Saturday 12 October 2013

تبلیغ کا طریقہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم
اسلام کی اشاعت و تبلیغ کے کام کرنے والوں کی بہت فضیلت ہے یعنی نیکی کی ہدایت اور برائی سے منع کرنے والوں کو قرآن پاک نے بڑا درجہ دیا ہے جس کا ذکر سورۃ اٰل عمران آیت 104 اور 110، سورۃ توبہ آیت 71 اور سورۃ الحج آیت 41 میں آیا ہے۔
جہاں دین کی تبلیغ کا بڑا اجر ہے وہاں یہ بڑی ذمہ داری اور نہایت احسن طریقہ سے کرنے والا کام ہے۔ سورۃ النحل آیت 125 میں اللہ تعالٰی فرماتا ہے “(اے رسولِ معظّم!) آپ اپنے رب کی راہ کی طرف حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ بلائیے اور ان سے بحث (بھی) ایسے انداز سے کیجئے جو نہایت حسین ہو، بیشک آپ کا رب اس شخص کو (بھی) خوب جانتا ہے جو اس کی راہ سے بھٹک گیا اور وہ ہدایت یافتہ لوگوں کو (بھی) خوب جانتا ہے۔” (ترجمہ طاہر القادری)
ہم سب کو چاہئے کہ دینِ اسلام کی اشاعت و تبلیغ میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیتے ہوئے یہ دھیان بھی رکھیں کہ اسلام کی اشاعت و تبلیغ کے لئے جو بات یا کام ہم کر رہے ہیں وہ اسلام کے عین مطابق بھی ہے یا نہیں اور ہمارا طریقہ ٹھیک بھی ہے یا نہیں۔ اس کے علاوہ ٹھوس دلائل اور حوالہ جات کا ضرور خیال رکھیں۔ ہر اِدھر اُدھر کی بات اور ہر سنی سنائی بات کی پہلے خود تحقیق کریں پھر دوسروں کو بتائیں۔ اگر کوئی اسلامی بات یا مسئلہ ہم کسی کو بغیر حوالہ کے اسلام کا نام لے کر کہہ دیتے ہیں اور اگر وہ اسلام کے مطابق نہ ہوئی تو یوں ہم نے جھوٹ کو اسلام کی طرف منسوب کر دیا۔ تو یہ بھی بہت بڑا گناہ ہے۔
اسی بارے میں سورۃ نحل آیت 116 میں ارشادِ باری تعالٰی ہے ” اور وہ جھوٹ مت کہا کرو جو تمہاری زبانیں بیان کرتی رہتی ہیں کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے اس طرح کہ تم اللہ پر جھوٹا بہتان باندھو، بیشک جو لوگ اللہ پر جھوٹا بہتان باندھتے ہیں وہ (کبھی) فلاح نہیں پائیں گے” (ترجمہ طاہر القادری)۔ جب کسی بات یا پیغام میں ہم کسی مستند کتاب کا حوالہ نہیں دیتے تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ یہ بات ہم خود سے کہہ رہے یا لکھ رہے ہیں اور اس کی مکمل ذمہ داری ہم پر ہے۔ لیکن جب ہم کسی کتاب کا مستند حوالہ دے دیتے ہیں تو پھر ساری ذمہ داری اُس کتاب والے پر ہوتی ہے اور ہم صرف اُس بات یا پیغام کو دوسروں تک پہنچا رہے ہوتے ہیں۔
اس لئے اے امت مسلمہ دین کے معاملے میں اختیاط سے کام لیا کریں اور کوئی بات روایت کرنے سے پہلے تحقیق کر لیا کریں۔ ایک بار پھر میں اپنے اُن دوست احباب کو غور و فکر کی دعوت دیتا ہوں جو آج کل تحقیق کے بغیر ہر سنی سنائی بات کو اسلام کا نام دے رہے ہیں۔ خاص طور پر اُن دوست احباب کو دعوتِ فکر دیتا ہوں جو برقی پیغام اور موبائل پیغام کے ذریعے یہ کام کر رہے ہیں یعنی کوئی بھی اسلام کے نام کا پیغام ملتا ہے اور اسے بغیر تحقیق کے اور بغیر حوالہ جات کے آگے دوسروں کو بھیج دیتے ہیں۔ اے امتِ مسلمہ نیکی کرو اور نیکی کی دعوت بھی دو لیکن دھیان رکھو جو بات آپ اسلام کے ساتھ منسوب کر رہے ہو وہ اسلام کے مطابق بھی ہے یا نہیں اور ساتھ حوالہ بھی موجود ہے یا نہیں۔
اللہ تعالٰی ہم سب کو دینِ اسلام کی صحیح سمجھ عطا کرے اور سیدھے راستے ہر چلائے۔۔۔آمین
مکمل تحریر اور تبصرے>>
" نمازی "
وہ اس مسجد میں نئے نئے امام آئے تھے اور کچھ دنوں بعد ہی انہوں نے اپنی ملنسار طبعیت اور حسن اخلاق سے سارے محلے کو اپنا گرویدہ بنا لیا.. ان کا سارا گھرانہ ہی نیک اور متقی تھا.. ایک دن انہوں نے سوچا کہ محلے دار تو اکثر میری دعوت کرتے رہتے ہیں میرا بھی یہ فرض بنتا ہے کہ میں انکی دعوت کروں..
یہ سوچ کر انہوں نے گھر میں چالیس پچاس بندوں کے کھانے کا انتظام کیا اور سوچا کہ چلو کم از کم مسجد کے نمازیوں کی تو آج دعوت کر دیتا ہوں..
مغرب کی نماز میں پچاس کے قریت نمازی تھے.. انہوں نے امامت کروائی اور جماعت سے فارغ ہو کر گھر چلے گئے تاکہ لوگوں کے کھانے کا انتظام کریں اور مسجد سے آتے ہوئے مسجد میں موجود اپنے چھوٹے بیٹے کو کہا.. " بیٹا جب نمازی نماز پڑھ چکیں تو انہیں لے کر گھر آجانا.. آج انکا شام کا کھانا ہماری طرف سے ہوگا.. "
بیٹے نے کہا.. " ابا جان ٹھیک ہے.. میں نماز کے بعد نمازیوں کو لے کر آ جاؤں گا.. "
امام صاحب گھر تشریف لے گئے اور کھانے کا انتظام کرنے لگے.. کچھ دیر بعد انکا بیٹا گھر آیا اور کہا.. " ابا جان نمازی آگئے ہیں اور میں نے انہیں بیٹھک میں بٹھا دیا ہے.. "
امام صاحب جب بیٹھک میں تشریف لے کر گئے تو دیکھا کہ وہاں صرف تین آدمی بیٹھے تھے.. وہ بہت حیران ہوئے کہ مسجد میں تو پچاس کے قریب نمازی تھے اور میں نے انتظام بھی پچاس آدمیوں کا کیا ہے تو میرا بیٹا صرف تین کو لے کر کیوں آگیا..
انہیں بہت غصہ آیا اور بیٹے کو بلا کر پوچھا.. " میں نے تمہیں کہا تھا کہ نمازیوں کو کھانے کے لیے لے کر آؤ اور تم صرف ان تین لوگوں کو لے کر آگئے.. باقی نمازی کہاں ہیں..؟ "
بیٹے نے کہا.. " اباجان ! آپ نے فرمایا تھا کہ نمازیوں کو لے کر آنا.. میں نے تمام نماز پڑھنے والوں سے پوچھا کہ آج امام صاحب نے جماعت کرواتے ہوئے کون کون سی سورتیں پڑھی اور آپ نے فرضوں کے بعد کی سنتوں میں کون سی سورت پڑھی تو ان تین کے سوا کسی کو بھی پتہ نہیں تھا.. ان کے دھیان ہی کہیں اور تھے..
اباجان ! نمازی تو وہ ہوتا ہے جس کا نماز کی طرف دھیان بھی ہو.. جسے پتہ ہو کہ میں اپنے رب کے سامنے کھڑا ہوں ' جسے پتہ ہے کہ میں اپنے رب کا کلام پڑھ رہا ہوں ' جسے یہ معلوم ہو کہ میرا اللہ مجھے دیکھ رہا ہے اور میری طرف متوجہ ہے..
اباجان ! جسے یہی نہیں پتہ کہ وہ نماز میں کیا پڑھ رہا ہے یا امام صاحب نے کونسی سورت پڑھی وہ تو نمازی نہیں ہے.. اس کا صرف جسم نمازی ہو سکتا ہے.. اس کی سوچ ' اسکا دھیان ' اسکی روح نمازی نہیں ہے.. تو اباجان مجھے تو پوری مسجد میں صرف یہ تین ہی نمازی ملے ہیں جنہیں میں کھانے کے لیے لے آیا ہوں..!! "
مکمل تحریر اور تبصرے>>

علمِ دین سیکھنے والے سعادت مندوں پر اللہ عَزَّوَجَلَّ کا کرم

سرکارِ دوعالم ،نورِ مجسم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و اٰلہ وسلم ایک صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے محوِ گفتگو تھے کہ آپ پر وحی آئی کہ اس صحابی کی زندگی کی ایک ساعت (یعنی گھنٹہ بھر زندگی) باقی رہ گئی ہے ۔ یہ وقت عصر کا تھا ۔ رحمت ِ عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و اٰلہ وسلم نے جب یہ بات اس صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بتائی تو انہوں نے مضطرب ہوکر التجاء کی : ''یارسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و اٰلہ وسلم ! مجھے ایسے عمل کے بارے میں بتائےے جو اس وقت میرے لئے سب سے بہتر ہو۔'' تو آپ نے فرمایا :''علمِ دین سیکھنے میں مشغول ہوجاؤ ۔'' چنانچہ وہ صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ علم سیکھنے میں مشغول ہوگئے اور مغرب سے پہلے ہی ان کا انتقال ہوگیا ۔ راوی فرماتے ہیں کہ اگر علم سے افضل کوئی شے ہوتی تو رسولِ مقبول صلی اللہ تعالیٰ علیہ و اٰلہ وسلم اسی کا حکم ارشاد فرماتے ۔(تفسیر کبیر ، ج١،ص٤١٠)

اللّٰہ ورسول (عزوجل و صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ وسلم) کا کرم

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!
علمِ دین سیکھنے والے سعادت مندوں پر اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے پیارے حبیب صلی اللہ تعالیٰ علیہ و اٰلہ وسلم کا کیسا کرم ہوتا ہے ، اس کا اندازہ اِن روایات سے لگائیے :
(1) رسول کریم رؤف رحیم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و اٰلہ وسلم نے فرمایا کہ خدائے تعالیٰ جس شخص کے ساتھ بھلائی چاہتا ہے تو اسےدین کی سمجھ عطا فرماتا ہے اور خدا دیتا ہے اور میں تقسیم کرتا ہوں۔ (بخاری، کتاب العلم، ، الحدیث ٧١، ج١، ص٤٢)
(2) حضرتِ سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ سرکارِ مدینہ سُرورِ قلب وسینہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و اٰلہ وسلم اپنی مسجد میں دومجلسوں کے پاس سے گزرے تو فرمایا :'' یہ دونوں بھلائی پر ہیںمگر ایک مجلس دوسری سے بہتر ہے کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ سے دعا کررہے ہیں ،اس کی طرف راغب ہیں ، اگر چاہے انہیں دے چاہے نہ دے ۔ اور وہ لوگ خود بھی علم سیکھ رہے ہیں اور نہ جاننے والوں کو سکھا بھی رہے ہیں ،یہی افضل ہیں ،میں معلم ہی بنا کر بھیجا گیا ہوں۔ '' پھر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و اٰلہ وسلم انہیں میں تشریف فرما ہوئے ۔(مشکوۃ المصابیح ، کتاب العلم ، الحدیث ٦٠،ج١،ص١١٧)
(3)حضرتِ صفوان بن عسال المرادی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نور کے پیکر، تمام نبیوں کے سَرْوَر، دو جہاں کے تاجْوَر، سلطانِ بَحرو بَر صلی اللہ تعالیٰ علیہ و اٰلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و اٰلہ وسلم مسجد میں اپنے (دھاری دار)سرخ کمبل سے ٹیک لگائے تشریف فرماتھے، میںنے عرض کیا:یا رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و اٰلہ وسلم !میں علم حاصل کرنے آیا ہوں تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و اٰلہ وسلم نے فرمایا:'' طالبُ العلم کو خوش آمدید، بیشک طالبُ العلم کو ملائکہ اپنے پروں سے ڈھا نپ لیتے ہیں پھران میں بعض ملائکہ دیگر بعض ملائکہ پر سواری کرتے ہوئے طلب علم کی وجہ سے طالبُ العلم کی محبت میں آسمان دنیا تک پہنچ جاتے ہےں۔'' (المعجم الکبیر ،الحدیث٧٢٣ ، ج ٨ ص ٥٤)
(4) حضرتِ سیدنا واثلہ بن اسقعرضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ سرورِ کونین صلی اللہ تعالیٰ علیہ و اٰلہ وسلم نے فرمایا : ''جو علم حاصل کرے اور اسے پابھی لے تو اس کے لئے دوہرا ثواب ہے اور جو نہ پا سکے اس کے لئے ایک ثواب ہے ۔
(مشکوۃ المصابیح ، کتاب العلم، الحدیث ٥٦، ج١، ص١١٦)
(5) حضرتِ حسن بصری علیہ رحمۃ اللہ القوی سے مرسلاً روایت ہے کہ نبی اکرم ، رسول مکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و اٰلہ وسلم نے فرمایا : ''جسے اس حالت میں موت آئے کہ وہ اسلام کی سربلندی کے لئے علم سیکھ رہا ہو تو جنت میں اس کے اور انبیاء کے درمیان ایک درجہ ہو گا (یعنی وہ ان کا قُرب پائے گا ۔)(مشکوۃ المصابیح ، کتاب العلم ، الحدیث ٥٢، ج١، ص١١٥)
مکمل تحریر اور تبصرے>>

Friday 11 October 2013

درود شریف

بِسْــــــــــــــــــمِ اﷲِالرَّحْمَنِ اارَّحِيم
اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَّ عَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ
اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَّ عَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَحَمِيدٌ مَجِيد
اے اللہ تو رحمت نازل فرما محمد صلى الله عليه وسلم پر
اور آل محمد صلى الله عليه وسلم پر، جيسے تو نے رحمت
فرمائى ابراہیم عليہ السلام پراور آل ابراہیم عليہ السلام پر
تو يقینا قابل تعریف ، بڑی شان والا ہے ۔
اے اللہ بركت ناز ل فرما محمد صلى الله عليه وسلم پر
اور آل محمد صلى الله عليه وسلم پر جيسے تو نے بركت
نازل كى ابراہیم عليہ السلام پراور آل ابراہیم عليہ السلام پر
تو يقینا قابل تعریف ، بڑی شان والا ہے ۔
آمین یا رَبُّ العَالَمِیـــن!

 یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میرے ماں باپ اور میں میری جان میرا مال میری رفعتیں میری قوتیں میری عزتیں میرا جمال میرا کمال میر ا سب کچھ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر قربان
♥♥♥الصلوة والسلام عليک يا سيدی ياحبيب الله♥♥♥
♥♥♥الصلوة والسلام عليک يا سيدی يارسول الله♥♥♥
مکمل تحریر اور تبصرے>>

Thursday 10 October 2013

پروردگار کی محبت

ایک عورت حضرت جنید بغدادی رحمته الله علیه کی خدمت میں حاضر هوئی اور عرض کیا که میرا شوهر دوسرا نکاح کرنا چاهتا هے . آپ رحمته الله علیه نے فرمایا اگر اس کے نکاح میں پہلے سے چار عورتیں نہیں هیں تو اس کے لئے یه نکاح جائز هے .
عورت بولی ،
" اے جنید ! اگر غیر مرد کو چہرا دکھانا جائز هوتا تو میں نقاب اٹھا کر آپکو اپنا چہرا دکھاتی اور پوچھتی که جس مرد کی مجھ جیسی حسین بیوی هو کیا اس کیلئے بھی دوسری شادی جائز هے ؟
یه سن کر حضرت جنید بغدادی بے هوش هو گئے .
جب هوش میں آئے اور لوگوں نے بے هوشی کی وجه پوچھی تو فرمایا :
ابھی میرے دل میں خیال آیا که الله تعالی فرماتا هے که اگر میرا بنده میرا دیدار کر سکتا تو میں بندے سے پوچھتا که جس کا مجھ جیسا پروردگار هو اس کے دل میں کسی اور کی محبت هونی چاهیۓ یا نہیں ...
( نزهۃ المجالس )
مکمل تحریر اور تبصرے>>

Wednesday 9 October 2013

Monday 7 October 2013

ﺍﻟﻠﮧ ﮐﺎ ﺑﻨﺪﮦ


ﺍﯾﮏ ﭼﻮﺭ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﻍ ﻣﯿﮟ ﮔﮭﺲ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺁﻡﮐﮯ ﺩﺭﺧﺖ ﭘﺮ ﭼﮍﮪ ﮐﺮ ﺁﻡ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﻟﮕﺎﺍﺗﻔﺎﻗًﺎ ﺑﺎﻏﺒﺎﻥ ﺑﮭﯽ ﻭﮨﺎﮞ ﺁﭘﮩﻨﭽﺎ ﺍﻭﺭ ﭼﻮﺭﺳﮯ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﺎ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ﺍﻭﺑﮯ ﺷﺮﻡ ﯾﮧ ﮐﯿﺎﮐﺮ ﺭﮨﮯ ﮨﻮ؟ﭼﻮﺭ ﻣﺴﮑﺮﺍﯾﺎ ﺍﻭﺭﺑﻮﻻﺍﺭﮮ ﺑﮯ ﺧﺒﺮ ﯾﮧ ﺑﺎﻍ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟﺍﻟﻠﮧ ﮐﺎ ﺑﻨﺪﮦ ﮨﻮﮞ ، ﻭﮦ ﻣﺠﮭﮯ ﮐﮭﻼ ﺭﮨﺎ ﮨﮯﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﮐﮭﺎ ﺭﮨﺎ ﮨﻮﮞ ، ﻣﯿﮟ ﺗﻮ ﺍﺳﮑﺎ
ﺣﮑﻢ ﭘﻮﺭﺍ ﮐﺮ ﺭﮨﺎ ﮨﻮﮞ ، ﻭﺭﻧﮧ ﺗﻮ ﭘﺘﮧ ﺑﮭﯽﺍﺱ ﮐﮯ ﺣﮑﻢ ﮐﮯ ﺑﻐﯿﺮ ﺣﺮﮐﺖ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺳﮑﺘﺎﺑﺎﻏﺒﺎﻥ ﻧﮯ ﭼﻮﺭ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ
ﺟﻨﺎﺏ! ﺁﭖ ﮐﺎ ﯾﮧ ﻭﻋﻆ ﺳﻦ ﮐﺮ ﺩﻝ ﺑﮭﺖﺧﻮﺵ ﮨﻮﺍ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ﺫﺭﺍ ﻧﯿﭽﮯ ﺗﺸﺮﯾﻒ ﻻﺋﯿﮯﺗﺎﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﺁﭖ ﺟﯿﺴﮯ ﻣﻮﻣﻦ ﺑﺎﻟﻠﮧ ﮐﯽﺩﺳﺖ ﺑﻮﺳﯽ ﮐﺮﻟﻮﮞ ۔۔۔۔ ﺳﺒﺤﺎﻥ ﺍﻟﻠﮧ ﺍﺱﺟﮩﺎﻟﺖ ﮐﮯ ﺩﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﺁﭖ ﺟﯿﺴﮯ ﻋﺎﺭﻑ ﮐﺎﺩﻡ ﻏﻨﯿﻤﺖ ﮬﮯ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ﻣﺠﮭﮯ ﺗﻮ ﻣﺪﺕﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺗﻮﺣﯿﺪ ﻭﻣﻌﺮﻓﺖ ﮐﺎ ﯾﮧ ﻧﮑﺘﮧ ﻣﻼﮬﮯ ﺟﻮ ﮐﺮﺗﺎ ﮬﮯ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ﺧﺪﺍ ﮨﯽ ﮐﺮﺗﺎﮬﮯ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ﺍﻭﺭ ﺑﻨﺪﮮ ﮐﺎ ﮐﭽﮫ ﺑﮭﯽﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﻧﮩﯿﮟ ۔۔۔۔۔۔ ﻗﺒﻠﮧ ﺫﺭﺍ ﻧﯿﭽﮯ ﺗﺸﺮﯾﻒﻻﺋﯿﮯ ۔۔۔۔۔۔ﭼﻮﺭ ﺍﭘﻨﯽ ﺗﻌﺮﯾﻒ ﺳﻦ ﮐﺮ ﭘﮭﻮﻻ ﻧﮧ ﺳﻤﺎﯾﺎﺍﻭﺭ ﺟﮭﭧ ﺳﮯ ﻧﯿﭽﮯ ﺍﺗﺮ ﺁﯾﺎ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ﭘﮭﺮ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ﺟﺐ ﻭﮦ ﻧﯿﭽﮯ ﺁﯾﺎ ﺗﻮ ﺑﺎﻏﺒﺎﻥ ﻧﮯ ﺍﺳﮑﻮ ﭘﮑﮍﻟﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺭﺳﯽ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺩﺭﺧﺖ ﺳﮯ ﺑﺎﻧﺪﮪ
ﺩﯾﺎ ۔ ﭘﮭﺮ ﺧﻮﺏ ﻣﺮﻣﺖ ﮐﯽ ، ﺁﺧﺮ ﻣﯿﮟﺟﺐ ﮈﻧﮉﺍ ﺍﭨﮭﺎﯾﺎ ﺗﻮ ﭼﻮﺭ ﭼﻼ ﺍﭨﮭﺎ ، ﮐﮯﻇﺎﻟﻢ ﮐﭽﮫ ﺗﻮ ﺭﺣﻢ ﮐﺮﻭ ، ﻣﯿﺮﺍ ﺍﺗﻨﺎ ﺟﺮﻡﻧﮩﯿﮟ ﺟﺘﻨﺎ ﺗﻮ ﻧﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﻣﺎﺭ ﻟﯿﺎ ﮨﮯ ۔ﺑﺎﻏﺒﺎﻥ ﻧﮯ ﮨﻨﺲ ﮐﺮ ﺍﺱ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺟﻨﺎﺏﺍﺑﮭﯽ ﺗﻮ ﺁﭖ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺟﻮ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯﺍﻟﻠﮧ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ ، ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﺣﮑﻢ ﮐﮯ ﺑﻐﯿﺮ ﮐﻮﺋﯽﮐﭽﮫ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮ ﺳﮑﺘﺎ ، ﺍﮔﺮ ﭘﮭﻞ ﮐﮭﺎﻧﮯﻭﺍﻻ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﺎ ﺑﻨﺪﮦ ﺗﮭﺎ ﺗﻮ ﻣﺎﺭﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﺑﮭﯽﺗﻮ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﺎ ﺑﻨﺪﮦ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﺣﮑﻢ ﺳﮯﮨﯽ ﻣﺎﺭ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺣﮑﻢ ﮐﮯ
ﺑﻐﯿﺮ ﺗﻮ ﭘﺘﮧ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻠﺘﺎﭼﻮﺭ ﮨﺎﺗﮫ ﺟﻮﮌ ﮐﺮ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﺎ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ﺧﺪﺍﺭﺍ ﻣﺠﮭﮯ ﭼﮭﻮﮌ ﺩﮮ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ﺍﺻﻞﻣﺴﺌﻠﮧ ﻣﯿﺮﯼ ﺳﻤﺠﮫ ﻣﯿﮟ ﺁﮔﯿﺎ
ﮬﮯ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ﮐﮧ ﺑﻨﺪﮮ ﮐﺎ ﺑﮭﯽ ﮐﭽﮫﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﮬﮯﺑﺎﻏﺒﺎﻥ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﯽﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﺍﭼﮭﮯ ﯾﺎ ﺑﺮﮮ ﮐﺎﻡ ﮐﺎ
ﺫﻣﮧ ﺩﺍﺭﺑﮭﯽ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مکمل تحریر اور تبصرے>>

Thursday 3 October 2013

غصہ کا علاج

غصہ کا علاج:
ایک آدمی کو غصہ بہت آتا تھا- غصے میں بے قابو ہو کر وہ برا بھلا کہتا- جب غصہ اترتا تو اسے پشیمانی ہوتی- وہ غصے پر قابو پانا چاہتا تھا لیکن کامیاب نہ ہوتا- ایک دن اس نے سنا کہ دوسرے گاؤں میں ایک عالم رہتا ہے- لوگوں کو مسئلوں کے حل بتاتا ہے- اس نے سوچا چلو میں بھی اپنا مسئلہ پیش کر کے دیکھتا ہوں- شاید کچھ تدبیر نکل آئے-
وہ اس عالم کے پاس گیا اور اسے بتایا: "مجھے بے حد غصہ آتا ہے-"
عالم نے کہا: "جب تمہیں غصہ آئے تو تم جنگل میں جا کر درخت میں کیل ٹھونک دیا کرو-"
آدمی نے کہا: "یہ کونسا حل ہے؟"
علم نے کہا: "تم ایسا کرو تو سہی-"
آخر اس نے یہی کیا- اسے جب بھی غصہ آتا، وہ جنگل کی طرف دوڑتا اور تیزی سے کیلیں درخت میں ٹھونکتا جاتا- آخر دن گذرتے گئے- اسے جب غصہ آتا، وہ یہی عمل دہراتا- آخر ایک دن اس کا غصہ کم ہو کر ختم ہو گیا اور اس نے جنگل جانا چھوڑ دیا- ایک دن وہ دوبارہ عالم کے پاس گیا اور کہا: "آپ کی بات پر عمل کر کے میرا غصہ ختم ہو گیا ہے-"
عالم نے کہا: "مجھے اس جگہ پر لے چلو جہاں تم نے کیلیں ٹھونکی ہیں-"
وہ دونوں وہاں چلے گئے- عالم نے دیکھا کہ ایک درخت تقریباً آدھا کیلوں سے بھرا پڑا ہے- عالم نے کہا: "اب ان کیلوں کو نکالو-"
اس نے بہت مشکل سے وہ کیلیں نکال لیں تو دیکھا کہ وہاں چھوٹے بڑے بے حد سوراخ تھے- عالم نے کہا: "یہ وہ سوراخ ہیں جو تم غصے میں آ کر لوگوں کے دلوں میں کرتے تھے- دیکھو کیل تو نکل گئے مگر سوراخ باقی ہیں-"
وہ شخص بہت شرمندہ ہوا- اس نے الله اور اس کے بندوں سے معافی مانگی اور عالم کا شکریہ ادا کیا جس نے اسے آئینہ دکھایا-
ہمیں بھی چاہیے کہ بولتے ہوئے دیکھ لیا کریں کہ ہم نے لوگوں کے دلوں میں کیلیں تو نہیں ٹھونکیں- اگر وہ کیلیں نکل بھی گئیں تو نشان باقی رہ جائے گا-
مکمل تحریر اور تبصرے>>

Wednesday 2 October 2013

Tuesday 1 October 2013

معجزات نبی کریم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم

حضرت علی کی شہادت:۔

حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اور بعض دوسرے صحابہ کرام حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ میں بتادوں کہ سب سے بڑھ کر دو بدبخت انسان کون ہیں؟ لوگوں نے عرض کیا کہ ہاں یا رسول اﷲ! ( صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ) بتائیے ۔آپ نے ارشاد فرمایا کہ ایک قوم ثمود کا سرخ رنگ والا وہ بدبخت جس نے حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی کو قتل کیا اور دوسرا وہ بدبخت انسان جو اے علی!تمہارے یہاں پر (گردن کی طرف اشارہ کیا) تلوار مارے گا۔ (مستدرک حاکم جلد ۳ ص ۱۴۰ تاص ۱۴۱مطبوعه حيدرآباد)

یہ غیب کی خبر اس طرح ظہور پذیر ہوئی کہ ۱۷ رمضان ۴۰ ھ کو عبدالرحمن بن ملجم خارجی نے حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ پر تلوار سے قاتلانہ حملہ کیا جس سے زخمی ہو کر دو دن بعد حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ شہادت سے سرفراز ہوگئے۔ (تاريخ الخلفاء)

 سورج کو ٹھہرا دیا:
واضح رہے کہ “حبس الشمس” یعنی سورج کو ٹھہرا دینے کا معجزہ یہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام ہی کے لیے مخصوص نہیں بلکہ انبیاء سابقین میں سے حضرت یوشع بن نون علیہ السلام کے لیے بھی یہ معجزہ ظاہر ہو چکا ہے جس کا واقعہ یہ ہے کہ جمعہ کے دن وہ بیت المقدس میں قوم جبارین سے جہاد فرما رہے تھے ناگہاں سورج ڈوبنے لگا اور یہ خطرہ پیدا ہوگیا کہ اگر سورج غروب ہوگیا تو سنیچر کا دن آ جائے گا اورسنیچر کے دن موسوی شریعت کے حکم کے مطابق جہاد نہ ہو سکے گا تو اس وقت اﷲ تعالیٰ نے ایک گھڑی تک سورج کو چلنے سے روک دیا یہاں تک کہ حضرت یوشع بن نون علیہ السلام قوم جبارین پر فتح یاب ہوکر جہاد سے فارغ ہوگئے۔

 سورج ٹھہر گیا:۔

حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے آسمانی معجزات میں سے سورج پلٹ آنے کے معجزہ کی طرح چلتے ہوئے سورج کا ٹھہر جانا بھی ایک بہت ہی عظیم معجزہ ہے جو معراج کی رات گزر کر دن میں وقوع پذیر ہوا۔ چنانچہ یونس بن بکیر نے ابن اسحق سے روایت کی ہے کہ جب کفار قریش نے حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے اپنے اس قافلہ کے حالات دریافت کیے جو ملک شام سے مکہ آ رہا تھا تو آپ نے فرمایا کہ ہاں میں نے تمہارے اس قافلہ کو بیت المقدس کے راستہ میں دیکھا ہے اور وہ بدھ کے دن مکہ آ جائے گا۔ چنانچہ قریش نے بدھ کے دن شہر سے باہر نکل کر اپنے قافلہ کی آمد کا انتظار کیا یہاں تک کہ سورج غروب ہونے لگا اور قافلہ نہیں آیا اس وقت حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے بارگاہ الٰہی میں دعا مانگی تو اﷲ تعالیٰ نے سورج کو ٹھہرا دیا اور ایک گھڑی دن کو بڑھا دیا۔ یہاں تک کہ وہ قافلہ آن پہنچا۔(زرقانی جلد ۵ ص ۱۱۶ و شفاء جلد۱ ص ۱۸۵)

چاند دو ٹکڑے ہوگیا:۔
حضور خاتم النبیین صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے معجزات میں “شق القمر” کا معجزہ بہت ہی عظیم الشان اور فیصلہ کن معجزہ ہے۔ حدیثوں میں آیا ہے کہ کفار مکہ نے آپ سے یہ مطالبہ کیا کہ آپ اپنی نبوت کی صداقت پر بطور دلیل کے کوئی معجزہ اور نشانی دکھایئے۔ اس وقت آپ نے ان لوگوں کو “شق القمر” کا معجزہ دکھایا کہ چاند دو ٹکڑے ہو کر نظر آیا۔ چنانچہ حضرت عبداﷲ بن مسعود، حضرت عبداﷲ بن عباس و حضرت انس بن مالک و حضرت جبیر بن مطعم و حضرت علی بن ابی طالب و حضرت عبداﷲ بن عمر، حضرت حذیفہ بن یمان وغیرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے اس واقعہ کی روایت کی ہے۔(زرقانی علی المواهب جلد۵ ص ۱۲۴)
ان روایات میں سب سے زیادہ صحیح اورمستند حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے جو بخاری و مسلم و ترمذی وغیرہ میں مذکور ہے۔ حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس موقع پر موجود تھے اور انہوں نے اس معجزہ کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ ان کا بیان ہے کہ
حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے زمانے میں چاند دو ٹکڑے ہوگیا۔ ایک ٹکڑا پہاڑ کے اوپر اور ایک ٹکڑا پہاڑ کے نیچے نظر آ رہا تھا۔ آپ نے کفار کو یہ منظر دکھا کر ان سے ارشاد فرمایا کہ گواہ ہو جاؤ گواہ ہو جاؤ ۔(بخاری جلد ۲ ص ۷۲۱،ص ۷۲۲ باب قوله وانشق القمر)
ان احادیث مبارکہ کے علاوہ اس عظیم الشان معجزہ کا ذکر قرآن مجید میں بھی ہے۔ چنانچہ ارشاد ربانی ہے کہ
اِقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ وَاِنْ يَّرَوْا اٰيَةً يُّعْرِضُوْا وَيَقُوْلُوْا سِحْرٌ مُّسْتَمِرٌّ (قمر)

قیامت قریب آگئی اور چاند پھٹ گیا اور یہ کفار اگر کوئی نشانی دیکھتے ہیں تو اس سے منہ پھیر لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ جادو تو ہمیشہ سے ہوتا چلا آیا ہے۔
اس آیت کا صاف و صریح مطلب یہی ہے کہ قیامت قریب آ گئی اور دنیا کی عمر کا قلیل حصہ باقی رہ گیا کیونکہ چاند کا دو ٹکڑے ہو جانا جو علامات قیامت میں سے تھا وہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہو چکا مگر یہ واضح ترین اور فیصلہ کن معجزہ دیکھ کر بھی کفار مکہ مسلمان نہیں ہوئے بلکہ ظالموں نے یہ کہا کہ محمد( صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ) نے ہم لوگوں پر جادو کر دیا اور اس قسم کی جادو کی چیزیں تو ہمیشہ ہوتی ہی رہتی ہیں۔
ایک غلط فہمی کا ازالہ:۔

آیت مذکورہ بالا کے بارے میں بعض ان ملحدین کا جو معجزہ شق القمر کے منکر ہیں یہ خیال ہے کہ اس شق القمر سے مراد خالص قیامت کے دن چاند کا ٹکڑے ٹکڑے ہونا ہے جب کہ آسمان پھٹ جائے گا اور چاند ستارے جھڑ کر بکھر جائیں گے۔
مگر اہل فہم پر روشن ہے کہ ان ملحدوں کی یہ بکواس سراسر لغو اور بالکل ہی بے سروپا خرافات والی بات ہے کیونکہ اولاً تو اس صورت میں بلا کسی قرینہ کے انشق (چاندپھٹ گیا) ماضی کے صیغہ کو ینشق(چاندپھٹ جائے گا) مستقبل کے معنی میں لینا پڑے گا جو بالکل ہی بلا ضرورت ہے۔ دوسرے یہ کہ چاند شق ہونے کا ذکر کرنے کے بعد یہ فرمایا گیا ہے کہ
وَاِنْ يَّرَوْا اٰيَةً يُّعْرِضُوْا وَيَقُوْلُوْا سِحْرٌ مُّسْتَمِرٌّo
یعنی شق القمر کی عظیم الشان نشانی کو دیکھ کر کفار نے یہ کہا کہ یہ جادو ہے جو ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے۔

مکمل تحریر اور تبصرے>>

Archive