Tuesday 31 December 2013

Mufti Hanif Qureshi 2012 (1).flv

مکمل تحریر اور تبصرے>>

نمازوں کی فضیلت










امام فقیہ ابواللیث سمرقندی رحمہ اللہ تعالٰی نے حضرت کعب احبار رضی اللہ تعالٰی عنہ سے نقل کیا کہ انہوں نے فرمایا میں نے توریت مقدس کے کسی مقام میں پڑھااے مُوسٰی! فجر کی دو۲ رکعتیں احمد اور اس کی اُمت ادا کرے گی جو انہیں پڑھے گا اُس دن رات کے سارے گناہ اُس کے بخش دُوں گا اور وہ میرے ذمّہ میں ہوگا۔ اے موسٰی! ظہر کی چار۴ رکعتیں احمد اور اس کی اُمّت پڑھے گی انہیں پہلی رکعت کے عوض بخش دُوں گا اور دوسری کے بدلے ان کا پلّہ بھاری کردوں گا اور تیسری کیلئے فرشتے موکل کروں گا کہ تسبیح کریں گے اور ان کے لئے دعائے مغفرت کرتے رہیں گے، اور چوتھی کے بدلے اُن کیلئے آسمان کے دروازے کشادہ کردُوں گا، بڑی بڑی آنکھوں والی حُوریں اُن پر مشتاقانہ نظر ڈالیں گی۔ اے مُوسٰی! عصر کی چار۴ رکعتیں احمد اور ان کی اُمت ادا کرے گی تو ہفت آسمان وزمین میں کوئی فرشتہ باقی نہ بچے گا سب ہی ان کی مغفرت چاہیں گے اور ملائکہ جس کی مغفرت چاہیں میں اسے ہرگز عذاب نہ دُوں گا۔ اے موسٰی! مغرب کی تین رکعت ہیں انہیں احمد اور اس کی اُمت پڑھے گی آسمان کے سارے دروازے ان کیلئے کھول دُوں گا، جس حاجت کا سوال کرینگے اسے پُورا ہی کردوں گا۔ اے موسٰی! شفق ڈوب جانے کے وقت یعنی عشاء کی چار رکعتیں ہیں پڑھیں گے انہیں احمد اور ان کی اُمت، وہ دنیا ومافیہا سے اُن کیلئے بہتر ہیں، وہ انہیں گناہوں سے ایسا نکال دیں گی جیسے اپنی ماؤں کے پیٹ سے پیدا ہوئے۔ اے موسٰی! وضو کرے گا احمد اور اسکی اُمت جیسا کہ میرا حکم ہے میں انہیں عطا فرماؤں گا ہرقطرے کے عوض کہ آسمان سے ٹپکے ایک جنت جس کا عرض آسمان وزمین کی چوڑائی کے برابر ہوگا۔ اے موسٰی! ایک مہینے کے ہرسال روزے رکھے گا احمد اور اس کی اُمت اور وہ ماہِ رمضان ہے عطا فرماؤں گا اسکے ہر دن کے روزے کے عوض جنت میں ایک شہر اور عطا کروں گا اس میں نفل کے بدلے فرض کا ثواب اور اس میں لیلۃ القدر کروں گا جو اس مہینے میں شرمساری وصدق سے ایک بار استغفار کریگا اگر اسی شب یا اس مہینے بھر میں مرگیا اسے تیس۳۰ شہیدوں کا ثواب عطا فرماؤں گا۔ اے موسٰی! امتِ محمدیہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم میں کچھ ایسے مرد ہیں کہ ہر شرف پر قائم ہیں لاالٰہ الااللہ کی شہادت دیتے ہیں تو ان کی جزا اس کے عوض انبیاء علیہم الصلاۃ والسلام کا ثواب ہے اور میری رحمت ان پر واجب اور میرا غضب ان سے دور، اور ان میں سے کسی پر بابِ توبہ بند نہ کروں گا جب تک وہ لاالٰہ الّااللّٰہ کی گواہی دیتے رہیں گے اھ (فقیر محمد حامد رضا غفرلہ)
(۱؎ تنبیہ الغافلین    باب فضل ا مۃ محمد صلی اللہ علیہ وسلم مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان ص ۴۰۴)
مکمل تحریر اور تبصرے>>

Sunday 29 December 2013

Mufti Mohammad Hanif Qureshi sora kooser

مکمل تحریر اور تبصرے>>

Biddat Aur Uski Hakikat Munazra With a Baba Saeed Ahmad Asad

مکمل تحریر اور تبصرے>>

Allama Saeed Ahmed Asad..Milad-un-Nabi SAW..Sawal-o-Jawab

مکمل تحریر اور تبصرے>>

Biddat Aur Uski Hakikat Munazra With a Baba Saeed Ahmad Asad

مکمل تحریر اور تبصرے>>

Quran | Al-Quran | Quran with Urdu Translation | Kanz ul Iman | Quran Recitation | Quran Download | Al-Quran Software | Khazain ul Irfan | Imam Ahmed Raza Khan | Ala Hazrat

مکمل تحریر اور تبصرے>>

Friday 27 December 2013

شب بیداری


شب بیداری کے فضائل

مسلم کی ایک روایت کے مطابق نبی کریم ؐ نماز تہجد کا جب آغاز فرماتے تھے تو پہلے دو مختصر رکعتیں پڑھتے تھے اور صحابہ کرام ؓ کو بھی اس کی تلقین فرمایا کرتے تھے ٭…٭…٭ ’’ رات میں ایک گھڑی ایسی ضرور ہوتی ہے کہ اگر وہ کسی مسلمان کو میسر آ جائے جس میں وہ اللہ تعالیٰ سے دنیا و آخرت کی کسی بھلائی کا سوال کرے تو اللہ اسے وہ خیر ضرور عطا فرماتا ہے اور یہ گھڑی ہر رات آتی ہے‘‘ فرمانِ رسول ؐ ٭…٭…٭ اللہ تعالیٰ نے دن اور رات کی تخلیق فرمائی اور انہیں اپنی قدرت کی دو عظیم نشانیاں قرار دیا۔ دن رات کے اس چکر میں اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں پر کل پانچ نمازیں فرض کیں۔ اور ان پر اجر و ثواب کا وعدہ فرمایا۔ لہٰذا اب ہر مومن پر ان پانچ نمازوں کی ادائیگی فرض ہے اور ان میں کوتاہی قابل مواخذہ جرم ہے۔ ان پانچ فرض نمازوں کے علاوہ کچھ نمازیں استحابی طور پر بھی مقرر کی گئی ہیں تاکہ فرائض میں جو کمی اور کوتاہی رہ جائے ا ن سنتوں ۔نوافل اور مستحبات کے ذریعے اس کی تلافی ہو جائے۔ یوں تو یہ نوافل دن اور رات کے کسی بھی وقت میں ادا کئے جا سکتے ہیں۔ صرف پانچ اوقات اس سے مستثنیٰ ہیں۔ چنانچہ فجر کی سنتوں کے بعد،نماز فجر کے بعد،طلوع آفتاب کے وقت، زوال کے وقت اور نمازعصر کے بعد غروب آفتاب تک کے اوقات میں نوافل پڑھنا ممنوع ہے۔ ان اوقات کے علاوہ جب چاہیں نوافل پڑھے جا سکتے ہیں۔ نوافل اور مستحبات انسان کی اللہ تعالیٰ سے محبت کی دلیل ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ محبت کا تقاضا قرار دیے جاتے ہیں۔ ان کے لیے سب سے افضل وقت رات کا ہے۔ اللہ اور اس کے رسول اکرمؐ نے رات کے وقت نوافل کا اہتمام کرنے والوں کی بڑی فضیلت اور اہمیت بیان فرمائی ہے چنانچہ قرآن کریم کی سورۃ سجدہ آیات نمبر 16 اور 17میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ۔ ’’ان کے پہلو بستروں سے جدا رہتے ہیں وہ اپنے رب کو خوف اور امید کی حالت میں پکارتے ہیں اور ہمارے دیے ہوئے میں سے خرچ کرتے ہیں۔ سو کوئی نفس نہیں جانتا کہ ان کے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک بننے والی کیا کیا چیزیں مخفی رکھی گئی ہیں۔ یہ بدلہ ہے ان اعمال کا جو وہ کرتے تھے‘‘۔ اسی طرح سورہ زاریات میں اہل تقویٰ کے لیے باغات اور چشموں کا وعدہ کر کے ان کی جو صفات بیان کی گئی ہیں ان میں سرفہرست یہ خوبی ہے۔ ’’وہ راتوں کو بہت کم سویا کرتے تھے‘‘ اسی طرح اہل کتاب کے ایک معتدل گروہ کا ذکر کرتے ہوئے سورہ آل عمران کی آیت نمبر 113میں فرمایا گیا ہے۔ ’’اہل کتاب میں ایک گروہ ہے جو قیام کرتا ہے یہ لوگ رات کے وقت اللہ کی آیات کی تلاوت کرتے ہیں اس حال میں کہ وہ سجدے میں ہوتے ہیں‘‘۔ ابتداء میں نبی کریمؐ اور تمام اہل ایمان پر تہجد کی نماز پڑھنا فرض تھا جس کا ذکر سورہ مزمل میں آیا ہے لیکن ظاہر ہے کہ اگر یہ فرضیت برقرار رہتی تو امت کے لیے مجموعی طور پر اس پر عمل کرنا سخت دشواری کا سبب بنتا اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے سورہ مزمل کی آیت نمبر 6میں فرمایا ہے۔ ’’بے شک رات کا اُٹھنا نفس کو خوب روندنے اور بات کو سیدھی کرنے کا سبب اور ذریعہ ہے ‘‘ اس لیے سورہ مزمل ہی کی آخری آیت سے نماز تہجد کی فرضیت کو ختم کر دیا گیا اور اب یہ نماز مستحب اور سنت کے درجے میں آ گئی۔ تاہم صحابہ کرامؓ کی ایک بڑی جماعت نماز تہجد کا اہتمام کرتی رہی۔ چنانچہ اس سلسلے میں امام ابو دائود اور ترمذی کی وہ روایت نہایت مشہور ہے جو حضرت ابو قتادہؓ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریمﷺ نے حضرت صدیق اکبر ؓ سے فرمایا کہ’’ رات کو تمہارے پاس میرا گزر ہوا تم پست آواز سے قرآن پڑھ رہے تھے‘‘۔ انہوںنے عرض کیا کہ میں جس کے ساتھ مناجات کررہا تھا اس کو سنا رہا تھا اور وہ سن رہا تھا۔ نبی کریمؐ نے فرمایا’’ تم اپنی آواز تھوڑی سی اونچی کر لیا کرو‘‘۔ پھر حضرت عمر ؓ سے فرمایا کہ’’ میں تمہارے پاس سے گزرا تو تم بلند آواز سے تلاوت کر رہے تھے‘‘۔ انہوں نے عرض کیا کہ میں سوئے ہوئے لوگوں کو جگا رہا تھااور شیطان کو بھگا رہا تھا۔ نبی کریمؐ نے ان سے فرمایا کہ’’ تم اپنی آواز تھوڑی سی پست کر لو‘‘، اس سلسلے میں صحابہؓ کے بہت سے واقعات فضائل کی کتابوں میں درج ہیں۔ اولیائے کرام تہجد کی نماز کو اپنی روحانی زندگی کی بقاء اور ترقی کے لیے سب سے زیادہ اہمیت دیتے تھے اور رات کے اس جاگنے میں انہیں جو لطف آتا تھا وہ انہیں دنیا کی تمام قیمتی اور نفیس اشیاء سے زیادہ آتا تھا۔ وہ فرمایا کرتے تھے کہ اگر لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ اس شب بیداری میں ہمیں کتنی لذت اور کتنا لطف آتا ہے تو وہ تلواریں لے کر ہم سے لڑنے اور یہ نعمت خود حاصل کرنے کے لیے آ جائیں۔ یہ وہ پاکیزہ لوگ تھے کہ رات کی اس حکومت کو چھوڑ کر انہیں دن کی سلطنت قبول کرنا منظور نہ تھا بلکہ وہ دن کی حکومت چھوڑ کر رات کی اس حکومت کو حاصل کر لیا کرتے تھے۔ صحابہ کرام ؓ ، تابعین اور اولیائے کرام میں یہ ذوق نبی کریمﷺ کی ان احادیث اور اسوہ طیبہ کی وجہ سے پیدا ہوا تھا جس میں ہر مسلمان کے لیے کامل اور مکمل اور بہترین رہنمائی موجود ہے۔ ان احادیث میں نبی کریمؐ نے شب بیداری کے بہت سے فضائل بیان فرمائے اور امت کے سامنے اپنے عمل سے ایک بہترین رہنمائی چھوڑی ۔ یہاں اس سلسلے میں چند احادیث ذکر کی جاتی ہیں۔ امام مسلم ؒ ابو دائود اور ترمذی وغیرہ نے حضرت ابو ہریرہ ؓسے روایت نقل کی ہے کہ ایک مرتبہ کسی شخص نے نبی کریمؐ سے پوچھا کہ فرض نمازوں کے بعد سب سے افضل نماز کون سی ہے؟ نبی کریمؐ نے فرمایا’’ رات کے درمیانی حصے میں پڑھی جانے والی نماز‘‘ ۔ امام ترمذیؒ نے کتاب الدعوات میں حضرت بلالؓ سے یہ روایت نقل کی ہے کہ نبی اکرم ؐنے فرمایا’’ اپنے اوپر شب بیداری کو لازم کر لو کیونکہ یہ تم سے پہلے نیک لوگوں کا شجرہ رہا ہے‘‘۔ امام ابن ماجہ ؒنے حضرت جابر ؓ سے یہ روایت نقل کی ہے کہ نبی کریمؐ نے فرمایا کہ’’ رات کے وقت جس شخص کی نماز زیادہ ہو جائے دن کے وقت اس کا چہرہ خوب حسین اور روشن ہو جائے گا‘‘۔ امام بغویؒ نے شرح السنہ میں حضرت ابو سعید خدری ؓ سے یہ روایت نقل کی ہے کہ نبی کریم ؐنے فرمایا’’ تین قسم کے لوگ ہیں جنہیں دیکھ کر اللہ تعالیٰ مسکراتا ہے یعنی خوش ہوتا ہے ایک وہ آدمی جو رات کو اُٹھ کر نماز پڑھتا ہے دوسرے وہ لوگ جو نماز کے لیے صف بندی کریں اور تیسرے وہ لوگ جو دشمن سے قتال کے لیے صف بندی کریں‘‘۔ امام مسلم نے حضرت جابر ؓ سے یہ روایت نقل کی ہے کہ میں نے نبی کریم ؐ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ’’ رات میں ایک گھڑی ایسی ضرور ہوتی ہے کہ اگر وہ کسی مسلمان کو میسر آ جائے جس میں وہ اللہ تعالیٰ سے دنیا و آخرت کی کسی بھلائی کا سوال کرے تو اللہ اسے وہ خیر ضرور عطا فرماتا ہے اور یہ گھڑی ہر رات آتی ہے‘‘۔ امام بہیقی نے شعب الایمان میں حضرت ابن عباسؓ سے روایت نقل کی ہے کہ نبی کریم ؐ نے فرمایا ’’ میری اُمت کے سب سے معزز لوگ حاملین قرآن اور شب زندہ دار ہیں‘‘۔ ذخیرہ احادیث میں سے یہاں چند احادیث مبارکہ کا ذکر کیا گیا ہے ۔ جو شخص بھی ان احادیث کو سنتا ہے یقینا اس کے دل میں نماز تہجد کی ادائیگی کا ایک جذبہ بیدار ہوتا ہے اور اس جذبے میں اس وقت مزید اضافہ ہو جاتا ہے جب نبی کریم ؐ کے معمولات سامنے آتے ہیں ،اس سلسلے کی احادیث بھی بہت زیادہ ہیںیہاں ان احادیث سے حاصل ہونے والے چند نکات ذکر کیے جاتے ہیں تاکہ ان کی روشنی میں یہ متعین کیا جا سکے کہ شب بیداری کے حوالے سے نبی کریم ؐ کے معمولات کیا تھے اور تاکہ ہمارے لیے بھی ان معمولات کو اختیار کرنا آسان ہو جائے ۔ صحیح بخاری اور مسلم کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم ؐ رات کو نماز عشاء پڑھنے کے بعد جلدی سو جایا کرتے تھے ۔سنن نسائی اور ترمذی کی ایک روایت میں ہے کہ نبیؐ بیدار ہو کر کچھ دیر تک سبحان رب العالمین فرماتے تھے اور پھر کچھ دیر تک سبحان اللہ وبحمدہ فرماتے تھے ۔اسی طرح بخاری اور مسلم کی روایات سے سورۃ آل عمران کا آخری رکوع پڑھنا بھی ثابت ہے ۔نیز کچھ اور دعائیں بھی آپ ؐسے منقول ہیں ان میں سے جو دعا بھی یاد ہو اسے پڑھ لینا چاہیے اور اگر سب ہی کی توفیق مل جائے تو بہت بڑی سعادت ہے ۔ مسلم کی ایک روایت کے مطابق نبی کریم ؐ نماز تہجد کا جب آغاز فرماتے تھے تو پہلے دو مختصر رکعتیں پڑھتے تھے اور صحابہ کرام ؓ کو بھی اسی کی تلقین فرمایا کرتے تھے۔ رات کی اس نماز میں آپؐ کی قرات درمیانی آواز کی ہوا کرتی تھی اتنی کہ حجرہ مبارک میں اگر کوئی جاگ رہا ہوتا تو وہ سن لیتا اور اگر کوئی سو رہا ہوتا تو اس کی نیند میں خلل نہ آتا۔بعض اوقات نبی کریم ؐ اتنا طویل قیام فرماتے تھے کہ قدم مبارک ورم آلود ہو جاتے ،صحابہ کرام ؓ عرض کیا کرتے تھے یا رسول ؐاللہ اتنی محنت اور مشقت کیوں برداشت کرتے ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ نے آپؐکے لیے مکمل معافی کا وعدہ اور اعلان فرمایا ہے ۔نبی کریم ؐ فرماتے کیا میں اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں ؟ اللہ تعالیٰ ہمیں ختم الرسلؐ کے اسوہ حسنہ کی روشنی میں شب بیداری کی اس نعمت سے مالا مال فرمائے ۔ آمین ٭٭٭
مکمل تحریر اور تبصرے>>

Tuesday 17 December 2013

اچھے اخلاق:

ایک دفعہ ایک آدمی ظہر کی نماز پڑھنے کے لئے مسجد جا رہا تھا ۔رکعات چھوٹنے کے خوف سے جلدی جلدی چل رہا تھا۔ راستے میں اس کا گزر کھجور کے درخت کے پاس سے ہوا، دیکھا کہ ایک آدمی ڈیوٹی کے لباس میں ملبوس کھجور توڑنے میں مشغول ہے۔ اسے دیکھ کر بہت متعجب ہوا اور سوچا کہ یہ کیسا آدمی ہے جو نماز کا اہتمام نہیں کرتا، اور کام میں اس قدر غرق ہے کہ گویا اس نے اذان سنی ہی نہیں۔ غصہ کی حالت میں زور سے چیخا اور کہا: اترو نماز کے لئے، آدمی نے اطمینان سے کہا، ٹھیک ہے، اترتا ہوں۔ پھر اس آدمی نے دوبارہ کہا: نمازپڑھنے کے لئے جلدی کرو، اے گدھے! اے گدھے! یہ سن کر آدمی زور سے چیخا اور کہا: میں گدھا ہوں! پھر کھجور کا ایک تنا توڑ کر جلدی جلدی اترنے لگا تاکہ اس کا سر پھوڑ دے۔ یہ دیکھ کر اس آدمی نے تولیہ سے اپنا ڈھانپ لیا تاکہ وہ پہچان نہ سکے اور دوڑ کر مسجد میں داخل ہو گیا۔ شدید غصے کی حالت میں وہ آدمی کھجور کے درخت سے اترا ، گھر گیا، نماز پڑھی، کھانا کھایا، تھوڑا آرام کیا اور پھر کام کی تکمیل کے لئے کھجور کے درخت کے پاس آیا۔ پھر تھوڑی دیر میں عصر کی نماز کا وقت ہو گیا۔ پھر وہی آدمی جو ظہر کے وقت نماز کے لئے کھجور کے درخت کے پاس سے گزرا تھا، عصر کی نماز کے لئے بھی اسی راستہ سے گزرا، پھر دیکھا کہ آدمی درخت کے اوپر اپنے کام میں مشغول ہے، لیکن اس دفعہ آدمی نے گفتگو کا انداز بدل دیا اور کہا : السلام علیکم، کیا حال ہے۔ اس نے جواب دیا، الحمدللہ، خیریت ہے۔ آدمی نے کہا : سناؤ! اس سال پھل کیسا ہے؟ اس نے کہا ، الحمدللہ ، اچھا ہے۔ آدمی نے کہا: اللہ تجھے توفیق دے اور تجھے رزق دے اور روزی میں برکت اور وسعت دے اور اہل وعیال کے لئے کئے گئے عمل اور کوشش کو رائیگاں نہ کرے۔ وہ آدمی یہ دعائیہ کلمات سن کر بہت خوش ہوا اور اس دعا پہ آمین کہا۔ پھر اس آدمی نے کہا:لگتا ہے کہ کام میں کافی مشغولیت کی وجہ سے آپ نے عصر کی اذان نہیں سنی! اذان ہو چکی ہے، اور اقامت ہونے والی ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ آپ درخت سے اتر جاتے، تھوڑی دیر آرام کرتے اور نماز باجماعت پالیتے اور نماز کے بعد اپنے کام کو پورا کرلیتے۔ اللہ آپ کی حفاظت کرے گا اور آپ کو صحت وتندرستی عطا کرے گا۔ یہ دعائیہ کلمات سن کر اس نے کہا: ان شاءاللہ ان شاءاللہ، اور درخت سے اترنے لگا، پھر اس آدمی کے پاس آیا اور گرم جوشی کے ساتھ اس سے مصافحہ کیا اور کہا: اچھے اور عمدے اخلاق وعادات پہ میں آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں، لیکن ظہر کے وقت جو آدمی میرے پاس سے گزرا تھا اور جس بداخلاقی سے پیش آیا تھا، اگر میں اسے پالیتا تو اسے بتلادیتا کہ گدھا کون ہے؟
مکمل تحریر اور تبصرے>>

Archive