Monday 4 November 2013

حضرت اویس قرنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ


بلاشبہ تمام تعریفوں کا مالک اللہ رب العزت ہے جو کہ تمام تر دیدہ و نادیدہ مخلوقات اور جہانوں کا مالک و خالق ہے ۔ اس کی کروڑہا عنایت کریمانہ میں سے ایک عنایت ہم زمین والوں پر یہ بھی ہے کہ اس نے ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا امتی بنایا ۔ اسلام کے لازوال عاشقِ صلی اللہ علیہ وسلم صادقِ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یعنی حضرت اویس قرنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سیرت مقدسہ پر مبنی ہے یقینا اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عشق و محبت کو اپنی خوشنودی اور اپنی رضا کا سر چشمہ قرار دیا اور یہی وجہ ہے کہ اس کائنات کا ذرہ ذرہ آپ کے عشقِ و محبت میں سر شار ہے ۔
یہ عشق کا ایک اندازہ ہی تو ہے کہ ایک شاعر نے وارفتگی کے عالم میں یہ لکھا ۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تیرے در کی فضاؤں کو سلام گنبدِ خضریٰ کی ٹھنڈی ٹھنڈی چھاؤں کو سلام والہانہ جو طوافِ روضہ اطہر کریں مست و بے خود وجد میں آتی ہواؤں کو سلام تا قیامت عشقِ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں سر شار اہل اسلام دکھائی دیں گے مگر جو مقام حضرت اویس قرنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تاریخ اسلام میں حاصل ہو چکا ہے وہ شائد ہی کوئی دوسرا حاصل کرسکے بلکہ یقینا کوئی بھی دوسرا یہ مقام حاصل نہیں کر سکتا کیونکہ اگرچہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدار بظاہر تو نہیں کیا تھا مگر اس دور میں موجود تو تھے اب بھلا یہ فضیلت کوئی دوسرا کیسے حاصل کر سکتا ہے ۔

مجھے یہاں ایک واقعہ یاد آرہا ہے کہ مالک بن نویرہ نے جو کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دستِ اقدس پر بیعت اسلام کر چکا تھا یہ جب مرتد ہوا تو اس نے ایک نبیہ عورت یعنی سجاح کا ساتھ دیا اور اس کا سپہ سالار بن گیا ۔ مختصر یہ کہ جب یہ شخص گرفتار ہو کر حضرت سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آیا تو اس نے دورانِ گفتگو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر توہین آمیز الفاظ میں کیا ۔ وہ بار بار یہ کہتا تھا کہ ’’تمہارے صاحب یہ کہتے ہیں‘‘ یہ لب و لہجہ بھلا سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کیسے برداشت کرتے آن واحد میں اس کی گردن اڑا دی ۔ آپ جانتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کرنے والا شخص واجب القتل ہے ۔ اس کی باوجود کہ اہل اسلام یہ جانتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس میں گستاخی قابل گردن زدنی جرم ہے پھر بھی بعض لوگ اس کے بڑی ہی دیدہ دلیرہ کے ساتھ مرتکب ہوتے ہیں کبھی یہ کہتے ہیں کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہنا شرک ہے تو کبھی یہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نور نہیں ہیں تو کبھی یہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حاضر و ناظر نہیں ہیں ۔ یہ سب باتیں وہ لوگ جس بد تمیزی اور دریدہ دہنی کے ساتھ کرتے ہیں وہ یقینا قابل افسوس ہے یقینی بات یہ ہے کہ رسول کریم رؤف الرحیم صلی اللہ علیہ وسلم کو نور تسلیم نہ کرنے والے بھی یہ بات تو بحر حال تسلیم ہی کرتے ہیں کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا سایہ نہ تھا۔ ان علماء و فضلاء کو شائد فقیر کی یہ بات ہی سمجھ میں آجائے۔

اہل اسلام کیلئے سب سے اہم اور اولین بات ہی حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس کے ساتھ ہر چیز سے زیادہ محبت کرنا ہے یعنی ماں باپ ، بہن بھائی اور آل و اولاد سے بھی زیادہ ۔ آئیے دعا کریں کہ ہم سب کو عشق مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا سچا جذبہ اللہ کریم عزوجل بہ صدقہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عطا فرمائے۔ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات

صحیح مسلم شریف کے باب اویس قرنی کی فضیلت میں اور مشکوٰۃ شریف کے خصوصی باب ذکر یمن و شام کے علاوہ ذکر اویس قرنی میں یہ حدیث مبارکہ درج ہے کہ ۔ ترجمہ: حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! ایک شخص یمن سے آئے گا جس کا نام اویس ہو گا ۔ وہ یمن میں اپنی ماں کے سوا کسی کو نہیں چھوڑے گا۔ اس کے بدن میں سفیدی (برص کی بیماری ) تھی ۔ اس نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی اور اللہ تعالیٰ نے اس کے بدن سے سفیدی کو ختم کر دیا ۔ ہاں! ایک درہم یا ایک دینار کے برابر سفید رہ گئی ۔ پس تم میں سے جو شخص اس (اویس ) سے ملے اس کو چاہیے کہ اس سے اپنے لئے مغفرت کی دعا کرائے۔ اسیر بن جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ۔

’’ایک دفعہ میں نے حضرت اویس قرنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ میرے لئے دعائے مغفرت کریں ۔ انہوں نے فرمایا کہ میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لئے کیسے دعا کر سکتا ہوں ۔ آپ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ہیں ( مجھے تو صحابیت کا درجہ حاصل نہیں ہوا) انہوں نے کہا کہ میں نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ ’’خیر التابعین ایک شخص ہے اس کو اویس کہا جاتا ہے ۔ ‘‘

صحیح مسلم شریف میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ ’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں تمہارے پاس اویس بن عامر یمن والوں کی امدادی فوج کے ساتھ آئے گا ۔ وہ مراد قبیلہ کا ہے جو بنو قرن کی شاخ ہے ۔ اس کو برص تھا ۔ وہ اچھا ہو گیا لیکن درہم کے برابر باقی ہے ۔ اس کی ایک ماں ہے ۔ اس کا یہ حال ہے کہ اگر خدا کے بھروسے پر قسم کھا بیٹھے تو خدا اس کو سچا کر ے ۔ پھر اگر تجھ سے ہو سکے تو اس سے اپنے لئے دعا کرانا دعا کرنا میرے لئے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان سے (اویس) سے دعائے مغفرت کیلئے کہا تو حضرت اویس قرنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کے لئے بخشش کی دُعا کی ۔

اسلامی تاریخ میں بلاشبہ حضرت اویس قرنی اویس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ایک لازوال مقام حاصل ہے اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو عاشقانِ مصطفی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں سر فہرست شمار کیا جاتا ہے ۔ اس سلسلہ میں یہ واقعہ تقریباً تمام تذکرہ نگاروں نے نقل کیا ہے کہ غزوہ احد میں رسول کریم رؤف الرحیم صلی اللہ علیہ وسلم کا دندان مبارک شہید ہوا تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے تمام دانت توڑ ڈالے تھے۔

روایت ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد عالیشان کی تکمیل میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملے اور مسلمانوں کے حق میں دعا کرنے کیلئے کہا تو دوران گفتگو حضرت اویس قرنی رضی اللہی تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ ۔

’’جب جنگِ احد میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دانت مبارک شہید ہونے کی خبر ملی تو میں نے اپنا ایک دانت توڑ ڈالا۔ پھر خیال آیا کہ شائد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی دوسرا دانت شہید ہوا ہو تو میں نے دوسرا دانت بھی توڑ ڈالا۔ اسی طرح ایک ایک کرکے میں نے اپنے سارے دانت توڑے تو مجھے سکون حاصل ہوا۔ ‘‘ یہ بات سن کر دونوں عظیم المرتبہ صحابہ پر رقت طاری ہو گئی ۔

ایک محیر القول واقعہ اس سلسلہ میں جناب ڈاکٹر سید عامر گیلانی صاحب نے اپنی کتاب سیرت اویس قرنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے صفحہ نمبر۴۷ پر رقم فرمایا ہے کہ ۔ ’’حضرت اویس قرنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے تمام دانت مبارک شہید کر دیئے تو کوئی بھی سخت غذا نہیں کھا سکتے تھے ۔ اللہ تعالیٰ کو حضرت اویس قرنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنے محبوب کے عشق کی یہ ادا اتنی پسند آئی کہ اللہ تعالیٰ نے کیلے کا درخت پیدا فرمایا تاکہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نرم غذا مل سکے۔ جبکہ اس سے قبل کیلے کے درخت یا پھل کا وجود زمین پر نہ تھا۔ ‘‘

آپ کے متعدد مزارات کے متعلق روایات موجود ہے جن کی تفصیل کچھ یوں بیان کی جاتی ہے جناب علامہ فیض احمد اویسی صاحب نے ’’ذِکر اویس ‘‘ کے صفحہ نمبر ۱۶۹ پر درج فرمایا ہے کہ ’’ مختلف مقامات پر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سات مزار پائے جاتے ہیں ۔ ‘‘ مگر آپ نے ان میں سے پانچ کی تفصیل درج کی ہے ۔ 1۔ آپ کا ایک مزار نوح سندھ ( حدود ٹھٹہ ) میں واقع ہے ۔ اکثر حاجت مند اور درویش حضرات اس مزار پر آکر چلہ کشی کرتے ہیں اور آپ کی روحانیت سے مستفیض ہوتے ہیں اور حاجت مندوں کی حاجتیں پوری ہوتی ہیں چنانچہ بندگی سلطان محمد چیلہ نور اللہ مرقدہ اس مزار شریف پر تشریف لے گئے تھے۔ وہاں انہوں نے دو چلے کئے اور ان دو چلوںسے خدا کے فضل سے قطرہ سے دریااور زرہ سے آفتاب بن گئے اور جو کچھ پایا اسی آستانہ سے پایا۔

2۔ آپ کا مزار بندرگاہ زبید میں واقع ہے حاجی لوگ اس مزار کی بھی زیارت سے مشرف ہو کر آتے ہیں ۔ 3۔ آپ کا مزار غزنی افغانستان میں موجود ہے ۔ 4۔ آپ کا مزار بغداد شریف سے دور سر حد ایران کے قریب واقع ہے ۔ ددس 5۔ ملک شام میں اہے علامہ الحاج نے خدا بخش اظہر شجاع آبادی نے اپنے سفر نامہ میں اس کا ذکر فرمایا ہے اس ذکر کی حاضری کی تفصیل بھی لکھی ہے ۔ اور متعدد مزار ہونے کی وجہ سے یہ بتلائی جاتی ہے کہ ایک دفعہ جب آپ خاص حالت میں بیٹھے ہوئے تھے اور چھ دیگر درویش بھی آپ کی خدمت میں حاضر تھے تو آپ پر روحانی کیفیت طاری ہوئی جس سے مغلوب ہوکر دریا کی طرح جوش میں آگئے اور اسی حالت میںمستی و سکر میں آپ کی آنکھیں ان چھ درویشوں پر پڑ گئیں اور ایسی کاری او ربا اثر پڑیں کہ ان سب کو اپنا سا بنا دیا یعنی ان کی ہیت اصل بدل گئی اور سب کے سب حضرت اویس قرنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہم شکل اور ہم وضع ہو گئے۔ پھر کسی نے نہ پہچانا کہ خواجہ اویس قرنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کون ہیں ۔ جب وہ درویش آپ سے رخصت ہو کر اپنے اپنے مقامات پر چلے گئے تو وہاں کے لوگوں نے یہی جانا کہ یہ اویس قرنی ہیں اور جب ان کا انتقال ہوا تو ان کی قبر بھی خواجہ ہی کے نام سے مشہور ہوئی ۔ مگر حقیقت اس کی خدا ہی بہتر جانتا ہے ۔ کہ اصلی قبر کون سی ہے ۔ ‘‘

ان مزارات کے علاوہ علامہ صاحب نے اپنی کتاب کے صفحہ نمبر ۱۷۱ پر ایک اور مزار شریف کا بھی ذکر کیا ہے آپ فرماتے ہیں کہ ۔ چنانچہ آپ کا ایک مزار یمن میں ہے وہ بھی زیارت گاہ خاص و عام ہے اور آپ کے مزار مقدس پر حضرت مظہر جمال اللہ ، معشوق اللہ ، جلال الدین گہلہ ۔ قدس سرہ نے چالیس چلے کھینچے ہیں اور ان چلوں میں فی چلہ چالیس لوگوں سے افطار کیا ہے اور وہ لوگ روانہ بھی محض روزہ افطاری کے لئے سنت سمجھ کر کھاتے تھے اور آپ کے مزار پر انوار پر چلہ کشی سے اس قدر روحانی فیض حاصل کیا تھا کہ قطرہ سے دریا بن گئے تھے۔ واللہ علم بالصواب
مکمل تحریر اور تبصرے>>

Sunday 3 November 2013

سیدہ کائنات فاطمۃ الزاہرا رضی اللہ عنھا بطور بیوی

نقوش سیرت سیدہ کائنات فاطمۃ الزاہرا رضی اللہ عنھا
 بطور بیوی
تحریر : ڈاکٹر علی اکبر الازہری
ذیل میں ہم آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی ازدواجی حیات مبارکہ کا مطالعہ کرتے ہوئے مسلمان بیوی کے لئے اسوہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روشنی کشید کریں گے۔

٭ گھر، معاشرتی زندگی میں امن وسکون اور اعتدال و توازن قائم رکھنے کے لئے بنیادی اکائی کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس لئے اس اہم ترین محاذ کو اسلام نے بہت سنجیدگی سے لیا ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ ایک صالح، مسلمان خاتون کی صالحیت، قابلیت اور وقار کا دارومدار اس کی گھریلو ذمہ داریوں میں عہدہ برائی سے مشروط کردیا گیا ہے تو غلط نہ ہوگا۔ دوسرے معنوں میں گھر اسلامی معاشرے کا وہ اہم مورچہ ہے جہاں بیٹھ کر عورت اپنا اصل جہاد کرتی ہے اور مرد کے شانہ بشانہ جہاد زندگانی میں بھرپور حصہ لیتی ہے۔ اسلامی اقدار کی حفاظت کا مرحلہ ہو یا اولاد کی پرورش و تربیت کا مسئلہ سب جگہ خاتون خانہ کا کردار بنیادی اہمیت رکھتا ہے اور یہ کردار گھر کی پرامن چاردیواری میں ہی ادا ہو سکتا ہے۔

سیدۃ نساء العالمین سے بڑھ کر ان گھریلو ذمہ داریوں سے کون زیادہ واقف تھا۔ عین جوانی (27 یا 28سال) کی عمر میں وفات کی وجہ سے اگرچہ آپ کی ازدواجی زندگی پر مشتمل حصہ بہت مختصر ہے لیکن آپ کی اس کم و بیش دس سالہ گھریلو ازدواجی عرصہ زندگی میں اسلامی خواتین کے لئے بھرپور نمونہ عمل موجود ہے۔

٭ حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ اور حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا نے آپس میں باہمی رضا مندی سے گھریلو امور اور ذمہ داریوں کی تقسیم کچھ اس طرح کر رکھی تھی کہ باہر کے سارے امور اور ضروریات زندگی کی فراہمی حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ذمے تھی اور گھر کے سارے کام، چکی پیسنا، جھاڑو دینا، بچوں کی دیکھ بھال اور دیگر گھریلو امور کی انجام دہی حضرت سیدہ کائنات رضی اللہ عنہا کے سپرد تھی۔ ان امور میں آپ کی خوشدامن حضرت فاطمہ بنت اسد رضی اللہ عنہا بھی معاون تھیں۔ شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے مدارج النبوہ میں یہ روایت درج کی ہے کہ یہ تقسیم خود تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمائی تھی۔ اس طرح ان کی زندگی میں تنگ دستی کے باوجود خوشگوار تعاون اور حسن و سکون پیدا ہوگیا تھا۔

٭ سیدہ کائنات رضی اللہ عنہا اس حقیقت سے اچھی طرح آگاہ تھیں کہ بیوی کا مزاج شوہر کے مزاج اور فکرو عمل پر براہ راست اثر انداز ہوتا ہے۔ وہ چاہے تو اسے سعادت مندی کی مسند پر بٹھادے اور چاہے تو بدبختی کے گڑھے میں دھکیل دے۔ سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ مرد میدان تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدنی زندگی میں جتنے معرکہ ہائے حق و باطل بپا ہوئے، ان میں علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی کاری ضربیں تاریخ شجاعت کا تابناک باب ہیں۔ آپ (ر) فاتح خیبر، غازی بدر و احد و حنین اور خندق کے صف اول کے مجاہد تھے۔ ایسے ہمہ جہت مرد مجاہد اور عظیم سپہ سالار کی خدمت کے لئے حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا جیسی خیر خواہ محب و مخلص اور بہادر زوجہ، قدرت کا اپنا انتخاب تھا۔ حضرت سیدہ زہراء رضی اللہ عنہا نے شوہر نامدار کی جہادی زندگی میں بھرپور معاونت فرمائی۔ انہیں گھریلو کاموں سے فراغت اور بے فکری مہیا کی۔ سارا دن تیغ و تُفنگ سے تھکے ماندے حضرت علی رضی اللہ عنہ جب واپس گھر آتے تو سیدہ رضی اللہ عنہا سو جان سے ان کی خدمت بجا لاتیں۔ ان سے جنگ کے واقعات سن کر ایمان تازہ کرتیں اور ان کی شجاعت کی داد بھی دیتیں۔ زخموں کی مرہم پٹی کرتیں، خون آلود تلوار اور لباس کو اپنے ہاتھوں سے صاف کرتیں، یوں یہ پیکر جرات و شجاعت تازہ دم ہوکر اگلے معرکے کے لئے کمر بستہ ہوجاتے۔

ہاں! یہی جذبہ مسلمان بیوی کا طرہ امتیاز ہے۔ وہ شوہر کی صلاحیت، وقت اور اس کی جان ومال کو اپنی ملکیت نہیں بلکہ اللہ کی امانت سمجھتی ہے اور اس کی صلاحیتوں کو دین کی سربلندی میں صرف کر دینے پر اسے ابھارتی ہے۔ بلاشبہ ایسی خواتین قیامت کے دن مجاہدین کی صف میں کھڑی ہوں گی اور اللہ تعالیٰ کی رضا کی مستحق ٹھہریں گی۔ آج بھی مسلمان خواتین اگر سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی اس صفت کو اپنے کردار کا حصہ بنالیں تو ایسے گھرانوں میں تربیت پانے والی اولاد سیدنا امام حسن و سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہما اور حضرت سیدہ زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی شکل میں تاریخ دعوت و عزیمت کا قابل فخر سرمایہ کیوں نہیں بنے گی اور آئندہ مؤرخ ان گھرانوں کو کیسے خراج تحسین پیش نہیں کرے گا۔

٭ اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم کی سورہ الفتح میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عام صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی صفات بیان فرمائی ہیں کہ وہ

(1) اہل کفر کے لئے شدت پسند ہیں (2) اہل ایمان کے لئے پیکر رحمت و شفقت ہیں (3) ان کی پیشانیوں میں سجدوں کی کثرت کی واضح علامت ہے۔ (4) ان کے شب و روز حالت رکوع و سجود میں رضائے الہٰی کی طلب میں گزرتے ہیں۔

صاف ظاہر ہے حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مقام و منصب اس بات کا متقاضی تھاکہ وہ ان صفات عالیہ میں عام صحابہ کرام رضی اللہ عہنم سے بڑھ چڑھ کر اپنی قربت اور خصوصیت کا ثبوت فراہم کرتے۔ تاریخ گواہ ہے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عملاً ایسا کرکے دکھایا آپ بچپن سے فیضان نبوت و رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے براہ راست امین تھے۔ عارف کامل اور زاہد شب زندہ دار تھے۔ ان کے پیش نظر اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی تھی۔ حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی شخصیت مطہرہ پر بھی یہی صفات غالب تھیں۔ دونوں نے مَہْبِطِ وحی میں پرورش پائی تھی اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معمولات دونوں کے پیش نظر تھے اس لئے دونوں ہستیوں کا اوڑھنا بچھونا اسلام کی خدمت اور عبادت و ریاضت تھا۔ اس کا اعتراف سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ازدواجی زندگی کے ابتدائی دنوں میں کرلیا جب سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے پوچھا، ’’سناؤ علی! شریکہ حیات کیسی ملی ہے؟‘‘ عرض کیا ’’نعم العون علی العبادۃ‘‘ میری شریکہ حیات فاطمہ میری عبادت گزاری میں بہترین معاون ہیں۔

٭ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کل کائنات یہ گھر اور آپ کا سب سرمایہ علم تھا جس کے متعلق حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود ارشاد فرمایا : اَنَا مَدِیْنَۃُ الْعِلْمِ وَعَلِیٌّ بَابُھَا ’’میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں‘‘ سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس نعمت عظمٰی پر ہمیشہ فخرکرتے تھے۔ آپ (ر) کا یہ شعر زبان زد خاص و عام ہوکر طالبان علم کو بہت بڑا شرف بخش گیا ہے۔

رضِينا قِسمة الجبّار فِينا لنا علمٌ ولِلجُهّال مالٌ

یعنی ہم خالق ارض و سماوات کی اس تقسیم پر خوش ہیں جس کے تحت اس نے ہمارے مقدر میں علم کی سعادت اور جہلاء کے لئے مال و دولت رکھ دیا۔

مراد یہ کہ دنیوی مال و اسباب علم کے مقابلے میں کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ انسان کی عظمت علم سے وابستہ ہے نہ کہ مال و دولت سے۔ حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ دولت علم سے مالا مال تھے لیکن سیم و زر سے آپ کا دامن ہمیشہ خالی رہا اس لئے حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا کی ساری زندگی فقر و فاقہ اور تنگ دستی میں گزری۔ کونین کے مالک کی لاڈلی دو دو اور تین تین دن کچھ کھائے پئے بغیر گزار دیتیں لیکن حرف شکایت زبان پر نہ لاتیں۔ حضرت علی المرتضٰی رضی اللہ تعالیٰ عنہ دینی فرائض سے فرصت پاکر محنت مزدوری کرتے جو ملتا وہ لاکر سیدہ کائنات رضی اللہ عنہا کے ہاتھ میں دے دیتے اور آپ اسے صبر و شکر کے ساتھ قبول فرمالیتیں۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ یہ فقرو تنگ دستی آپ دونوں کے خوشگوار تعلقات پر اثر انداز ہوئی ہو۔

تنگ دستی پر صبر و ضبط کرلینا شاید آسان ہو لیکن اس حالت پر راضی اور خوش ہوکر اللہ کا شکر ادا کرتے رہنا اور چہرے پر کبھی ناگواری کے آثار تک نہ لانا بہت بڑے حوصلے اور پختہ کردار کی علامت ہے۔ ایسا کیوں نہ ہوتا کہ آپ ’’الفقر فخری‘‘ کہنے والے عظیم پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تربیت یافتہ عظیم بیٹی ہیں۔ کئی بار ایسا ہوا کہ سیدہ کونین رضی اللہ عنہا کو دو تین دنوں کے فاقہ کے بعد کچھ ملا۔ اپنے شہزادوں اور شوہر کو کھلانے کے بعد اس کا کچھ حصہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا! ’’میری بیٹی تمہارا باپ یہ لقمہ چار دن کے بعد کھارہا ہے‘‘ ہاں! یہ وہی گھرانہ ہے جہاں سے مخلوق کو دونوں جہانوں کے خزانے تقسیم کئے جاتے تھے اور اب تک کئے جارہے ہیں لیکن فقر اختیاری تھا کہ اپنی ذات پر ہمیشہ دوسروں کو ترجیح دی۔
کل جہاں مِلک اور جو کی روٹی غذا
اس شکم کی قناعت پہ لاکھوں سلام​

٭ حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی میں ہمیشہ توازن برقرار رکھا۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ عبادت و ریاضت میں محو ہوکر شوہر کی خدمت اور بچوں کی پرورش میں کمی آئی ہو، یا بچوں اور شوہر کے حقوق کی ادائیگی میں عبادت و ریاضت کے معمولات متاثر ہوئے ہوں۔اللہ کی عبادت اورشوہر کی اطاعت میں یہی حسنِ توازن ہے جو خاتونِ جنت کی کامیاب ترین اور مثالی حیاتِ مقدسہ کا طرہ امتیاز ہے۔ورنہ عام طور پر ان دونوں محاذوں پر خواتین و حضرات انصاف نہیں کر پاتے خصوصاً خواتین کے لئے یہ توازن برقرار رکھنا مشکل ہو جاتا ہے۔

حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ’’فاطمہ رضی اللہ عنہ جس طرح اللہ تعالیٰ کی عبادت کو فریضہ سمجھتی تھی اسی طرح میری اطاعت بھی کرتی تھی۔ عبادت و ریاضت کے انتہائی سخت معمولات میں اس نے میری خدمت میں ذرہ بھر فرق نہ آنے دیا۔ وہ ہمیشہ گھر کی صفائی کرتی، چکی پر گردو غبار نہ پڑنے دیتی، صبح کی نماز سے پہلے بچھونہ تہہ کرکے رکھ دیتی گھر کے برتن صاف ستھرے ہوتے۔ ان کی چادر میں پیوند ضرور تھے مگر وہ کبھی میلی نہیں ہوتی تھی۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ گھر میں سامان خوردو نوش موجود ہو اور انہوں نے کھانا تیار کرنے میں دیر کی ہو، خود کبھی پہلے نہ کھاتی، زیور اور ریشمی کپڑوں کی کبھی فرمائش نہ کی، طبیعت میں بے نیازی رہی، جو ملتا اس پر صبر شکر کرتی، میری کبھی نافرمانی نہیں کی، اس لئے میں جب بھی فاطم رضی اللہ عنہا کو دیکھتا تو میرے تمام غم غلط ہوجاتے‘‘۔

حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی یہی پاکیزہ ادائیں تھیں جن پر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ دل و جان سے فدا تھے۔ ان کی موجودگی میں دوسرا نکاح نہیں کیا۔ کسی نے وفات کے بعد حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا ’’سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کیسی تھیں؟‘‘ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نم دیدہ ہوکر کہنے لگے۔ ’’فاطمہ رضی اللہ عنہ دنیا کی بہترین عورت تھی، وہ جنت کا ایسا پھول تھا جس کے مرجھا جانے کے بعد بھی مشام جان معطر ہے۔ جب تک زندہ رہی مجھے ان سے کوئی شکایت نہ ہوئی‘‘۔

٭ حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا گہوارہ صبر و رضا کی پروردہ تھیں۔ آپ کے ہاتھ تو چکی چلانے میں مصروف رہتے لیکن زباں پر قرآن پاک کی تلاوت جاری رہتی۔

٭ نوری اور ناری مخلوق آپ (ر) کی مطیع اور فرمانبردار تھی لیکن اس سے بے نیاز ہوکر آپ (ر) نے اپنی رضا کو شوہر کی رضا میں گم کر رکھا تھا۔

٭ آپ سحر خیزی اور گریہ شب کی وجہ سے سرہانے اور بستر کے آرام اور تکلف سے بے نیاز تھیں۔ نماز کے وقت آپ کے اشک گہر بار اتنی کثرت سے جاری رہتے کہ جبرائیل امین علیہ السلام ان اشک کے موتیوں کو زمین سے چن کر عرش بریں پر شبنم کی طرح گراتے تھے۔

مندرجہ بالا چند سطور میں ہم نے بطور بیوی حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی سیرت کے چند نقوش کی نشاندہی کی ہے۔ آج اگر مسلمان عورت یہ نقوش حرز جاں بنالے تو تاریخ کے اس نازک ترین دور میں بھی اسلام کی برکت سے ہمارا ماحول رشک جنت بن سکتا ہے۔ تباہی کے کنارے کھڑی انسانیت کو آج بھی رحمۃ للعالمین حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیٹی کی سیرت، فوزو فلاح کاپیغام دے رہی ہے۔ اب یہ عورت پر منحصر ہے کہ وہ شرف انسانیت کا عنوان بنتی ہے یا تخریب اخلاق و کردار کے ذریعے تباہی کا ہتھیار۔
مکمل تحریر اور تبصرے>>

سیرت سیدہ کائنات (رض)،بطور بیٹی

نقوش سیرت سیدہ کائنات (رض)،بطور بیٹی
تحریر : ڈاکٹر علی اکبر الازہری​
شہزادی کونین حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بعثت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وقت پانچ سال کی تھیں۔ اس عمر میں بالعموم ہر بچہ خارجی حالات و واقعات کا شعور رکھتا ہے۔ گویا فاران کی چوٹیوں سے چمکنے والا آفتاب نبوت جس کی کرنوں نے پوری انسانیت کو یکسر بدل کر رکھ دیا اس کی پہلی جھلک سے مُستنیر ہونے والے چند خوش قسمت نفوس میں آپ (ر) بھی شامل تھیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب غار حراء سے کئی کئی دنوں بعد لوٹتے ہوں گے تو یقینا ننھی سیدہ دوڑ کر دروازے پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا استقبال کرتی ہوں گی اور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لپک کر ان کو اپنے منور سینے سے لگاتے ہوں گے۔ یوں ابتدائے وحی اور اس کی جملہ کیفیات نہ صرف آپ نے ملاحظہ فرمائیں بلکہ تجلیات الہٰیہ کو بالواسطہ جذب کرنے کا موقع بھی ملتا رہا، نیز اسلام کی خاتون اول حضرت سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی تربیت نے بھی آپ کی زندگی پر گہرے اثرات ثبت کئے۔

حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے آپ فرماتی ہیں ’’میں نے فاطمہ رضی اللہ عنہا سے بڑھ کر روزمرہ زندگی کے معمولات میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مشابہ کسی کو نہیں پایا۔ (ترمذی) مراد یہ ہے کہ حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا اپنے اخلاق، ذات و صفات، عبادت و طاعت اور قول و فعل میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ سب سے زیادہ مشابہ تھیں۔ ایسا کیوں نہ ہوتا، آپ رضی اللہ عنہا بچپن سے لے کر تادمِ زیست حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جتنی قریب رہی ہیں اس کا لازمی تقاضا بھی یہی تھا اور پھر آپ سے ہی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نسب مبارک آگے چلنا تھا۔ اس لئے قدرت نے آپ کو رسالت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مکمل پرتو بنادیا تھا۔ یہی حالت سیدنا امام حسن، سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہما اور بقیہ ائمہ اہل بیت کی تھی جس کو بھی دیکھیں وہ قول وعمل میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مکمل شبیہ لگتا تھا۔
تیری نسل پاک میں ہے بچہ بچہ نور کا
تو ہے عین نور، تیرا سب گھرانہ نور کا​

٭ حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی پوری حیات مقدسہ بناوٹ، تکلف اور زیب و زینت سے پاک تھی۔ حتیٰ کہ عمدہ کھانے یا زرق برق لباس پہننے کی بھی کبھی تمنا نہ ہوئی۔ اس سلسلے میں بعض کتب سیر میں ایک روایت نقل کی گئی ہے کہ ایک بار حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو کسی تقریب میں جانا تھا۔ حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے لئے نیا لباس یا دیگر سامان زیب و زینت نہ تھا۔ دل میں خیال آیا کہ مکہ کی رئیسہ اور بنو ہاشم کے چشم و چراغ کی اہلیہ ہوں، فاطمہ رضی اللہ عنہا اپنی ہم عمر سہیلیوں کو آراستہ و پیراستہ دیکھ کر احساس کمتری کا شکار نہ ہوجائے، یہ سوچ کر تقریب میں جانے کا پروگرام ملتوی کردیا، سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے پوچھا ’’امی جان آپ کیوں نہیں جاتیں؟‘‘ فرمایا ’’بیٹی! میں تمہیں اس حالت میں کیسے لے کر جاؤں؟ عرض کرنے لگیں میرے سامنے اس سامان کی کوئی حیثیت نہیں کیونکہ مجھے اپنے والد بزرگوار نے فرمایا ہوا ہے کہ ’’مسلمان بیٹی کا زیور تقویٰ اور پرہیزگاری ہے‘‘۔

٭ عورت کتنی بھی نیک اور خوش خصال کیوں نہ ہو، دوسری عورت کی عیب جوئی کرنا بالعموم اپنا حق سمجھتی ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود دو صحابیات کو روزہ رکھوا کر ان کے سامنے پیالہ رکھا اور جب قے کروائی تو خون اور گوشت کے لوتھڑے دکھائی دیئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ’’تم نے غیبت کر کے گویا اپنے مسلمان بہن بھائیوں کا گوشت کھایا ہے‘‘۔ قرآن نے بھی غیبت کو زندہ بھائی کا گوشت کھانے کے مترادف قرار دیا ہے لیکن حضرت سیدہ طاہرہ رضی اللہ عنہا بچپن سے ہی غیبت اور عیب جوئی سے نفرت کرتی تھیں۔ ایک بار کچھ عورتیں اکٹھی ہوئیں اور حسب عادت دوسری عورتوں کی غبیت کرنا شروع کردی، آپ فوراً اٹھ کر چلی گئیں، سبب پوچھنے پر فرمایا۔ ’’میرے والد گرامی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غیبت کرنے اور سننے سے منع فرمایا ہے‘‘۔

٭ حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے مبداء فیض صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فیوضات ظاہری و باطنی کے علاوہ ذہانت کا وافر حصہ پایا تھا۔ اس لئے ہر ذہین بچے کی طرح آپ بھی مظاہر قدرت کو دیکھ کر اس کے خالق کا سراغ لگاتی تھیں۔ ایک روایت میں آپ کے اسی قسم کے واقعہ کا ذکر ملتا ہے کہ ایک دن معصومہ کائنات نے والدہ ماجدہ حضرت سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا سے استفسار کیا ’’امی جان! جس اللہ جل مجدہ نے ہمیں اور اس پوری کائنات کو پیدا کیا ہے کیا ہم اسے بھی دیکھ سکتے ہیں؟ اس پر حضرت سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حکمت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی عبادت و بندگی اور اس کی معرفت کے حصول کے طریقے بتائے اور فرمایا کہ اس کے برگزیدہ بندے دنیا میں اللہ تعالیٰ کے جلوؤں کا نظارہ کرتے ہی ہیں، آخرت میں اللہ تعالیٰ انہیں اپنے دیدار سے ضرور مشرف فرمائے گا۔ اس طرح سرور کائنات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب سارا دن دعوت حق کے کٹھن فریضے کی انجام دہی کے بعد گھر واپس آتے تو ازراہ شفقت حضرت سیدہ رضی اللہ عنہا کو معرفت دین پر مبنی باتیں بتاتے جنہیں وہ خداداد ذہانت کے سبب مِنّ و عَن یاد کرلیتیں اور والدہ محترمہ کے پوچھنے پر انہیں سنا بھی دیتیں۔ یوں آپ نے آغوشِ نبوت میں علوم و معارف کے دریا اپنے اندر جذب کئے اور فیوض نبوت کی وارث اور مخزن قرار پائیں۔

٭ اللہ تعالیٰ نے انسان کو دوسری مخلوق کے مقابلے میں اضافی خصائص سے نوازا ہے ان میں جذبہ ایثار و قربانی بھی ایک اہم صفت ہے۔ یہ ایمان کی علامت، تقویٰ کا معیار اور انسانیت کا شرف ہے۔ حضرت سیدہ کائنات رضی اللہ تعالیٰ عنہا میں یہ جذبہ کیوں نہ ہوتا ان کے والد، محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود ایثار کے پیکر اور قربانی کا عنوان تھے۔ آپ رضی اللہ عنہا کے متعلق زیادہ واقعات تو محفوظ نہیں تاہم یہ تو مسلمہ حقیقت ہے کہ آپ نے معصوم عمر میں مصائب و آلام کی جتنی کٹھن گھاٹیاں اہل خاندان کے ساتھ عبور کیں ان میں قدم قدم آپ کی صبرو استقامت اور ایثار و قربانی کا جذبہ کارفرما تھا۔ بعض کتب میں ایک واقعہ مذکور ہے کہ فاطمہ نامی ایک عورت جو شام کے کسی رئیس کی لڑکی تھی، تورات، زبور اور انجیل کی عالمہ تھی۔ وہ ایک مرتبہ شام سے مکہ میں آئی تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر بہت سے تحائف لے کر آئی یہ تحائف اس نے حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی خدمت میں پیش کئے۔ آپ نے خاتون کا استقبال کیا، اس کی خاطر تواضع کی، پھر فرمایا کہ اگر آپ اجازت دیں تو یہ تحائف اہل اسلام میں تقسیم کردوں؟ اس نے بخوشی اجازت دے دی اور آپ نے سب تحائف تقسیم کے لئے بھیج دیئے۔ اس عمر میں ایثار کی یہ شان اور دنیا کے مال و اسباب سے بے رغبتی کی کیفیت دیکھ کر وہ اجنبی عورت ورطہ حیرت میں ڈوب گئی۔ ایسا کیوں نہ ہوتا کہ وہ شہزادی کون و مکاں کی بارگاہ میں بیٹھی تھی جو خدا کی نعمتوں کے قاسم کی حقیقی وارث تھیں۔ جہاں صبح و شام دنیا و آخرت کے خزانے بٹتے تھے اور قیامت تک فیض کا یہ دریا پوری جولانیوں کے ساتھ اسی طرح جاری رہے گا۔

٭ حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراء طاہرہ رضی اللہ عنہا کے بچپن کی سیرت کا تذکرہ ادھور ا رہے گا اگر والدین کے ساتھ آپ کی کیفیت محبت و اطاعت کی جھلک نہ دکھائی جائے، واقعہ یہ ہے کہ سید دو عالم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نور نظر اور لخت جگر ہونے کے ناطے جملہ صفات قدرتی طور پر آپ کی شخصیت مطہرہ کا جزوِ لاینفک تھیں۔ اس لئے والدین کی اطاعت جیسی طبعی، فطری صفت اور اس تعلق محبت کی کیفیت کا اندازہ لگانا ہمارے فہم و ادراک سے ماوراء ہے۔ حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے فیض نظر نے جس طرح حضرت سیدنا اسماعیل علیہ السلام کو کمسنی میں آداب فرزندی سکھادیئے اور وہ پدر بزرگوار کے ایک اشارے پر اپنا سرتن سے جدا کروانے کے لئے تیار ہوگئے تو محبوب خدا، سیدالانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فیضان نظر نے حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا کو کس قدر اعلیٰ اور پاکیزہ آداب سے آراستہ کیا ہوگا؟ اس اطاعت و محبت کی گہرائیوں تک ہمارے تصورات کی رسائی کیسے ممکن ہے کہ اسے ہم الفاظ کا جامہ پہنا سکیں؟

اس کی ایک جھلک دیکھنی ہو تو حضرت سیدنا امام حسن و حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہما کی سیرت و کردار اور دین کی خاطر ان کی قربانیوں کا انداز دیکھا جاسکتا ہے۔ یہ اسی فیضان نظر کے کرشمے تھے کہ کربلا کے ریگزاروں سے لے کر اطراف و اکناف عالم میں آج تک حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے نسبی فرزندوں کی قربانیوں کا لازوال سلسلہ جاری و ساری ہے۔
اتباع فاطمہ رضی اللہ عنہا میں مسلمان بیٹیوں کے فرائض

مندرجہ بالا نقوش سیرت سے حاصل ہونے والے نکات جو ایک مسلمان بیٹی کے لئے راہنما اصول کی حیثیت رکھتے ہیں، خلاصۃًحسب ذیل ہیں۔

* بیٹی پر فرض ہے کہ وہ والدین کی خدمت و اطاعت دل و جان سے کرے۔ جدید نسل اور بالخصوص تعلیم یافتہ نوجوان طبقہ اپنے والدین کی عزت و توقیر نہیں کرتا۔ خاص طور پر مذہبی اور دینی نصیحت کو نفرت کی حد تک رد کرتا ہے، ایسی اولاد دنیا و آخرت میں اللہ تعالیٰ کے غضب کی مستحق ہے۔

* بیٹی والدین کی جائز خواہشات پر مرمٹنے کے لئے تیار رہے، ان کی عزت وناموس کا خیال رکھے، اپنی عفت و حیاء کو داغدار ہونے سے حتی الوسع بچائے رکھے۔

* والدین کے لئے راحت و سکون کا باعث ہو نہ یہ کہ شرم و عار کا سبب بنے۔ حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا تو اس وقت بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ڈھارس تھیں جب اپنوں اور بیگانوں نے تلواریں نیام سے باہر نکال رکھی تھیں اور سب آپ کے جانی دشمن ہوچکے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہا کے لئے یہ دور کھیل کود میں مگن رہنے کا تھا لیکن قربان جائیں اس تقدس مآب شہزادی کی عظمتوں پر کہ اس کم سنی میں بھی سراپا اطاعت اور مونس و غمخوار رہیں۔

* اگر والدین معاشی اعتبار سے تنگ دست ہوں، تو کفایت شعاری پنائے۔ بلاوجہ فرمائشیں، اخراجات میں اضافے کا سبب بنتی ہیں۔ بنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو نازو نعم میں پلنے والی تھیں مگرشعب ابی طالب میں اہل خاندان کے ہمراہ تین سال درختوں کے پتے اور ٹہنیاں کھاکر گزارہ کیا لیکن زبان پر حرف شکایت نہ لایا۔
اس شکم کی قناعت پر لاکھوں سلام​

* تعلیم و تربیت کے حصول میں محنت، لگن اور دلچسپی ضروری ہے۔ والدین یا اساتذہ کی اچھی باتوں کو پلے باندھ کر ان پر عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے کیونکہ یہی اس کے سیکھنے اور علم کو عمل میں ڈھالنے کا سنہری دور ہے۔

* اگر سوتیلی ماں کے ساتھ رہنا پڑے تو صبر و استقامت اور اطاعت و محبت کا ویسا ہی مظاہرہ کرے جیسا کہ اپنی حقیقی ماں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ حضرت سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے انتقال کے بعد حضرت سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا یکے بعد دیگرے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نکاح میں آئیں اور گھر میں آپ کے ساتھ رہتی تھیں مگر کبھی کسی کو آپ سے شکایت نہ ہوئی بلکہ سب کی سب امہات المومنین رضی اللہ عنہن آپ کے محاسن و اخلاق کی دل و جان سے معترف تھیں اور دلچسپ بات یہ ہے کہ آپ کے فضائل و محاسن پر مبنی اکثر احادیث حضرت سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہیں۔
* خویش و اقارب بہن بھائیوں اور عزیزوں سے حسن سلوک بھی سیدہ کی سیرت کا تابناک پہلو ہے۔
مکمل تحریر اور تبصرے>>

حضرت فاطمہ زھراء سلام اللہ علیہا


بسم اللہ الرحمن الرحیم
سبحان اللہ و بحمدہ سبحان اللہ العظیم
اللھم صل علی محمد صلی اللہ علیہ وسلم وعلی آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم

زندگي نامہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ عليہا


نام، القاب
نام فاطمہ اور مشہور لقب زہرا، سیدۃ النساء العلمین، راضیۃ، مرضیۃ، شافعۃ، صدیقہ، طاھرہ، زکیہ، خیر النساء اور بتول ہیں۔

کنیت
آپ سلام اللہ علیہا کی مشہور کنیت ام الائمۃ، ام الحسنین، ام السبطین اور امِ ابیہا ہے۔ ان تمام کنیتوں میں سب سے زیادہ حیرت انگیز ام ابیھا ھے، یعنی اپنے باپ کی ماں، یہ لقب اس بات کا ترجمان ھے کہ آپ اپنے والد بزرگوار کو بے حد چاھتی تھیں اور کمسنی کے باوجود اپنے بابا کی روحی اور معنوی پناہ گاہ تھیں ۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نےآپ کو ام ابیھا کا لقب اس لئے دیا . کیونکہ عربی میں اس لفظ کے معنی، ماں کے علاوہ اصل اور مبداء کے بھی ھیں یعنی جڑ اور بنیاد ۔ لھذا اس لقب( ام ابیھا) کا ایک مطلب نبوت اور ولایت کی بنیاد اور مبدا بھی ہے۔ کیونکر یہ آپ ھی کا وجود تھا، جس کی برکت سے شجرہ ٴ امامت اور ولایت نے رشد پایا، جس نے نبوت کو نابودی اور نبی خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو ابتریت کے طعنہ سے بچایا ۔
والدین

آپ کےوالد ماجد ختمی مرتبت حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اور والدہ ماجدہ حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا بنت خولد ہیں۔ ھم اس باپ کی تعریف میں کیا کھیں جو ختم المرسلین، حبیب خدا اور منجی بشریت ھو ؟ کیا لکھیں اس باپ کی تعریف میں جسکے تمام اوصاف و کمالات لکھنے سے قلم عاجز ہو؟ فصحاء و بلغاء عالم، جس کے محاسن کی توصیف سے ششدر ہوں؟ اور آپ کی والدہ ماجدہ، جناب خدیجہ سلام اللہ علیہا بنت خویلد جو قبل از اسلام قریش کی سب سے زیادہ باعفت اور نیک خاتون تھیں ۔ وہ عالم اسلام کی سب سے پہلی خاتون تھیں جو خورشید اسلام کے طلوع کے بعد حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائیں اور اپنا تمام مال دنیا اسلام کو پروان چڑھانے کےلئے اپنے شوھر کے اختیار میں دے دیا ۔ تاریخ اسلام، حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وفاداری اور جان و مال کی فداکاری کو ھرگز نھیں بھلا سکتی۔ جیسا کہ خود پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے کردار سے ظاھر ھوتا ھے کہ جب تک آپ زندہ تھیں کوئی دوسری شادی نھیں کی اور ھمیشہ آپ کی عظمت کا قصیدہ پڑھا، عائشہ سلام اللہ علیہا زوجہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم فرماتی ھیں :

" ازواج رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں کوئی بھی حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کے مقام و احترام تک نھیں پہنچ پائی ۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم ھمیشہ انکا ذکر خیر کیا کرتے تھے اور اتنا احترام کہ گویا ازواج میں سے کوئی بھی ان جیسی نھیں تھی ۔"پھر عائشہ سلام اللہ علیہا کہتی ھیں : میں نےایک دن پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا :

" وہ محض ایک بیوہ عورت تھیں" تو یہ سن کر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم اس قدر ناراض ھوئے کہ آپ کی پیشانی پر بل پڑ گئے اور پھر فرمایا :

"خدا کی قسم میرے لئے خدیجہ سلام اللہ علیہا سےبہتر کوئی نھیں تھا ۔ جب سب لوگ کافر تھے تو وہ مجھ پر ایمان لائیں، جب سب لوگ مجھ سے رخ پھیر چکے تھے تو انہوں نے اپنی ساری دولت میرے حوالے کر دی ۔ خدا نے مجھے اس سے ایک ایسی بیٹی عطا کی کہ جو تقویٰ، عفت و طھارت کا نمونہ ھے ۔ "پھر عائشہ سلام اللہ علیہا کہتی ھیں : میں یہ بات کہہ کر بہت شرمندہ ھوئی اور میں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا : اس بات سے میرا کوئی غلط مقصد نھیں تھا ۔

حضرت فاطمہ زھراء سلام اللہ علیہا ایسی والدہ اور والد کی آغوش پروردہ ھیں ۔
3 رمضان المبارک ، سیدہء کائنات، سیدۃ النساء اھل الجنۃ، جگر گوشہ سید الانبیاء سیدنا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، ام الحسنین کریمین ، سیدہ فاطمۃ الزاہرا علیھا السلام کا یوم وصال ہے۔
ذیل میں احادیث مقدسہ میں سے آپ (علیھا السلام) کے فضائل و مناقب پر روشنی ڈالنے کی سعادت حاصل کرکے دنیا و آخرت میں وسیلہء سیدہء عالم (علیھا السلام) سے بارگاہ الہیہ سے خیر و برکات کا ملتجی ہوں۔


’’حضرت صفیہ بنت شیبہ رضی اﷲ عنہا روایت کرتی ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صبح کے وقت باہر تشریف لائے درآنحالیکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک چادر اوڑھی ہوئی تھی جس پر سیاہ اُون سے کجاووں کے نقش بنے ہوئے تھے۔ حضرت حسن بن علی رضی اﷲ عنہما آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُنہیں اُس چادر میں داخل کر لیا، پھر حضرت حسین رضی اللہ عنہ آئے اور ان کے ہمراہ چادر میں داخل ہو گئے، پھر سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا آئیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو اس چادر میں داخل کر لیا، پھر حضرت علی کرم اﷲ وجہہ آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُنہیں بھی چادر میں لے لیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ آیت مبارکہ پڑھی : ’’اے اھلِ بیت! اﷲ تو یہی چاہتا ہے کہ تم سے (ہر طرح کی) آلودگی دُور کردے اور تم کو خوب پاک و صاف کر دے۔اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے۔
’’حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : فاطمہ میرے جسم کا ٹکڑا ہے، پس جس نے اسے ناراض کیا اُس نے مجھے ناراض کیا۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے اور الفاظ امام بخاری کے ہیں۔

حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صاحبزادی سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا کے ہاں گئے اور کہا : اے فاطمہ! خدا کی قسم! میں نے آپ کے سوا کسی شخص کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نزدیک محبوب تر نہیں دیکھا اور خدا کی قسم! لوگوں میں سے مجھے بھی آپ کے والد محترم کے بعد کوئی آپ سے زیادہ محبوب نہیں۔‘‘ اسے امام حاکم اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔
   

مکمل تحریر اور تبصرے>>

مثالی شریک حیات‘ حضرت خدیجتہ الکبریٰ

دنیا کی ابتدائی تاریخ اور ارتقائی منازل کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو اس میں عورت کا کردار بالکل مفقود ہے یہ تو گزشتہ محض ایک دو صدیوں قبل حواءکی بیٹی کو عزت واحترام کے قابل تسلیم کیاگیا نیز عورت کو بھی مرد کے برابر قرار دیا گیاجبکہ اسلام کی ابتدائی تاریخ میں مسلم خواتین کا جو کردار رہا وہ آج سب دنیا کےلئے ایک واضح سبق بھی ہے‘ قابل تحسین کارنامہ بھی اور قابل فخر تاریخ بھی بلکہ میں تو یہ کہوں گی کہ اسلام کی تاریخ کی تو ابتداءہی عورت کے شاندار کردار سے ہوتی ہے اس دین حق کا تو نقطہ آغاز ہی عورت کے عظیم الشان کردار سے عبارت ہے یہ بات الگ ہے کہ آج ترقی یافتہ ہونے کا دعویٰ کرنے والی دنیا حقوق نسواں کی علمبردار بنی ہوئی ہے اور چار پانچ صدیوں سے مغرب کی معاندانہ یلغارسے متاثر مسلم معاشرے میں جہالت و پسماندگی کے باعث مسلم عورت سے اس کا تاریخ ساز کردار بھی چھین لیا گیا ہے اور وہ اس کردار سے بھی محروم کردی گئی ہے جو اسے دین اسلام نے عطا کیا تھا۔اس لحاظ سے ام المومنین حضرت خدیجتہ الکبریٰ کو ایک مثالی اورسچی شریک حیات کہا جائے تو کوئی مبالغہ نہیں ہوگا۔ قریش کے ایک نامور سوداگر خویلد بن اسد کی بیٹی تھیں جن کا شجرہ نسب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اجداد قصی سے ملتا ہے۔ خویلد مالی اعتبار سے بہت مستحکم تھے اور ان کی تجارت شام و یمن تک پھیلی ہوئی تھی۔ حضرت خدیجہ 555میں پیدا ہوئیں۔ اس زمانے میں بعض قبائل میں لڑکیوں کو زندہ درگور کردیا جاتا تھا، مگر آپکے والد خویلد نے آپکی پرورش نہایت پیار و محبت سے کی۔ ام المومنین حضرت خدیجتہ الکبریٰ قریش کے ایک نامور سوداگر خویلد بن اسد کی بیٹی تھیں، جن کا شجرہ نسب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اجداد قصی سے ملتا ہے۔ خویلد مالی اعتبار سے بہت مستحکم تھے اور ان کی تجارت شام و یمن تک پھیلی ہوئی تھی۔ حضرت خدیجہ 555میں پیدا ہوئیں۔ اس زمانے میں بعض قبائل میں لڑکیوں کو زندہ درگور کردیا جاتا تھا مگر آپکے والد خویلد نے آپکی پرورش نہایت پیار و محبت سے کی۔ آپ بچپن ہی سے سنجیدہ، نیک اطوار اور شریف الطبع تھیں۔
نیکی کی وجہ سے ’طاہرہ‘اور ’سیدہ النسائ‘کہا جاتا تھا۔ آپ کا پہلا نکاح ابوہالہ سے ہواجن سے آپ کے ہاں دو بیٹے ہند اور ہالہ پیدا ہوئے۔ ہالہ کا کم عمری میں انتقال ہوگیا تھا اور ہند جنگ جمل میں شہید ہوئے۔ ابوہالہ کے انتقال کے بعد حضرت خدیجہ کا دوسرا نکاح عتیق بن عائد مخزومی سے ہوا۔ ان سے ایک بیٹی ہند پیدا ہوئیں۔ یہ بھی مسلمان ہوئیں اور صحابیات میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ عتیق کے انتقال کے بعد صیفی بن امیہ سے حضرت خدیجہ کا نکاح ہوا جو حرب الفجار میں مارا گیا۔
صیفی سے حضرت خدیجہ کا ایک بیٹا محمد تھا۔ اس وقت حضرت خدیجہ کی عمر تیس سال تھی۔ خاندانی اعزاز اور دولت کے ساتھ حسنِ صورت و سیرت سے بھی مالامال تھیں۔ کئی سرداروں نے نکاح کی خواہش کی مگر آپ نے انکار کردیا۔ خویلد نے بڑھاپے کی وجہ سے اپنا کاروبار حضرت خدیجہ کے سپرد کردیا۔ حضرت خدیجہ حجاز مقدس میں سب سے زیادہ متمول خاتون تھیں جن کی تجارت کا سامان شام اور یمن میں سال میں دو مرتبہ جاتا تھا۔ طبقات ابن سعد کے مطابق مکہ کے سارے تجارتی قافلوںکا سامان ملاکر حضرت خدیجہ کے سامان کے برابر ہوتا تھا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی امانت و صداقت کا چرچا حضرت خدیجہ کے کانوں تک پہنچا تو انہوں نے بلا بھیجا۔
انہیں اس وقت ایک قابل بھروسہ اور ایماندار معتمد کی ضرورت تھی۔ اس لیے اپنا سامانِ تجارت نوکروں اور غلاموں کے ساتھ سفر شام کی طرف روانہ کیا اور اپنے غلام میسرہ کو خصوصی ہدایت کی کہ محمد کے کسی معاملے میں دخل اندازی نہ کرنا، راستے میں جو کچھ واقعات پیش آئیں وہ بلاکم و کاست بیان کرنا۔ عرب کے انتہائی بگڑے ہوئے معاشرے میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت اور امانت انہیں عجب سی لگی۔ اہلِ قافلہ کے ساتھ آپ کا برتاﺅانتہائی شریفانہ تھا۔
مکہ پہنچ کر آپ نے ایک ایک پیسے کا حساب حضرت خدیجہ کے سامنے پیش کردیا۔ آپ کی دیانت، شرافت اور معاملہ کی درستی سے حضرت خدیجہ بہت متاثر ہوئیں اور آپ کو نکاح کی پیش کش کی۔ اس وقت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر 25 سال اور حضرت خدیجتہ الکبریٰ کی عمر 40 سال تھی مگر آپ دونوں کی ازدواجی زندگی انتہائی کامیاب گزری۔ نکاح کے بعد حضرت خدیجہ کی زندگی کا مقصد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اور خوشنودی تھا۔ اس سلسلے میں انہوں نے تن من دھن سب کچھ قربان کردیا۔
نبوت ملنے سے پہلے آپ پر پیغمبری کے آثار شروع ہوگئے تھے۔ آپ کو درخت اور پتھر سلام کرتے۔ آپ خوفزدہ ہوجاتے۔ حضرت خدیجہ سے تذکرہ کرتے تو وہ آپ کو تسلی دیتیں اور آپ کی تشویش اور پریشانی کو دلسوزی، محبت اور ہمدردی سے دور فرماتیں۔ حضرت خدیجہ کی دلجوئی سے آپ کو بہت ڈھارس ہوتی اور منتشر خیالات کو سکون ملتا۔ نبوت ملنے سے پہلے آپ غارِ حرا میں جاکر کئی کئی دن عبادت میں گزار دیتے۔ رمضان المبارک میں جب آپ کو نبوت کے عہدے پر فائز کیا گیا تو آپ غارِ حرا میں عبادت میں مشغول تھے۔
حضرت جبرائیل تشریف لائے اور کہا کہ پڑھو۔ آپ نے فرمایا ’میں امّی ہوں۔ حضرت جبرائیل نے سینے سے لگاکر زور سے بھینچا اور سورہ علق کی ابتدائی پانچ آیات پڑھا کر چلے گئے۔ آپ لرزتے کانپتے گھر آئے اور حضرت خدیجہ سے کہا کہ مجھے کپڑا اوڑھا دو۔ جب یہ کیفیت کچھ کم ہوئی تو حضرت خدیجہ کو پورا واقعہ سنایا۔ شریک حیات نے محبت سے دلجوئی کی۔ کسی شخص کو اس کے گھر والوں اور خصوصاً بیوی سے زیادہ کوئی نہیں جان سکتا۔ آپ کی صداقت اور امانت پر صدقِ دل سے ایمان لانے والی سب سے پہلے آپ کی زوجہ محترمہ تھیں جنہوں نے فرمایا کہ آپ خوف نہ کھائیں۔ آپ نے کبھی کوئی بات غلط نہیں کی، کبھی کسی کا دل نہیں دکھایا۔آپ یتیموں کے والی اور بیواﺅں کے مددگار ہیں، مسکینوں کی خدمت کرتے ہیں، خدا سے ڈرتے ہیں اور اس کے بندوں سے اچھا سلوک کرتے ہیں، کنبہ والوں کے ساتھ مہربانی کرتے ہیں، اہلِ قریش آپ کی دیانت و امانت کے معترف ہیں۔ آپ کسی قسم کا خوف نہ کریں۔ خدا آپ کو ضائع نہ کرے گا۔
ام المومنین آپ کو اپنے چچازاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں جو انجیل مقدس اور توریت کے بڑے عالم تھے۔ انہوں نے پورا واقعہ سنا تو کہا کہ محمد کے پاس وہی ناموس اکبر آیا ہے جو موسیٰ پر بھی نازل ہوا تھا۔ اے عبداللہ کے بیٹے خدا نے جس پیغمبر کی انجیل میں بشارت دی ہے وہ تم ہی ہو مگر تمہاری قوم تم کو وطن سے نکالے گی اور تمہیں سخت تکلیف پہنچائے گی، کاش میں اس وقت زندہ ہوتا تو تمہاری حمایت اور مدد کرتا۔
ورقہ بن نوفل کی گفتگو کے بعد آپ کی پریشانی دور ہوگئی۔ ام المومنین حضرت خدیجہ سب سے پہلے آپ پر ایمان لائیں اور خواتین میں اسلام کی تبلیغ شروع کردی۔ آپ کی کوششوں سے ام الفضل، اسما بنت ابوبکر ام جمیل، فاطمہ بنت خطاب، اسما بنت عمیس ایمان لائیں۔ حضرت خدیجہ صحیح معنوں میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رفیقہ اور شریک حیات تھیں۔ وہ اپنے شوہر کی ایسی عاشق زار شریک ِسفر تھیں جنہوں نے اپنے جان و مال، روپے پیسے سے ہر لمحہ آپ کی مدد اور دلجوئی کی۔ ہر وقت ہر خدمت و اطاعت کے لیے تیار اور مستعد رہتیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کئی کئی دن کے لیے غارِ حرا میں جاکر عبادت کرتے توحضرت خدیجہ ان کو ڈھونڈ کر کھانا بھیجتیں۔
شعب ابی طالب کے تین سالہ معاشرتی بائیکاٹ میں ہر لمحہ آپ کے ساتھ رہیں۔ متمول اور دولت مند ہونے کے باوجود فاقہ کشی پر کبھی حرف ِشکایت زبان پر نہیں لائیں۔ آپ بھی ان کی محبت اور صلاحیتوں کو سراہتے اور انہیں بچوں کی ماں اور گھر کی منتظم کہتے۔ ہر معاملے میں ان سے مشورہ لیتے اور مشورے کے مطابق کام کرتے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیغمبری کے جو فرائض انجام دیئے ان میں حضرت خدیجہ کی صائب رائے، بیش بہا مشورے، ان کی ہمدردی، محبت، دلسوزی، دولت و ثروت سب کچھ شامل تھے۔حضرت ابراہیم کے علاوہ آپ کی ساری اولاد یں ام المومنین حضرت خدیجہ سے ہوئیں۔ اسلام کو حضرت خدیجہ کی ذات سے بہت تقویت ملی۔ ان کے زبردست استقلال، استقامت، خلوص و محبت ،رفاقت ، ایثار نے اسلام پھیلانے میں آپ کی بڑی مدد کی۔حقیقت یہ ہے کہ اسلام کی تاریخ تو شروع ہی عورت کے تعمیری و تاریخی کردار سے ہوتی ہے ۔ تاریخ گواہ ہے کہ عورت کی ہمت دانائی حوصلہ مندی اور دور اندیشی کے شاندار اور قابل فخر کردار سے معمور ہے ۔
مکمل تحریر اور تبصرے>>

جنت کے سردار

یہ بہت ہی اعلی و عظیم حدیث پاک ہے جس سے حسنین کریمین علیہما السلام کی عظمت و رفعت کا اظہار ہوتا ہے۔
کیونکہ حضرت ابوہریرہ اور ابوسعید رضی اللہ عنہما سے مروی ایک حدیث پاک میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
" إذا دخل أھل الجنۃ الجنۃ ینادی مناد:أن لکم أن تحیوا فلا تموتوا أبدا، وأن لکم أن تصحوا فلاتسقموا أبدا، وأن لکم أن تشبوا فلا تھرموا أبدا، وأن لکم أن تنعموا فلا تبأسوا أبدا"
’’جب جنتی جنت میں داخل ہوچکیں گے تو ایک پکارنے والا پکار کر کہے گا (اے جنت والو!) تم تندرست رہو گے کبھی بیمار نہ ہو گے، تم زندہ رہو گے کبھی نہ مرو گے، تم جوان رہو گے کبھی بوڑھے نہ ہو گے اور تم آرام سے رہو گے کبھی محنت و مشقت نہ اٹھاؤ گے۔‘‘
مسلم، الصحيح، 4 : 2182، کتاب الجنة و صفة نعمها، رقم : 2837
کہ ہر جنتی "جوان" ہوگا ۔ اس میں انبیائے کرام علیہم السلام سمیت ہر درجہ کے اولیا و متقین و مقربین بھی شامل ہوں گے۔ اور سیدنا امام حسن و امام حسین علیہما السلام ہر جنتی جوان کے سردار ہوں گے۔ تو اندازہ کریں کہ دونوں شہزادگانِ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سرداری و سلطنت کا عالم کیا ہوگا۔
اللھم صلی علی سیدنا ومولانا محمد وعلی آلہ واہلبیتہ وعترتہ واصحابہ اجمعین وبارک وسل
مکمل تحریر اور تبصرے>>

Saturday 2 November 2013

حضرت مولائے کائنات علی مرتضی رضی اللہ عنہ

الســـلام عــليــكــم و رحــمــة الله و بـــركـــاتـــه

حضرت مولائے کائنات علی المرتضی رضی اللہ عنہ ولایت ومعرفت کے مرکز اور قاسم 
اہل بیت کے فرد فرید اور صحابی جلیل
حضرت مولائے کائنات علی مرتضی رضی اللہ عنہ فضائل کے جامع اور کمالات کا سرچشمہ ہیں،آپ کی ذات سراپابرکات کئی ایک خصوصیات کی حامل ہے،آپ اہل بیت کے فرد فرید بھی ہیں اور صحابی جلیل بھی۔​​
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اولاد امجاد کا سلسلہ حضرت علی مرتضی رضی اللہ عنہ اور حضرت فاطمۃ الزھراء رضی اللہ عنہا سے جاری ہوا۔حضرت مولائے کائنات رضی اللہ عنہ کی ولادت بھی امتیازی شان رکھتی ہے،آپ کعبۃ اللہ شریف کے اندر پیدا ہوئے،یہی وجہ ہے کہ آپ کو مولود کعبہ کہا جاتا ہے،آپ کو یہ خصوصی اعزاز حاصل ہے کہ آپ کی ولادت بھی خداکے گھر میں ہوئی اور شہادت بھی خدا کے گھر میں۔​​​
حضرت علی مرتضی کرم اللہ وجہہ نے ولادت کے بعد جب اپنی آنکھ کھولی تو سب سے پہلے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرۂ انور کا دیدار کیا۔وہ اس قدر عظمت ورفعت کے حامل ہوئے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:علی کا چہرہ دیکھنا عبادت ہے۔​​​
حضرت مولائے کائنات رضی اللہ عنہ کو ایمان میں سبقت کا بھی شرف حاصل ہے،تیرہ سالہ مکی دور میں اسلام کے لئے آپ نے عظیم خدمات انجام دیں،مدینہ منورہ میں بھی آپ نے بے شمار قربانیاں پیش کیں،شجاعت وبہادری آپ کا وصف خاص رہا،غزوئہ تبوک کے علاوہ آپ نے ہر معرکہ میں شرکت کی۔​​​
سفر ہجر ت کے موقع پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ سلم نے رفاقت کے لئے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا انتخاب فرمایا اور امانت کو پہنچانے کے لئے حضرت علی مرتضی رضی اللہ عنہ کا انتخاب کیا اور اپنے بستر مبارک پر آرام کرنے کا حکم دیا۔​​​
آپ کا ان دونوں حضرات کا انتخاب فرمانا ان کی صداقت وحقانیت اور ان پر کامل وثوق واعتماد کو آشکار کرتا ہے۔​​​
حضرت مولائے کائنات رضی اللہ عنہ کی محبت ایمان اور نفاق کے درمیان حد فاصل ہے،حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی مرتضی رضی اللہ عنہ سے ارشاد فرمایا:مومن ہی تم سے محبت کرتا ہے اور منافق ہی تم سے بغض رکھتا ہے۔​​​
حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم فرماتے ہیں کہ ہم حضرت علی رضی اللہ عنہ کی محبت کے ذریعہ منافقین کو پہچان لیا کرتے تھے۔
کسی کے سامنے آپ کی عظمت بیان کی جائے اور اس کے چہرہ پر خوشی کے آثار نظر آئیں تو یہ محبت کی علامت ہے اور آپ کی محبت ایمان کی علامت ہے،اگر آپ کی عظمت سن کر چہرہ سکڑجائے تو یہ نفرت کی علامت ہے اور آپ سے نفرت نفاق کی علامت ہے۔​​​
دوران خطاب حضرت مفتی صاحب قبلہ نے جامع ترمذی کے حوالہ سے کہا کہ طائف میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی مرتضی رضی اللہ عنہ سے رازدارانہ گفتگو کی،جب گفتگو کا سلسلہ طویل ہوا تو لوگوں نے کہا کہ حضور نے اپنے چچا زاد کے ساتھ طویل سرگوشی کی،آپ نے ارشاد فرمایا:میں نے سرگوشی نہیں کہ بلکہ اللہ تعالی نے علی سے رازدارانہ گفتگو کی ہے۔​​​
صحیح بخاری میں حدیث پاک ہے،حضوراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ارشاد فرمایا:تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ہوں۔​​​
حضرت مولائے کائنات رضی اللہ عنہ نے براہ راست حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے علوم ومعارف حاصل کئے ہیں،آپ علم وحکمت کے وہ بحر ذخار ہیں جس کی گہرائی اور گیرائی کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان فیض ترجمان سے ہونے والا اعلان آپ کی علمی جلالت پر شاہد عدل ہے،آپ نے ارشاد فرمایا:میں علم وحکمت کا گھر ہوں اور علی (رضی اللہ عنہ)اس کا دروازہ ہیں۔(جامع ترمذی)​​
حضرت علی مرتضی رضی اللہ عنہ ولایت ومعرفت کے نہ صرف مرکز ہیں بلکہ ان کے قاسم بھی ہیں۔حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ قیامت تک جس کسی کو ولایت ملے گی وہ حضرت علی مرتضی رضی اللہ عنہ ہی کے توسط سے ملے گی۔​​
اللہ تعالی نے حضرت علی مرتضی رضی اللہ عنہ کو شہادت کا شرف بھی عطافرمایا،سترہ(17) رمضان المبارک کو آپ نماز فجر کی ادائی کے لئے مسجد تشریف لائے،دوران نماز سجدہ سے سر اٹھارہے تھے کہ ابن ملجم نے سرمبارک پرزہر آلود تلور سے پر شدید وارکیا،جب ابن ملجم کو آپ کے سامنے پیش کیا گیا تو آپ نے فرمایا:لوگو!یہ ہمارا مہمان ہے؛اس پر زیادتی نہ کی جائے!اس کے لئے نرم بچھونا بچھایا جائے،اسے بہترین کھانا کھلاجائے اور ٹھنڈا پانی پلایا جائے۔ آپ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں شربت پیش کیا گیا تو آپ نے فرمایاوہ شخص(دشمن) ہمارا مہمان ہے؛پہلے اسے پلایا جائے،جب ابن ملجم کو شربت دیا گیا تو اس نے کہا :میں ہرگز نہیں پیوں گا،مجھے معلوم ہے کہ اس میں زہر ملایا گیا ہے،آپ رضی اللہ عنہ کی آنکھوں میں اشک بھر آئے،فرمایا:ابن ملجم!یہ تیرا نصیب ہے،اگر میرے کہنے پر آج یہ شربت پی لیتا تو قسم خداکی!بروز قیامت حوض کوثر سے میں اس وقت تک نہ پیتا جب تک تجھے نہ پلاتا۔بیس(20) رمضان المبارک کو آپ کی شہادت ہوئی۔
مکمل تحریر اور تبصرے>>

Free Urdu Novels, Books, Study Couses PDF and Slides: MS OFFICE 2010 IN URDU

Free Urdu Novels, Books, Study Couses PDF and Slides: MS OFFICE 2010 IN URDU: Learn MS Office 2010 in Urdu مائیکرو سافٹ آفس اردو میں سیکھئے   DOWNLOAD
مکمل تحریر اور تبصرے>>

شجرہ علّیہ حضرات عالیہ قادریہ برکاتیہ

شجرہ علّیہ حضرات عالیہ قادریہ برکاتیہ
رضوان اللہ تعالٰی علیہم اجمعین الی یوم الدین


یاالٰہی رحم فرما مصطفی کے واسطے
یارسول اللہ کرم کیجئے خدا کے واسطے

مشکلیں حل کر شہ مشکل کشا کے واسطے
کر بلائیں رد شہید کربلا کے واسطے

سید سجاد کے صدقے میں ساجد رکھ مجھے
علم حق دے باقر علم ہدیٰ کے واسطے

صدق صادق کا تصدق صادق الاسلام کر
بے غضب راضی ہو کاظم اور رضا کے واسطے

بہر معروف و سری معروف دے بے بیخود سری
جند حق میں گن جنید باصفا کے واسطے

بہر شبلی شیر حق دنیا کے کتوں سے بچا
ایک کا رکھ عبد واحد بے ریا کے واسطے

بو الفرح کا صدقہ کر غم کو فرح دے حسن و سعد
بو الحسن اور بو سعید سعد زا کے واسطے

قادری کر قادری رکھ قادریوں میں اٹھا
قدر عبد القادر قدرت نما کے واسطے

احسن اللہ لھم رزقا سے دے رزق حسن
بندہ رزّاق تاج الاصفیاء کے واسطے

نصرابی صالح کا صدقہ صالح و منصور رکھ
دے حیات دیں محئ جانفزا کے واسطے

طور عرفان و علو حمد و حسنیٰ و بہا
دے علی موسیٰ حسن احمد بہا کے واسطے

بہر ابراہیم مجھ پر نار غم گلزار کر
بھیک دے داتا بھکاری بادشاہ کے واسطے

خانہ ٴ دل کو ضیاء دے روئے ایماں کو جمال
شہ ضیاء مولیٰ جمال الاولیاء کے واسطے

دے محمد کے لئے روزی کر احمد کے لئے
خوان فضل اللہ سے حصہ گدا کے واسطے

دین و دنیا کے ہیں برکات دے برکات سے
عشق حق دے عشقی عشق انتما کے واسطے

حب اہل بیت دے آل محمد کے لئے
کر شہید عشق حمزہ پیشوا کے واسطے

دل کو اچھا تن کو ستھرا جان کو پر نور کر
اچھے پیارے شمس و دین بدر العلی کے واسطے

دو جہاں میں خادم آل رسول اللہ کر
حضرت آل رسول مقتدا کے واسطے

صدقہ ان اعیان کا دے چھ عین عزم و علم و عمل
عفو و عرفاں عافیت احمد رضا کے واسطے
مکمل تحریر اور تبصرے>>

Friday 1 November 2013

احادیث

 شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے

حضرت ابو امامہ رضی اللہ تعالی عنہ روایت ہے کے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مسواک کیا کرو اِس لیے کے مسواک منه کو صاف کرنے والی اور پروردگار کو راضی کرنے والی ہے . جب بھی میرے پاس جبرائیل آئے مجھے مسواک کا کہا حتی کے مجھے اندیشہ ہوا کے مسواک مجھ پر اور میری امت پر فرض ہو جائے گی اور اگر مجھے اپنی امت پر مشقت کا خوف نہ ہوتا تو میں مسواک کو اپنی امت پر فرض کر دیتا اور میں اتنا مسواک کرتا ہوں کے مجھے خطرہ ہونے لگتا ہے کہیں میرے مسوڑھے چھل نہ جائیں .
   (سنن ابن ماجہ: جلد اول: حدیث: 289، حدیث مرفوع، مکر رات 3)


 سیدنا جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میرے باپ کی شہادت کے بعد میں رونے لگا اور ابا کے منہ سے کپڑا ہٹا ہٹا کر بار بار ان کے چہرے کو دیکھ رہا تھا۔ صحابہ مجھے منع کرتے تھے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش تھے پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جابر رو مت جب تک تیرے والد کو اٹھایا نہیں گیا فرشتے اپنے پروں سے اس پر سایہ کئے ہوئے ہیں، سیدنا جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے جابر کیا بات ہے کہ تم مجھے غمگین نظر آتے ہو؟ میں نے کہا یا رسول اللہ میرے والد شہید ہو گئے جن پر بار قرض بہت ہے اور میرے چھوٹے چھوٹے بہن بھائی بہت ہیں آپ نے فرمایا سن میں تجھے بتاؤں جس کسی سے اللہ نے کلام کیا پردے کے پیچھے سے کلام کیا لیکن تیرے باپ سے آمنے سامنے بات چیت کی فرمایا مجھ سے مانگ جو مانگے گا دوں گا (سبحان اللہ) تیرے باپ نے کہا اللہ عزوجل میں تجھ سے یہ مانگتا ہوں کہ تو مجھے دنیا میں دوبارہ بھیجے اور میں تیری راہ میں دوسری مرتبہ شہید کیا جاؤں، رب عزوجل نے فرمایا یہ بات تو میں پہلے ہی مقرر کر چکا ہوں کہ کوئی بھی لوٹ کر دوبارہ دنیا میں نہیں جائے گا۔ کہنے لگے پھر اے اللہ میرے بعد والوں کو ان مراتب کی خبر پہنچا دی جائے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آیت (ولا تحسبن) الخ، فرمائی۔


ہم سے ابو الیمان نے حدیث(شریف) بیان کی،ان کو شعیب نے،ان کو ابوالزناد نے اعرج سے انہوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے نقل کی کہ بے شک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ۔تم میں سے کوئی بھی ایماندار نہ ہو گا جب تک میں اس کے والداور اولاد سے زیادہ اس کا محبوب نہ بن جاؤں۔ حدیث شریف 14،صفہ193،جلد1،بخاری شریف

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ نے فرمایا؛قسم اس کی جس کے ہاتھ میں محمد(صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جان ہے۔ایک زمانہ ایسا آئے گاجب تم مجھ کو دیکھ نہ سکو گے ،اور میرا دیکھنا تم کو تمہارے بال بچوں اور مال سے زیادہ عزیز ہو گا(اس لئے میری صحبت غنیمت سمجھو ،زندگی کا اعتبار نہیں اور دین کی باتیں جلد سیکھ لو۔
(حدیث شریف 6129،صفہ 57،جلد6،مسلم شریف )


حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ؛اللہ تعالیٰ کسی مومن پر ایک نیکی کے لئے بھی ظلم نہ کرے گا ۔اس کا بدلہ دنیا میں دے گا اور آخرت میں بھی دے گا،اور کافر کو اس کی نیکیوں کا بدلہ دنیا میں دیا جاتا ہے یہاں تک کہ جب آخرت ہوگی تو اس کے پاس کوئی نیکی نہ رہے گی جس کا وہ بدلہ دیا جاوے۔ حدیث شریف 7089،صفہ 366،جلد 6،مسلم شریف
مکمل تحریر اور تبصرے>>

Archive