Tuesday 22 October 2013

Baba Bulleh Shah

بابا بلّھے شاہ
تحریر۔ سبطین حیدر شاہ آف شاہ کوٹ
صوفی روایت ہماری تاریخ کا ناگزیر حصہ ہے۔ برصغیر کی سیاسی اور سماجی تاریخ میں صوفیا کے ذکر کے بغیر کوئی مورخ بھی معتبر تاریخ رقم نہیں کر سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ برصغیر کے حوالے سے جتنی بھی مستند تورایخ اس وقت موجود ہیں ان میں صوفیا کا تذکرہ قابل لحاظ مقدار میں موجود ہے۔ تاریخ دان چاہے کوئی مسلمان تھا یا غیر مسلم اس نے صوفیا کے برصغیر کی سیاسی وسماجی تشکیل میں کردار کے ذکر سے احتراز نہیں برتا اور برتا بھی نہیں جا سکتا کہ اسکے ذکر کے بغیر تاریخ مکمل نہیں ہوتی۔
حیرت انگیز امر یہ ہے کہ برصغیر میں بے شمار علمائے دین پیدا ہوئے مگر ہر دلعزیزی اور احترام جو صوفیا کے حصے میں آیا وہ ان عالموں کو نصیب نہ ہو سکا۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ صوفی اپنی زندگی میں صلح کل اور احترام آدمیت جیسے اعلیٰ انسانی تصورات کو اہمیت دیتے ہوئے مسلکی امتیاز اور مذہبی منافرت کو جگہ نہیں دیتا۔ بلکہ مذہبی عالم کا فکر سرچشمہ کتابیں اور نظریات تشکیل دیتے ہیں جبکہ صوفی استقرائی طریقے کو اولیت دیتے ہوئے انسانوں کا مشاہدہ کرتا ہے۔ عالم ، علمی بحثوں کےلئے عالموں کے درکھٹکھٹاتا ہے جبکہ صوفی انسان کے ذریعے خدا کو سمجھنے کےلئے انسانوں کے مختلف طبقات سے اپنا تعلق جوڑتا ہے۔ عالم گوشہ نشینی میں بیٹھ کر شرعی امور کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے سماج میں ابھرتے نئے معاشرتی تقاضوں اور نفسیاتی حقیقتوں کے بدلتے رنگوں سے اغماض برتتا ہے جبکہ صوفی انسانی سماج کی نفسیات تک براہ راست رسائی کےلئے قلندرانہ لباس پہن کر سفر اختیار کرتا ہے۔ یہی بنیادی فرق ہے جو ان دومتوازی فکر دھاروں کو ایک دوسرے ممیز کرتا ہے۔ علما کی کتابیں مابعد الطبیعات جیسے مباحث میں الجھ کررہ جاتی ہیں جبکہ صوفی افکار لوگ شاعری میں اس طرح اظہار پاتے ہیں کہ عام آدمی انہیں خود سے قریب محسوس کرتا ہے۔ غالباً انہیں وجوہ کی بنا پر برصغیر میں صوفیا کو زیادہ پذیرائی اور ہر دلعزیزی ملی۔
صوفیا کے تذکرے کے سلسلے میں آج ہم جس بطل رشید کا تذکرہ کریں گے ان کا نام حضرت سید محمد عبداللہ شاہ قادری شطاریؒ ہے جو بلّھے شاہ کے نام سے دنیا بھر میں معروف ہیں۔ بلھے شاہ کو پنجابی شاعری اور کافی کا سب سے بڑا شاعر تسلیم کیا جاتا ہے۔ گردش زمانہ کا انقلاب دیکھئے کہ جس شخص کو روایتی مولویوں نے بعد از وفات مسلمانوں کے قبرستان میں دفن نہ ہونے دیا اور ان پر گمراہ ہونے کا الزام لگایا وہ آج بھی اپنی تابانی قائم رکھے ہوئے ہے اور پوری دنیا انہیں احترام دیتی ہے۔ اس کے برعکس جن مولویوں نے ان پر فتویٰ جات صادر کئے آج گمنامیوں کی دھند میں لپٹ کر غائب ہو چکے ہیں۔
ابتدائی عمر سے ہی بلّھے شاہ نے راہ سلوک کی منزلیں طے کرنی شروع کر دی۔ یوں تو آپ نے قرآن ، تفسیر ، حدیث ،فقہ اور منطق کی مروجہ تعلیم میں رسوخ بھی حاصل کیا اور ایک مدرسے میں کچھ دن تک مدرسی بھی کی مگر آپ کی راہ علما سے مختلف تھی۔ ایک عالم وجد آپ پر طاری رہنے لگا اور آپ نے کہا:
”علموں بس کریں او یار“
آپ کی راہ تو منصور کی راہ تھی۔ ایک بار عالم جذب میں آپ کے منہ سے منصور کا نعرہ ”انالحق“ نکل گیا۔ اس وقت آپ بٹالہ کے ضلع گورداس پور میں قیام پذیر تھے۔ جب لوگوں نے آپ کے منہ سے یہ نعرہ سنا تو آپ کو پکڑ کر قاضی شہر فاضل الدین کے پاس لے گئے ان کے خلاف کفر کا فتویٰ دیا جا سکے۔ شیخ فاضل الدین جو ظاہری علوم کے زیور سے آراستہ ہی نہ تھے بلکہ تصوف کی چاشنی سے بھی لبریزتھے انہوں نے مجذوب کی حالت دیکھی تو کہا:
”ایہہ سچ کہندا اے ، ایہہ حالے الھا (کچا ۔ الھڑ) ہی اے۔ ایہنوں آکھوشاہ عنایت کول جا کے پک آدے“
بلّھے شاہ کے منہ سے نکلنے والہ کلمہ معمولی نہ تھا اور اس پر انہیں موت کی سزا بھی دی جا سکتی تھی مگر شیخ فاضل الدین نے پنجابی زبان کے لفظوں کی رعایت دیتے ہوئے اگلے پڑاﺅ کی طرف بھیج دیا۔ اس واقعہ کے حوالے سے صوفی شاعر اور آپ کے ہمعصر سچل سرمست نے کہا تھا:
بلّھے شاہ دے سراتے تیغ اجل دی تولی
شاہ عنایت کی راہبری نے راہ سلوک کے اس مسافر کی خوب مدد کی۔ بلّھے شاہ بھی فنافی المرشد کے مقام پر پہنچے تو شاہ عنایت کے حوالے سے لکھا:
جیہڑا سانوں سید آکھے دوزخ ملن سزائیاں
جیہڑا سانوں رائیں آکھے بہشتیں پینگھاں پائیاں
آپ نے شاہ عنایت کی بیعت کی تو آپ کے خاندان والوں اور دیگر لوگوں نے آپ کو طعنہ دیا کہ سید ہو کر ایک آرائیں کے مرید ہو گئے ہو مگر آپ جس مقام پر پہنچ چکے تھے اور مرشد کے دریائے محبت میں غرق ہو چکے تھے اس کا تقاضا کچھ اور تھا بلّھے شاہ نے کہا:
تسیں وچ اُچ دے اچے ہو ، اسیں وچ قصور قصوری ہاں
شاہ عنایت دی باغ بہاراں ، اسیں اوہدے وچ لسوہڑی ہاں
بابا بلّھے شاہ فارسی اور عربی کے بے بدل عالم تھے۔ ان کی شاعری میں اسلامی تصورات اور صوفیانہ ادب سے گہری شناسائی کا احساس ہوتا ہے۔ بعد ازاں جب آپ کا رجحان اسلام کی متصوفانہ پہلو کی طرف ہوا تو آپ کا علم آپ کی رہنمائی کرتا گیا۔
بلّھے شاہ کی روحانی ترفع کےلئے سخت ریاضت کے مراحل سے گزرنا پڑا جیسا کہ راہ سلوک کے ہر شخص کو گزرنا پڑتا ہے۔ ان ریاضتوں کو باقاعدہ سمت آپ کے پیرو مرشد عنایت شاہ قادری نے دی بلّھے شاہ نے مقدس کتابوں اور مذہبی تصورات سے جو روشنی حاصل کی اس کے ذریعے وہ حقیقت کا براہ راست مشاہدہ کرنا چاہتے تھے۔ اور ایسا تب ممکن ہوا جب آپ کی ملاقات شاہ عنایت قادری سے ہوئی۔
حضرت شاہ عنایت قادری اپنے دور کے معروف صوفی بزرگ تھے۔ شاہ عنایت کی جائے پیدائش اور تاریخ پیدائش کے حوالے سے مستند شواہد تو دستیاب نہیں ہیں، مگر آپ کی وفات 1728 ءمیں ہوئی۔ ان کا تعلق قادری سلسلے سے تھا۔ برصغیر میں آنے والے اکثر صوفیا کا سلسلہ بھی قادری ہی تھا۔ شاہ عنایت قادری نا صرف روحانی علم سے کما حقہ آگاہ تھے بلکہ دنیا وی علوم پر بھی انہیں عبور حاصل تھا۔ تصوف کے حوالے سے ان کے رسالے اس حقیقت پر دال ہیں۔ عنایت شاہ نے عمِر عزیز کا زیادہ تر حصہ لاہور میں گزارا اسی وجہ سے آپ کو عنایت شاہ لاہوری بھی کہا جاتا ہے۔
بلّھے شاہ نے عنایت شاہ لاہوری سے ملاقات سے قبل ہی صوفیانہ مجاہدے اور ریاضت کو اختیار کرلیا تھا۔ جب پہلی بار مرید صادق اور پیر کامل آمنا سامنا ہوا تو عنایت شاہ قادری کو محسوس ہو اکہ بلّھے شاہ میں تصوف کا صحیح ذوق موجود ہے۔ پہلی ملاقات میں شاہ عنایت نے بلّھے شاہ سے پوچھا:
”یہاں کیا کرنے آئے ہو“
بلّھے شاہ نے جواب دیا:
”میرا نام بلّھا ہے اور میں رب کو پانا چاہتا ہوں“
عنایت شاہ نے طالب حق کو پیار سے دیکھا اور پیاز کے ایک پودے کو زمین سے ایک جگہ سے اکھاڑ کر دوسری جگہ لگا یا اور کہا:
”خدا کو پانا کونسا مشکل کام ہے بس یہ پودا یہاں سے اکھاڑ کر یہاں لگانا ہے“
بلّھے شاہ نے اس استعاراتی زبان کو سمجھ لیا کہ دل کو دنیا سے ہٹا کر خالق دنیا کی طرف لے جانا ہے۔ ایک معروف سکالر نے پیر ومرید کی اس ملاقات کا احوال یوں لکھا ہے:
”بلّھے شاہ میں وہ تمام خصوصیات موجود تھیں جو ایک لائق شاگرد میں ہونی چاہئیں۔ شاہ عنایت نے روحانی اسرار کے تمام راز کھول کر ان کے سامنے رکھ دئیے۔ بلّھے شاہ نے ان کا نظارہ کیا اور پھر دنیا سے بے خبر ہو گئے۔“
یہ انقلاب کیوں آیا؟ سادہ سی وجہ ہے کہ لوگ بلّھے شاہ کی زندگی اور ان کی تعلیمات کی ہمہ گیری سے متاثر ہوئے۔ لوگوں یر جلد ہی یہ راز کھل گیا کہ راہ سلوک کا یہ راہی ان کی عام زندگیوں سے مولویوں کی یہ نسبت کہیں زیادہ قرب تھا۔
بلّھے شاہ کی پیدائش اور وفات کے حوالے سے تاریخ خاموش ہے۔ عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ آپ 1680 ءسے 1758ءکے دوران صفحہ ہستی پر موجود رہے۔ ان کی جائے پیدائش کے حوالے سے بھی ابھی تک محققین کوئی حتمی رائے قائم نہیں کر سکتے ہیں۔ بعض محققین کا کہنا ہے کہ آپ بہاولپور ریاست کے قصبے اُچ میں پیدا ہو ئے تھے اور بعد ازاں جب آپ عمرِ عزیز کے چھٹے مہینے میں تھے آپ کے والد محترم ملک وال ہجرت کرگئے۔ وہ کافی عرصے تک ملک وال میں مقیم رہے۔ اس کے بعد ایک گاﺅں پانڈو کی کے والی نے آپ کے والد شاہ محمد درویش کو استدعا کی کہ وہ گاﺅں کی مسجد میں امامت کے فرائض ادا کریں اور بچوں کو دینی تعلیم دیا کریں۔ اگرچہ محققین کی اکثریت اس روایت کی حامی ہے مگر بعض محققین اس سے اختلاف کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بلّھے شاہ کی پیدائش گاﺅں پانڈو کی میں ہوئی۔ آج کل اس گاﺅں کا نام پانڈو کے بھٹیاں ہے۔ یہ گاﺅں قصور سے 14 کلو میٹر دور جنوب مشرق میں واقع ہے۔
کہا جاتا ہے کہ بلّھے شاہ کے آباﺅ اجداد میں سے سید جلال الدین بخاری آپ کی پیدائش سے 300 سال قبل بخارا سے ملتان تشریف لائے تھے۔ بلّھے شاہ کے والد شاہ محمد درویش عربی اور فارسی کے معتبر عالم تھے۔ وہ نہ صرف دنیاوی علوم سے کما حقہ آگاہ تھے۔ بلکہ ان میں تصوف اور روحانیت کی چاشنی بھی موجود تھی۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کی قلندرانہ زندگی اور راہبانہ طرز معاشرت کے باعث انہیں درویش کا لقب ملا۔ بلّھے شاہ اپنے والد کی زاہدانہ زندگی سے بہت متاثر ہوئے۔ صرف بلھے شاہ ہی نہیں بلکہ ان کا پورا خاندان شاہ محمد درویش کی پاک طینت حیات سے شدید متاثر تھا۔ بلّھے شاہ کی بہن بھی تصوف کی چاشنی سے لبریز تھیں۔ انہوں نے شادی نہ کی اور تجروکی زندگی گزاری۔
بلّھے شاہ کا بچپن اپنے باپ کی زیر نگرانی پانڈو کی گاﺅں میں گزارا۔ اس وقت کے رواج کے مطابق آپ نے اپنی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی۔ بعد ازاں اعلیٰ تعلیم کےلئے انہیں قصور شہر بھیج دیا گیا جو ان دنوں معروف علمی مرکز تھا۔ قصور میں اس وقت حضرت مولانا غلام مرتضیٰ اور مولانا محی الدین کے تبحرعلمی کا شہرہ تھا۔ بلّھے شاہ نے مولانا محی الدین کے سامنے زانوئے تلمندتہ کیا۔ اپنی خداداد ذہنی صلاحیتوں اور روحانی وسعتوں کی وجہ سے بلّھے شاہ نے اپنے استاد سے خوب استفادہ کیا۔
بابا بلّھے شاہ کا دور حیات برصغیر میں مسلمانوں کی سیاسی اور سماجی تاریخ کا اہم ترین موڑ تھا۔ 1680ءسے 1758ءکا دور بر صغیرمیں مسلمانوں کے سیاسی زوال کا نقطہ عروج تھا۔ کئی صدیوں تک برصغیر پر بلا شرکت غیرے حکومت کرنےوالے مغل زیر نقاب بھیک مانگنے پر مجبور ہو چکے تھے۔ ایک ہزار سال سے ہندوﺅں ، مسلمانوں اور دیگر مذہب کے لوگوں کے مابین موجود ہم آہنگی ختم وہ چکی تھی، بابا بلّھے شاہ نے اپنی شاعری کے ذریعے نا صرف باہمی نفرتوں او مسلکی عداوتوں کو مٹانے کی کوشش کی بلکہ اپنی شاعری میں ان سماجی حقائق کو بھی سمویا جو بعد کی نسلوں کےلئے تحقیق میں معاون ثابت ہوں گے۔
بابا بلّھے شاہ کی شاعری میں پنجاب کی کلاسیکی شاعری کے تمام عکس موجود ہیں۔ پنجاب جو ہمیشہ زندہ دلوں کی سرزمین رہا ہے، بابا بلّھے شاہ کے دور میں اپنے زوال کی انتہاﺅں پر تھا۔ یہ زوال فقط سیاسی اور سماجی نہ تھا بلکہ اخلاقی اور روحانی بھی تھا۔ پرانی رسمیں جنہوں نے خاندانوں کو جوڑا ہوا تھا اور سماج می محبت اور الفت کی چاشنی گھلی ہوئی تھی، اس دور میں وہ عنقا ہو گئی۔ ہندو ، مسلمان ، سکھ ، عیسائی جو صدیوں ایک دوسرے کے ساتھ رہے تھے۔ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو چلے تھے۔ روایتیں دم توڑ رہی تھیں اور جدید استعماری طاقتیں اپنے پنجے نا صرف حکومت کے ایوانوں میں گاڑ رہی تھیں بلکہ مقامی سماج کے تارو پود بھی بکھر رہے تھے۔ مسلمانوں کا طویل سیاسی عروج بالآخر اپنے زوال پر پہنچ چکا تھا۔ ہندو خود مسلمانوں کے بعد اقتدار اعلیٰ پر قابض نہ ہو سکے ۔ سو اس صورت میں سیاسی خلا پر کرنے کی طاقتیں سات سمندر پار سے وارد ہوئیں اور دیکھتے ہی دیکھتے حکومت کے بالاخانوں پر اُن کا قبضہ ہو گیا۔ بابا بلّھے شاہ کی شاعری میں اس وقت کی تہذیب و ثقافت ، پنجاب کا سماج ، سیاسی زوال، مغلوں کا نوحہ اور ہند، مسلم ، سکھ فساد کا مرثیہ باسانی ڈھونڈا جا سکتا ہے۔
جدوں اپنی اپنی پے گئی دھی ماں نو لُٹ کے لے گئی
مونہہ بارہویں صدی پساریا سانوں آ مل یار پیاریا
در کھلا حشر عذاب دا برا حال ہویا پنجاب دا
ڈر ہا وے دوزخ ماریا سانوں آ مل یار پیاریا
اور مغلوں کے زوال کی داستان بابا بلّھے شاہ نے ان الفاظ میں بیان کی۔
مغلاں زہر پیالے پیتے بھوریاں والے راجےے کیتے
سب اشراف پھرن چپ کیتے بھلا اوہنانوں جھاڑیا ای
جیہڑے سن ویساں دے راجے نال جنہاں دے وجدے واجے
گئے ہو کے بے تختے تاجے کوئی دنیا دا اعتبار نہیں
اُٹھ جا گھراڑے ماہ نہیں ایہہ سون تیرے درکار نہیں
بابا بلّھے شاہ کا دور پنجابی شاعری کے عروج کا دور کہا جاسکتا ہے بلکہ یہ دور برصغیر کی شاعری کا سنہری دور تھا۔ آپ کے دور میں جہاں ایک طرف شاہ عبدالطیف بھٹائی ایسے معروف سندھی اور سرائیکی صوفی بزرگ شاعر حیات تھے وہاں دوسری طرف پنجاب کی روایتی تاریخی رومانوی داستان ہیر رانجھا کے مصنف وارث شاہ بھی زندہ تھے۔ معروف سندھی صوفی شاعر عبدالواحد جو سچل سرمست کے نام سے جانے جاتے ہیں، کا دور حیات بھی وہی ہے۔ میر تقی میر جیسا اردو کا لازوال شاعر بھی اسی دور میں حیات رہا۔
بابا بلّھے شاہ کی شاعری میں تصوف کے روایتی مضامین اور وحدت اور الوجود کا فلسفہ مہارت سے بیان کیا گیا ہے۔ مقامی ماحول ان کی شاعری میں بولتا محسوس ہوتا ہے۔ آپ چونکہ عام لوگوں سے قریب تھے اس لئے عام لوگوں کی زندگی سے اخذ کی گئی علامتیں آپ کی شاعری میں جگہ پاتی ہیں۔
صوفی اپنی زندگی میں جن تجربات سے گزرتا ہے ان کا اظہار مختلف طریقوں سے کرتا ہے۔ یہ اظہار بعد ازاں انہیں ملامتی فرقے میں شامل کرا دیتا ہے۔ درج ذیل شعر کسی ایسی ہی کیفیت کا بے ساختہ اظہار ہے جو عام لوگوں کو سمجھ نہیں آسکتی۔
بلھیا عاشق ہویوں رب دا ، ملامت ہوئی لاکھ 
تینوں کافر کافر آکھدے توں آہو آہو آکھ
صوفیانہ شاعری میں اہم ترین عنصر وجدان رہا ہے۔ وہ عقلی علوم اور حواس کا بڑی شدت سے انکار کرتا ہے۔ بابا بلّھے شاہ کی شاعری میں بھی یہ عنصر نمایاں طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔
اساں پڑھیا علم تحقیقی اے اوتھے اکو حرف حقیقی اے
ہور جھگڑا سب ودھیکی اے اینویں رولا پایا سبئدی اے
منہ آئی بات نہ رہندی اے
اپنی ذات کی نفی صوفی شاعری کی بنیادی تعلیمات میں سے ایک موضوع رہا ہے۔ مگر فنی ذات کا یہ مرحلہ بہرحال جا کر اثبات حق پر منتج ہوتا ہے۔ صوفی شاعردیوانوں کی طرح فرد فرد سے پوچھ رہا ہوتا ہے کہ میں کون ہوں مگر وہ جانتا ہے کہ ”میں کون ہوں“ آج بھی جب ٹی وی پر ” بلھیا کیہہ جانا میں کون“ سنائی دے تو بلّھے شاہ کا یہ سوال ہمارے سامنے بھی آموجود ہوتا ہے۔
نہ وچ شادی نہ غمنا کی
نہ میں وچ پلیتی پاکی
نہ میں آبی نہ میں خاکی
نہ میں آتش نہ میں پون
بلھیا کیہہ جانا میں کون
نہ میں عربی نہ لاہوری
نہ میں ہندی شہر نگوری
نہ ہندو نہ ترک پشوری
نہ میں رہندا وچ ندون
بلھیا کیہہ جانا میں کون
نہ میں بھیت مذہب دا پایا
نہ میں آدم حوا جایا
نہ میں اپنا نام دھوایا
نہ وچ بیٹھن نہ وچ بھون
بلھیا کیہہ جانا میں کون
اول آخر آپ نوں جاناں
نہ کوئی دوجا ہور پچھاناں
میتھوں ہور نہ کوئی سیاناں
بلھیا شوءکھڑا ہے کون
بلھیا کیہہ جانا میں کون
عشق اور عقل کی جنگ کلاسیکل شاعری کی طرح صوفی شاعری کا بھی بنیادی عنوان رہی ہے۔ صوفی ہمیشہ سے عقل و عشق کی برتری کے قائل رہے ہیں، ان کے نزدیک عشق کی جو ایک جست میں قصہ تمام کر دیتا ہے وہ عقل کی ہزاروں پُر خارروادیاں طے کرنے سے قاصر رہتی ہیں، غالباً یہی وجہ ہے کہ صوفی شاعر نے علم پر طعنے کسے ہیں۔ بابا بلّھے شاہ بار بار اپنے شعروں میں علم پر طنز کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اسی علم کی بنیاد پر دنیا میں منافقتوں اور برائیوں نے جنم لیا۔
علموں بس کریں اور یار
اکو الف ترے درکار
علم نہ آوے وچ شمار
جاندی عمر، نہیں اعتبار
اکو الف ترے درکار
علموں بس کریں اور یار
پڑھ پڑھ ، لکھ لکھ لاویں ڈھیر 
ڈھیر کتاباں چار چوفیر
کر دے چانن ، وچ انھیر
پچھو ”راہ“؟ تے خبر نہ سار
علموں بس کریں او یار
پڑھ پڑھ شیخ مشائخ کہاویں
اُلٹے مسئلے گھروں بتاویں
بے علماں نوں لٹ لٹ کھاویں
چوتھے سچے کریں اقرار
علموںب س کریں او یار
پڑھ پڑھ نفل نماز گزاریں
اچیاں بانگاں چانگاں ماریں
منبر تے چڑھ وعظ پکاریں
کیتا تینوں علم خوار
علموں بس کریں او یار
جد میں سبق عشق دا پڑھیا
دریا دیکھ وحدت دا وڑیا
گھمن گھیراں دے وچ اڑیا
شاہ عنایت لایا یار
علموں بس کریں او یار
عبادت کا ایک تصور وہ ہوتا ہے جو ہمارے مولوی کے پاس ہے جس میں تسبیح پردا نے گن گن کر بندگی کا حساب رکھا جاتا ہے۔ اس کے برعکس صوفی کی عبادت میں شیفتگی ، بے لوثیت اور برجستگی ہوتی ہے اور وہ رسوم عبودیت کی حدوں کا قائل نہیں ہوتا۔ بلّھے شاہ کی درج ذیل نظم میں شاندار علامتوں کے ذریعے اس فرق کو واضح کیا گیا ہے۔
راتیں جاگیں ، کریں عبادت راتیں جاگن کتے
تیتھوں اُتے بھونکنوں بند مول نہ ہوندے
جا رُوڑی تے ستے تیتھوں اُتے
کھسم اپنے دا در نہ چھڈ دے بھانویں وجن جُتے تیتھوں اُتے
٭٭٭
مکمل تحریر اور تبصرے>>

حضرت داتا گنج بخش رحمت اللہ علیہ

حضرت داتا گنج بخش رحمت اللہ علیہ کا مختصر تعارف
تحریر: اسبطین حیدر شاہ آف شاہ کوٹ
حضرت داتا گنج بخش ؒ کا اصل نام علی بن عثمان بن علی ہے ۔ کشف المحجوب میں آپ نے اپنا نام ابوالحسن علی بن عثمان بن علی الجلابی الہجویری الغزنوی تحریر فرمایاہے۔ گویا کہ آپ کا نام علی، کنیت ابوالحسن ، لقب گنج بخش ، والد گرامی کا نام عثمان، سکونت غزنی شہر ، محلہ ہجویریہ جلاب ہے۔
شجرہ نسب
آپ کا سلسلہ نسب 9 واسطوں سے سیدنا حضرت علی ابن ابی طالبؓ سے جا ملتا ہے۔ حضرت علی ہجویری بن عثمان بن سید علی بن حضرت عبدالرحمن بن حضرت سید عبداللہ شجاع بن ابو الحسن علی بن حسین اصغر بن سید زید بن حضرت امام حسنؓ بن حضرت علی کرم اللہ وجہہ ابن ابی طالب بن عبدالمطلب قریشی وہاشمی۔ حضرت زیدؓبن حضرت امام حسنؓ جن کا اوپر ذکر کیا گیا ہے معرکہ کرب وبلا میں اپنے چچا حضرت امام حسینؓ کے ساتھ گئے تھے لیکن میدان جنگ سے صحیح وسلامت اپنے بھائی حسن مثنی کی طرح سے واپس آئے تھے۔ سید نا حضرت امام حسن ؓ کے کل آٹھ بیٹے تھے۔
-1حسن مثنی -2زید -3عمر-4قاسم 5۔ابوبکر -6عبدالرحمن -7طلحہ -8عبیداللہ۔ اس طرح آپ کا شجرہ دس واسطوں سے حضرت محمد ﷺ تک پہنچتا ہے۔
ولادت با سعادت
حضرت داتا گنج بخش کی تاریخ ولادت میں اختلاف پایاجاتاہے۔ بعض بزرگان کی روایت کے مطابق آپ 400ھ میں سلطان محمود غزنوی کے عہد حکومت میں پیدا ہوئے تاہم بعض تذکرہ نگاروں اور محققین کی آراءمیں آپ کی ولادت ماہ ربیع الاول 373ھ میں ہوئی۔ حافظ عبداللہ فاروق ”شیخ علی ہجویری جو داتا گنج بخش کے نام سے زیادہ مشہور ہیں وہ 1009ءکے قریب پیدا ہوئے۔جن تذکرہ نگاروں نے آپ کی تاریخ ولادت 400ھ سے اتفاق کیا ہے ان کے نام مندرجہ ذیل ہیں۔
محمد دین فوق (داتا گنج بخش)‘ غلام جیلانی مخدوم (سیرت گنج بخش )‘ ضیاءالدین عبدالرحمن (بزم صوفیہ)‘ محمد منیر قریشی (پیر کامل )‘ پروفیسر طفیل سالک (داتا گنج بخش )‘ خالد محمود (داتا گنج بخش اور ان کا عہد )‘ پروفیسر غلام سرور رانا (حضرت داتا گنج بخش )‘ محمد نصیب (صاحب وقت)‘ محمد مسعود کھدرپوش (گنج بخش)‘ مورخ لاہور محمد دین کلیم قادری (مدینتہ الاولیائ)‘ اے جی سکندر شیخ (مقام فقر حضرت داتا گنج بخش)اور ابو العاصم محمد سلیم حماد (حیات وتعلیمات حضرت داتا گنج بخش)۔
تاہم ایک بات طے ہے کہ حضرت داتا گنج بخش سلطان محمود غزنوی کے عہد حکومت میںان کے دارالسلطنت غزنی میں پیدا ہوئے۔ اصل وطن غزنی ہونے کے باوجود آپ بالعموم ہجویری اور جلابی کے نام سے مشہور ہیں۔ غزنی شہر کے محلے جلاب اور ہجویر میں رہنے کی نسبت سے آپ جلابی اور ہجویری کہلائے۔ غرنی شہر کے ان دو محلوں جلاب اور ہجویر کے بارے میں تذکرہ نو یسوں نے خیال ظاہر کیاہے کہ آپ کے آباﺅاجداد پہلے جلاب میں رہتے تھے وہاں سے محلہ ہجویر میں چلے آئے اور آخر وقت تک یہیں قیام پذیر رہے۔ صاحب سفینتہ الاولیاءنے لکھا ہے کہ آپ کی پیدائش آپ کے ننھیال محلہ ہجویرمیں ہوئی اسی نسبت سے آپ ہجویری کہلائے۔
خاندان
آپ کا خاندان غزنی کے ممتاز اور عالم فاضل گھرانوں میں شمار کیا جاتا تھا۔ آپ کے نانا غزنی کی سرکردہ شخصیات میں شمار کئے جاتے تھے اور مالی اعتبار سے یہ ایک مضبوط اور مستحکم خاندان تصور کیا جاتا تھا۔ پورا خاندان روحانیت اور متصوخانہ عقائد کی بناءپر علم وعمل کا گہوارہ تھا۔ آپ کے ماموں اپنے زہد وتقویٰ کی بناءپر ”تاج الاولیائ“ کے لقب سے معروف تھے، شرافت اور صداقت میں ان کا کوئی ثانی نہ تھا۔ خاندان سادات سے تعلق ہونے کی وجہ سے بھی لوگ ہمیشہ انہیں احترام کی نگاہ سے دیکھتے اور معزز تصور کئے جاتے تھے۔
والد گرامی
ابتداءمیں آپ کو کافی مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ۔ آپ چونکہ عالم دین تھے اس لئے اپنے فارغ اوقات میں دینی اور علمی خدمات میں مصروف رہتے۔ آپ نے تمام عمر رزق حلال کمایا اور اپنے اہل وعیال کی کفالت کی۔ ہر ایک سے محبت اور خلوص سے پیش آتے۔ غریبوں، محتاجوں، مسکینوں، ضرورت مندوں کی بلاتخصیص مدد فرماتے اور ان کی دلجوئی کرتے۔ قرآن پاک کی تلاوت ان کا روزانہ کا معمول تھا ‘کم گو تھے آپ میں وہ تمام خوبیاں اور کمالات موجود تھے جو ایک متقی، پرہیزگار، زاہد اور عابد شخص کی شخصیت کالازمہ ہوتی ہیں۔ آپ کا وصال غزنی میں ہوا اور یہیں پر آپ مدفون ہوئے۔
والدہ گرامی
آپ کی والدہ ماجدہ ایک نیک سیرت اور پا کباز خاتون تھیں ان کی شادی سید عثمان بن علی سے ہوئی اور حضرت داتا گنج بخش ؒ آپ کی اکلوتی اولادتھے۔ آپ بہت شفیق تھیں‘ شرافت اور دینداری کی وجہ سے پورے خاندان میں نہایت عزت اور احترام کی نگاہ سے دیکھی جاتی تھیں۔ لوگوں سے بہت محبت اور ہمدردی کا سلوک روا رکھتیں۔ بہت مہمان نواز اور سلیقہ شعار خاتون تھیں‘ پردے کی پابند اور شوہرکی اطاعت اپنا فرض اولین سمجھتی تھیں۔ آپ کا وصال غزنی میں ہوا اور آپ کو آپ کے بھائی تاج الاولیاءکے مزارکے قریب دفن کیا گیا۔
حلیہ مبارک
”آپ کا قد میانہ‘ جسم سڈول اور گٹھا ہوا تھا، جسم کی ہڈیاں مضبوط اور بڑی تھیں۔ فراخ سینہ اور ہاتھ پاﺅں مناسب تھے۔ چہرہ گول تھا نہ لمبا، سرخ وسفید چمکدار رنگت،کشادہ جبین اور بال سیاہ گھنے تھے۔ بڑی اور غلافی آنکھوں پر خمدار گھنی ابرو تھیں۔ ستواںناک درمیانے ہونٹ اور رخسار بھرے ہوئے تھے چوڑے اور مضبوط شانوں پر اٹھتی ہوئی گردن تھی۔ ریش مبارک گھنی تھی آپ بڑے جاذب نظر اور پر کشش تھے“۔
گویا کہ آپ لباس کے معاملے میں کسی قسم کا تکلف نہیں برتتے تھے جو ملتا تھا صبر وشکر کے ساتھ اس کو زیب تن کرلیتے ۔ لباس دکھا وے اور نمود ونمائش کے لئے نہیں صرف تن ڈھانپنے کے لئے استعمال کرتے تھے۔
تعلیم و تربیت
 غزنی ان دنوں علم وادب کا گہوارہ تھا شہر میں کئی مدرسے تھے جن میں تعلیم وتربیت کا بہترین انتظام تھا۔ آپ نے قرآن مجید کی تعلیم اپنے والد یا کسی استاد سے چار سال کی عمر میں حاصل کرنی شروع کی۔ فطری طور پر خدا نے انہیں بہت اچھا حافظہ دیا تھا۔ آپ بہت ذہین تھے چنانچہ تھوڑے دنوں میں آپ نے قرآن پاک پڑھ لیا۔
حصول علم شریعت
قرآن مجید کی ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد حضرت علی ہجویریؒ نے غزنی کے مختلف مدارس سے اس دور کے مروجہ علوم یعنی عربی اور فارسی کی تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد علم فقہ‘ علم حدیث وتفسیر‘ علم منطق اور فلسفہ پر عبور حاصل کیا۔ اس طرح آپ کو علم شریعت میں پوری طرح مہارت حاصل ہوگئی۔ اس کے بعد مختلف شہروں میں علوم ظاہری و باطنی کی سعی کی۔ علمی پختگی حاصل کرنے کے لئے آپ نے جن اساتذہ سے فیض حاصل کیا ان کی تفصیل کچھ اس طرح سے ہے۔
شیخ ابوالقاسم‘ عبدالکریم بن ہوازن القشیری، ابوالفضل محمد بن الحسن الختلی، امام ابوالعباس بن محمد اشفانی، شیخ ابوسعید ابوالخیر، خواجہ احمد مظفر بن احمد بن حمدان، ابوالعباس بن محمد قصاب‘ ابو جعفر محمدبن مصباح صدلانی باب فرغانی‘ حضرت ابوعبداللہ بن علی الداغستانی‘ حضرت شیخ ابوالقاسم بن علی بن عبداللہ گرگانی کے نام قابل ذکر ہیں۔
سلسلہ بیت اورمرشد طریقت
بیعت عربی زبان کا لفظ ہے اور بارع سے نکلا ہے۔ اس کے معنی دونوں ہاتھوں کے درمیان فاصلہ کے ہیں۔ حضرت علی ہجویری داتا گنج بخشؒ کا تعلق سلسلہ جنیدیہ سے ہے۔ حضرت جنید بغدادی طریقت کے شیخ المشائخ اور شریعت کے امام الائمہ ہیں۔ آپ کا یہ سلسلہ حضرت جنید بغدادی کی طرف منسوب ہے۔ مسلک جنیدیہ تمام مسالک میں معروف ہے۔ اس لئے بہت سے صوفیا روحانیت میں اس سلسلہ طریقت سے مستفید ہوئے ہیں ۔ حضرت داتا گنج بخشؒ جس زمانے میں سیرو سیاحت میں مشغول تھے تو ایک دفعہ سفر شام میں جب وہ ملک شام پہنچے تو وہاں آپ کی ملاقات حضرت ابو الفضل محمد بن حسن ختلی سے ہوئی۔ آپ ان کی عالمانہ اور عارفانہ گفتگو سے اتنے متاثر ہوئے کہ ان کے دست مبارک پر بیعت ہوگئے۔
تربیت اساتذہ
حضرت علی ہجویری المعروف داتا گنج بخش ؒ نے یوں تو بہت سے اساتذہ کرام سے کسب فیض کیا لیکن جن سے ان کو روحانی اور دلی تعلق رہا اور جن کے فضائل کا ذکر اپنی مشہور تالیف ”کشف المحجوب “میں کیا ہے ۔ آپ قرآن اور حدیث کے زبردست عالم تھے۔ زہد و تقویٰ میں کوئی ان کے پایہ کا نہیں تھا۔ ساٹھ برس تک مسلسل لوگوں سے الگ تھلگ پہاڑوں پر یاد خدا میں وقت گزارتے تھے۔ آپ ختلان کے رہنے والے تھے اس لئے آپ کو ختلی کہاجاتاہے ۔ آپ نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ ملک شام کے شہر دمشق کی ایک وادی ”بیت الجن“ میں گزارا۔ حضرت علی ہجویری ؒفرماتے ہیں کہ میں نے آپ سے زیادہ بارعب‘ صاحب جلال اور دبد بے والا انسان نہیں دیکھا۔ آپ بہت کم کھاتے اور اپنے عقیدت مند وں کو بھی اس کی تلقین فرماتے۔ آپ صوفیوں کے ظاہری لباس اور روایات کے پابند نہیں تھے۔ بہت معمولی لباس زیب تن کیا کرتے تھے‘ دھو کر پھر وہی پہن لیتے‘ پھٹ جاتا پیوند لگا لیتے ، یہاں تک کہ اصل کپڑے کا نشان بھی باقی نہ رہا۔
مرشد کی کرامات
حضرت علی ہجویری ؒایک اور جگہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ میں اپنے پیرو مرشد کے ساتھ بیت الجن سے دمشق کا سفرکررہا تھا راستے میں بارش ہوگئی جس کی وجہ سے بے انتہا کیچڑ ہوگیا ہم بہت مشکل سے چل رہے تھے کہ اچانک میری نظر مرشد پر پڑی تو کیا دیکھتا ہوں کہ ان کا لباس بھی خشک ہے اور پاﺅں پر بھی کہیں کیچڑ کا نشان نہیں۔ مجھے بڑی حیرت ہوئی دریافت کیا تو فرمایا ہاں جب سے میں نے اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے ہر قسم کے وہم اور شبہ کو دور کردیا ہے اور دل کو حرص ولالچ کی دیوانگی سے محفوظ کر لیا ہے تب سے اللہ تعالی نے میرے پاﺅں کو کیچڑ سے محفوظ کر رکھا ہے۔
مشہور کرامات
روایت ہے کہ ایک روز سید علی ہجویریؒ اپنی قیام گاہ پر تشریف فرما تھے اور یاد الٰہی میں مصروف تھے کہ ایک بوڑھی عورت کا گزر ادھر سے ہوا‘ جس کے سر پر دودھ سے بھرا ہوا مٹکا تھا۔ آپ نے اس عورت سے کہا کہ تم اس دودھ کی قیمت لے کر دودھ دے دو۔ اس عورت نے جواب دیا کہ یہ دودھ آپ کو نہیں دے سکتی، کیونکہ یہ دودھ رائے راجو کو دیتی ہوں، اگر نہ دیں تو اس کے اثر سے بھینسوں کے تھنوں سے دودھ کی جگہ خون نکلنے لگتاہے۔
آپ نے عورت کی یہ بات سن کر کہا کہ اگر تم یہ دودھ ہمیں دے جاﺅ، تو اللہ کی رحمت اور فضل سے تمہاری بھینسیں پہلے سے بھی زیادہ دودھ دیں گی اور تم ہر قسم کی آفت سے بھی محفوظ رہوگی۔ آپ کی یہ باتیں سن کر وہ عورت رضامند ہوگئی، چنانچہ اس نے دودھ آپ کو دے دیا اور واپس لوٹ گئی۔
شام کو جب اس نے اپنے جانور وں کو دوہا تو انہوں نے روز کی نسبت زیادہ دودھ دیا یہاں تک کہ اس گھر کے سب برتن بھر گئے اللہ تعالی نے اس کے دودھ میں برکت ڈال دی۔ یہ خبر جلد ہی لاہور کے قرب وجوار میں پھیل گئی کہ لاہور کے باہر اللہ کا ایک فقیر ہے اس کو دودھ دیں تو دودھ اللہ کی برکت سے بڑھ جاتاہے۔ چنانچہ دودھ میں برکت کی خاطر لوگ آپ کے پاس دودھ لانے لگے، آپ اپنی ضرورت کا دودھ لے کر باقی دودھ لوگوں میں تقسیم کردیتے ۔ آپ کی اس کرامت کو دیکھ کر لوگوں نے رائے راجو کو دودھ دینا بند کر دیا اور اس کے خلاف ہوگئے۔
 رائے راجو کو جب اصل حقیقت کا علم ہوا کہ اب اس فقیر کی دعا سے اس کا جادو بھینسوں کے تھنوں پر نہیں چلتا تو اس نے سوچا کہ کیوں نہ اپنے جادو کو تیز کر کے فقیر کو یہاں سے بھگا دیا جائے۔ مگر وہ نہیں جانتا تھا کہ اللہ کے فقیروں کے ساتھ خدا کی مدد شامل حال رہتی ہے۔ چنانچہ انتقامی جذبے کے تحت وہ آپ کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ آپ نے ہمارا دودھ تو بند کرا دیا اب ہمارے ساتھ مقابلہ کرو ۔ رائے راجو نے زبان میں کچھ پڑھا اور ہوا میں اڑنے لگا اور خدا کے فضل سے آپؒ کی جوتیاں ہوا میں بلند ہوکر اس کے سر پر پڑنے لگیں تو وہ زمین پر اتر آیا۔
آخر وہ آپؒ کے قدموں میں گر گیا اور مسلمان ہوگیا۔ یہی بے بسی اس کا مقدر جگاگئی اور وہ سلوک کی منزل پر گامزن ہوگیا اور شیخ ہندی ؒ بن گیا۔
وصال مبارک
حضرت داتا گنج بخش ؒ نے اپنی زندگی کے 34 سال لاہور شہر میں گزارے اور اسی شہر میں ہی چند روز کی علالت کے بعد اس جہانِ فانی کو خیر بادکہا اور اپنے حجرے میں ہی جہاں ان کا قیام تھا انتقال فرمایا اور آپ کے خلیفہ حضرت شیخ ہندی ؒ نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اور آپ کو اسی مقام پر جہاں آپ نے وفات پائی تھی دفن کر دیاگیا۔ جہاں آج بھی آپ کا مزار مرجع خلائق ہے اور آسمان ان کی لحد پر شبنم افشانی کر تا ہے۔
مکمل تحریر اور تبصرے>>

Monday 21 October 2013

محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم















فہرست

ابتدائی حالات




ولادت با سعادت

حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سن ایک عام الفیل (570ء) میں ربیع الاول کے مبارک مہینےمیں بعثت سے چالیس سال پہلے مکہ میں پیدا ہوئے۔ ان کی پیدائش پر معجزات نمودار ہوئے جن کا ذکر قدیم آسمانی کتب میں تھا۔ مثلاً آتشکدہ فارس جو ھزار سال سے زیادہ سے روشن تھا بجھ گیا۔ مشکوٰۃ کی ایک حدیث ہے جس کے مطابق حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ' میں اس وقت بھی نبی تھا جب آدم مٹی اور پانی کے درمیان تھے۔ ۔ ۔ میں ابراہیم علیہ السلام کی دعا، عیسیٰ علیہ السلام کی بشارت اور اپنی والدہ کا وہ خواب ہوں جو انہوں نے میری پیدائش کے وقت دیکھا اور ان سے ایک ایسا نور ظاہر ہوا جس سے شام کے محلات روشن ہو گئے'[3][4]۔
جس سال آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پیدائش ہوئی اس سے پہلے قریش معاشی بدحالی کا شکار تھےمگر اس سال ویران زمین سرسبز و شاداب ہوئی، سوکھے ہوئے درخت ہرے ہو گئے اور قریش خوشحال ہو گئے[5] ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تاریخ پیدائش کے بارے میں مختلف روایات ہیں۔ اہل سنت کے نزدیک زیادہ روایات 12 ربیع الاول کی ہیں اگرچہ کچھ علماء 9 ربیع الاول کو درست مانتے ہیں۔ اہلِ تشیع 17 ربیع الاول کو درست سمجھتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا نام آپ کے دادا حضرت عبدالمطلب نے رکھا۔ یہ نام اس سے پہلے کبھی نہیں رکھا گیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ولادت مکہ کے علاقے شعب ابی طالب کے جس گھر میں ہوئی وہ بعد میں کافی عرصہ ایک مسجد رہی جسے آج کل ایک کتاب خانہ (لائبریری) بنا دیا گیا ہے۔

خاندانِ مبارک

  • تفصیلی مضمون کے لئے ملاحظہ کریں:
آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا تعلق قریشِ عرب کے معزز ترین قبیلہ بنو ھاشم سے تھا۔ اس خاندان کی شرافت ، ایمانداری اور سخاوت بہت مشہور تھی۔ یہ خاندان حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دین پر تھا جسے دینِ حنیف کہتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے والد عبداللہ بن عبدالمطلب اپنی خوبصورتی کے لیے مشہور تھے مگر ان کا انتقال آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پیدائش سے چھ ماہ پہلے ہوگیا تھا۔ والدہ کا نام حضرت آمنہ بنت وھب تھا جو قبیلہ بنی زھرہ کے سردار وھب بن عبدمناف بن قصی بن کلاب کی بیٹی تھیں۔ یعنی ان کا شجرہ ان کے شوھر عبداللہ بن عبدالمطلب کے ساتھ عبد مناف بن قصی کے ساتھ مل جاتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دادا عبدالمطلب قریش کے سردار تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا شجرہ نسب حضرت عدنان سے جا ملتا ہے جو حضرت اسماعیل علیہ السلام ابن حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں سے تھے۔ اور مشہور ترین عربوں میں سے تھے۔ حضرت عدنان کی اولاد کو بنو عدنان کہا جاتا ہے۔ یہ شجرہ یوں ہے۔
محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب بن ھاشم بن عبد مناف بن قصی بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لوی بن غالب بن فھر بن مالک بن نضر بن کنانہ بن خزیمہ بن مدرکہ بن الیاس بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان
(عربی میں : محمد بن عبدالله بن عبد المطلب بن هاشم بن عبد مناف بن قصي بن كلاب بن مرة بن كعب بن لؤي بن غالب بن فهر بن مالك بن النضر بن كنانة بن خزيمة بن مدركة بن الياس بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان )

بچپن







آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے والد محترم حضرت عبداللہ ابن عبدالمطلب آپ کی ولادت سے چھ ماہ قبل وفات پا چکے تھے اور آپ کی پرورش آپ کے دادا حضرت عبدالمطلب نے کی۔ اس دوران آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کچھ مدت ایک بدوی قبیلہ کے ساتھ بسر کی جیسا عرب کا رواج تھا۔ اس کا مقصد بچوں کو فصیح عربی زبان سکھانا اور کھلی آب و ہوا میں صحت مند طریقے سے پرورش کرنا تھا۔ اس دوران آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو حضرت حلیمہ بنت عبداللہ اور حضرت ثویبہ(درست تلفظ: ثُوَیبہ) نے دودھ پلایا۔ چھ سال کی عمر میں آپ کی والدہ اور آٹھ سال کی عمر میں آپ کے دادا بھی وفات پا گئے۔ اس کے بعد آپ کی پرورش کی ذمہ داریاں آپ کے چچا اور بنو ہاشم کے نۓ سردار حضرت ابو طالب نے سرانجام دیں۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت ابو طالب کے ساتھ شام کا تجارتی سفر بھی اختیار کیا اور تجارت کے امور سے واقفیت حاصل کی۔ اس سفر کے دوران ایک بحیرا نامی عیسائی راہب نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں کچھ ایسی نشانیاں دیکھیں جو ایک آنے والے پیغمبر کے بارے میں قدیم آسمانی کتب میں لکھی تھیں۔ اس نے حضرت ابوطالب کو بتایا کہ اگر شام کے یہود یا نصاریٰ نے یہ نشانیاں پا لیں تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی جان کو خطرہ ہو سکتا ہے۔ چنانچہ حضرت ابوطالب نے یہ سفر ملتوی کر دیا اور واپس مکہ آ گئے۔[6] اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا بچپن عام بچوں کی طرح کھیل کود میں نہیں گذرا ہوگا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں نبوت کی نشانیاں شروع سے موجود تھیں۔ اس قسم کا ایک واقعہ اس وقت بھی پیش آیا جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بدوی قبیلہ میں اپنی دایہ کے پاس تھے۔ وہاں حبشہ کے کچھ عیسائیوں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو بغور دیکھا اور کچھ سوالات کیے یہاں تک کہ نبوت کی نشانیاں پائیں اور پھر کہنے لگے کہ ہم اس بچے کو پکڑ کر اپنی سرزمین میں لے جائیں گے۔ اس واقعہ کے بعد حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو مکہ لوٹا دیا گیا۔ [7]۔[8]۔

شام کا دوسرا سفر اور شادی

تقریباً 25 سال کی عمر میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے شام کا دوسرا بڑا سفر کیا جو حضرت خدیجہ علیہا السلام کے تجارتی قافلہ کے لیے تھا۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایمانداری کی بنا پر اپنے آپ کو ایک اچھا تاجر ثابت کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم دوسرے لوگوں کا مال تجارت بھی تجارت کی غرض سے لے کر جایا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم یہ خدمات حضرت خدیجہ علیہا السلام کے لیۓ بھی انجام دیا کرتے تھے۔ اس سفر سے واپسی پر حضرت خدیجہ کے غلام میسرہ نے ان کو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ایمانداری اور اخلاق کی کچھ باتیں بتائیں۔ انہوں نے جب یہ باتیں اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل کو بتائیں تو ورقہ بن نوفل نے کہا کہ جو باتیں آپ نے بتائیں ہیں اگر صحیح ہیں تو یہ شخص یقیناً نبی ہیں[9]۔ آپ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اچھے اخلاق اور ایمانداری سے بہت متاثر ہوئیں اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو شادی کا پیغام دیا جس کو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت ابوطالب کے مشورے سے قبول کر لیا۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عمر 25 سال تھی۔حضرت خدیجہ علیہا السلام قریش کی مالدار ترین اور معزز ترین خواتین میں سے تھیں۔ حضرت خدیجہ علیہا السلام سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی چار بیٹیاں حضرت زینب رضی اللہ تعالٰی عنہ ، حضرت رقیہ رضی اللہ تعالٰی عنہ ، حضرت ام کلثوم رضی اللہ تعالٰی عنہ اور حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنہ پیدا ہوئیں۔ بعض علمائے اہلِ تشیع کے مطابق حضرت فاطمہ علیہا السلام کے علاوہ باقی بیٹیاں حضرت خدیجہ علیہا السلام کے پہلے خاوند سے تھیں۔

بعثت (پہلی وحی)

حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم غوروفکر کے لیۓ مکہ سے باہر ایک غار حرا میں تشریف لے جاتے تھے۔ یہ کوہ حرا کا ایک غار ہے جسے کوہِ فاران بھی کہا جاتا تھا۔ 610ء میں فرشتہ جبرائیل علیہ السلام پہلی وحی لے کر تشریف لائے، اس وقت سورۃ العلق کی وہ آیات نازل ہوئیں جن کا تذکرہ شروع میں ہوا ہے۔ اس وقت حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عمر مبارک تقریباً چالیس برس تھی۔ شروع ہی میں حضرت خدیجہرضی اللہ عنہا، آپ کے چچا زاد حضرت علیرضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے قریبی دوست حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ ، اور آپ کے آزاد کردہ غلام اور صحابی حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر ایمان لے آئے۔ مکہ کے باہر سے پہلے شخص حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ تھے جو اسلام لائے۔ پہلے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے قریبی ساتھیوں میں تبلیغ کی پھر تقریباً پہلی وحی کے تین سال بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دعوتِ ذوالعشیرہ کے بعد سے اسلام کے پیغام کی کھلی تبلیغ شروع کی۔ اکثر لوگوں نے مخالفت کی مگر کچھ لوگ آہستہ آہستہ اسلام کی دعوت قبول کرتے گئے۔

مخالفت

جیسے جیسے اسلام قبول کرنے والوں کی تعداد بڑھتی جا رہی تھی مقامی قبیلوں اور لیڈروں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اپنے لیۓ خطرہ سمجھنا شروع کر دیا۔ ان کی دولت اور عزت کعبہ کی وجہ سے تھی۔ اگر وہ اپنے بت کعبے سے باہر پھینک کر ایک اللہ کی عبادت کرنے لگتے تو انہیں خوف تھا کہ تجارت کا مرکز ان کے ہاتھ سے نکل جاۓ گا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اپنے قبیلے سے بھی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا کونکہ وہ ہی کعبے کے رکھوالے تھے۔ قبائل نے ایک معاہدہ کے تحت مسلمانوں کا معاشی اور معاشرتی بائیکاٹ کیا یہاں تک کہ مسلمان تین سال شعبِ ابی طالب میں محصور رہے۔ یہ بائیکاٹ اس وقت ختم ہوا جب کعبہ پر لٹکے ہوئے معاہدے میں یہ دیکھا گیا کہ لفظ 'اللہ' کے علاوہ تمام حروف دیمک کی وجہ سے کھائے گئے ہیں۔ جب مخالفت حد سے بڑھ گئی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے ساتھیوں کو حبشہ جہاں ایک عیسائی بادشاہ حکومت کرتا تھا کی طرف ہجرت کرنے کی اجازت دے دی۔
619ء میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بیوی حضرت خدیجہ اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پیارے چچا حضرت ابوطالب انتقال فرما گئے۔ اسی لیے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس سال کو عام الحزن یعنی دکھ کا سال قرار دیا۔

معراج

مسجدِ اقصیٰ، جہاں سے سفرِ معراج کی ابتداء ہوئی
620ء میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم معراج پر تشریف لے گئے۔ اس سفر کے دوران آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مکہ سے مسجد اقصیٰ گئے اور وہاں تمام انبیائے کرام کی نماز کی امامت فرمائی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آسمانوں میں اللہ تعالٰی سے ملاقات کرنے تشریف لے گئے۔ وہاں اللہ تعالٰی نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو جنت اور دوزخ دکھایا۔ وہاں آپکی ملاقات مختلف انبیائے کرام سے بھی ہوئی۔ اسی سفر میں نماز بھی فرض ہوئی۔[10]۔

مدنی زندگی

ہجرت

622ء تک مسلمانوں کےلئے مکہ میں رہنا ممکن نہیں رہا تھا۔ کئی دفعہ مسلمانوں اور خود حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو تکالیف دیں گئیں۔ اس وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مسلمانوں کو مدینہ ہجرت کرنے کی اجازت دے دی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اللہ کے حکم سے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ ستمبر 622ء میں مدینہ کی طرف روانہ ہوئے اور مدینہ میں اپنی جگہ حضرت علی علیہ السلام کو امانتوں کی واپسی کے لیے چھوڑا۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مدینہ پہنچنے پر ان کا انصار نے شاندار استقبال کیا اور اپنے تمام وسائل پیش کر دیے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مدینہ پہنچے تو انصار استقبال کے لیے آئے اور خواتین چھتوں پر سے دیکھ رہی تھیں۔ اور دف بجا کر کچھ اشعار پڑھ رہی تھیں جن کا ترجمہ یہ ہے۔
ہم پر چودھویں کی رات کا چاند طلوع ہوگیا وداع کی پہاڑیوں سے ہم پر شکر واجب ہے جب تک کوئی اللہ کو پکارنے والا باقی رہے۔
آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اونٹنی حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے گھر کے سامنے رکی اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کے گھر قیام فرمایا۔ جس جگہ اونٹنی رکی تھی اسے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے قیمتاً خرید کر ایک مسجد کی تعمیر شروع کی جو مسجد نبوی کہلائی۔ اس تعمیر میں انہوں نے خود بھی حصہ لیا۔ یہاں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مسلمانوں کے درمیان عقدِ مؤاخات کیا یعنی مسلمانوں کو اس طرح بھائی بنایا کہ انصار میں سے ایک کو مہاجرین میں سے ایک کا بھائی بنایا۔ خود حضرت علی علیہ السلام کو اپنا بھائی قرار دیا۔ انصار نے مہاجریں کی مثالی مدد کی۔ ہجرت کے ساتھ ہی اسلامی کیلنڈر کا آغاز بھی ہوا۔ آپ کے مدینہ آنے سے، اوس اور خزرج، یہاں کے دو قبائل جن نے بعد میں اسلام قبول بھی کیا میں لڑائی جھگڑا ختم ہوا اور ان میں اتحاد اور بھائی چارہ پیدا ہو گیا۔ اس کے علاوہ یہاں کچھ یہودیوں کے قبائل بھی تھے جو ہمیشہ فساد کا باعث تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے آنے کے بعد یہودیوں اور مسلمانوں کے درمیان ہونے والے معاہدہ 'میثاق مدینہ' نے مدینہ میں امن کی فضا پیدا کر دی۔ اسی دور میں مسلمانوں کو کعبہ کی طرف نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا، اس سے پہلے مسلمان بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز ادا کرتے تھے جو کہ یہودیوں کا بھی قبلہ تھا۔



میثاقِ مدینہ

میثاق مدینہ کو بجا طور پر تاریخ انسانی کا پہلا تحریری دستور قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہ 730 الفاظ پر مشتمل ایک جامع دستور ہے جو ریاست مدینہ کا آئین تھا۔ 622ء میں ہونے والے اس معاہدے کی 53دفعات تھیں۔ یہ معاہدہ اور تحریری دستور مدینہ کے قبائل (بشمول یہود و نصاریٰ) کے درمیان جنگ نہ کرنے کا بھی عہد تھا۔ معاہدے کا بکثرت ثبوت پوری تفصیل کے ساتھ کتبِ تواریخ میں ملتا ہے مگر اس کے باوجود مغربی مصنفین اسے نظر انداز کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔

یہود و مشرکین کی سازشیں

میثاقِ مدینہ کے بعد یہود مجبور تھے کہ وہ علی الاعلان حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور اسلام کے خلاف بات نہ کر سکتے تھے اسی لیے انہوں نے خفیہ سازشیں شروع کیں جن میں سے ایک ادب اور اظہارِ آزادی کی آڑ میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذاتِ گرامی حملہ کرنا تھا۔ عرب لوگ جو شعر و شاعری کے بڑے خوگر تھے ان کے لیے شاعری کے ذریعے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ہتک کرنے کی کوشش کی گئی کیونکہ اسلام میں ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہوتا جب تک حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات کی اہمیت و درجہ مال و جان و اولاد سے زیادہ نہ ہوجائے۔ اس سلسلے میں تین شعراء نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خلاف ہجو لکھیں۔ ایک کا نام کعب بن الاشرف تھا جو یہودی تھا دوسری کا نام اسماء بنت مروان تھا اور تیسرے کا نام ابوعنک تھا۔ جب وہ شاعر حد سے گذر گئے اور ان کے رکیک اشعار سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو شدید رنج پہنچا تو ان تینوں کو انہی کے قبیلے کے افراد نے قتل کر ڈالا۔ کعب بن الاشرف کو ان کی ایک رشتہ دار ابونائلہ نے قتل کیا۔ اسماء بنت مروان کو ان کے ہم قبیلہ ایک بابینا صحابی عمیر بن عوف رضی اللہ عنہ نے قتل کر دیا۔ ابو عنک کو حضرت سالم بن عمیر رضی اللہ عنہ نے قتل کیا۔ [18]

جنگیں

مدینہ میں ایک ریاست قائم کرنے کے بعد مسلمانوں کو اپنے دفاع کی کئی جنگیں لڑنا پڑیں۔ ان میں سے جن میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم شریک تھے انہیں غزوہ کہتے ہیں اور جن میں وہ شریک نہیں تھے انہیں سریہ کہا جاتا ہے۔ اہم غزوات یا سریات درج ذیل ہیں۔
  • غزوہ بدر : 17 رمضان (17 مارچ 624ء) کو بدر کے مقامات پر مسلمانوں اور مشرکینِ مکہ کے درمیان غزوہ بدر ہوئی۔ مسلمانوں کی تعداد 313 جبکہ کفار مکہ کی تعداد 1300 تھی۔ مسلمانوں کو جنگ میں فتح ہوئی۔ 70 مشرکینِ مکہ مارے گئے جن میں سے 36 حضرت علی علیہ السلام کی تلوار سے ھلاک ہوئے۔ مشرکین 70 جنگی قیدیوں کو چھوڑ کر بھاگ گئے۔ مسلمان شہداء کی تعداد 14 تھی۔ جنگ میں فتح کے بعد مسلمان مدینہ میں ایک اہم قوت کے طور پر ابھرے۔

  • غزوہ احد :7 شوال (23 مارچ 625ء) میں ابوسفیان کفار کے 3000 لشکر کے ساتھ مدینہ پر حملہ آور ہوا۔ احد کے پہاڑ کے دامن میں ہونے والی یہ جنگ غزوہ احد کہلائی۔ آپ نے مسلمانوں کے ایک گروہ کو ایک ٹیلے پر مقرر فرمایا تھا اور یہ ہدایت دی تھی کہ جنگ کا جو بھی فیصلہ ہو وہ اپنی جگہ نہ چھوڑیں۔ ابتدا میں مسلمانوں نے کفار کو بھاگنے پر مجبور کر دیا۔ ٹیلے پر موجود لوگوں نے بھی یہ سوچتے ہوئے کہ فتح ہو گئی ہے کفار کا پیچھا کرنا شروع کر دیا یا مالِ غنیمت اکٹھا کرنا شروع کر دیا۔ خالد بن ولید جو ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے اس بات کا فائدہ اٹھایا اور مسلمانوں پر پچھلی طرف سے حملہ کر دیا۔ یہ حملہ اچانک تھا۔ مسلمانوں کو اس سے کافی نقصان ہوا لیکن کفار چونکہ پیچھے ہٹ چکے تھے اس لئے واپس چلے گئے۔ اس جنگ سے مسلمانوں کو یہ سبق ملا کہ کسی بھی صورت میں رسول اکرم کے حکم کی خلاف ورزی نہ کریں۔

  • غزوہ خندق (احزاب): شوال۔ ذی القعدہ (مارچ 627ء) میں مشرکینِ مکہ نے مسلمانوں سے جنگ کی ٹھانی مگر مسلمانوں نے حضرت سلمان فارسی کے مشورہ سے مدینہ کے ارد گرد ایک خندق کھود لی۔ مشرکینِ مکہ ان کا کچھ نہ بگاڑ سکے۔ خندق کھودنے کی عرب میں یہ پہلی مثال تھی کیونکہ اصل میں یہ ایرانیوں کا طریقہ تھا۔ ایک ماہ کے محاصرے اور اپنے کئی افراد کے قتل کے بعد مشرکین مایوس ہو کر واپس چلے گئے۔ بعض روایات کے مطابق ایک آندھی نے مشرکین کے خیمے اکھاڑ پھینکے۔





  • غزوہ فتح (فتحِ مکہ): رمضان 8ھ (جنوری 630ء) میں مسلمانوں نے مکہ فتح کیا۔ جنگ تقریباً نہ ہونے کے برابر تھی کیونکہ مسلمانوں کی ہیبت سے مشرکینِ مکہ ڈر گئے تھے۔ اس کے بعد مکہ کی اکثریت مسلمان ہو گئی تھی۔

  • غزوہ حنین: شوال (جنوری ۔ فروری 630ء) میں یہ جنگ ہوئی۔ پہلے مسلمانوں کو شکست ہو رہی تھی مگر بعد میں وہ فتح میں بدل گئی۔

  • غزوہ تبوک: رجب (اکتوبر 630ء) میں یہ افواہ پھیلنے کے بعد کہ بازنطینیوں نے ایک عظیم فوج تیار کر کے شام کے محاذ پر رکھی ہے اور کسی بھی وقت حملہ کیا جا سکتا ہے، مسلمان ایک عظیم فوج تیار کر کے شام کی طرف تبوک کے مقام پر چلے گئے۔ وہاں کوئی دشمن فوج نہ پائی اس لیے جنگ نہ ہو سکی مگر اس علاقے کے کئی قبائل سے معاہدے ہوئے اور جزیہ ملنے لگا اور مسلمانوں کی طاقت کے چرچے عرب میں دور دور تک ہو گئے۔

صلح حدیبیہ

  • تفصیلی مضمون کے لئے ملاحظہ کریں:
مدینہ اورمشرکینِ مکہ کے درمیان مارچ 628ء کو ایک معاہدہ ہوا جسے صلح حدیبیہ (عربی میں صلح الحديبية ) کہتے ہیں۔ 628ء (6 ھجری) میں 1400 مسلمانوں کے ہمراہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مدینہ سے مکہ کی طرف عمرہ کے ارادہ سے روانہ ہوئے۔ عرب کے رواج کے مطابق غیر مسلح افراد چاہے وہ دشمن کیوں نہ ہوں کعبہ کی زیارت کر سکتے تھے جس میں رسومات بھی شامل تھیں۔ یہی وجہ تھی کہ مسلمان تقریباً غیر مسلح تھے۔ مگر عرب کے رواج کے خلاف مشرکینِ مکہ نے حضرت خالد بن ولید (جو بعد میں مسلمان ہو گئے) کی قیادت میں دو سو مسلح سواروں کے ساتھ مسلمانوں کو حدیبیہ کے مقام پر مکہ کے باہر ہی روک لیا۔ اس وقت تک مسلمان انتہائی طاقتور ہو چکے تھے مگر یہ یاد رہے کہ اس وقت مسلمان جنگ کی تیاری کے ساتھ نہیں آئے تھے۔ اسی لیے بعض لوگ چاہتے تھے کہ جنگ ضرور ہو۔ خود مسلمانوں میں ایسے لوگ تھے جن کو معاہدہ کی شرائط پسند نہیں تھیں۔ مثلاً اگر کوئی مسلمان مکہ کے لوگوں کے کے پاس چلا جائے تو اسے واپس نہیں کیا جائے گا مگر کوئی مشرک مسلمان ہو کر اپنے بزرگوں کی اجازت کے بغیر مدینہ چلا جائے تو اسے واپس کیا جائے گا۔ مگر حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی دانشمندی سے صلح کا معاہدہ ہو گیا۔ اس کی بنیادی شق یہ تھی کہ دس سال تک جنگ نہیں لڑی جائے گی اور مسلمان اس سال واپس چلے جائیں گے اور عمرہ کے لیے اگلے سال آئیں گے۔ چنانچہ مسلمان واپس مدینہ آئے اور پھر 629ء میں حج کیا۔ اس معاہدہ سے پہلے جب مسلمانوں کے ایک نمائندے کو مشرکین نے روک لیا تھا تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مسلمانوں سے اپنی بیعت بھی لی جسے بیعتِ رضوان کہا جاتا ہے۔ اس بیعت میں مسلمانوں نے عہد کیا کہ وہ مرتے دم تک حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے۔ اس معاہدہ کے بہت سود مند اثرات برآمد ہوئے۔

حکمرانوں کو خطوط

صلح حدیبیہ کے بعد محرم 7ھ میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مختلف حکمرانوں کو خطوط لکھے اور اپنے سفیروں کو ان خطوط کے ساتھ بھیجا۔ ان خطوط میں اسلام کی دعوت دی گئی۔ ان میں سے ایک خط ترکی کے توپ کاپی نامی عجائب گھر میں موجود ہے۔ ان حکمرانوں میں فارس کا بادشاہ خسرو پرویز، مشرقی روم (بازنطین) کا بادشاہ ھرکولیس، حبشہ کا بادشاہ نجاشی، مصر اور اسکندریہ کا حکمران مقوقس اور یمن کا سردار شامل ہیں۔ پرویز نے یہ خط پھاڑ دیا تھا اور بعض روایات کے مطابق حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے پیشینگوئی کی تھی کہ اس کی سلطنت اسی طرح ٹکرے ٹکرے ہو جائے گی۔ نجاشی نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نبوت کی تصدیق کی اور کہا کہ ہمیں انجیل میں ان کے بارے میں بتایا گیا تھا۔ مصر اور اسکندریہ کے حکمران مقوقس نے نرم جواب دیا اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں کچھ تحائف روانہ کیے اور حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا کو روانہ کیا جب سے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بیٹے ابراہیم کی ولادت ہوئی۔[19]۔

فتح مکہ

اگرچہ صلح حدیبیہ کی مدت دس سال طے کی گئی تھی تاہم یہ صرف دو برس ہی نافذ رہ سکا۔ بنو قزع کا حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے اتحاد جبکہ ان کے مخالف بنو بکر مکہ کے ساتھ تھے۔ ایک رات بنو بکر کے کچھ آدمیوں نے شب خون مارتے ہوئے بنو قزعہ کے کچھ لوگ قتل کر دیے۔ قریش نے ہتھیاروں کے ساتھ اپنے اتحادیوں کی مدد کی جبکہ بعض روایات کے مطابق چند قریش بذات خود بھی حملہ آروں میں شامل تھے۔ اس واقعہ کے بعد نبی اکرم نے قریش کو ایک تین نکاتی پیغام بھیجا اور کہا کہ ان میں سے کوئی منتخب کر لیں: 1۔ قریش بنو قزعہ کو خون بہا ادا کرے، 2۔ بنو بکر سے تعلق توڑ لیں، 3۔ صلح حدیبیہ کو کالعدم قرار دیں۔
قریش نے جواب دیا کہ وہ صرف تیسری شرط تسلیم کریں گے۔ تاہم جلد ہی انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا اور ابو سفیان کو معاہدے کی تجدید کے لئے روانہ کیا گیا لیکن نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس کی درخواست رد کر دی۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس وقت تک قریش کے خلاف چڑھائی کی تیاری شروع کر چکے تھے۔
630ء میں انہوں نے دس ہزار مجاہدین کے ساتھ مکہ کی طرف پیش قدمی شروع کر دی۔ مسلمانوں کی ہیبت دیکھ کر بہت سے مشرکین نے اسلام قبول کر لیا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے عام معافی کا اعلان کیا۔ ایک چھوٹی سے جھڑپ کے علاوہ تمام کارروائی پر امن انداز سے مکمل ہو گئی اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فاتح بن کر مکہ میں داخل ہو گئے۔ داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے آپ نے کعبہ میں موجود تمام بت توڑ ڈالے اور شرک و بت پرستی کے خاتمے کا اعلان کیا۔

حجۃ الوداع

حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی زندگی کا آخری حج سن 10ھ میں کیا۔ اسے حجۃ الوداع کہتے ہیں۔ آپ 25 ذی القعدہ 10ھ (فروری 632ء) کو مدینہ سے روانہ ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ازواج آپ کے ساتھ تھیں۔ مدینہ سے 9 کلومیٹر دور ذوالحلیفہ کے مقام پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے احرام پہنا۔ دس دن بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مکہ پہنچ گئے۔ حج میں مسلمانوں کی تعداد ایک لاکھ بیس ھزار سے زیادہ تھی۔ عرفہ کے دن ایک خطبہ دیا اور اس سے اگلے دن منیٰ میں ایک یادگار خطبہ دیا جو خطبہ حجۃ الوداع کے نام سے مشہور ہے۔ اس خطبہ میں انہوں نے اسلامی تعلیمات کا ایک نچوڑ پیش کیا اور مسلمانوں کو گواہ بنایا کہ انہوں نے پیغامِ الٰہی پہنچا دیا ہے۔ اور یہ بھی تاکید کی کہ یہ باتیں ان لوگوں کو بھی پہنچائی جائیں جو اس حج میں شریک نہیں ہیں۔ اس خطبہ میں انہوں نے یہ فرمایا کہ شاید مسلمان انہیں اس کے بعد نہ دیکھیں۔ انہوں نے فرمایا کہ مسلمان پر دوسرے مسلمان کا جان و مال حرام ہے۔ اور یہ بھی کہ نسل کی بنیاد پر کسی کو کسی پر فوقیت نہیں ہے۔ انہوں نے اسلام کے حرام و حلال پر بھی روشنی ڈالی۔ خطبہ کے آخر میں انہوں نے تاکید کی کہ جو حاضر ہے وہ غائب تک اس پیغام کو پہنچائے۔ ان دو خطبات کے علاوہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے غدیرِ خم کے مقام پر بھی خطبہ دیا جو خطبہ غدیر کے نام سے مشہور ہے۔ اس حج کے تقریباً تین ماہ بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اللہ کو پیارے ہو گئے۔ [20]

وفات

حجۃ الوداع کے فوراً بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کچھ بیمار ہوئے پھر ٹھیک ہو گئے مگر کچھ عرصہ بعد حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پھر بیمار پڑ گئے اورکئی روز تک ان کے سر میں درد ہوتا رہا۔ بالاخر روایات کے مطابق مئی یا جون 632ء میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم انتقال کر گئے۔ بعض روایات کے مطابق جنگِ خیبر کے دوران ایک یہودی عورت نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو زھر دیا تھا جس کے اثر سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بیمار ہوئے۔ غزوہ خیبر کے فوراً بعد بنو نضیر کی ایک یہودی عورت نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو بھیڑ کا گوشت پیش کیا جس میں ایک سریع الاثر زھر ملا ہوا تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اسے یہ محسوس ہونے پر تھوک دیا کہ اس میں زھر ہے مگر ان کے ایک صحابی جو ان کےساتھ کھانے میں شریک تھے، شہید ہو گئے۔ ایک صحابی کی روایت کے مطابق بسترِ وفات پر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ان کی بیماری اس زھر کا اثر ہے جو خیبر میں دیا گیا تھا۔ [21] ۔ انتقال کے وقت آپ کی عمر 63 برس تھی۔ حضرت علی علیہ السلام نے غسل و کفن دیا اور اصحاب کی مختلف جماعتوں نے یکے بعد دیگرے نمازِ جنازہ ادا کی اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو مسجد نبوی کے ساتھ ملحق ان کے حجرے میں اسی جگہ دفن کیا گیا جہاں ان کی وفات ہوئی تھی۔ یہ اور اس کے اردگرد کی تمام جگہ اب مسجدِ نبوی میں شامل ہے۔
مؤمنین کی والدہ
امہات المؤمنین - (ازواج مطہرات)
امہات المومنین

مقالہ بہ سلسلۂ مضامین
اولادِمحمد
حضرت محمد کے بیٹے
قاسم _ عبداللہ _ ابراھیم
حضرت محمد کی بیٹیاں
فاطمہ _ زینب _ ام کلثوم
رقیہ
حضرت فاطمہ کی اولاد
بیٹے
حسن _ حسین
بیٹیاں
زینب _ ام کلثوم

ازواج مطہرات اور اولاد

  • تفصیلی مضمون کے لئے ملاحظہ کریں:
حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مختلف روایات میں گیارہ سے تیرہ ازواج کے نام ملتے ہیں۔ زیادہ تر پہلے بیوہ تھیں اور عمر میں بھی زیادہ تھیں اور زیادہ شادیوں کا عرب میں عام رواج تھا۔ مؤرخین کے مطابق اکثر شادیاں مختلف قبائل سے اتحاد کے لیے یا ان خواتین کو عزت دینے کے لیے کی گئیں۔ ان میں سے اکثر سن رسیدہ تھیں اس لیے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر کثرت ازدواج کا الزام لگانے والوں کی دلیلیں ناکارہ ہو جاتی ہیں۔ ان میں سے صرف حضرت خدیجہ اور حضرت زینب بنت جحش سے اولاد ہوئی۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ازواج کو امہات المؤمنین کہا جاتا ہے یعنی مؤمنین کی مائیں۔ ان کے نام اور کچھ حالات درج ذیل ہیں۔
  • حضرت خدیجہ: آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پہلی شادی حضرت خدیجہ علیہا السلام سے ہوئی۔ ان سے ان کی بیٹی حضرت فاطمہ علیہا السلام پیدا ہوئیں جس پر سب مؤرخین کا اتفاق ہے۔ تین اور بیٹیوں کے بارے میں کچھ مؤرخین کے خیال میں وہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اپنی بیٹیاں تھیں، کچھ کا یہ عقیدہ ہے کہ وہ حضرت خدیجہ علیہ السلام کی پہلے شوھر سے بیٹیاں تھیں اور کچھ یہ بھی لکھتے ہیں کہ باقی بیٹیاں حضرت خدیجہ علیہ السلام کی بہن ھالہ کی بیٹیاں تھیں جو حضرت خدیجہ علیہ السلام کے زیرِ پرورش تھیں کیونکہ ان کی والدہ ھالہ کا انتقال ہو چکا تھا۔
  • حضرت سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا : ان کے پہلے خاوند (جن کے ساتھ انہوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی تھی) کا انتقال حبشہ میں ہوا تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان سے شادی کر کے ان کے ایمان کا تحفظ کیا کیونکہ ان کے قبیلہ کے تمام افراد مشرک تھے۔
  • حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا : ان کے پہلے شوھر حضرت عبداللہ بن جحش کی شہادت جنگِ احد میں ہوئی جس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان سے شادی کر لی۔
  • حضرت ام سلمہ ھند رضی اللہ عنہا : آپ پہلے عبداللہ ابوسلمہ کی زوجیت میں تھیں اور کافی سن رسیدہ تھیں۔ ان کے شوھر کے انتقال کے بعد حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان سے شادی کی۔
  • حضرت صفیہ بنت حی بن اخطب رضی اللہ عنہا : ان کا شوھر جنگِ خیبر میں مارا گیا اور یہ گرفتار ہو کر آئیں تھیں۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے انہیں آزاد کر کے ان سے عقد کر لیا۔
  • حضرت جویریہ بنت الحارث رضی اللہ عنہا : یہ ایک جنگ کی قیدیوں میں تھیں اور ان کے ساتھ ان کے قبیلہ کے دو سو افراد بھی قید ہو کر آئے تھے۔ مسلمانوں نے سب کو آزاد کر دیا اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت جویریہ سے شادی کر لی تو تمام قبیلہ کے افراد مسلمان ہو گئے۔
  • حضرت میمونہ بنت الحارث الہلالیہ رضی اللہ عنہا : انہوں نے اپنے شوھر کے انتقال کے بعد خود حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے عقد کی خواہش کی جسے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے قبول کیا۔
  • حضرت ام حبیبہ رملہ رضی اللہ عنہا: حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان سے شادی کی تو یہ مسلمان تھیں مگر ان کے والد ابو سفیان نے اسلام قبول نہیں کیا تھا۔ روایات میں آتا ہے کہ حضرت امِ حبیبہ اپنے والد ابو سفیان کو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی چادر پر نہیں بیٹھنے دیتی تھیں کیونکہ اس وقت ابو سفیان مشرک تھے۔
  • حضرت حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہا : آپ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بیٹی تھیں۔ آپ کے شوھر خیس بن حذاقہ جنگِ بدر میں مارے گئے تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان سے شادی کی۔
  • حضرت عائشہ بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا: آپ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیٹی تھیں اور کم عمر تھیں اور پہلی شادی ہی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ہوئی۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد کافی عرصہ زندہ رہیں۔ ان سے بے شمار احادیث مروی ہیں۔
  • حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا: ان سے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے تین بیٹے قاسم ، عبداللہ الطاھر اور ابراہیم پیدا ہوئے مگر تینوں کم عمری میں انتقال کر گئے۔
  • حضرت ماریہ القبطیہ رضی اللہ عنہا: بعض روایات کے مطابق آپ کنیزہ تھیں مگر زیادہ روایات کے مطابق آپ سے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے شادی کی تھی چنانچہ آپ بھی امہات المومنین میں شامل ہیں۔

مشہور صحابہ

غیر مسلم مشاہیر کے خیالات

مغربی مصنف مائیکل ہارٹ نے اپنی مشہورِ زمانہ کتاب The Hundred میں دنیا کے ان سو عظیم ترین آدمیوں کا ذکر کیا ہے جنہوں نے دنیا کی تشکیل میں بڑا کردار ادا کیا۔ اس نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو سب سے پہلے شمار پر رکھا ہے۔ مصنف ایک عیسائی ہوکر بھی اپنے دلائل سے یہ ثابت کرتاہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پورے نسل انسانی میں سیّدالبشرکہنے کے لائق ہیں۔[22] تھامس کارلائیل نے 1840ء کے مشہور دروس (لیکچرز) میں کہا کہ ”میں محمد سے محبت کرتاہوں اور یقین رکھتا ہوں کہ ان کی طبیعت میں نام ونمود اور ریا کا شائبہ تک نہ تھا ۔ ہم انہی صفات کے بدلے میں آپ کی خدمت میں ہدیہً اخلاص پیش کرتے ہیں “۔ فرانس کا شہنشاہ نپولین بوناپارٹ کہتاہے ” محمد دراصل سروراعظم تھے ۔15سال کے قلیل عرصے میں لوگوں کی کثیر تعداد نے جھوٹے دیوتاﺅں کی پرستش سے توبہ کرڈالی۔ مٹی کی بنی دیویاں مٹی میں ملا دی گئیں ۔ یہ حیرت انگیز کارنامہ تھا آنحضرت کی تعلیم کا “۔ جارج برناڈشا لکھتا ہے ” موجودہ انسانی مصائب سے نجات ملنے کی واحد صورت یہی ہے کہ محمد اس دنیا کے رہنما بنیں “۔ گاندھی لکھتا ہے کہ ” بانی اسلام نے اعلیٰ اخلاق کی تعلیم دی جس نے انسان کو سچائی کا راستہ دکھایا اور برابری کی تعلیم دی ۔ میں اسلام کا جتنا مطالعہ کرتاہوں اتنا مجھے یقین راسخ ہوجاتاہے کہ یہ مذہب تلوار سے نہیں پھیلا “۔ جرمنی کا مشہور ادیب شاعر اور ڈرامہ نگار ”گوئٹے “ حضور کا مداح اور عاشق تھا ۔اپنی تخلیق ”دیوانِ مغربی“میں گوئٹے نے حضور اقدس کی بارگاہ میں جگہ جگہ عشق محمد کا اظہار کیا ہے اور ان کے قدموں میں عقیدت کے پھول نچھاور کئے ہیں ۔ فرانس کے محقق ڈی لمرٹائن نے اپنی کتاب ”تاریخِ ترکی“ میں انسانی عظمت کے لئے جو معیار قائم کیا اس ضمن میں فاضل تاریخ دان لکھتاہے ” اگر انسانی عظمت کو ناپنے کے لئے تین شرائط اہم ہیں جن میں (۱) ۔ مقصد کی بلندی ، (۲) ۔ وسائل کی کمی، (۳)۔حیرت انگیر نتائج ۔ تو اس معیار پر جدید تاریخ کی کو ن سی شخصیت محمد سے ہمسری کا دعویٰ کرسکتی ہے “۔ فرانسیسی مصنف دی لمرتین لکھتاہے ” فلسفی ، مبلغ ، پیغمبر ، قانون سا ز ، سپاہ سالار، ذہنو ں کا فاتح ، دانائی کے عقائد برپا کرنے والا ، بت پرستی سے پاک معاشرہ تشکیل دینے والا ۔ بیسیوں ریاستوں کو ایک روحانی سلطنت میں متحد کرنے والا....وہ محمد ہیں ....جہاں تک انسانی عظمت کے معیار کا تعلق ہے ہم پوچھ سکتے ہیں کہ ان معیاروں پر پورا اُترنے والا محمد سے بھی کوئی برتر ہوسکتا ہے “۔؟ ڈاکٹر شیلے پیغمبر آخرالزماں کی ابدیت اور لاثانیت کا اقرار کرتے ہوئے لکھتے ہیں ” محمد گزشتہ اور موجودہ لوگوں میں سب سے اکمل اور افضل تھے اور آئندہ ان کا مثال پیدا ہونا محال اور قطعاً غیر ممکن ہے“۔ [23]

آپؐ کی پیشنگوئی دیگر مذاہب میں

آپؐ ایک ایسی ذات تھے جن کی پیشنگوئی اللہ نے ہر اہم مذہب میں ڈالی تھی۔ہندو مذہب کی کتابوں میں محمدؐ کو کلکی کے نام سے موجود ہے۔لفظ کلکی سنسکریت لفظ ہے جس کی معنی "وہ شخص جس کی تعریف کی گئ" اگر ہم عربی میں اس کا ترجمہ کریں تو بن جائیں گا "محمد"۔اسی طرح دیگر مذاہب میں بھی موجود ہے۔مثلاً بدھمت میں آپؐ کو سپریم بددھا کہا گیا ہے اور عیسائیت اور ےھودیت میں تو صاف طور پر پایا جاتا ہے۔
مکمل تحریر اور تبصرے>>

Archive