Friday 27 September 2013

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دُعا سے بارش :۔

ایک مرتبہ ملکِ عرب میں انتہائی خوفناک قحط پڑ گیا۔ اہلِ مکہ نے بتوں سے فریاد کرنے کا ارادہ کیا مگر ایک حسین و جمیل بوڑھے نے مکہ والوں سے کہا کہ اے اہلِ مکہ! ہمارے اندر ابو طالب موجود ہیں جو بانی کعبہ حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی نسل سے ہیں اور کعبہ کے متولی اور سجادہ نشین بھی ہیں۔ ہمیں ان کے پاس چل کر دعا کی درخواست کرنی چاہیے۔ چنانچہ سردار انِ عرب ابو طالب کی خدمت میں حاضر ہوئے اور فریاد کرنے لگے کہ اے ابو طالب ! قحط کی آگ نے سارے عرب کو جھلسا کر رکھ دیا ہے۔ جانور گھاس پانی کے لئے ترس رہے ہیں اور انسان دانہ پانی نہ ملنے سے تڑپ تڑپ کر دم توڑ رہے ہیں۔ قافلوں کی آمدورفت بند ہو چکی ہے اور ہر طرف بربادی و ویرانی کا دور دورہ ہے۔ آپ بارش کے لئے دعا کیجیے۔ اہلِ عرب کی فریاد سن کر ابو طالب کا دل بھر آیا اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو اپنے ساتھ لے کر حرم کعبہ میں گئے۔ اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو دیوار کعبہ سے ٹیک لگا کر بٹھا دیا اور دعا مانگنے میں مشغول ہوگئے۔ درمیان دعا میں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنی انگشت مبارک کو آسمان کی طرف اٹھا دیا ایک دم چاروں طرف سے بدلیاں نمودار ہوئیں اور فوراً ہی اس زور کا بارانِ رحمت برسا کہ عرب کی زمین سیراب ہو گئی۔ جنگلوں اور میدانوں میں ہر طرف پانی ہی پانی نظر آنے لگا۔ چٹیل میدانوں کی زمینیں سر سبز و شاداب ہو گئیں۔ قحط دفع ہو گیا اور کال کٹ گیا اور سارا عرب خوش حال اور نہال ہو گیا۔

چنانچہ ابوطالب نے اپنے اس طویل قصیدہ میں جس کو انہوں نے حضورِ اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی مدح میں نظم کیا ہے اس واقعہ کو ایک شعر میں اس طرح ذکر کیا ہے کہ

وَاَبْيَضَ يُسْتَسْقَي الْغَمَامُ بِوَجْهه

ثِمَالُ الْيَتَامِيْ عِصْمَة لِّـلْاَرَامِلِ

یعنی وہ (حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) ایسے گورے رنگ والے ہیں کہ ان کے رخ انور کے ذریعہ بدلی سے بارش طلب کی جاتی ہے وہ یتیموں کا ٹھکانا اور بیواؤں کے نگہبان ہیں۔ (زرقانی علی المواهب ج۱ ص۱۹۰)
مکمل تحریر اور تبصرے>>

اللہ تعالیٰ کے بابرکت اسم مبارک-2

میں نے مورخہ 13 اگست 2013 کو ورد شروع کیا۔آج مورخہ 24 ستمبر2013 کو125000 مرتبہ مکمل کرلیا ہے۔اس کامیابی پر اللہ تعالٰی کا لاکھ لاکھ بار شکر ادا کرتا ہوں۔اللہ تعالٰی اسے قبول فرمائے۔آمین
مکمل تحریر اور تبصرے>>

Thursday 26 September 2013

Islam-2

عبد اللہ بن #مسعود رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ #نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" مجھے اس آخرى شخص كا علم ہے جو سب سے آخر ميں #جہنم سے نكال كر سب سے آخر ميں جنت ميں داخل كيا جائيگا، وہ شخص جہنم سے گھسٹ كر نكلےگا، تو اللہ عزوجل اسے كہينگے:

جاؤ جا كر #جنت ميں داخل ہو جاؤ، تو وہ شخص جنت كى جانب جائيگا تو
اسے ايسا لگے گا كہ جنت تو بھرى ہوئى ہے، وہ واپس آ كر عرض كريگا: اے ميرے پروردگار جنت تو بھرى ہوئى ہے، تو اللہ سبحانہ و تعالى كہےگا:

جاؤ جا كر جنت ميں داخل ہو جاؤ، تو وہ شخص جائيگا تو اسے ايسا خيال ہو گا كہ جنت تو بھرى ہوئى ہے، وہ پھر واپس آ كر عرض كريگا: اے #اللہ ميں نے اسے بھرا ہوا پايا ہے، جاؤ جا كر جنت ميں داخل ہو جاؤ، تجھے جنت ميں دنيا اور اس كے دس گناہ جتنى جگہ ملے گى ـ يا فرمايا: تجھے دنيا كى دس مثل ملےگا ـ تو وہ شخص عرض كريگا:

اے اللہ كيا مجھ سے مذاق كر رہے ہو ـ يا كہےگا ـ ميرے ساتھ ہنسى كر رہے ہو ـ حالانكہ تو مالك الملك اور بادشاہ ہے، راوى بيان كرتے ہيں كہ: ميں نے ديكھ كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم اتنا ہنسے كہ آپ صلى اللہ عليہ وسلم كى داڑھ نظر آنے لگيں، اور آپ صلى اللہ عليہ وسلم فرما رہے تھے: يہ شخص جنت ميں سب سے كم درجہ اور مقام والا ہے "

صحيح #بخارى #حديث نمبر ( 6202 ) صحيح #مسلم حديث نمبر ( 186 )
.
مکمل تحریر اور تبصرے>>

صحیح بخاری اردو، یونی کوڈ، حدیث سرچ انجن

مکمل تحریر اور تبصرے>>

Wednesday 25 September 2013

رشوت

رشوت

رشوت یہ ہے کہ آدمی ایک کام کے لئے حکومت سے یا کسی ادارہ یا شخص کی طرف سے تنخواہ پاتا ہے، اور پھر بھی اسی کام کے کرنے کے لئے وہ کچھ اور معاوضہ لیتا ہے، مثال کے طور پر ایک دفتر کا کلرک اس لئے مقرر ہے کہ وہ لوگوں کا پاسپورٹ بنا دیا کرے، اب اگر پاسپورٹ بنانے میں تنخواہ کے علاوہ پاسپورٹ بنوانے والے سے اس نے کچھ لیا تو رشوت ہو گی، کیونکہ اس کو اس کام کا معاوضہ مل رہا ہے، اب یہ رقم وہ کس چیز کے بدلے میں لے رہا ہے، رشوت یہ بھی ہے کہ کسی عہدہ کی وجہ سے اس کو کوئی تحفہ اور ہدیہ ملے.

ایک بار ایک آدمی کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے زکوٰۃ کی وصولی کے لئے مقرر فرمایا، جب وہ واپس ہوا تو اس نے کہا کہ اتنا مال زکوٰۃ کا ہے اور اتنا مال مجھے ہدیہ ملا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سنا تو فرمایا کہ وہ اپنے گھر میں ہیٹھے تو پھر دیکھے کہ کون ہدیہ اس کو دیتا ہے، یعنی یہ ہدیہ عہدہ کی وجہ سے ملا ہے.

حدیث مبارکہ ہے
ترجمہ: رشوت لینے والا اور دینے والا دونوں جہنمی ہیں
اور احادیث میں رشوت لینا ایسا گناہ ہے کہ جسے کفر کے قریب تر کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا. لوگوں میں رشوت لینے اور دینے کا طریقہ با لکل عام ہو گیا ہے.

ایک حدیث میں ہے کہ لوگ لمبی لمبی دعائیں مانگتے ہیں اور ان کی حالت یہ ہے کہ ان کا کھانا اور ان کا لباس حرام ہے (یعنی حرام مال سے تیار کیا گیا ہے. لہٰزہ وہ بھی حرام ہے) پھر ایسے لوگوں کی دعائیں کیونکر قبول ہو سکتی ہیں ( دعائیں تو دعائیں انکی عبادات کی مقبولیت بھی خطرے میں ہے) صحیح مسلم
مکمل تحریر اور تبصرے>>

Tuesday 24 September 2013

عبادات

اللہ والوں کي نماز
 نماز اس شخص کي طرح پڑھني چاہيے جسے يقين ہو کہ يہ اس کي زندگي کي آخري نمازہے حضرت خاتم بلخي رحمتہ اللہ عليہ سے کسي نے پوچھا، آپ نماز کيسے پڑھتے ہيں؟ آپ نے فرمايا، (جب نماز کا وقت ہوتاہے تو اچھي طرح وضو کر کے جائے نماز پر اطمينان سے کھڑا ہوجاتا ہوں ار و يہ تصور کرتا ہوں کہ کعبہ ميرے سامنے ہے، جنت ميرے دائيں طرف اور دوزخ ميرے بائيں طرف ہے اور ميں پل صراط پر کھڑا ہوں، اور ميں سمجھتا ہوں کہ موت کا فرشتہ ميرے سر پرہے اور يہ ميري زندگي کي آخري نماز ہے؟
پھر ميں نہايت عاجزي سے اللہ اکبر کہتا ہوں، معاني کو ذہن ميں رکھ کر تلاوت کرتا ہوں اور نہايت خشو ع و خضوع سے نماز ادا کرتا ہوں پھر اللہ تعالي کي رحمت سے اس کے قبول ہونےکي اميد رکھتا ہوں اور اپنے اعمال کے ناقص ہونے کي وجہ سے اس کے ٹھکراديے جانے کا خوف کرتا ہوں)  اللہ اکبر!
يہ ہے اللہ والوں کي نماز! باري تعالي ہميں اولياء کرام کے نقش قدم پر چلنے کي توفيق عطا فرمائے آمين

نماز کي قبوليت کا گمان رکھيے
 نماز کے دوران جو دنياوي خيالات آئيں، ان کي طرف توجہ نہ کريں بلکہ انکي پرواہ کيے بغير اپنے ذہن کو نماز ميں پڑھے جانے والے الفاظ اور ان کے معاني کي طرف متوجہ کرنے کي کوشش کرتے رہيں؟
بعض لوگ يہ سوال کرتے ہيں کہ ہميں يہ اطمينان کيسے ہو کہ ہم نے جو نماز پڑھي اسے اللہ تعالي نے قبول فرماليا؟ اس کا جواب سمجھنے کے ليے اس حديث پاک پر غور کيجئے، ارشاد ہوا ، اللہ تعالي قيامت ميں اپنے بندے کے ساتھ ويسا معاملہ کرے گا جيسا بندے نے اپنے رب کے ساتھ ظن رکھا ہوگا؟ لہذا خوف خدا کے ساتھ ساتھ عبادت کے قبول ہونے کا حسن ظن رکھنا بھي ضروري ہے؟
علماء کرام فرماتے ہيں، اگر تم نے فجر کي نماز پڑھي اور پھر ظہر کي نماز بھي پڑھ لي تو يہ نيک گمان کرو کہ اللہ تعالي نے تمہاري فجر کي نماز قبول فرمالي? پھر جب نماز عصر پڑھ لو تو ظہر کے قبول ہونے کا اطمينان کرلو، اسي طرح ہر اگلي نماز ادا کرنے کے بعد پچھلي نماز قبول ہونے کا اطمينان کر لو کيونکہ اگر اللہ تعالي تمہاري نماز فجر قبول نہ فرماتا تو تمہيں نماز ظہر ميں حاضر ہونے کي توفيق نہ ديتا? رب کريم کا تمہيں ہر اگلي نماز ادا کرنے کي توفيق دينا اس بات کي دليل ہے کہ اس نے تمہاري پچھلي نماز کو قبول فرماليا ہے؟

 نماز، متقی بنادیتی ہے
 ارشاد باری تعالی ہوا، (بیشک نماز منع کرتی ہے بے حیائی اور بری بات سے)۔ (العنکبوت ۴۵، کنز الایمان)
اس آیت سے معلوم ہوا کہ نماز بے حیائی اور برے کاموں سے روکتی ہے یعنی جو شخص پابندی سے نماز کو اس کے حقوق و آداب کا لحاظ رکھتے ہوئے ادا کرتا ہے، رفتہ رفتہ وہ تمام برے کاموں کو چھوڑ دیتا ہے اور متقی بن جاتا ہے۔
(ایک انصاری جوان سید عالم صلی اللہ علیہ والسلم کے ساتھ نماز پڑھا کرتا تھا اور بہت سے کبیرہ گناہوں کا ارتکاب بھی کرتا تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ والسلم سے اسکی شکایت کی گئی، آپ نے فرمایا، اس کی نماز کسی روز اس کو ان بری باتوں سے روک دے گی۔ چنانچہ جلد ہی اس نے توبہ کی اور اسکا حا ل بہتر ہوگیا۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا، جس کی نماز اسے بے حیائی اور برے کاموں سے نہ روکے وہ نماز ہی نہیں۔ تفسیر خزائن العرفان

خشوع و خضوع کی اہمیت
آقا و مولٰی صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان عالیشان ہے ،  (اللہ تعالی کی عبادت ایسے کیا کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو، اگر یہ نہ ہوسکے تو کم از کم یہ ضرور یقین رکھو کہ وہ تمہیں دیکھ رہا ہے)۔  (بخاری)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جو شخص اچھی طرح وضو کر کے سب نمازیں وقت پر ادا کرے، خشوع و خضوع سے قیام کرے، رکوع اور سجدہ بھی اطمینان سے کرے اور پوری نماز اچھے طریقے سے تو وہ نماز چمکدار بن جاتی ہے اور اسے یوں دعا دیتی ہے، اے نمازی ! اللہ تیری ایسے ہی حفاظت کرے جیسے تو نے میری حفاظت کی۔ اور جو نماز کو بری طرح ادا کرے یعنی صحیح وضو نہ کرے، رکوع و سجدہ بھی اچھی طرح نہ کرے تو وہ نماز بد دعا دیتی ہے کہ اللہ تجھے ایسا ہی برباد کرے جیسے تو نے مجھے برباد کیا۔ پھر وہ نماز پرانے کپڑے کی طرح لپٹ کر نمازی کے منہ پر ماردی جاتی ہے۔ (طبرانی)
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، بد ترین چور وہ ہے جو نماز میں سے چوری کرے۔ صحابہ کرام نے عرض کی،یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !  وہ نماز میں سے کیسے چوری کرتا ہے؟ فرمایا، وہ رکوع اور سجدے اچھی طرح ادا نہیں کرتا۔ (مسند احمد، طبرانی)
ایک اور حدیث پاک میں پابندی سے سب نمازیں خشوع و خضوع سے ادا کرنے والوں کو مغفرت کی خوشخبری دی گئی۔ (ابو داؤد)
حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کا ارشاد ہے کہ (خشوع کرنے والے وہ ہیں جو اللہ تعالی سے ڈرتے ہیں نماز سکون سے پڑھتے ہیں)۔
ان احادیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ تمام حقوق آداب کا لحاظ رکھتے ہوئے خشوع و خضوع اور اطمینان و سکون سے نماز ادا کرنی چاہیے۔
نماز با جماعت کی فضیلت
 آقا و مولٰی صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد گرامی ہے، (با جماعت نماز پڑھنا  اکیلے نماز پڑھنے سے ستائیس (۲۷) درجے زیادہ افضل ہے)۔ (بخاری ، مسلم)
محبوب کبریا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، (میرا دل چاہتا ہے کہ چند جوانوں سے کہوں کہ بہت سا ایندھن جمع کر کے لائیں پھر میں ان کے پاس جاؤں جو بلا عذر گھروں میں نمازیں پڑھتے ہیں اور ان کے گھروں کو جلادوں)۔  (مسلم، ابو داؤد)
نور مجسم صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان عالیشان ہے، (جو اپنے گھر سے طہارت و وضو کر کے فرض نماز ادا کرنے کے لئے مسجد جاتا ہے اسکے ہر ایک قدم پر ایک گناہ معاف ہوتا ہے اور دوسرے قدم پر ایک درجہ بلند ہوتا ہے)۔  (مسلم)
حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا، (جو شخص اذان کی آواز سنے اور بلا عذر نماز کو نہ جائے اور گھر میں پڑھ لے، اس کی وہ نماز قبول نہیں ہوتی)۔  صحابہ نے عرض کی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !  عذر سے کیا مراد ہے؟ ارشاد فرمایا، (خوف یا مرض)۔  (ابو داؤد)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے، (اگر نماز با جماعت سے پیچھے رہ جانے والا جانتا کہ اس جانے والے کے لیے کیا اجر ہے تو وہ گھسٹتا ہو احاضر ہوتا)۔  طبرانی
 
مکمل تحریر اور تبصرے>>

عبادات

نمازوں  کي رکعات
 فجر کي نماز کي چار رکعات ہيں، پہلے دو سنت (موکدہ) اور پھر دو فرض۔
  ظہر کي نماز کي بارہ رکعات ہيں جن کي ترتيب يوں ہے، پہلے چار سنت (موکدہ) ، پھر چار فرض، پھر دو سنت (موکدہ)  اور پھر دو نفل۔
  عصر کي نماز کي آٹھ رکعات ہيں، پہلے چار سنت (غير موکدہ)  پھر چار فرض۔
 مغرب کي نماز کي سات رکعات ہيں، پہلے تين فرض پھر دو سنت (موکدہ) اور پھر دو نفل۔
  عشاء کي نماز کي سترہ رکعات ہيں جن کي ترتيب يہ ہے،  چار سنت (غير موکدہ) ، چار فرض، دو سنت (موکدہ)، دو نفل ، تين وتر (واجب) اور دو نفل۔
 جمعہ کي نماز کي چودہ رکعات ہيں جن کي ترتيب يہ ہے ، چار سنت (موکدہ) ، دو فرض ، چار سنت (موکدہ) ، دو سنت (موکدہ) اور دو نفل۔
سنتيں بعض موکدہ ہيں کہ شريعت ميں اس پر تاکيد آئي، بلا عذر ايک بار بھي ترک کر ے تو مستحق ملامت ہے اور ترک کي عادت کرے تو فاسق ، مردود الشھادہ اور مستحق نار ہے، اور بعض ائمہ نے فرمايا کہ وہ گمراہ ٹھرايا جائے گااور گناہگار ہے اگر چہ اس کا گناہ واجب کے ترک سے کم ہے، سنت کو ترک کرنے کي عادت بنا لينا حرام کے قريب ہے اور ايسے شخص کے متعلق انديشہ ہے کہ معاذ اللہ شفاعت سے محروم ہوجائے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمايا، (جو سنت کو ترک کرے گا اسے ميري شفاعت نہ ملے گي)۔
مکمل تحریر اور تبصرے>>

عبادات

نماز کي شرائط
نماز کي چھ شرائط ہيں
 طہارت ، ستر عورت، استقبالہ قبلہ، وقت ، نيت، تحريمہ ۔
 نماز کي پہلي شرط طہارت ہے يعني نمازي کا جسم اور لباس پاک ہونا چاہيے نيز جس جگہ نماز پڑھي جائے وہ بھي نجاست سے پاک ہوني ضروري ہے، طہارت کے ليے اگر حاجت ہو تو غسل کيا جائے ورنہ وضو کرنا ضروري ہے، وضو، غسل، تيمم اور کپڑے پاک کرنے سے متعلق ضروري مسائل پہلے بيا ن کي جاچکے ہيں۔
 نماز کي دوسري شرط ستر عورت ہے يعني بدن کا وہ حصہ جس کا چھپانا فرض ہے اسے چھپايا جائے ، مرد کے ليے ناف کے نيچے سے گھٹنو ں کے نيچ ے تک کا حصہ ستر عورت ہے جبکہ عورت کے ليے دونوں ہتھيليوں، پاؤں کے تلووں اور چہرے کے سوا سارا بدن عورت يعني چھپانے کي چيز ہے، نماز کے علاوہ عورت کو نامحرموں سے چہرے کا پردہ کرنا بھي لازم ہے۔
اتنا باريک لباس جس سے بدن کي رنگت جھلکتي ہو يا ايسا باريک دوپٹہ جس سے بالوں کي سياہي چمکے، ستر کے ليے کافي نہيں يعني ايسے لباس ميں نماز نہيں ہوتي بلکہ ايسا لباس نماز کے علاوہ بھي حرام ہے۔
 نماز کي تيسري شرط استقبال قبلہ يعني کعبہ شريف کي طرف منہ کرنا ہے، نمازي کا منہ اور سينہ قبلہ کي طرف ہونا چاہيے۔
 چوتھي شرط نماز کا وقت ہے، فجر کي نماز کا وقت صبح صادق سے لے کر سورج کي کرن چمکنے تک ہے يعني سورج طلوع ہونے سے پہلے نماز فجر مکمل کرليني چاہيے، ظہر کي نماز کا وقت سورج ڈھلنے سے اس وقت تک ہے جب ہر چيز کا سايہ اصل سائے سے دو گنا ہوجائے ، اصلي سايہ وہ ہے جو سورج کے خط نصف النہار پر پہنچنے کے وقت ہوتا ہے۔
عصر کي نماز کا وقت ظہر کا وقت ختم ہونے سے لے کر سورج غروب ہونے تک ہے،غروب آفتاب سے قبل بيس منٹ کا وقت مکروہ ہوتا ہے اس سے پہلے نماز عصر پڑھ ليني چاہيے اگر کسي وجہ سے عصر نہ پڑھي ہو تو اس مکروہ وقت ميں پڑھ ليني چاہيے۔
مغرب کا وقت غروب آفتاب سے شفق غروب ہونے تک ہے جبکہ عشاء کا وقت شفق غروب ہونے سے لے کر طلوع فجر تک ہے البتہ نصف شب سے زائد تاخير مکروہ ہے۔
 نماز کي پانچويں شرط نيت ہے، نيت دل کے پکے ارادے کو کہتے ہيں اسکا ادني درجہ يہ ہے کہ اگر اس وقت کوئي پوچھے کہ کون سي نماز پڑھ رہے ہو تو فورا بتا دے، اگر سوچ کر بتائے گا تو نماز نہ ہوگي، زبان سے نيت کہہ لينا مستحب ہے اور اس کے ليے کسي زبان کي قيد نہيں، بہتر ہے کہ تکبير اولي کہتے وقت نيت موجود رہے۔
  نماز کي چھٹي شرط تکبر تحريمہ ہے يعني  اللہ اکبر  کہہ کر نماز شروع کي جائے? لفظ  (اللہ)    کو   (آللہ)   يا   (اکبر)   کو   (اکبار)  کہا تو نماز نہ ہوگي بلکہ اگر انکے فاسد معاني سمجھ کر جان بوجھ کر ايسا کہے تو کافر ہے۔
مکمل تحریر اور تبصرے>>

عبادات

نماز پڑھنے کا مسنون طريقہ
با وضو قبلہ کي طرف منہ کر کے اس طرح کھڑے ہوں کہ دونوں پاؤں کے درميان چار انگل کا فاصلہ رہے پھر اپنے ہاتھ کانوں تک اس طرح اٹھائيں کہ درميان ميں چار انگل کا فاصلہ رہے پھر اپنے ہاتھ کانوں تک اس طرح اٹھائيں کہ انگوٹھے کانوں کي لو سے چھو جائيں اور انگلياں نہ ملي ہوئي ہوں نہ خوب کھلي ہوئي بلکہ اپني اصل حالت پر ہوں اور ہتھيلياں قبلہ رخ ہوں پھر نيت کر کے اللہ اکبر کہتے ہوئے ہاتھ ناف کے نيچے لا کر اس طرح باندھ ليں کہ داياں ہاتھ بائيں ہاتھ کي پشت پر اور درمياني تين انگلياں کلائي کي پشت پر ہوں پھر انگوٹھے اور چھوٹي انگلي سے حلقہ بنا کر بائيں کلائي کو پکڑ ليں اور ثناء پڑھيں
سبحانک اللھم وبحمدک وتبارک اسمک و تعالي جدک ولا الہ غيرک
ترجمہ ( پاک ہے تو اے اللہ ! اور ميں تيري حمد کرتا ہوں، تيرا نام برکت والا ہے اور تيري عظمت بلند ہے اور تيرے سوا کوئي معبود نہيں)
پھر تعوذ اور تسميہ پڑھ کر سورہ فاتحہ پڑھيں
اعو ذ با للہ من الشيطن الرحيم
بسم اللہ الرحمن الرحيم
(ميں پناہ مانگتا ہوں اللہ کي ،  سيطان مردود سے)
(اللہ کے نام سے شروع جو بہت مہربان رحمت والا ہے)
الحمد للہ رب العلمين
الرحمن الرحيم  ملک يوم الدين   اياک
نعبد واياک نستعين  اھدنا الصراط
المستقيم  صراط الذين انعمت عليم
غير المغضوب عليھم ولا الضالين?  آمين
(سب خوبياں اللہ کو جو مالک سارے جہان والوں کا، بہت مہربان رحمت والا، روز جزا کا مالک، ہم تجھي کو پوجيں اور تجھي سے مدد چاہيں، ہم کو سيدھا راستہ چلا، راستہ ان کا جن پر تو نے احسان کيا، نہ ان کا جن پر غضب ہوا، اور نہ بہکے ہوؤں کا) (کنز الايمان از اعلي حضرت امام اح-مد رضا محدث بريلوي رحمتہ اللہ عليہ)
سورہ فاتحہ کے بعد آہستہ سے آمين کہيں ، اسکے بعد کوئي سورت يا تين آيات باتين آيات کے برابر کوئي آيت پڑھيں
قل ھو اللہ احد  اللہ الصمد
لم يلد  ولم يولد  ولم يکن لہ کفوا  احد
(تم فرماؤ! وہ اللہ ہے وہ ايک ہے، اللہ بے نياز ہے، نہ اس کي کوئي اولاد اور نہ وہ کسي سے پيدا ہوا، اور نہ اس کے جوڑ کا کوئي)  (کنز الايمان)
پھر اللہ اکبر کہتے ہوئے رکوع ميں جائيں اور گھٹنوں کو انگلياں کھول کر مضبوطي سے پکڑليں اور اتنا جھکيں کہ سر اور کمر ايک سطح پر رہے? رکوع ميں نظر دونوں پاؤں کي پشت پر رہے جبکہ قيام کے دوران نگاہ سجدے کي جگہ رکھني چاہيے
رکوع ميں کم سے کم تين بار يہ پڑھيں
سبحان ربي العظيم
(پاک ہے ميرا پروردگار عظمت والا)  پھر تسميع کہتے ہوئے کھڑے ہوجائيں
سمع اللہ لمن حمد
(اللہ نے اس کي سن لي جس نے اس کي تعريف کي ) پھر تحميد کہيں
ربنا لک الحمد(اے ہمارے مالک! سب تعريف تيرے ہي ليے ہے)
پھر تکبير کہتے ہوئے يوں سجدہ ميں جائيں کہ پہلے گھٹنے اور پھر دونوں ہاتھ زمين پر رکھيں ، پھر ناک اور پھر پيشاني زمين پر جمائيں اور چہر ہ دونوں ہاتھوں کے درميان رکھيں
اس بات کا خيال رہے کہ سجدے کے دوران ناک کي ہڈي زمين پر صحيح لگي ہوئي ہو، نظر ناک کے سرے پر رہے، دونوں پاؤں کي تمام انگلياں زمين پر قبلہ رخ لگي ہوں اور دونوں ہتھيلياں زمين پر قبلہ رخ بچھي ہوں نيز دونوں بازو کروٹوں سے اور پيٹ رانوں سے اور رانيں پنڈليوں سے جدا رہيں? سجدے ميں کم اس کم تين باريہ تسبيح پڑھيں
سبحان ربي الاعلي
(پاک ہے ميرا پروردگار بہت بلند)
سجدے سے اٹھتے ہوئے تکبير کہيں اور باياں پاؤں بچھا کر اس پر بيٹھيں اور داياں پاؤں کھڑا کر کے اسکي انگلياں قبلہ رخ کر ليں اس دوران ہتھيلياں رانوں پر بچھا کر گھٹنوں کے پاس اس طرح رکھيں کہ انگلياں قبلہ رخ رہيں پھر تکبير کہتے ہوئے اسي طرح دوسرا سجدہ کريں? پھر اللہ اکبر کہتے ہوئے اس طرح کھڑے ہوں کہ پہلے سر اٹھائيں پھر ہاتھوں کو گھٹنوں پر رکھ کر پنجوں کے بل کھڑے ہو جائيں
اب صرف بسم اللہ الرحمن الرحيم  پڑھ کر قرات شروع کرديں پھر اسي طرح رکوع اور سجدے کر کے داياں پاؤں کھڑا کر کے بائيں پاؤں پر بيٹھ جائيں اور تشھد پڑھيں
التحيات للہ والصلوت والطيبت
السلام عليک ايھا النبي و رحمتہ اللہ و برکاتہ
السلام علينا  و علي عباد اللہ الصلحين
اشھد ان لا الہ الا اللہ واشھد ان محمدا
عبدہ  و رسولہ
(تمام قولي عبادتيں اور تمام فعلي عبادتيں اور تمام مالي عبادتيں اللہ ہي کے ليے ہيں، سلام ہو آپ پر اے نبي  اور اللہ کي رحمتيں اور برکتيں? ہم پر اور اللہ کے نيک بندوں پر سلام?ميں گواہي ديتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئي معبود نہيں اور گواہي ديتا  ہوں کہ محمد  اسکے بندے اور رسول ہيں)
تشھد پڑھتے وقت جب (اشھد ان لا)  کے قريب پہنچيں تو دائيں ہاتھ کي پيچ کي انگلي اور انگوٹھے کو ملا کر حلقہ بنائيں اور چھوٹي انگلي اور اسکے ساتھ والي انگلي کو ہتھيلي سے  ملاديں اور لفظ  (لا)  پر شہادت کي انگلي اٹھائيں اور (الا) پر نيچے کر ليں اورپھر سب انگلياں فورا سيدھي کرليں?  قعدہ کے دوران نطر اپني گود کي طرف رکھيں
اگر فرض نماز ہو اور دو سے زيادہ رکعتيں پڑھني ہوں تو تشھد کے بعد کھڑے ہو جائيں اور اگلي رکعتوں کے قيام ميں سورہ  کے بعد چھوٹي سورہ نہ ملائيں? آخري قعدہ ميں تشھد کے بعد درود شريف پڑھيں
اللھم صل علي محمد
وعلي ال محمد کما صليت علي ابراہيم و علي
ال ابراہيم انک حميد مجيد?  اللھم بارک
علي محمد و علي ال محمد کما بارکت علي
ابراہيم وعلي ال ابراہيم انک حميد مجيد
(اے اللہ! درود بھيج ہمارے سردار حضرت محمد ? پر اور انکي آل پر جس طرح تو نے درود بھيجا سيدنا ابراہيم عليہ السلام پر اور انکي آل پر، بيشک تو سراہا ہو ابزرگ ہے? اے اللہ !  برکت نازل کر ہمارے سردار حضرت محمد  پر اور انکي آل پر جس طرح  تو نے برکت نازل کي سيدنا ابراہيم عليہ السلام پر اور انکي آل پر ، بيشک تو سراہا ہوا  بزرگ ہے)
پھر يہ دعا  يا کوئي اور دعائے ماثورہ پڑھ ليں
اللھم رب اجعلني مقيم الصلوہ  ومن
ذريتي ربنا و تقبل دعاء  اللھم ربنا اغفرلي ولوالدي وللمومنين يوم يقوم الحساب
(اے اللہ اے ميرے رب!  مجھے نماز قائم کرنے والا رکھ اور کچھ ميري اولاد کو، اے ہمارے رب! اور ہماري دعا سن لے اے اللہ اے ہمارے رب ! مجھے بخش دے اور ميرے ماں باپ کو اور سب مسلمانوں کو جس دن حساب قائم ہوگا)
پھر پہلے دائيں کندھے کي طرف منہ کر کے سلام کہيں اور پھر بائيں طرف بھي
السلام عليکم و رحمتہ اللہ
(تم پر سلامتي ہو اور اللہ کي رحمت)
نماز کے بعد دونوں ہاتھ سينے کے مقابل اٹھا کر اللہ تعالي سے اخلاص  و  عاجزي سے دعا مانگيں اور دعا کے بعد اپنے ہاتھ چہرے پر پھيرليں? دعاؤں کے ليے فقير کي کتاب (مسنون دعائيں)  ملاحظہ فرمائيں
#اگرجماعت سے نماز پڑھيں تو پہلي رکعت کے قيام ميں صرف ثناء پڑھيں اور خاموش کھڑے رہيں يونہي ديگر رکعتوں کے قيام ميں بھي مقتدي کو قرات نہيں کرني چاہيے?  رکوع سے اٹھتے وقت سمع اللہ لمن حمدہ  صرف امام کہے اور مقتدي تحميد کہے
مکمل تحریر اور تبصرے>>

عبادات

نماز کے فرائض
نماز کے سات فرائض ہيں۔
۔1۔  تکبير تحريمہ جو دراصل نماز کي شرائط ميں سے ہے مگر نماز کے افعال سے بہت زيادہ تعلق ہونے کي وجہ سے اسے نماز کے فرائض ميں بھي شمار کيا جاتا ہے۔
تکبير تحريمہ کہنے کے وقت نماز کي کوئي بھي شرط نہ پائي گئي تو نماز نہ ہوگي۔
اگر مقتدي نے لفظ  (اللہ)  امام کے ساتھ کہا ليکن  (اکبر)  کو امام سے پہلے ختم کر ليا تو نماز نہ ہوئي۔  اگر مقتدي امام کو رکوع کي حالت ميں پائے تو مقتدي کو چاہيے کہ تکبير تحريمہ قيام کي حالت ميں کہے اور پھر دوسري تکبير کہتے ہوئے رکوع ميں جائے۔ اگر پہلي رکعت کا  رکوع مل جائے تو تکبير اولي کي فضيلت مل جاتي ہے۔
۔2۔ قيام يعني سيدھا کھڑا ہونا نماز ميں فرض ہے۔ قيام اتني دير تک ہے جتني دير تک قرات کي جائے۔ قيام اس وقت ساقط ہوگاجب کوئي کھڑا نہ ہوسکے يا سجدہ کرنے پر قادر نہ ہو يا اس سے مرض ميں زيادتي ہوتي ہو يا ناقابل برداشت تکليف ہوتي ہو۔
معمولي بخار يا قابل برداشت تکليف کے باعث قيام چھوڑنا جائز نہيں، اسکي اہميت اس قدر ہے کہ اگر مريض عصا يا خادم يا ديوار سے ٹيک لگا کر کھڑا ہو سکتا ہو تو فرض ہے کہ کھڑا ہو کر نماز پڑھے ۔ اگر کچھ دير کھڑا ہوسکتا ہو اگرچہ اتنا ہي کہ کھڑا ہو کر اللہ  اکبر  کہہ لے تو فرض ہے کہ کھڑا ہو کر اتنا کہہ لے پھر بيٹھ کر نماز ادا کرے۔
۔3۔  قرات يعني تمام حروف کا مخارج سے ادا کرنا تاکہ ہر حرف دوسرے حروف سے ممتاز ہوجائے نيز ايسے پڑھنا کہ اسے خود سن سکے، فرض ہے۔ محض لب ہلانا تلاوت کے ليے کافي نہيں۔ پڑھنے کي تعريف يہ ہے کہ کم از کم اتني آواز سے پڑھے کہ خود سنے۔  اگر ايسے پڑھے  کہ خود نہ سن سکے جبکہ سننے سے مانع کوئي سبب مثلا شور و غيرہ نہ ہو تو نماز نہ ہوگي۔
فرض نماز کي پہلي دو رکعتوں ميں اور وتر و نوافل کي ہر رکعت ميں مطلقا ايک آيت پڑھنا فرض ہے۔ امام کي قرات مقتديوں کے ليے کافي ہے لہذا مقتدي کو کسي نماز ميں قرات جائز نہيں خواہ وہ سري نماز ہو (يعني  ظہر  و  عصر)  يا جہري نماز (فجر،  مغرب،  عشاء)
۔4۔  رکوع بھي فرض ہے۔ اسکا ادني درجہ يہ ہے کہ اتنا جھکا جائے کہ ہاتھ بڑھائيں تو گھٹنوں تک پہنچ جائيں اور اعلي يہ ہے کہ کمر سيدھي ہو نيز سر اور پيٹھ يکساں اونچے ہوں۔
۔5۔ سجود يعني ہر رکعت ميں دوبار سجدہ کرنا فرض ہے۔ پيشاني اور ناک کي ہڈي کا زمين پرجمنا سجدہ کي حقيقت ہے اور ہر پاؤں کي ايک انگلي کا پيٹ لگنا شرط۔ اگر کسي نے اس طرح سجدہ کيا کہ دونوں پاؤں زمين سے اٹھے رہے تو نماز نہ ہوئي بلکہ اگر صرف انگلي کي نوک زمين سے لگي جب بھي نماز نہ ہوئي۔
۔6۔  قعدہ اخيرہ يعني تمام رکعتيں پڑھ کر اتني دير بيٹھنا کہ پوري تشہد پڑھ لي جائے، فرض ہے۔ اگر سجدہ سہو کيا تو اسکے بعد بقدر تشھد بيٹھنا فرض ہے۔
۔7۔ خروج بصنعہ يعني آخري قعدہ کے بعد سلام پھيرنا فرض ہے۔قيام و رکوع و سجود اور قعدہ اخيرہ ميں ترتيب بھي فرض ہے۔ نيز جو چيز يں فرض ہيں ان ميں امام کي پيروي مقتدي پر فرض ہے۔
مکمل تحریر اور تبصرے>>

Archive