتل کر ڈالا۔ کعب بن الاشرف کو ان کی ایک رشتہ دار ابونائلہ نے قتل کیا۔ اسماء بنت مروان کو ان کے ہم قبیلہ ایک بابینا صحابی عمیر بن عوف رضی اللہ عنہ نے قتل کر دیا۔ ابو عنک کو حضرت سالم بن عمیر رضی اللہ عنہ نے قتل کیا۔ [18]

جنگیں

مدینہ میں ایک ریاست قائم کرنے کے بعد مسلمانوں کو اپنے دفاع کی کئی جنگیں لڑنا پڑیں۔ ان میں سے جن میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم شریک تھے انہیں غزوہ کہتے ہیں اور جن میں وہ شریک نہیں تھے انہیں سریہ کہا جاتا ہے۔ اہم غزوات یا سریات درج ذیل ہیں۔
  • غزوہ بدر : 17 رمضان (17 مارچ 624ء) کو بدر کے مقامات پر مسلمانوں اور مشرکینِ مکہ کے درمیان غزوہ بدر ہوئی۔ مسلمانوں کی تعداد 313 جبکہ کفار مکہ کی تعداد 1300 تھی۔ مسلمانوں کو جنگ میں فتح ہوئی۔ 70 مشرکینِ مکہ مارے گئے جن میں سے 36 حضرت علی علیہ السلام کی تلوار سے ھلاک ہوئے۔ مشرکین 70 جنگی قیدیوں کو چھوڑ کر بھاگ گئے۔ مسلمان شہداء کی تعداد 14 تھی۔ جنگ میں فتح کے بعد مسلمان مدینہ میں ایک اہم قوت کے طور پر ابھرے۔

  • غزوہ احد :7 شوال (23 مارچ 625ء) میں ابوسفیان کفار کے 3000 لشکر کے ساتھ مدینہ پر حملہ آور ہوا۔ احد کے پہاڑ کے دامن میں ہونے والی یہ جنگ غزوہ احد کہلائی۔ آپ نے مسلمانوں کے ایک گروہ کو ایک ٹیلے پر مقرر فرمایا تھا اور یہ ہدایت دی تھی کہ جنگ کا جو بھی فیصلہ ہو وہ اپنی جگہ نہ چھوڑیں۔ ابتدا میں مسلمانوں نے کفار کو بھاگنے پر مجبور کر دیا۔ ٹیلے پر موجود لوگوں نے بھی یہ سوچتے ہوئے کہ فتح ہو گئی ہے کفار کا پیچھا کرنا شروع کر دیا یا مالِ غنیمت اکٹھا کرنا شروع کر دیا۔ خالد بن ولید جو ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے اس بات کا فائدہ اٹھایا اور مسلمانوں پر پچھلی طرف سے حملہ کر دیا۔ یہ حملہ اچانک تھا۔ مسلمانوں کو اس سے کافی نقصان ہوا لیکن کفار چونکہ پیچھے ہٹ چکے تھے اس لئے واپس چلے گئے۔ اس جنگ سے مسلمانوں کو یہ سبق ملا کہ کسی بھی صورت میں رسول اکرم کے حکم کی خلاف ورزی نہ کریں۔

  • غزوہ خندق (احزاب): شوال۔ ذی القعدہ (مارچ 627ء) میں مشرکینِ مکہ نے مسلمانوں سے جنگ کی ٹھانی مگر مسلمانوں نے حضرت سلمان فارسی کے مشورہ سے مدینہ کے ارد گرد ایک خندق کھود لی۔ مشرکینِ مکہ ان کا کچھ نہ بگاڑ سکے۔ خندق کھودنے کی عرب میں یہ پہلی مثال تھی کیونکہ اصل میں یہ ایرانیوں کا طریقہ تھا۔ ایک ماہ کے محاصرے اور اپنے کئی افراد کے قتل کے بعد مشرکین مایوس ہو کر واپس چلے گئے۔ بعض روایات کے مطابق ایک آندھی نے مشرکین کے خیمے اکھاڑ پھینکے۔





  • غزوہ فتح (فتحِ مکہ): رمضان 8ھ (جنوری 630ء) میں مسلمانوں نے مکہ فتح کیا۔ جنگ تقریباً نہ ہونے کے برابر تھی کیونکہ مسلمانوں کی ہیبت سے مشرکینِ مکہ ڈر گئے تھے۔ اس کے بعد مکہ کی اکثریت مسلمان ہو گئی تھی۔

  • غزوہ حنین: شوال (جنوری ۔ فروری 630ء) میں یہ جنگ ہوئی۔ پہلے مسلمانوں کو شکست ہو رہی تھی مگر بعد میں وہ فتح میں بدل گئی۔

  • غزوہ تبوک: رجب (اکتوبر 630ء) میں یہ افواہ پھیلنے کے بعد کہ بازنطینیوں نے ایک عظیم فوج تیار کر کے شام کے محاذ پر رکھی ہے اور کسی بھی وقت حملہ کیا جا سکتا ہے، مسلمان ایک عظیم فوج تیار کر کے شام کی طرف تبوک کے مقام پر چلے گئے۔ وہاں کوئی دشمن فوج نہ پائی اس لیے جنگ نہ ہو سکی مگر اس علاقے کے کئی قبائل سے معاہدے ہوئے اور جزیہ ملنے لگا اور مسلمانوں کی طاقت کے چرچے عرب میں دور دور تک ہو گئے۔

صلح حدیبیہ

  • تفصیلی مضمون کے لئے ملاحظہ کریں:
مدینہ اورمشرکینِ مکہ کے درمیان مارچ 628ء کو ایک معاہدہ ہوا جسے صلح حدیبیہ (عربی میں صلح الحديبية ) کہتے ہیں۔ 628ء (6 ھجری) میں 1400 مسلمانوں کے ہمراہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مدینہ سے مکہ کی طرف عمرہ کے ارادہ سے روانہ ہوئے۔ عرب کے رواج کے مطابق غیر مسلح افراد چاہے وہ دشمن کیوں نہ ہوں کعبہ کی زیارت کر سکتے تھے جس میں رسومات بھی شامل تھیں۔ یہی وجہ تھی کہ مسلمان تقریباً غیر مسلح تھے۔ مگر عرب کے رواج کے خلاف مشرکینِ مکہ نے حضرت خالد بن ولید (جو بعد میں مسلمان ہو گئے) کی قیادت میں دو سو مسلح سواروں کے ساتھ مسلمانوں کو حدیبیہ کے مقام پر مکہ کے باہر ہی روک لیا۔ اس وقت تک مسلمان انتہائی طاقتور ہو چکے تھے مگر یہ یاد رہے کہ اس وقت مسلمان جنگ کی تیاری کے ساتھ نہیں آئے تھے۔ اسی لیے بعض لوگ چاہتے تھے کہ جنگ ضرور ہو۔ خود مسلمانوں میں ایسے لوگ تھے جن کو معاہدہ کی شرائط پسند نہیں تھیں۔ مثلاً اگر کوئی مسلمان مکہ کے لوگوں کے کے پاس چلا جائے تو اسے واپس نہیں کیا جائے گا مگر کوئی مشرک مسلمان ہو کر اپنے بزرگوں کی اجازت کے بغیر مدینہ چلا جائے تو اسے واپس کیا جائے گا۔ مگر حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی دانشمندی سے صلح کا معاہدہ ہو گیا۔ اس کی بنیادی شق یہ تھی کہ دس سال تک جنگ نہیں لڑی جائے گی اور مسلمان اس سال واپس چلے جائیں گے اور عمرہ کے لیے اگلے سال آئیں گے۔ چنانچہ مسلمان واپس مدینہ آئے اور پھر 629ء میں حج کیا۔ اس معاہدہ سے پہلے جب مسلمانوں کے ایک نمائندے کو مشرکین نے روک لیا تھا تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مسلمانوں سے اپنی بیعت بھی لی جسے بیعتِ رضوان کہا جاتا ہے۔ اس بیعت میں مسلمانوں نے عہد کیا کہ وہ مرتے دم تک حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے۔ اس معاہدہ کے بہت سود مند اثرات برآمد ہوئے۔

حکمرانوں کو خطوط

صلح حدیبیہ کے بعد محرم 7ھ میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مختلف حکمرانوں کو خطوط لکھے اور اپنے سفیروں کو ان خطوط کے ساتھ بھیجا۔ ان خطوط میں اسلام کی دعوت دی گئی۔ ان میں سے ایک خط ترکی کے توپ کاپی نامی عجائب گھر میں موجود ہے۔ ان حکمرانوں میں فارس کا بادشاہ خسرو پرویز، مشرقی روم (بازنطین) کا بادشاہ ھرکولیس، حبشہ کا بادشاہ نجاشی، مصر اور اسکندریہ کا حکمران مقوقس اور یمن کا سردار شامل ہیں۔ پرویز نے یہ خط پھاڑ دیا تھا اور بعض روایات کے مطابق حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے پیشینگوئی کی تھی کہ اس کی سلطنت اسی طرح ٹکرے ٹکرے ہو جائے گی۔ نجاشی نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نبوت کی تصدیق کی اور کہا کہ ہمیں انجیل میں ان کے بارے میں بتایا گیا تھا۔ مصر اور اسکندریہ کے حکمران مقوقس نے نرم جواب دیا اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں کچھ تحائف روانہ کیے اور حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا کو روانہ کیا جب سے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بیٹے ابراہیم کی ولادت ہوئی۔[19]۔

فتح مکہ

اگرچہ صلح حدیبیہ کی مدت دس سال طے کی گئی تھی تاہم یہ صرف دو برس ہی نافذ رہ سکا۔ بنو قزع کا حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے اتحاد جبکہ ان کے مخالف بنو بکر مکہ کے ساتھ تھے۔ ایک رات بنو بکر کے کچھ آدمیوں نے شب خون مارتے ہوئے بنو قزعہ کے کچھ لوگ قتل کر دیے۔ قریش نے ہتھیاروں کے ساتھ اپنے اتحادیوں کی مدد کی جبکہ بعض روایات کے مطابق چند قریش بذات خود بھی حملہ آروں میں شامل تھے۔ اس واقعہ کے بعد نبی اکرم نے قریش کو ایک تین نکاتی پیغام بھیجا اور کہا کہ ان میں سے کوئی منتخب کر لیں: 1۔ قریش بنو قزعہ کو خون بہا ادا کرے، 2۔ بنو بکر سے تعلق توڑ لیں، 3۔ صلح حدیبیہ کو کالعدم قرار دیں۔
قریش نے جواب دیا کہ وہ صرف تیسری شرط تسلیم کریں گے۔ تاہم جلد ہی انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا اور ابو سفیان کو معاہدے کی تجدید کے لئے روانہ کیا گیا لیکن نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس کی درخواست رد کر دی۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس وقت تک قریش کے خلاف چڑھائی کی تیاری شروع کر چکے تھے۔
630ء میں انہوں نے دس ہزار مجاہدین کے ساتھ مکہ کی طرف پیش قدمی شروع کر دی۔ مسلمانوں کی ہیبت دیکھ کر بہت سے مشرکین نے اسلام قبول کر لیا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے عام معافی کا اعلان کیا۔ ایک چھوٹی سے جھڑپ کے علاوہ تمام کارروائی پر امن انداز سے مکمل ہو گئی اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فاتح بن کر مکہ میں داخل ہو گئے۔ داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے آپ نے کعبہ میں موجود تمام بت توڑ ڈالے اور شرک و بت پرستی کے خاتمے کا اعلان کیا۔

حجۃ الوداع

حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی زندگی کا آخری حج سن 10ھ میں کیا۔ اسے حجۃ الوداع کہتے ہیں۔ آپ 25 ذی القعدہ 10ھ (فروری 632ء) کو مدینہ سے روانہ ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ازواج آپ کے ساتھ تھیں۔ مدینہ سے 9 کلومیٹر دور ذوالحلیفہ کے مقام پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے احرام پہنا۔ دس دن بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مکہ پہنچ گئے۔ حج میں مسلمانوں کی تعداد ایک لاکھ بیس ھزار سے زیادہ تھی۔ عرفہ کے دن ایک خطبہ دیا اور اس سے اگلے دن منیٰ میں ایک یادگار خطبہ دیا جو خطبہ حجۃ الوداع کے نام سے مشہور ہے۔ اس خطبہ میں انہوں نے اسلامی تعلیمات کا ایک نچوڑ پیش کیا اور مسلمانوں کو گواہ بنایا کہ انہوں نے پیغامِ الٰہی پہنچا دیا ہے۔ اور یہ بھی تاکید کی کہ یہ باتیں ان لوگوں کو بھی پہنچائی جائیں جو اس حج میں شریک نہیں ہیں۔ اس خطبہ میں انہوں نے یہ فرمایا کہ شاید مسلمان انہیں اس کے بعد نہ دیکھیں۔ انہوں نے فرمایا کہ مسلمان پر دوسرے مسلمان کا جان و مال حرام ہے۔ اور یہ بھی کہ نسل کی بنیاد پر کسی کو کسی پر فوقیت نہیں ہے۔ انہوں نے اسلام کے حرام و حلال پر بھی روشنی ڈالی۔ خطبہ کے آخر میں انہوں نے تاکید کی کہ جو حاضر ہے وہ غائب تک اس پیغام کو پہنچائے۔ ان دو خطبات کے علاوہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے غدیرِ خم کے مقام پر بھی خطبہ دیا جو خطبہ غدیر کے نام سے مشہور ہے۔ اس حج کے تقریباً تین ماہ بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اللہ کو پیارے ہو گئے۔ [20]

وفات

حجۃ الوداع کے فوراً بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کچھ بیمار ہوئے پھر ٹھیک ہو گئے مگر کچھ عرصہ بعد حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پھر بیمار پڑ گئے اورکئی روز تک ان کے سر میں درد ہوتا رہا۔ بالاخر روایات کے مطابق مئی یا جون 632ء میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم انتقال کر گئے۔ بعض روایات کے مطابق جنگِ خیبر کے دوران ایک یہودی عورت نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو زھر دیا تھا جس کے اثر سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بیمار ہوئے۔ غزوہ خیبر کے فوراً بعد بنو نضیر کی ایک یہودی عورت نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو بھیڑ کا گوشت پیش کیا جس میں ایک سریع الاثر زھر ملا ہوا تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اسے یہ محسوس ہونے پر تھوک دیا کہ اس میں زھر ہے مگر ان کے ایک صحابی جو ان کےساتھ کھانے میں شریک تھے، شہید ہو گئے۔ ایک صحابی کی روایت کے مطابق بسترِ وفات پر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ان کی بیماری اس زھر کا اثر ہے جو خیبر میں دیا گیا تھا۔ [21] ۔ انتقال کے وقت آپ کی عمر 63 برس تھی۔ حضرت علی علیہ السلام نے غسل و کفن دیا اور اصحاب کی مختلف جماعتوں نے یکے بعد دیگرے نمازِ جنازہ ادا کی اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو مسجد نبوی کے ساتھ ملحق ان کے حجرے میں اسی جگہ دفن کیا گیا جہاں ان کی وفات ہوئی تھی۔ یہ اور اس کے اردگرد کی تمام جگہ اب مسجدِ نبوی میں شامل ہے۔
مؤمنین کی والدہ
امہات المؤمنین - (ازواج مطہرات)
امہات المومنین

مقالہ بہ سلسلۂ مضامین
اولادِمحمد
حضرت محمد کے بیٹے
قاسم _ عبداللہ _ ابراھیم
حضرت محمد کی بیٹیاں
فاطمہ _ زینب _ ام کلثوم
رقیہ
حضرت فاطمہ کی اولاد
بیٹے
حسن _ حسین
بیٹیاں
زینب _ ام کلثوم

ازواج مطہرات اور اولاد

  • تفصیلی مضمون کے لئے ملاحظہ کریں:
حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مختلف روایات میں گیارہ سے تیرہ ازواج کے نام ملتے ہیں۔ زیادہ تر پہلے بیوہ تھیں اور عمر میں بھی زیادہ تھیں اور زیادہ شادیوں کا عرب میں عام رواج تھا۔ مؤرخین کے مطابق اکثر شادیاں مختلف قبائل سے اتحاد کے لیے یا ان خواتین کو عزت دینے کے لیے کی گئیں۔ ان میں سے اکثر سن رسیدہ تھیں اس لیے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر کثرت ازدواج کا الزام لگانے والوں کی دلیلیں ناکارہ ہو جاتی ہیں۔ ان میں سے صرف حضرت خدیجہ اور حضرت زینب بنت جحش سے اولاد ہوئی۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ازواج کو امہات المؤمنین کہا جاتا ہے یعنی مؤمنین کی مائیں۔ ان کے نام اور کچھ حالات درج ذیل ہیں۔
  • حضرت خدیجہ: آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پہلی شادی حضرت خدیجہ علیہا السلام سے ہوئی۔ ان سے ان کی بیٹی حضرت فاطمہ علیہا السلام پیدا ہوئیں جس پر سب مؤرخین کا اتفاق ہے۔ تین اور بیٹیوں کے بارے میں کچھ مؤرخین کے خیال میں وہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اپنی بیٹیاں تھیں، کچھ کا یہ عقیدہ ہے کہ وہ حضرت خدیجہ علیہ السلام کی پہلے شوھر سے بیٹیاں تھیں اور کچھ یہ بھی لکھتے ہیں کہ باقی بیٹیاں حضرت خدیجہ علیہ السلام کی بہن ھالہ کی بیٹیاں تھیں جو حضرت خدیجہ علیہ السلام کے زیرِ پرورش تھیں کیونکہ ان کی والدہ ھالہ کا انتقال ہو چکا تھا۔
  • حضرت سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا : ان کے پہلے خاوند (جن کے ساتھ انہوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی تھی) کا انتقال حبشہ میں ہوا تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان سے شادی کر کے ان کے ایمان کا تحفظ کیا کیونکہ ان کے قبیلہ کے تمام افراد مشرک تھے۔
  • حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا : ان کے پہلے شوھر حضرت عبداللہ بن جحش کی شہادت جنگِ احد میں ہوئی جس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان سے شادی کر لی۔
  • حضرت ام سلمہ ھند رضی اللہ عنہا : آپ پہلے عبداللہ ابوسلمہ کی زوجیت میں تھیں اور کافی سن رسیدہ تھیں۔ ان کے شوھر کے انتقال کے بعد حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان سے شادی کی۔
  • حضرت صفیہ بنت حی بن اخطب رضی اللہ عنہا : ان کا شوھر جنگِ خیبر میں مارا گیا اور یہ گرفتار ہو کر آئیں تھیں۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے انہیں آزاد کر کے ان سے عقد کر لیا۔
  • حضرت جویریہ بنت الحارث رضی اللہ عنہا : یہ ایک جنگ کی قیدیوں میں تھیں اور ان کے ساتھ ان کے قبیلہ کے دو سو افراد بھی قید ہو کر آئے تھے۔ مسلمانوں نے سب کو آزاد کر دیا اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت جویریہ سے شادی کر لی تو تمام قبیلہ کے افراد مسلمان ہو گئے۔
  • حضرت میمونہ بنت الحارث الہلالیہ رضی اللہ عنہا : انہوں نے اپنے شوھر کے انتقال کے بعد خود حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے عقد کی خواہش کی جسے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے قبول کیا۔
  • حضرت ام حبیبہ رملہ رضی اللہ عنہا: حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان سے شادی کی تو یہ مسلمان تھیں مگر ان کے والد ابو سفیان نے اسلام قبول نہیں کیا تھا۔ روایات میں آتا ہے کہ حضرت امِ حبیبہ اپنے والد ابو سفیان کو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی چادر پر نہیں بیٹھنے دیتی تھیں کیونکہ اس وقت ابو سفیان مشرک تھے۔
  • حضرت حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہا : آپ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بیٹی تھیں۔ آپ کے شوھر خیس بن حذاقہ جنگِ بدر میں مارے گئے تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان سے شادی کی۔
  • حضرت عائشہ بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا: آپ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیٹی تھیں اور کم عمر تھیں اور پہلی شادی ہی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ہوئی۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد کافی عرصہ زندہ رہیں۔ ان سے بے شمار احادیث مروی ہیں۔
  • حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا: ان سے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے تین بیٹے قاسم ، عبداللہ الطاھر اور ابراہیم پیدا ہوئے مگر تینوں کم عمری میں انتقال کر گئے۔
  • حضرت ماریہ القبطیہ رضی اللہ عنہا: بعض روایات کے مطابق آپ کنیزہ تھیں مگر زیادہ روایات کے مطابق آپ سے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے شادی کی تھی چنانچہ آپ بھی امہات المومنین میں شامل ہیں۔

مشہور صحابہ

غیر مسلم مشاہیر کے خیالات

مغربی مصنف مائیکل ہارٹ نے اپنی مشہورِ زمانہ کتاب The Hundred میں دنیا کے ان سو عظیم ترین آدمیوں کا ذکر کیا ہے جنہوں نے دنیا کی تشکیل میں بڑا کردار ادا کیا۔ اس نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو سب سے پہلے شمار پر رکھا ہے۔ مصنف ایک عیسائی ہوکر بھی اپنے دلائل سے یہ ثابت کرتاہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پورے نسل انسانی میں سیّدالبشرکہنے کے لائق ہیں۔[22] تھامس کارلائیل نے 1840ء کے مشہور دروس (لیکچرز) میں کہا کہ ”میں محمد سے محبت کرتاہوں اور یقین رکھتا ہوں کہ ان کی طبیعت میں نام ونمود اور ریا کا شائبہ تک نہ تھا ۔ ہم انہی صفات کے بدلے میں آپ کی خدمت میں ہدیہً اخلاص پیش کرتے ہیں “۔ فرانس کا شہنشاہ نپولین بوناپارٹ کہتاہے ” محمد دراصل سروراعظم تھے ۔15سال کے قلیل عرصے میں لوگوں کی کثیر تعداد نے جھوٹے دیوتاﺅں کی پرستش سے توبہ کرڈالی۔ مٹی کی بنی دیویاں مٹی میں ملا دی گئیں ۔ یہ حیرت انگیز کارنامہ تھا آنحضرت کی تعلیم کا “۔ جارج برناڈشا لکھتا ہے ” موجودہ انسانی مصائب سے نجات ملنے کی واحد صورت یہی ہے کہ محمد اس دنیا کے رہنما بنیں “۔ گاندھی لکھتا ہے کہ ” بانی اسلام نے اعلیٰ اخلاق کی تعلیم دی جس نے انسان کو سچائی کا راستہ دکھایا اور برابری کی تعلیم دی ۔ میں اسلام کا جتنا مطالعہ کرتاہوں اتنا مجھے یقین راسخ ہوجاتاہے کہ یہ مذہب تلوار سے نہیں پھیلا “۔ جرمنی کا مشہور ادیب شاعر اور ڈرامہ نگار ”گوئٹے “ حضور کا مداح اور عاشق تھا ۔اپنی تخلیق ”دیوانِ مغربی“میں گوئٹے نے حضور اقدس کی بارگاہ میں جگہ جگہ عشق محمد کا اظہار کیا ہے اور ان کے قدموں میں عقیدت کے پھول نچھاور کئے ہیں ۔ فرانس کے محقق ڈی لمرٹائن نے اپنی کتاب ”تاریخِ ترکی“ میں انسانی عظمت کے لئے جو معیار قائم کیا اس ضمن میں فاضل تاریخ دان لکھتاہے ” اگر انسانی عظمت کو ناپنے کے لئے تین شرائط اہم ہیں جن میں (۱) ۔ مقصد کی بلندی ، (۲) ۔ وسائل کی کمی، (۳)۔حیرت انگیر نتائج ۔ تو اس معیار پر جدید تاریخ کی کو ن سی شخصیت محمد سے ہمسری کا دعویٰ کرسکتی ہے “۔ فرانسیسی مصنف دی لمرتین لکھتاہے ” فلسفی ، مبلغ ، پیغمبر ، قانون سا ز ، سپاہ سالار، ذہنو ں کا فاتح ، دانائی کے عقائد برپا کرنے والا ، بت پرستی سے پاک معاشرہ تشکیل دینے والا ۔ بیسیوں ریاستوں کو ایک روحانی سلطنت میں متحد کرنے والا....وہ محمد ہیں ....جہاں تک انسانی عظمت کے معیار کا تعلق ہے ہم پوچھ سکتے ہیں کہ ان معیاروں پر پورا اُترنے والا محمد سے بھی کوئی برتر ہوسکتا ہے “۔؟ ڈاکٹر شیلے پیغمبر آخرالزماں کی ابدیت اور لاثانیت کا اقرار کرتے ہوئے لکھتے ہیں ” محمد گزشتہ اور موجودہ لوگوں میں سب سے اکمل اور افضل تھے اور آئندہ ان کا مثال پیدا ہونا محال اور قطعاً غیر ممکن ہے“۔ [23]

آپؐ کی پیشنگوئی دیگر مذاہب میں

آپؐ ایک ایسی ذات تھے جن کی پیشنگوئی اللہ نے ہر اہم مذہب میں ڈالی تھی۔ہندو مذہب کی کتابوں میں محمدؐ کو کلکی کے نام سے موجود ہے۔لفظ کلکی سنسکریت لفظ ہے جس کی معنی "وہ شخص جس کی تعریف کی گئ" اگر ہم عربی میں اس کا ترجمہ کریں تو بن جائیں گا "محمد"۔اسی طرح دیگر مذاہب میں بھی موجود ہے۔مثلاً بدھمت میں آپؐ کو سپریم بددھا کہا گیا ہے اور عیسائیت اور ےھودیت میں تو صاف طور پر پایا جاتا ہے۔
مکمل تحریر اور تبصرے>>

حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ

اعلان نبوت کے چند روز بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک رات مکہ کی ایک گلی سے گزر رہے تھے کہ انہیں ایک گھر میں سے کسی کے رونے کی آواز آئی ۔
آواز میں اتنا درد تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بے اختیار اس گھر میں داخل ہوگئے ۔دیکھا تو ایک نوجوان جو کہ حبشہ کا معلوم ہوتا ہے چکی پیس رہا ہے اور زارو قطار رو رہا ہےآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے رونے کی وجہ پوچھی تو اس نے بتایا کہ میں ایک غلام ہوں ۔ سارا دن اپنے مالک کی بکریاں چراتا ہوں شام کو تھک کر جب گھر آتا ہوں تو،میرا مالک مجھے گندم کی ایک بوری پیسنے کے لیے دے دیتا ہے جس کو پیسنے میں ساری رات لگ جاتی ہے ۔
میں اپنی قسمت پر رو رہا ہوں کہ میری بھی کیا قسمت ہے میں بھی تو ایک گوشت پوست کا انسان ہوں ۔ میرا جسم بھی آرام مانگتا ہے مجھے بھی نیند ستاتی ہے لیکن میرے مالک کو مجھ پر ذرا بھی ترس نہیں آتا ۔کیا میرے مقدر میں ساری عمر اس طرح رو رو کے زندگی گزارنا لکھا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تمہارے مالک سے کہہ کر تمہاری مشقت تو کم نہیں کروا سکتا کیوں کہ وہ میری بات نہیں مانے گا،
ہاں میں تمہاری تھوڑی مدد کرسکتا ہوں کہ تم سو جاؤ اور میں تمہاری جگہ پر چکی پیستا ہوں ۔
وہ غلام بہت خوش ہوا اور شکریہ ادا کرکے سو گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسکی جگہ چکی پیستے رہے،
جب گندم ختم ہوگئی تو آپ اسے جگائے بغیر واپس تشریف لے آئے ۔
دوسرے دن پھر آپ وہاں تشریف لے گئے اور اس غلام کو سلا کر اسکی جگہ چکی پیستے رہے ۔
تیسرے دن بھی یہی ماجرا ہوا کہ آپ اس غلام کی جگہ ساری رات چکی پیستے اور صبح کو خاموشی سے اپنے گھر تشریف لے آتے،
چوتھی رات جب آپ وہاں گئے تو اس غلام نے کہا، اے اللہ کے بندے آپ کون ہو اور میرا اتنا خیال کیوں کر رہے ہو ۔ہم غلاموں سے نہ کسی کو کوئی ڈر ہوتا ہے اور نہ کوئی فائدہ ۔ تو پھر آپ یہ سب کچھ کس لیے کر رہے ہو ؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں یہ سب انسانی ہمددری کے تحت کر رہا ہوں اس کے علاوہ مجھے تم سے کوئی غرض نہیں،
اس غلام نے کہا کہ آپ کون ہو ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تمہیں علم ہے کہ مکہ میں ایک شخص نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے ۔
اس غلام نے کہا ہاں میں نے سنا ہے کہ ایک شخص جس کا نام محمد ہے اپنے آپ کو اللہ کا نبی کہتا ہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں وہی محمد ہوں ۔یہ سن کر اس غلام نے کہا کہ اگر آپ ہی وہ نبی ہیں تو مجھے اپنا کلمہ پڑھائیے کیوں اتنا شفیق اور مہربان کوئی نبی ہی ہوسکتا ہے جو غلاموں کا بھی اس قدر خیال رکھے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کلمہ پڑھا کر مسلمان کردیا،
پھر دنیا نے دیکھا کہ اس غلام نے تکلیفیں اور مشقتیں برداشت کی لیکن دامن مصطفیٰ نہ چھوڑا ۔انہیں جان دینا تو گوارا تھا لیکن اتنے شفیق اور مہربان نبی کا ساتھ چھوڑنا گوارہ نہ تھاآج دنیا انہیں بلال حبشی رضی اللہ عنہ کے نام سے جانتی ہے ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمددری اور محبت نے انہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بے لوث غلام بنا کر رہتی دنیا تک مثال بنا دیا۔
مکمل تحریر اور تبصرے>>

Sunday 20 October 2013

انصاف عہد عفو رحمدلی

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا عہد خلافت 
دو نوجوان عمر رضی اللہ عنہ کی محفل میں داخل ہوتے ہی محفل میں بیٹھے ایک شخص کے سامنے جا کر کھڑے ہو جاتے ہیں اور اسکی طرف انگلی کر کے کہتے ہیں “یا عمر یہ ہے وہ شخص”

عمر رضی اللہ عنہ ان سے پوچھتے ہیں ” کیا کیا ہے اس شخص نے ؟”


“یا امیر المؤمن
ین ۔ اس نے ہمارے باپ کو قتل کیا ہے”

عمر رضی اللہ عنہ پوچھتے ہیں “کیا کہہ رہے ہو ۔ اس نے تمہارے باپ کو قتل کیا ہے ؟”

عمر رضی اللہ عنہ اس شخص سے مخاطب ہو کر پوچھتے ہیں ” کیا تو نے ان کے باپ کو قتل کیا ہے ؟”

وہ شخص کہتا ہے “ہاں امیر المؤمنین ۔ مجھ سے قتل ہو گیا ہے انکا باپ”

عمر رضی اللہ عنہ پوچھتے ہیں ” کس طرح قتل ہوا ہے ؟”

وہ شخص کہتا ہے “یا عمر ۔ انکا باپ اپنے اُونٹ سمیت میرے کھیت میں داخل ہو گیا تھا ۔ میں نے منع کیا ۔ باز نہیں آیا تو میں نے ایک پتھر دے مارا۔ جو سیدھا اس کے سر میں لگا اور وہ موقع پر مر گیا ”

عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ” پھر تو قصاص دینا پڑے گا ۔ موت ہے اسکی سزا ”
نہ فیصلہ لکھنے کی ضرورت اور فیصلہ بھی ایسا اٹل کہ جس پر کسی بحث و مباحثے کی بھی گنجائش نہیں ۔ نہ ہی اس شخص سے اسکے کنبے کے بارے میں کوئی سوال کیا گیا ہے، نہ ہی یہ پوچھا گیا ہے کہ تعلق کس قدر شریف خاندان سے ہے، نہ ہی یہ پوچھنے کی ضرورت محسوس کی گئی ہے کہ تعلق کسی معزز قبیلے سے تو نہیں، معاشرے میں کیا رتبہ یا مقام ہے ؟ ان سب باتوں سے بھلا عمر رضی اللہ عنہ کو مطلب ہی کیا ۔ کیونکہ معاملہ اللہ کے دین کا ہو تو عمر رضی اللہ عنہ پر کوئی اثر انداز نہیں ہو سکتا اور نہ ہی کوئی اللہ کی شریعت کی تنفیذ کے معاملے پر عمر رضی اللہ عنہ کو روک سکتا ہے۔ حتٰی کہ سامنے عمر کا اپنا بیٹا ہی کیوں نہ قاتل کی حیثیت سے آ کھڑا ہو ۔ قصاص تو اس سے بھی لیا جائے گا۔

وہ شخص کہتا ہے ”ا ے امیر المؤمنین ۔ اُس کے نام پر جس کے حُکم سے یہ زمین و آسمان قائم کھڑے ہیں مجھے صحرا میں واپس اپنی بیوی بچوں کے پاس جانے دیجئے تاکہ میں ان کو بتا آؤں کہ میں قتل کر دیا جاؤں گا۔ ان کا اللہ اور میرے سوا کوئی آسرا نہیں ہے ۔ میں اسکے بعد واپس آ جاؤں گا”

عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ”کون تیری ضمانت دے گا کہ تو صحرا میں جا کر واپس بھی آ جائے گا؟”

مجمع پر ایک خاموشی چھا جاتی ہے۔ کوئی بھی تو ایسا نہیں ہے جو اسکا نام تک بھی جانتا ہو۔ اسکے قبیلے ۔ خیمے یا گھر وغیرہ کے بارے میں جاننے کا معاملہ تو بعد کی بات ہے ۔ کون ضمانت دے اسکی ؟ کیا یہ دس درہم کے ادھار یا زمین کے ٹکڑے یا کسی اونٹ کے سودے کی ضمانت کا معاملہ ہے ؟ ادھر تو ایک گردن کی ضمانت دینے کی بات ہے جسے تلوار سے اڑا دیا جانا ہے۔ اور کوئی بھی تو ایسا نہیں ہے جو اللہ کی شریعت کی تنفیذ کے معاملے پر عمر رضی اللہ عنہ سے اعتراض کرے یا پھر اس شخص کی سفارش کیلئے ہی کھڑا ہو جائے اور کوئی ہو بھی نہیں سکتا جو سفارشی بننے کی سوچ سکے۔

محفل میں موجود صحابہ پر ایک خاموشی سی چھا گئی ہے۔ اس صورتحال سے خود عمر رضی اللہ عنہ بھی متأثر ہیں۔ کیونکہ اس شخص کی حالت نے سب کو ہی حیرت میں ڈال کر رکھ دیا ہے۔ کیا اس شخص کو واقعی قصاص کے طور پر قتل کر دیا جائے اور اس کے بچے بھوکوں مرنے کیلئے چھوڑ دیئے جائیں ؟ یا پھر اسکو بغیر ضمانتی کے واپس جانے دیا جائے؟ واپس نہ آیا تو مقتول کا خون رائیگاں جائے گا،

خود عمر رضی اللہ عنہ بھی سر جھکائے افسردہ بیٹھے ہیں اس صورتحال پر، سر اُٹھا کر التجا بھری نظروں سے نوجوانوں کی طرف دیکھتے ہیں ”معاف کر دو اس شخص کو ”

نوجوان اپنا آخری فیصلہ بغیر کسی جھجھک کے سنا دیتے ہیں ”نہیں امیر المؤمنین ۔ جو ہمارے باپ کو قتل کرے اسکو چھوڑ دیں ۔ یہ تو ہو ہی نہیں سکتا ”

عمر رضی اللہ عنہ ایک بار پھر مجمع کی طرف دیکھ کر بلند آواز سے پوچھتے ہیں ”اے لوگو ۔ ہے کوئی تم میں سے جو اس کی ضمانت دے؟”

ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ اپنے زہد و صدق سے بھر پور بڑھاپے کے ساتھ کھڑے ہو کر کہتے ہیں ”میں ضمانت دیتا ہوں اس شخص کی”

عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں “ابوذر ۔ اس نے قتل کیا ہے”

ابوذر رضی اللہ عنہ اپنا اٹل فیصلہ سناتے ہیں “چاہے قتل ہی کیوں نہ کیا ہو”

عمر رضی اللہ عنہ “جانتے ہو اسے ؟”

ابوذر رضی اللہ عنہ ” نہیں جانتا ”

عمر رضی اللہ عنہ ” تو پھر کس طرح ضمانت دے رہے ہو ؟”

ابوذر رضی اللہ عنہ ”میں نے اس کے چہرے پر مومنوں کی صفات دیکھی ہیں اور مجھے ایسا لگتا ہے یہ جھوٹ نہیں بول رہا ۔ انشاء اللہ یہ لوٹ کر واپس آ جائے گا ”

عمر رضی اللہ عنہ ”ابوذر دیکھ لو اگر یہ تین دن میں لوٹ کر نہ آیا تو مجھے تیری جدائی کا صدمہ دیکھنا پڑے گا ”

ابوذر رضی اللہ عنہ اپنے فیصلے پر ڈٹے ہوئے جواب دیتے ہیں ” امیر المؤمنین ۔ پھر اللہ مالک ہے”

عمر رضی اللہ عنہ سے تین دن کی مہلت پا کر وہ شخص رخصت ہو جاتا ہے ۔ کچھ ضروری تیاریوں کیلئے ۔ بیوی بچوں کو الوداع کہنے ۔ اپنے بعد اُن کے لئے کوئی راہ دیکھنے اور پھر اس کے بعد قصاص کی ادائیگی کیلئے قتل کئے جانے کی غرض سے لوٹ کر واپس آنے کیلئے۔

اور پھر تین راتوں کے بعد عمر رضی اللہ عنہ بھلا کیسے اس امر کو بھلا پاتے ۔ انہوں نے تو ایک ایک لمحہ گن کر کاٹا تھا۔ عصر کے وقت شہر میں (الصلاۃ جامعہ) کی منادی پھر جاتی ہے ۔ نوجوان اپنے باپ کا قصاص لینے کیلئے بے چین اور لوگوں کا مجمع اللہ کی شریعت کی تنفیذ دیکھنے کے لئے جمع ہو چکا ہے ۔ ابو ذر رضی اللہ عنہ بھی تشریف لاتے ہیں اور آ کر عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے بیٹھ جاتے ہیں۔

عمر رضی اللہ عنہ سوال کرتے ہیں ” کدھر ہے وہ آدمی ؟”

ابوذر رضی اللہ عنہ مختصر جواب دیتے ہیں “مجھے کوئی پتہ نہیں ہے یا امیر المؤمنین”

ابوذر رضی اللہ عنہ آسمان کی طرف دیکھتے ہیں جدھر سورج ڈوبنے کی جلدی میں معمول سے زیادہ تیزی کے ساتھ جاتا دکھائی دے رہا ہے۔ محفل میں ہُو کا عالم ہے ۔ اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ آج کیا ہونے جا رہا ہے ؟

یہ سچ ہے کہ ابوذر رضی اللہ عنہ عمر رضی اللہ عنہ کے دل میں بستے ہیں، عمرؓ رضی اللہ عنہ سے ان کے جسم کا ٹکڑا مانگیں تو عمر رضی اللہ عنہ دیر نہ کریں کاٹ کر ابوذر رضی اللہ عنہ کے حوالے کر دیں ۔ لیکن ادھر معاملہ شریعت کا ہے ۔ اللہ کے احکامات کی بجا آوری کا ہے ۔ کوئی کھیل تماشہ نہیں ہونے جا رہا ۔ نہ ہی کسی کی حیثیت یا صلاحیت کی پیمائش ہو رہی ہے ۔ حالات و واقعات کے مطابق نہیں اور نہ ہی زمان و مکان کو بیچ میں لایا جانا ہے۔ قاتل نہیں آتا تو ضامن کی گردن جاتی نظر آ رہی ہے۔

مغرب سے چند لحظات پہلے وہ شخص آ جاتا ہے ۔ بے ساختہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے منہ سے اللہ اکبر کی صدا نکلتی ہے۔ ساتھ ہی مجمع بھی اللہ اکبر کا ایک بھرپور نعرہ لگاتا ہے

عمر رضی اللہ عنہ اس شخص سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں ” اے شخص ۔ اگر تو لوٹ کر نہ بھی آتا تو ہم نے تیرا کیا کر لینا تھا۔ نہ ہی تو کوئی تیرا گھر جانتا تھا اور نہ ہی کوئی تیرا پتہ جانتا تھا ”

وہ بولا ” امیر المؤمنین ۔ اللہ کی قسم ۔ بات آپکی نہیں ہے بات اس ذات کی ہے جو سب ظاہر و پوشیدہ کے بارے میں جانتا ہے ۔ دیکھ لیجئے میں آ گیا ہوں ۔ اپنے بچوں کو پرندوں کے چوزوں کی طرح صحرا میں تنہا چھوڑ کر ۔ جدھر نہ درخت کا سایہ ہے اور نہ ہی پانی کا نام و نشان ۔ میں قتل کر دیئے جانے کیلئے حاضر ہوں ۔ مجھے بس یہ ڈر تھا کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں میں سے وعدوں کا ایفاء ہی اُٹھ گیا ہے”

عمر رضی اللہ عنہ نے ابوذر رضی اللہ عنہ کی طرف رخ کر کے پوچھا ” ابوذر ۔ تو نے کس بنا پر اسکی ضمانت دے دی تھی ؟”

ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا ” اے عمر ۔ مجھے اس بات کا ڈر تھا کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں سے خیر ہی اٹھا لی گئی ہے”

سید عمرؓ نے ایک لمحے کیلئے توقف کیا اور پھر ان دو نوجوانوں سے پوچھا کہ کیا کہتے ہو اب؟

نوجوانوں نے جن کا باپ مرا تھا روتے ہوئے کہا ” اے امیر المؤمنین ۔ ہم اس کی صداقت کی وجہ سے اسے معاف کرتے ہیں ۔ ہمیں اس بات کا ڈر ہے کہ کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں میں سے عفو اور درگزر ہی اُٹھا لیا گیا ہے”

عمر رضی اللہ عنہ اللہ اکبر پکار اُٹھے اور آنسو ان کی ڈاڑھی کو تر کرتے نیچے گر نے لگے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ فرمايا ۔۔۔

” اے نوجوانو ۔ تمہاری عفو و درگزر پر اللہ تمہیں جزائے خیر دے”

” اے ابو ذر ۔ اللہ تجھے اس شخص کی مصیبت میں مدد پر جزائے خیر دے”

” اور اے شخص ۔ اللہ تجھے اس وفائے عہد و صداقت پر جزائے خیر دے”

” اور اے امیر المؤمنین ۔ اللہ تجھے تیرے عدل و رحمدلی پر جزائے خیر دے”

مکمل تحریر اور تبصرے>>

نماز ادا کرنے کا طریقہ

نماز 






مکمل تحریر اور تبصرے>>

Friday 18 October 2013

islamic,urdu hadees,urdu artical,: NAMES OF ALLAH WITH MEANING URDU

islamic,urdu hadees,urdu artical,: NAMES OF ALLAH WITH MEANING URDU: NAMES OF ALLAH WITH MEANING in urdu and benifits app ki dua ka talib NAEEM SHAHZAD
مکمل تحریر اور تبصرے>>

اسلام کی تصویر

اسلام کی تصویر
سالوں پہلے کی بات ہے جب ایک امام مسجد صاحب روزگار کیلئے برطانیہ کے شہر لندن پُہنچے تو روازانہ گھر سے مسجد جانے کیلئے بس پر سوار ہونا اُنکا معمول بن گیا۔ لندن پہنچنے کے ہفتوں بعد، لگے بندھے وقت اور ایک ہی روٹ پر بسوں میں سفر کرتے ہوئے کئی بار ایسا ہوا کہ بس بھی وہی ہوتی تھی اور بس کا ڈرائیور بھی وہی ہوتا تھا۔ ایک مرتبہ یہ امام صاحب بس پر سوار ہوئے، ڈرائیور کو کرایہ دیا اور باقی کے پیسے لیکر ایک نشست پر جا کر بیٹھ گئے۔ ڈرائیور کے دیئے ہوئے باقی کے پیسے جیب میں ڈالنے سے قبل دیکھے تو پتہ چلا کہ بیس پنس زیادہ آگئے ہیں۔
امام صاحب سوچ میں پڑ گئے، پھر اپنے آپ سے کہا کہ یہ بیس پنس وہ اترتے ہوئے ڈرائیور کو واپس کر دیں گے کیونکہ یہ اُن کا حق نہیں بنتے۔ پھر ایک سوچ یہ بھی آئی کہ بھول جاؤ ان تھوڑے سے پیسوں کو، اتنے تھوڑے سے پیسوں کی کون پرواہ کرتا ہے!!! ٹرانسپورٹ کمپنی ان بسوں کی کمائی سے لاکھوں پاؤنڈ کماتی بھی تو ہے، ان تھوڑے سے پیسوں سے اُن کی کمائی میں کیا فرق پڑ جائے گا؟ اور میں ان پیسوں کو اللہ کی طرف سے انعام سمجھ کر جیب میں ڈالتا ہوں اور چپ ہی رہتا ہوں...۔ بس امام صاحب کے مطلوبہ سٹاپ پر رُکی تو امام صاحب نے اُترنے سے پہلے ڈرائیور کو بیس پنس واپس کرتے ہوئے کہا؛ یہ لیجیئے بیس پنس، لگتا ہے آپ نے غلطی سے مُجھے زیادہ دے دیئے ہیں۔
ڈرائیور نے بیس پنس واپس لیتے ہوئے مُسکرا کر امام صاحب سے پوچھا؛کیا آپ اس علاقے کی مسجد کے نئے امام ہیں؟ میں بہت عرصہ سے آپ کی مسجد میں 
آ کر اسلام کے بارے میں معلومات لینا چاہ رہا تھا۔ یہ بیس پنس میں نے جان بوجھ کر تمہیں زیادہ دیئے تھے تاکہ تمہارا اس معمولی رقم کے بارے میں رویہ پرکھ سکوں۔اور امام صاحب جیسے ہی بس سے نیچے اُترا، اُنہیں ایسے لگا جیسے اُنکی ٹانگوں سے جان نکل گئی ہے، گرنے سے بچنے کیلئے ایک کھمبے کا سہارا لیا، آسمان کی طرف منہ اُٹھا کر روتے ہوئے دُعا کی، یا اللہ مُجھے معاف کر دینا، میں ابھی اسلام کو بیس پنس میں بیچنے لگا تھا۔۔۔
ہو سکتا ہے کہ ہم کبھی بھی اپنے افعال پر لوگوں کے رد فعل کی پرواہ نہ کرتے ہوں۔مگر یاد رکھیئے کہ بعض اوقات لوگ صرف قرآن پڑھ کر اسلام کے بارے میں جانتے ہیں۔
یا غیر مسلم ہم مسلمانوں کو دیکھ کر اسلام کا تصور باندھتے ہوں۔
اس طرح تو ہم سب کو دوسروں کیلئے ایک اچھی مثال ہونا چاہیئے۔۔اور ہمیشہ اپنے معاملات میں سچے اور کھرے بھی۔۔صرف اتنا ہی ذہن میں رکھ کر، کہیں کوئی ہمارے رویوں کے تعاقب میں تو نہیں؟ اور ہمارے شخصی تصرف کو سب مسلمانوں کی مثال نہ سمجھ بیٹھے۔یا پھر اسلام کی تصویر ہمارے تصرفات اور رویئے کے مُطابق ذہن میں نہ بٹھا لے!!!
مکمل تحریر اور تبصرے>>

Thursday 17 October 2013

قرآن





مکمل تحریر اور تبصرے>>

ہماری زندگی میں رگڑ

ہماری زندگی میں رگڑ

سبق کی منصوبہ بندی کے حصے

مقاصد

طلباء مندرجہ ذیل سمجھ جائے گا:
1. رگڑ کی تحریک کی مخالفت کرتا ہے، یا یہ مشکل کسی چیز کی سطح بھر میں منتقل کرنے کے لئے کرتا ہے کہ ایک قوت ہے.
2. رگڑ کی رقم کی سطح کی قسم اور ایک دوسرے کے ساتھ دو سطحوں دبانے طاقت پر منحصر ہے.
3. روز مرہ زندگی رگڑ کی مدد کرتا ہے کہ کس طرح دونوں کی مثالیں فراہم کرتا ہے اور ہم کرتے ہیں سب کچھ رکاوٹ.

معدنیات

اس سبق کے لئے، آپ کی ضرورت ہو گی:
ایک ہی سائز کے کئی ماچس کاریں (ہر ٹیم کے لئے تین سے چار)
اس طرح کے encyclopedias کے طور پر کئی بڑی، موٹی کتابیں، (سجا دیئے جب، وہ کے بارے میں 1 فٹ بلند ہونا چاہئے)
جھاگ بورڈ کی بڑی ٹکڑا
بیچ تولیہ
معیار
Masking ٹیپ
پاٹھیپستکیں
پنسل
چاکبورڈ، اور ہیڈ پروجیکٹر، یا چارٹ کاغذ
Crayons، مارکر، رنگین پنسل


طریقہ کار


1. تحریک روکتا ہے کیا پر آپ کے طالب علموں کے ساتھ ایک سیکھنے ویب بنائیں. ایک اوور ہیڈ، چاکبورڈ، یا چارٹ کاغذ پر لکھنا "موشن روکتا ہے کیونکہ ..." اور اس کے ارد گرد ایک دائرے کی مانند اپنی طرف متوجہ. طالب علموں کے جوابات حاصل اور ویب سے دور "شاخیں" کے طور پر ان کے جوابات لکھتے ہیں. جیسا کہ اشارہ فراہم کی طرف سے طالب علم کے جوابات توجہ مرکوز: کیا ایک گاڑی روکو گے؟ ایک نرتکی؟ ایک فٹ بال؟ ایک جہاز؟ ایک بیس بال کے کھلاڑی کے گھر میں سلائڈنگ؟
2. وہ پیدا کیا ہے ویب، سست روکنے، یا یہ مشکل کسی چیز کو منتقل کرنے کے لئے کر سکتے ہیں کہ افواج کی مثالوں سے پتہ چلتا ہے کہ آپ کے طالب علموں کو بتائیں. اشیاء اور لوگوں پر اداکاری ان فورسز رگڑ کہا جاتا ہے کہ اس کی وضاحت. ویب کی طرف واپس حوالہ دیتے ہیں اور واضح طور پر تحریک میں رگڑ کو روکنے کے کردار کا مظاہرہ ہے کہ ان کے خیالات کو اجاگر. وہ پہلے لفظ رگڑ نے سنا ہے کیا سیاق و سباق میں طالب علموں سے پوچھو. (وہ سیاق و سباق پیش کرتے ہیں مندرجہ ذیل کر سکتے ہیں:. رگڑ ایک دوسرے کے ساتھ ایک جنگ میں لوگوں یا رگڑ ہاتھوں کے درمیان)
3. چھونے (مثال کے طور پر، چٹٹانی فرش بمقابلہ waxed باورچی خانے کے فرش) اور فورس (مثال کے طور پر، سے بھرا ہوا ایک کے مقابلے میں ایک خالی ویگن ھیںچ ایک ساتھ کی سطح کو دبانے رہے ہیں سطحوں کی قسم: رگڑ کی رقم یا طاقت دو چیزوں پر انحصار کرتا ہے کہ طالب علموں کی وضاحت اینٹوں).
4. اب چار سے پانچ طالب علموں کی کلاس گروپوں میں تقسیم. مندرجہ ذیل سرگرمی ان رگڑ میں اضافہ اور کمی کی جا سکتی ہے کہ کس طرح سمجھنے میں مدد ملے گی کہ طالب علموں کو بیان کیجیے. ہر گروپ میں تین سے چار ماچس کاریں، جھاگ بورڈ، ایک سمندر کے کنارے تولیہ، masking ٹیپ، ایک معیار، کئی بڑی، موٹی کتابیں (سجا دیئے جب ایک پاؤں کے بارے میں برابر ہے)، دو نصابی کتابوں، اور ایک رگڑ سرگرمی شیٹ حاصل کرنا چاہئے. گروپوں رکھنے اور ماچس کاریں دو سطحوں پر منتقل ریکارڈنگ کس طرح کیا جائے گا: ایک ہموار سطح اور کسی نہ کسی سطح.
5. کلاس میں پہلی سرگرمی سوال پڑھا: "ماچس کار ہموار سطح یا کسی نہ کسی سطح پر تیزی سے چلے جائیں گے؟" پھر انہیں، سادہ جھاگ بورڈ اور ساحل سمندر تولیہ کا تجربہ کیا جائے گا دو سطحوں دکھاتے ہیں.
6. اگلا، طالب علموں جھاگ بورڈ کے ایک سرے کے تحت کتابوں کی ایک اسٹیک (1 کے بارے میں پاؤں اعلی) رکھ کر ایک "ریمپ" پیدا ہوتا ہے. (آپ سلائڈنگ کی طرف سے بورڈ کے رکھنے کے لئے دوسرے کے اختتام پر ایک ئنٹ یا بھاری اعتراض رکھنے کے لئے چاہتے ہیں کر سکتے ہیں.)
7. طالب علموں کو ایک سطح سے گاڑی کی رفتار متاثر کر سکتے ہیں کہ کس طرح دیکھ کر کیا جائے گا. درست طریقے سے اس سرگرمی کے نتائج کا اندازہ لگانے کے لئے کرنے کے لئے، وہ ایک ہی رفتار کے بارے میں سفر ہے کہ ماچس کاروں کو استعمال کرنے کی ضرورت ہو گی. وہ عام طور پر ایک ہی رفتار سے دو اس اقدام سے تلاش کرنے کے لئے ان کی ریمپ نیچے دی گئی ہے طالب علموں کو "نسل" ماچس کاروں ہے. ریمپ کے سب سے اوپر اس کے، لائن اپ کاروں کرتے ہیں اور معیار کے ساتھ ان کے واپس منعقد کرنے کا. ایک طالب علم سے ہر ایک کے آخر میں معیار کو پکڑ اور کاروں ریمپ نیچے دوڑ دو اچانک اسے اٹھا لو. آپ کے منتخب کردہ دو کاروں کے بارے میں بھی اسی رفتار سے منتقل کرنے کے لئے اس بات کا یقین کر چند بار کرو
8. اب ہر گروپ کے بورڈ کے پیچھے (فسل سے رکھنے کے لئے) کے لئے تولیہ کو محفوظ کرنے کے masking ٹیپ کا استعمال کرتے ہوئے سمندر کے کنارے تولیہ کے ساتھ اس کے جھاگ بورڈ کے بائیں ہاتھ کی طرف، کا احاطہ ہے. ان کی جھاگ بورڈز اب دو "ٹریکس" ایک سادہ ٹریک اور تولیہ ٹریک ہونا چاہئے.
9. طالب علموں کو ان کی نسل کو انجام دینے سے قبل، انہیں ان کی سرگرمی شیٹس کی پیشن گوئی حصہ کو مکمل کر دیا ہے. طالب علموں کو وہ کار تیزی سے پر سفر کریں گے یقین ہے کہ جس سطح کا اشارہ ایک جملہ لکھنا چاہیے.
10. اب طالب علموں کو وہ (اسی رفتار کے بارے میں تھے) کا انتخاب کیا دو کاریں دوڑ ہے. اسی کو یقینی بنانے کے معیار کا استعمال کرتے ہوئے "وقت آغاز،" طالب علموں کو سادہ (ہموار) ٹریک اور تولیہ دوسری (کسی نہ کسی) ٹریک پر ایک کار کی دوڑ ہے. وہ دو گاڑیوں میں منتقل کر دیا ہے کہ کس طرح کی وضاحت ہے کہ ایک سے دو سزائیں لکھنے کے لئے کی ضرورت ہو گی. پھر انہیں زیادہ رگڑ دیکھا جس سطح پر اس بات کا تعین کر دیا ہے.
11. ان کے نتائج اور مشاہدے کی بات چیت کرنے کے طالب علموں کو ایک ساتھ جمع ہیں. سطح کی قسم اور ہر سطح بھر میں منتقل کرنے کے لئے گاڑی کی صلاحیت کی طرف سے مظاہرہ کے طور پر، کار اور سطح کے درمیان ہے رگڑ کی رقم کے درمیان تعلقات کے لئے کے طالب علموں کو 'توجہ مرکوز. (rougher سطح، وہاں زیادہ رگڑ ہے.)
12. طالب علموں کو دوسری سرگرمی سوال پڑھا: "یہ آپ کے رکن کے ساتھ آپ کے ڈیسک بھر میں ایک یا دو نصابی کتابوں منتقل کرنے کے لئے آسان ہو جائے گا؟" طالب علموں کو ان کی میزوں بھر میں نصابی کتابوں میں منتقل کرے گا اور انہیں ان کی سرگرمی شیٹس کی پیشن گوئی کے حصے کو مکمل کر دیا ہے کہ کس طرح کا مظاہرہ. وہ پہلی سرگرمی میں نے کے طور پر سرگرمی شیٹ پر ان کے مشاہدے ریکارڈ کرنے کے لئے کے طالب علموں کو یاد دلاتے ہیں.
13. دوسرے کی سرگرمیوں پر بات چیت کرنے کے طالب علموں کو ایک ساتھ جمع ہیں. ان کے مشاہدے اشتراک کرنے کے لئے کے طالب علموں سے پوچھو. طالب علموں کو سائز / کسی چیز کے وزن اور کس طرح آسانی سے یہ ایک کی سطح بھر میں چلتا ہے کے درمیان تعلقات کے بارے میں سوچنے کے لئے حوصلہ افزائی کریں. وہ صرف میز بھر میں ایک دھکا سے دو نصابی کتابوں کو دھکا کرنے کے لئے اپنی pinkies سے زیادہ طاقت استعمال کرنے کے لئے اگر ضرورت ہو تو طالب علموں سے پوچھو.
14. بورڈ کی فہرست میں، ہاتھ پر سرگرمیوں میں مظاہرہ کیا تصورات کو مضبوط بنانے کے لئے دو سطحوں (ایک سطح پر سطح کی قسم اور طاقت) کے درمیان ہے رگڑ کی رقم کا تعین ہے کہ دو عوامل. رگڑ ہماری روزمرہ زندگی میں بہت سے کردار ادا کرتا ہے کہ اس کی وضاحت. دوسرے اوقات ہم رگڑ کی رقم کو کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ بعض اوقات ہم، رگڑ میں اضافہ کرنے کی کوشش کریں.
15. کچھ مثالیں کے بارے میں سوچنا کرنے کے لئے ایک نقطہ اغاز کے طور پر کھیل کا استعمال کریں. کچھ کھیلوں اور تفریحی سرگرمیوں میں، آپ کو رگڑ موجودہ کی مقدار میں اضافہ یا کمی کر سکتے ہیں. کیا طالب علموں کی سطح پر سطح کی قسم اور طاقت کے بارے میں سیکھا ہے کا استعمال کرتے ہوئے، کھیل اور رگڑ کی رقم میں اضافہ مددگار اور اس رگڑ کی مقدار کو کم کرنے کے لئے بہتر ہے، جس میں ان لوگوں کو ہے جہاں کی سرگرمیوں کی ایک ٹی چارٹ بنائیں. (مثال کے طور پر: gymnasts ان کے ہاتھ اور اسمان سلاخوں کے درمیان رگڑ کو کم کرنے کے ان کے ہاتھ پر چاک کا استعمال کرتے ہیں؛ cleats چل رہا ہے جبکہ فٹ بال کے کھلاڑیوں کو بہتر کرشن ہے مدد؛ bobsledders تیزی سے اولمپکس میں سفر کرنے کے لئے روشنی ہو جائے کی ضرورت ہے؛ تیراک اپنے ہتھیار اور بڑھانے کے لئے ٹانگوں مونڈنا ریس میں ان کی رفتار.)
16. طالب علموں کو رگڑ اپنی پسند کے کھیل میں ایک کردار ادا کرتا ہے کہ کس طرح کے بارے میں ایک تفریح ​​یا کھیلوں کے میگزین کے لئے ایک منی خبر مضمون پیدا کر دیا ہے. طلباء کارروائی میں کھیل کی ایک رنگارنگ، تخلیقی تصویر شامل اور رگڑ ہے کہ کھیل میں ایک کھلاڑی کی کارکردگی پر اثر انداز ہوتا ہے کہ کس طرح چار سے چھ جملوں کی ایک پیراگراف میں وضاحت کرنے کی ضرورت ہوگی. طالب علموں کو ان مضامین پیش کریں اور بلیٹن بورڈ پر ان کے ظاہر ہے. جسمانی تعلیم اور صحت کے اساتذہ کلاس پریزنٹیشنز کے لئے مدعو کیا جا سکتا ہے.

موافقت

نوجوان طلباء کے لئے موافقت:
اس کی بجائے طلباء ماچس کار اور نصابی کتاب کی سرگرمیوں کے لئے سرگرمی چارٹ مکمل ہونے کے، آپ صرف طالب علموں کا مشاہدہ اور وہ بلند آواز کی سرگرمیوں کے بارے میں اپنے خیالات کا اشتراک کریں گے ہو اور میں کیا سوچتے ہیں کی پیشن گوئی کر سکتے ہیں. اس کے علاوہ، اس سرگرمی پوری کلاس کے لئے طالب علم رضاکاروں کے ساتھ ایک استاد کی قیادت میں مظاہرہ کیا جا سکتا ہے. بلکہ طالب علموں کو ایک کھیل کے بارے میں ایک مضمون پیدا ہونے سے، آپ کو رگڑ (مثال کے طور پر، ایک ہوشیار فٹ پاتھ پر برف جوتے، ایک گاڑی میں بریک، وغیرہ) میں ایک کردار ادا کرتا ہے جہاں روز مرہ کی سرگرمیوں کی ایک فہرست تشکیل دیتے ہیں اور طالب علموں کی عکاسی کی کتاب بنانے کے کر سکتے ہیں ہماری زندگی میں رگڑ کے عنوان سے. طالب علموں کو ایک بالغ یا بڑی عمر کے طالب علم کے لئے ان تصاویر کی تفصیلات کا تعین کر سکتے ہیں.

پرانے طلبا کے لئے موافقت:
بڑی عمر کے طالب علموں کے لئے، آپ کو ایک اسنتلیت قوت کے طور پر اور کس طرح یہ تحریک-جڑتا کی نیوٹن کا پہلا قانون سے متعلق ہے رگڑ کے کردار کی وضاحت کر سکتے ہیں. طالب علموں کو رگڑ اور تحریک کے نیوٹن کے قوانین کھیل میں ایک کردار ادا کس طرح کے بارے میں کلاس کے لئے ایک سلائڈ شو پریزنٹیشن بنانے کے لئے انٹرنیٹ اور دیگر ملٹی میڈیا وسائل استعمال کرسکتے ہیں. طالب علموں کو ان کے اپنے رگڑ تجربات ڈیزائن اور ایک تحریری لیب رپورٹ میں ان کے مواد، طریقہ کار، اعداد و شمار، اور تجزیہ پیش ہے.

انفو سوالات

1. سطح کی قسم ہے رگڑ کی رقم کو متاثر کرتی ہے کہ کس طرح کی وضاحت.
2. سائز اور وزن کسی چیز کی اور حال یہ ہے کہ رگڑ کی رقم کے درمیان تعلقات پر بحث کریں.
3. رگڑ ہماری روزمرہ زندگی میں دونوں ایک مثبت اور منفی پہلو یہ ہو سکتا ہے کہ کس طرح تجزیہ کریں. اپنے بیانات کی حمایت کرنے مثالیں استعمال کریں.
4. اس طرح فٹ بال کے طور پر کھیل، روکنے کود، اور لات مار، چل رہا ہے شامل ہیں. رگڑ کھلاڑیوں کی مدد کرتا ہے کہ کس طرح بحث کریں.
5. پہیوں کا استعمال کرتے ہوئے یہ سفر جس پر چلتی اعتراض اور سطح کے درمیان رگڑ کو کم کرے گا جس میں ایک ایسی صورت حال کی وضاحت کریں.
6. کوئی رگڑ وہاں تھے تو آپ کی زندگی کیا ہوگا Hypothesize. کون سے اعمال زیادہ مشکل ہو جائے گا؟ جس میں آسان ہو جائے گی؟

تشخیص

کلاس کے ساتھ ایک سوال، پیشن گوئی، مشاہدے، اور تجزیہ میں کیا لوگوں کے لئے اسی طرح کی ایک تہائی رگڑ سرگرمی کے ساتھ تصورات کے طالب علموں 'افہام و تفہیم کا جائزہ لینے کے. مثال کے طور پر طالب علموں کو ایک کسی نہ کسی سطح بھر میں منتقل (بجری سے باہر، مثال کے طور پر) اور ایک لائٹر کار ایک ہی کسی نہ کسی سطح پر منتقل کرنے کے ساتھ اس کا موازنہ کرنے کے لئے ایک بھاری کھلونا گاڑی یا ٹرک کا استعمال کرتے ہیں. طالب علموں کی وجہ سے کسی نہ کسی سطح کے رگڑ کی ایک بہت ہے کہ وہاں کی وضاحت کرنے کے قابل ہونا چاہئے، لیکن ایک بھاری / بڑا کار رگڑ کی رقم میں اضافہ، کار اور کسی نہ کسی سطح کے درمیان ایک بڑی قوت پیدا کرتا ہے.
اس کے علاوہ، ایک تین نکاتی rubric کھیلوں میں رگڑ کے بارے میں طلباء کی خبر مضامین کا جائزہ لینے کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے:

مکمل تحریر اور تبصرے>>

Archive