Friday 31 January 2014

Allah Huma Sale Ala

مکمل تحریر اور تبصرے>>

Naat(1) Muhammad hamza arif shahkot

مکمل تحریر اور تبصرے>>

Naat(2) Muhammad Humza Arif Shahkot

مکمل تحریر اور تبصرے>>

Naat(3) Muhammad Hamza Arif Shahkot

مکمل تحریر اور تبصرے>>

Muhammad Humza School No.4 Shahkot..flv

مکمل تحریر اور تبصرے>>

Subtain Shah Shahkot03.mpg

مکمل تحریر اور تبصرے>>

Subtain Shah Shahkot02.mpg

مکمل تحریر اور تبصرے>>

Subtain Shah Shahkot01.mpg

مکمل تحریر اور تبصرے>>

Subtain Shah Shahkot04.mpg

مکمل تحریر اور تبصرے>>

Subtain Shah Shahkot06.mpg

مکمل تحریر اور تبصرے>>

Subtain Shah Shahkot05.mpg

مکمل تحریر اور تبصرے>>

مار نہیں پیار

مکمل تحریر اور تبصرے>>

Thursday 30 January 2014

Gurbat

مکمل تحریر اور تبصرے>>

SARBANA MEHRBANA RAHIYA KALAAM PIR SYED MEHAR ALI RHA BY KHALID HASNAIN

مکمل تحریر اور تبصرے>>

Arbi Sultan Aya - Khalid Husnain Khalid

مکمل تحریر اور تبصرے>>

Naat: New Naat 2014"Farsh Sey Ta Arsh" By Khalid Hasnain Khalid| Latest ...

مکمل تحریر اور تبصرے>>

Mere Dil vi Melaad mananda aye Shahbaz Qamar Fareedi New Volume 2014

مکمل تحریر اور تبصرے>>

Shahbaz Qamar Faridi New 2014 Naat Aaqa Mera Sohna

مکمل تحریر اور تبصرے>>

Latest Naat 2014

مکمل تحریر اور تبصرے>>

New Video Naat 2014 Her Dais Main Goonjay Ga Hafiz Tahir Qadri)

مکمل تحریر اور تبصرے>>

Tuesday 21 January 2014

Tahir Qadri new album released - Karam Karam Maula (+playlist)

مکمل تحریر اور تبصرے>>

Apni rahmat ke samandar main Khalid Husnain Khalid

مکمل تحریر اور تبصرے>>

حضرت علی رضی اللہ عنہی

ایک مرتبہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ آنسو بہاتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کپڑے کے کونے سے آنسو پونچھتے ہوئے عرض کیا ’’یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھیوں (مہاجرین اور انصار) کے درمیان رشتہ اخوت و بھائی چارہ قائم کیا لیکن مجھے کسی کا بھائی نہیں بنایا؟‘‘
ان کا یہ محبت بھرا شکوہ سن کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے، انہیں اپنے ساتھ بٹھایا پھر اپنے سینہ سے لگا کر فرمایا ’’تم دنیا و آخرت میں میرے بھائی ہو۔‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے مجمع عام میں خطاب کر کے اعلان فرمایا:’’لوگو! یہ علی میرا بھائی ہے یہ علی میرا بھائی ہے‘‘
(رواہ الترمذی ۳۶۵۴)

مکمل تحریر اور تبصرے>>

Friday 17 January 2014

Friday 10 January 2014

Fateh Mubeen By Allama Saeed Asad

مکمل تحریر اور تبصرے>>

غصہ سے نفرت:

غصہ سے نفرت:
امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا عجیب واقعہ
ایک روزامام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ظہر کی نماز کے بعد گھر تشریف لے گئے۔ بالا خانے پر آپ کا گھر تھا‘ جاکر آرام کرنے کیلئے بستر پر لیٹ گئے۔ اتنے میں کسی نے دروازے پر دستک دی۔ آپ اندازہ کیجئے جو شخص ساری رات کا جاگا ہوا ہو اور سارا دن مصروف رہا ہو‘ اس وقت اس کی کیا کیفیت ہوگی۔ ایسے وقت کوئی آجائے تو انسان کو کتنا ناگوار ہوتا ہے کہ یہ شخص بے وقت آگیا۔۔۔۔ لیکن امام صاحب اٹھے‘ زینے سے نیچے اترے‘ دروازہ کھولا تو دیکھا کہ ایک صاحب کھڑے ہیں‘ امام صاحب نے اس سے پوچھا کہ کیسے آنا ہوا؟ اس نے کہا کہ ایک مسئلہ معلوم کرنا ہے۔ دیکھئے اول تو امام صاحب جب مسائل بتانے کیلئے بیٹھے تھے وہاں آکر تو مسئلہ پوچھا نہیں‘ اب بے وقت پریشان کرنے یہاں آگئے۔ لیکن امام صاحب نے اس کو کچھ نہیں کہا بلکہ فرمایا کہ اچھا بھائی‘ کیا مسئلہ معلوم کرنا ہے؟ اس نے کہا کہ میں کیا بتاؤں؟ جب میں آرہا تھا تو اس وقت مجھے یاد تھا کہ کیا مسئلہ معلوم کرنا ہے لیکن اب میں بھول گیا‘ یاد نہیں رہا کہ کیا مسئلہ پوچھناتھا۔ امام صاحب نے فرمایا کہ اچھا جب یاد آئے تو پھر پوچھ لینا۔ آپ نے اس کو برا بھلا نہیں کہا نہ اس کو ڈانٹا ڈپٹا بلکہ خاموشی سے واپس اوپر چلے گئے۔ ابھی جاکر بستر پر لیٹے ہی تھے کہ دوبارہ دروازہ پر دستک ہوئی۔ آپ نے پوچھا کیا بات ہے؟ اس نے کہا کہ حضرت! وہ مسئلہ مجھے یاد آگیا تھا آپ نے فرمایا پوچھ لو۔ اس نے کہا کہ ابھی تک تو یاد تھا مگر جب آپ آدھی سیڑھی تک پہنچے تو میں وہ مسئلہ بھول گیا۔ اگر ایک عام آدمی ہوتا تو اس وقت تک اس کے اشتعال کا کیا عالم ہوتا مگر امام صاحب اپنے نفس کو مٹاچکے تھے۔ امام صاحب نے فرمایا اچھا بھائی جب یاد آجائے توپوچھ لینا یہ کہہ کر آپ واپس چلے گئے اور جا کر بستر پر لیٹ گئے۔ ابھی لیٹے ہی تھے کہ دوبارہ پھر دروازے پر دستک ہوئی۔ آپ پھر نیچے تشریف لائے۔ دروازہ کھولا تو دیکھا کہ وہی شخص کھڑا ہے۔ اس شخص نے کہا کہ حضرت! وہ مسئلہ یاد آگیا۔ امام صاحب نے پوچھا کہ کیا مسئلہ ہے؟ اس نے کہا کہ یہ مسئلہ معلوم کرنا ہے کہ انسان کی نجاست (پاخانہ) کا ذائقہ کڑوا ہوتا ہے یامیٹھا ہوتا ہے؟ (العیاذ باللہ یہ بھی کوئی مسئلہ ہے)
اب صبر کا پیمانہ لبریز ہوجاتااگر کوئی دوسرا آدمی ہوتا اور وہ اب تک ضبط بھی کررہا ہو تو اب اس سوال کے بعد تو اس کے ضبط کا پیمانہ لبریز ہوجاتا لیکن امام صاحب نے بہت اطمینان سے جواب دیا کہ اگر انسان کی نجاست تازہ ہو تو اس میں کچھ مٹھاس ہوتی ہے اور اگر سوکھ جائے تو کڑواہٹ پیدا ہوجاتی ہے۔ پھر وہ شخص کہنے لگا کہ کیا آپ نے چکھ کر دیکھا ہے؟ (العیاذ باللہ)حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ ہر چیز کا علم چکھ کر حاصل نہیں کیا جاتا بلکہ بعض چیزوں کا علم عقل سے حاصل کیا جاتاہے اور عقل سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ تازہ نجاست پر مکھی بیٹھتی ہے خشک پر نہیں بیٹھتی۔ اس سے پتہ چلا کہ دونوں میں فرق ہے ورنہ مکھی دونوں پر بیٹھتی۔
اپنے وقت کا حلیم انسانجب امام صاحب نے یہ جواب دے دیا تو اس شخص نے کہا۔ امام صاحب! میں آپ کے سامنے ہاتھ جوڑتا ہوں۔ مجھے معاف کیجئے گا میں نے آپ کو بہت ستایا لیکن آج آپ نے مجھے ہرا دیا۔
امام صاحب نے فرمایا کہ میں نے کیسے ہرا دیا؟ اس شخص نے کہا کہ ایک دوست سے میری بحث ہورہی تھی میرا کہنا یہ تھا کہ حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ کے اندر سب سے زیادہ بردباری ہے اور وہ غصہ نہ کرنے والے بزرگ ہیں اور میرے دوست کا یہ کہنا تھا کہ سب سے زیادہ بردبار اور غصہ نہ کرنے والے بزرگ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ہیں اور ہم دونوں کے درمیان بحث ہوگئی اور اب ہم نے جانچنے کیلئے یہ طریقہ سوچا تھا کہ میں اس وقت آپ کے گھر پر آؤں جو آپ کے آرام کا وقت ہوتا ہے اور اس طرح دو تین مرتبہ آپ کو اوپر نیچے دوڑاؤں اور پھر آپ سے ایسا بیہودہ سوال کروں اور یہ دیکھوں کہ آپ غصہ ہوتے ہیں یا نہیں؟ میں نے کہا کہ اگر غصہ ہوگئے تو میں جیت جاؤں گا اور اگر غصہ نہ ہوئے تو تم جیت گئے لیکن آج آپ نے مجھے ہرا دیا اور واقعہ یہ ہے کہ میں نے اس روئے زمین پر ایسا حلیم انسان جس کو غصہ چھو کر بھی نہ گزرا ہو آپ کے علاوہ کوئی دوسرا نہیں دیکھا۔اس سے اندازہ لگائیے کہ آپ کا کیا مقام تھا۔ اس پر ملائکہ کو رشک نہ آئے تو کس پر آئے۔ انہوں نے اپنے نفس کو بالکل مٹاہی دیا تھا۔
’’حلم‘‘ زینت بخشتا ہے
چنانچہ حضور اقدس ﷺ نے یہ دعا فرمائی: (اللھم اغنی بالعلم وزینی بالحلم) (کنزل العمال)’’ اے اللہ مجھے علم دے کر غنا عطا فرمائیے اور حلم کی زینت عطا فرمائیے‘‘
یعنی وقار دے کرآراستہ فرمادیجئے۔ آدمی کے پاس علم ہو اور حلم نہ ہو‘ بردباری نہ ہو تو پھر علم کے باوجود آدمی میں آراستگی اور زینت نہیں آسکتی۔
اس طریق پر چلنے کے لیے اور اپنے نفس کو قابو میں کرنے کے لیے پہلا قدم یہ ہے کہ غصہ نہ کرو۔ اس لیے فرمایا لاتغضب یہی پہلا سبق اور یہی مختصر نصیحت ہے اور یہی اللہ جل جلالہ کے غضب سے بچنے کا طریقہ بھی ہے۔
غصہ سے بچنے کی تدابیر
صرف یہ نہیں ہے کہ حکم دےدیا کہ غصہ نہ کرو بلکہ غصہ سے بچنے کی تدبیر قرآن کریم نے بھی بتائی اور جناب رسول کریم ﷺ نے بھی بتلائی اس تدبیر کے ذریعہ غصہ کو دبانے کی مشق کی جاتی ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ غیراختیاری طور پر جو غصہ آجاتا ہے اور طبیعت میں ایک ہیجان پیدا ہوجاتا ہے اس غیراختیاری ہیجان پر اللہ تعالیٰ کے یہاں کوئی مواخذہ نہیں‘ اس لیے کہ وہ انسان کے اختیار سے باہر ہے لیکن طبیعت میں جو ہیجان اور اوٹن پیدا ہوئی تو یہ کوئی گناہ کی بات نہیں لیکن اگر اس غصے کے نتیجے میں کسی کو مار دیا یا کسی کو ڈانٹ دیا یا برا بھلا کہہ دیا تو گویا کہ اس غصے کے تقاضے پر عمل کرلیا‘ اب اس پر پکڑہوجائے گی اور یہ گناہ ہے
مکمل تحریر اور تبصرے>>

Wednesday 8 January 2014

توبہ

توبہ کر لو:
واقعہ پڑھیے اور دل کی آنکھوں سے پڑھیے۔ حضرت حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ کا زمانہ ہے۔ آپ کی ایک شاگردہ جو باقاعدہ آپ کا درس سننے آتی تھی۔ نہایت عبادت گزار تھی۔ اس بے چاری کا جوانی میں خاوند چل بسا۔ اس نے دل میں سوچا! ایک بیٹا ہے اگر میں دوسرا نکاح کرلوں گی تو مجھے دوسرا خاوند تو مل جائے گا‘ لیکن میرے بچے کی زندگی برباد ہوجائے گی۔ اب وہ بچہ جوان ہونے کے قریب ہے۔ ”یہی میرا سہارا سہی“ لہٰذا اس عظیم ماں نے یہی سوچ کر اپنے جذبات کی قربانی دی۔ وہ ماں گھر میں بچے کا پورا خیال رکھتی لیکن جب وہ بچہ گھر سے باہر نکل جاتا تو ماں سے نگرانی نہ ہوپاتی۔ اب اس بچے کے پاس مال کی کمی نہ تھی۔ اٹھتی ہوئی جوانی بھی تھی یہ جوانی دیوانی مستانی ہوجاتی ہے چنانچہ وہ بچہ بری صحبت میں گرفتار ہوگیا۔ شباب اور شراب کے کاموں میں مصروف ہوگیا، ماں برابر سمجھاتی لیکن بچے پر کچھ اثر نہ ہوتا‘ چکنا گھڑا بن گیا‘ وہ اس کو حضرت حسن بصری کے پاس لے کر آتی‘ حضرت بھی اس کو کئی کئی گھنٹے سمجھاتے لیکن اس بچے کا نیکی کی طرف رجحان ہی نہیں تھا۔ حضرت کے دل میں بھی یہ بات آئی کہ شاید اس کا دل پتھر بن گیا ہے‘ مہر لگ گئی ہے بہرحال ماں تو ماں ہوتی ہے۔ ماںاسے پیار سے سمجھاتی رہی، میرے بیٹے نیک بن جاو ‘تمہاری زندگی اچھی ہوجائے گی۔ کئی سال برے کاموں میں لگ کر اس نے اپنی دولت کے ساتھ اپنی صحت بھی تباہ کرلی اور اس کے جسم میں لاعلاج بیماریاں پیدا ہوگئیں‘معاملہ یہاں تک آپہنچا کہ اٹھنے کی بھی سکت نہ رہی اور بستر پر پڑگیا۔ اب اس کو آخرت کا سفر سامنے نظر آنے لگا‘ ماں نے پھر سمجھایا‘ بیٹا! تو نے اپنی زندگی توخراب کرلی‘ اب آخرت بنالے اور توبہ کرلے ‘اللہ بڑا غفور الرحیم ہے وہ تمہارے تمام گناہوں کومعاف کر دیگا۔ جب ماں نے سمجھایا اس کے دل پر کچھ اثر ہوا ۔کہنے لگا! ماں میں کیسے توبہ کروں؟ میں نے بہت بڑے بڑے گناہ کیے ہیں‘ ماں نے کہا بیٹا حضرت سے پوچھ لیتے ہیں‘ بیٹے نے کہا ماں اگر میں فوت ہوجاوں تو میرا جنازہ حضرت حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ پڑھائیں۔ ماں حضرت کے پاس گئی حضرت کھانے سے فارغ ہوئے تھے اور تھکے ہوئے تھے اور درس بھی دینا تھا۔ اس لیے قیلولہ کیلئے لیٹنا چاہتے تھے۔ ماں نے دروازہ کھٹکھٹایا‘ پوچھا کون؟ عرض کیا حضرت میں آپ کی شاگردہ ہوں۔ میرا بچہ اب آخری حالت میں ہے وہ توبہ کرنا چاہتا ہے لہٰذا آپ گھر تشریف لے چلیں۔ حضرت نے سوچا یہ پھر دھوکا دے رہا ہے اور میرا وقت ضائع کرے گا اور اپنا بھی کرے گا۔ سالوں گزرگئے اب تک کوئی بات اثر نہ کرسکی اب کیا کرے گی۔ کہنے لگے!میں اپنا وقت ضائع کیوں کروں؟ میں نہیں آتا۔ ماں نے کہا حضرت اس نے تو یہ بھی کہا کہ اگر میرا انتقال ہوجائے تو میرا جنازہ حضرت حسن بصری پڑھائیں۔ حضرت نے کہا میں اس کے جنازہ کی نماز نہیں پڑھاوں گا۔ اس نے تو کبھی نماز ہی نہیں پڑھی۔ اب وہ شاگردہ تھی چپ کرگئی‘ روتی ہوئی گھر آگئی۔ بیٹے نے پوچھا کیا ہوا؟ ماں نے کہا ایک طرف تیری حالت دوسری طرف حضرت نے انکار کردیا۔ اب یہ بات بچے نے سنی تو اس کے دل پر چوٹ لگی اور کہا ماں میری ایک وصیت سن لیجئے ماں نے پوچھا بیٹا وہ کیا؟ عجیب وصیت کہا امی میری وصیت یہ ہے کہ جب میری جان نکل جائے تو سب سے پہلے اپنا دوپٹا میرے گلے میں ڈالنا‘ میری لاش کو کتے کی طرح صحن میں گھسیٹنا‘ جس طرح مرے ہوئے کتے کی لاش گھسیٹی جاتی ہے۔ ماں نے پوچھا بیٹا وہ کیوں؟ کہا امی اس لیے کہ دنیا والوں کو پتہ چل جائے کہ جو اپنے رب کا نافرمان اور ماں باپ کا نافرمان ہوتا ہے اس کا انجام یہ ہوا کرتا ہے۔ میری پیاری ماں مجھے قبرستان میں دفن نہ کرنا‘ ماں نے کہا وہ کیوں؟ کہا ماں مجھے اسی صحن میں دفن کردینا ایسا نہ ہو کہ میرے گناہوں کی وجہ سے قبرستان کے مردوں کو تکلیف پہنچے جس وقت نوجوان نے ٹوٹے دل سے عاجزی کی یہ بات کہی تو پروردگار کو اس کی یہ بات اچھی لگی‘ روح قبض ہوگئی‘ابھی روح نکلی ہی تھی ماں آنکھیں بند کررہی تھی تو دروازے پر دستک ہوئی پوچھا کون؟ جواب آیا حسن بصری ہوں۔ کہا حضرت آپ کیسے؟ فرمایا جب میں نے تمہیں جواب دے دیا اور سوگیا۔ خواب میں اللہ رب العزت کا دیدار نصیب ہوا‘ پروردگار نے فرمایا حسن بصری تو میرا کیسا ولی ہے؟ میرے ایک ولی کا جنازہ پڑھنے سے انکار کرتا ہے۔ میں سمجھ گیا کہ اللہ نے تیرے بیٹے کی توبہ قبول کرلی ہے۔ تیرے بچے کی نماز جنازہ پڑھنے کیلئے حسن بصری کھڑا ہے۔ اے اللہ! تو کتنا کریم ہے کہ مرنے سے چند لمحہ پہلے اگر کوئی بندہ شرمندہ ہوتا ہے تو اس کی زندگی کے گناہوں کو معاف کردیتا ہے۔
مکمل تحریر اور تبصرے>>

Sunday 5 January 2014

Mufakkir-e-Islam Pir Sayyed Abdul Qadir Jilani..Milad-un-Nabi SAW Aur No...

مکمل تحریر اور تبصرے>>

Class V Math LCM Part 1

مکمل تحریر اور تبصرے>>

web science class 5 in urdu

مکمل تحریر اور تبصرے>>

Archive

Blog Archive