Tuesday 31 December 2013

Mufti Hanif Qureshi 2012 (1).flv

مکمل تحریر اور تبصرے>>

نمازوں کی فضیلت










امام فقیہ ابواللیث سمرقندی رحمہ اللہ تعالٰی نے حضرت کعب احبار رضی اللہ تعالٰی عنہ سے نقل کیا کہ انہوں نے فرمایا میں نے توریت مقدس کے کسی مقام میں پڑھااے مُوسٰی! فجر کی دو۲ رکعتیں احمد اور اس کی اُمت ادا کرے گی جو انہیں پڑھے گا اُس دن رات کے سارے گناہ اُس کے بخش دُوں گا اور وہ میرے ذمّہ میں ہوگا۔ اے موسٰی! ظہر کی چار۴ رکعتیں احمد اور اس کی اُمّت پڑھے گی انہیں پہلی رکعت کے عوض بخش دُوں گا اور دوسری کے بدلے ان کا پلّہ بھاری کردوں گا اور تیسری کیلئے فرشتے موکل کروں گا کہ تسبیح کریں گے اور ان کے لئے دعائے مغفرت کرتے رہیں گے، اور چوتھی کے بدلے اُن کیلئے آسمان کے دروازے کشادہ کردُوں گا، بڑی بڑی آنکھوں والی حُوریں اُن پر مشتاقانہ نظر ڈالیں گی۔ اے مُوسٰی! عصر کی چار۴ رکعتیں احمد اور ان کی اُمت ادا کرے گی تو ہفت آسمان وزمین میں کوئی فرشتہ باقی نہ بچے گا سب ہی ان کی مغفرت چاہیں گے اور ملائکہ جس کی مغفرت چاہیں میں اسے ہرگز عذاب نہ دُوں گا۔ اے موسٰی! مغرب کی تین رکعت ہیں انہیں احمد اور اس کی اُمت پڑھے گی آسمان کے سارے دروازے ان کیلئے کھول دُوں گا، جس حاجت کا سوال کرینگے اسے پُورا ہی کردوں گا۔ اے موسٰی! شفق ڈوب جانے کے وقت یعنی عشاء کی چار رکعتیں ہیں پڑھیں گے انہیں احمد اور ان کی اُمت، وہ دنیا ومافیہا سے اُن کیلئے بہتر ہیں، وہ انہیں گناہوں سے ایسا نکال دیں گی جیسے اپنی ماؤں کے پیٹ سے پیدا ہوئے۔ اے موسٰی! وضو کرے گا احمد اور اسکی اُمت جیسا کہ میرا حکم ہے میں انہیں عطا فرماؤں گا ہرقطرے کے عوض کہ آسمان سے ٹپکے ایک جنت جس کا عرض آسمان وزمین کی چوڑائی کے برابر ہوگا۔ اے موسٰی! ایک مہینے کے ہرسال روزے رکھے گا احمد اور اس کی اُمت اور وہ ماہِ رمضان ہے عطا فرماؤں گا اسکے ہر دن کے روزے کے عوض جنت میں ایک شہر اور عطا کروں گا اس میں نفل کے بدلے فرض کا ثواب اور اس میں لیلۃ القدر کروں گا جو اس مہینے میں شرمساری وصدق سے ایک بار استغفار کریگا اگر اسی شب یا اس مہینے بھر میں مرگیا اسے تیس۳۰ شہیدوں کا ثواب عطا فرماؤں گا۔ اے موسٰی! امتِ محمدیہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم میں کچھ ایسے مرد ہیں کہ ہر شرف پر قائم ہیں لاالٰہ الااللہ کی شہادت دیتے ہیں تو ان کی جزا اس کے عوض انبیاء علیہم الصلاۃ والسلام کا ثواب ہے اور میری رحمت ان پر واجب اور میرا غضب ان سے دور، اور ان میں سے کسی پر بابِ توبہ بند نہ کروں گا جب تک وہ لاالٰہ الّااللّٰہ کی گواہی دیتے رہیں گے اھ (فقیر محمد حامد رضا غفرلہ)
(۱؎ تنبیہ الغافلین    باب فضل ا مۃ محمد صلی اللہ علیہ وسلم مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان ص ۴۰۴)
مکمل تحریر اور تبصرے>>

Sunday 29 December 2013

Mufti Mohammad Hanif Qureshi sora kooser

مکمل تحریر اور تبصرے>>

Biddat Aur Uski Hakikat Munazra With a Baba Saeed Ahmad Asad

مکمل تحریر اور تبصرے>>

Allama Saeed Ahmed Asad..Milad-un-Nabi SAW..Sawal-o-Jawab

مکمل تحریر اور تبصرے>>

Biddat Aur Uski Hakikat Munazra With a Baba Saeed Ahmad Asad

مکمل تحریر اور تبصرے>>

Quran | Al-Quran | Quran with Urdu Translation | Kanz ul Iman | Quran Recitation | Quran Download | Al-Quran Software | Khazain ul Irfan | Imam Ahmed Raza Khan | Ala Hazrat

مکمل تحریر اور تبصرے>>

Friday 27 December 2013

شب بیداری


شب بیداری کے فضائل

مسلم کی ایک روایت کے مطابق نبی کریم ؐ نماز تہجد کا جب آغاز فرماتے تھے تو پہلے دو مختصر رکعتیں پڑھتے تھے اور صحابہ کرام ؓ کو بھی اس کی تلقین فرمایا کرتے تھے ٭…٭…٭ ’’ رات میں ایک گھڑی ایسی ضرور ہوتی ہے کہ اگر وہ کسی مسلمان کو میسر آ جائے جس میں وہ اللہ تعالیٰ سے دنیا و آخرت کی کسی بھلائی کا سوال کرے تو اللہ اسے وہ خیر ضرور عطا فرماتا ہے اور یہ گھڑی ہر رات آتی ہے‘‘ فرمانِ رسول ؐ ٭…٭…٭ اللہ تعالیٰ نے دن اور رات کی تخلیق فرمائی اور انہیں اپنی قدرت کی دو عظیم نشانیاں قرار دیا۔ دن رات کے اس چکر میں اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں پر کل پانچ نمازیں فرض کیں۔ اور ان پر اجر و ثواب کا وعدہ فرمایا۔ لہٰذا اب ہر مومن پر ان پانچ نمازوں کی ادائیگی فرض ہے اور ان میں کوتاہی قابل مواخذہ جرم ہے۔ ان پانچ فرض نمازوں کے علاوہ کچھ نمازیں استحابی طور پر بھی مقرر کی گئی ہیں تاکہ فرائض میں جو کمی اور کوتاہی رہ جائے ا ن سنتوں ۔نوافل اور مستحبات کے ذریعے اس کی تلافی ہو جائے۔ یوں تو یہ نوافل دن اور رات کے کسی بھی وقت میں ادا کئے جا سکتے ہیں۔ صرف پانچ اوقات اس سے مستثنیٰ ہیں۔ چنانچہ فجر کی سنتوں کے بعد،نماز فجر کے بعد،طلوع آفتاب کے وقت، زوال کے وقت اور نمازعصر کے بعد غروب آفتاب تک کے اوقات میں نوافل پڑھنا ممنوع ہے۔ ان اوقات کے علاوہ جب چاہیں نوافل پڑھے جا سکتے ہیں۔ نوافل اور مستحبات انسان کی اللہ تعالیٰ سے محبت کی دلیل ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ محبت کا تقاضا قرار دیے جاتے ہیں۔ ان کے لیے سب سے افضل وقت رات کا ہے۔ اللہ اور اس کے رسول اکرمؐ نے رات کے وقت نوافل کا اہتمام کرنے والوں کی بڑی فضیلت اور اہمیت بیان فرمائی ہے چنانچہ قرآن کریم کی سورۃ سجدہ آیات نمبر 16 اور 17میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ۔ ’’ان کے پہلو بستروں سے جدا رہتے ہیں وہ اپنے رب کو خوف اور امید کی حالت میں پکارتے ہیں اور ہمارے دیے ہوئے میں سے خرچ کرتے ہیں۔ سو کوئی نفس نہیں جانتا کہ ان کے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک بننے والی کیا کیا چیزیں مخفی رکھی گئی ہیں۔ یہ بدلہ ہے ان اعمال کا جو وہ کرتے تھے‘‘۔ اسی طرح سورہ زاریات میں اہل تقویٰ کے لیے باغات اور چشموں کا وعدہ کر کے ان کی جو صفات بیان کی گئی ہیں ان میں سرفہرست یہ خوبی ہے۔ ’’وہ راتوں کو بہت کم سویا کرتے تھے‘‘ اسی طرح اہل کتاب کے ایک معتدل گروہ کا ذکر کرتے ہوئے سورہ آل عمران کی آیت نمبر 113میں فرمایا گیا ہے۔ ’’اہل کتاب میں ایک گروہ ہے جو قیام کرتا ہے یہ لوگ رات کے وقت اللہ کی آیات کی تلاوت کرتے ہیں اس حال میں کہ وہ سجدے میں ہوتے ہیں‘‘۔ ابتداء میں نبی کریمؐ اور تمام اہل ایمان پر تہجد کی نماز پڑھنا فرض تھا جس کا ذکر سورہ مزمل میں آیا ہے لیکن ظاہر ہے کہ اگر یہ فرضیت برقرار رہتی تو امت کے لیے مجموعی طور پر اس پر عمل کرنا سخت دشواری کا سبب بنتا اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے سورہ مزمل کی آیت نمبر 6میں فرمایا ہے۔ ’’بے شک رات کا اُٹھنا نفس کو خوب روندنے اور بات کو سیدھی کرنے کا سبب اور ذریعہ ہے ‘‘ اس لیے سورہ مزمل ہی کی آخری آیت سے نماز تہجد کی فرضیت کو ختم کر دیا گیا اور اب یہ نماز مستحب اور سنت کے درجے میں آ گئی۔ تاہم صحابہ کرامؓ کی ایک بڑی جماعت نماز تہجد کا اہتمام کرتی رہی۔ چنانچہ اس سلسلے میں امام ابو دائود اور ترمذی کی وہ روایت نہایت مشہور ہے جو حضرت ابو قتادہؓ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریمﷺ نے حضرت صدیق اکبر ؓ سے فرمایا کہ’’ رات کو تمہارے پاس میرا گزر ہوا تم پست آواز سے قرآن پڑھ رہے تھے‘‘۔ انہوںنے عرض کیا کہ میں جس کے ساتھ مناجات کررہا تھا اس کو سنا رہا تھا اور وہ سن رہا تھا۔ نبی کریمؐ نے فرمایا’’ تم اپنی آواز تھوڑی سی اونچی کر لیا کرو‘‘۔ پھر حضرت عمر ؓ سے فرمایا کہ’’ میں تمہارے پاس سے گزرا تو تم بلند آواز سے تلاوت کر رہے تھے‘‘۔ انہوں نے عرض کیا کہ میں سوئے ہوئے لوگوں کو جگا رہا تھااور شیطان کو بھگا رہا تھا۔ نبی کریمؐ نے ان سے فرمایا کہ’’ تم اپنی آواز تھوڑی سی پست کر لو‘‘، اس سلسلے میں صحابہؓ کے بہت سے واقعات فضائل کی کتابوں میں درج ہیں۔ اولیائے کرام تہجد کی نماز کو اپنی روحانی زندگی کی بقاء اور ترقی کے لیے سب سے زیادہ اہمیت دیتے تھے اور رات کے اس جاگنے میں انہیں جو لطف آتا تھا وہ انہیں دنیا کی تمام قیمتی اور نفیس اشیاء سے زیادہ آتا تھا۔ وہ فرمایا کرتے تھے کہ اگر لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ اس شب بیداری میں ہمیں کتنی لذت اور کتنا لطف آتا ہے تو وہ تلواریں لے کر ہم سے لڑنے اور یہ نعمت خود حاصل کرنے کے لیے آ جائیں۔ یہ وہ پاکیزہ لوگ تھے کہ رات کی اس حکومت کو چھوڑ کر انہیں دن کی سلطنت قبول کرنا منظور نہ تھا بلکہ وہ دن کی حکومت چھوڑ کر رات کی اس حکومت کو حاصل کر لیا کرتے تھے۔ صحابہ کرام ؓ ، تابعین اور اولیائے کرام میں یہ ذوق نبی کریمﷺ کی ان احادیث اور اسوہ طیبہ کی وجہ سے پیدا ہوا تھا جس میں ہر مسلمان کے لیے کامل اور مکمل اور بہترین رہنمائی موجود ہے۔ ان احادیث میں نبی کریمؐ نے شب بیداری کے بہت سے فضائل بیان فرمائے اور امت کے سامنے اپنے عمل سے ایک بہترین رہنمائی چھوڑی ۔ یہاں اس سلسلے میں چند احادیث ذکر کی جاتی ہیں۔ امام مسلم ؒ ابو دائود اور ترمذی وغیرہ نے حضرت ابو ہریرہ ؓسے روایت نقل کی ہے کہ ایک مرتبہ کسی شخص نے نبی کریمؐ سے پوچھا کہ فرض نمازوں کے بعد سب سے افضل نماز کون سی ہے؟ نبی کریمؐ نے فرمایا’’ رات کے درمیانی حصے میں پڑھی جانے والی نماز‘‘ ۔ امام ترمذیؒ نے کتاب الدعوات میں حضرت بلالؓ سے یہ روایت نقل کی ہے کہ نبی اکرم ؐنے فرمایا’’ اپنے اوپر شب بیداری کو لازم کر لو کیونکہ یہ تم سے پہلے نیک لوگوں کا شجرہ رہا ہے‘‘۔ امام ابن ماجہ ؒنے حضرت جابر ؓ سے یہ روایت نقل کی ہے کہ نبی کریمؐ نے فرمایا کہ’’ رات کے وقت جس شخص کی نماز زیادہ ہو جائے دن کے وقت اس کا چہرہ خوب حسین اور روشن ہو جائے گا‘‘۔ امام بغویؒ نے شرح السنہ میں حضرت ابو سعید خدری ؓ سے یہ روایت نقل کی ہے کہ نبی کریم ؐنے فرمایا’’ تین قسم کے لوگ ہیں جنہیں دیکھ کر اللہ تعالیٰ مسکراتا ہے یعنی خوش ہوتا ہے ایک وہ آدمی جو رات کو اُٹھ کر نماز پڑھتا ہے دوسرے وہ لوگ جو نماز کے لیے صف بندی کریں اور تیسرے وہ لوگ جو دشمن سے قتال کے لیے صف بندی کریں‘‘۔ امام مسلم نے حضرت جابر ؓ سے یہ روایت نقل کی ہے کہ میں نے نبی کریم ؐ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ’’ رات میں ایک گھڑی ایسی ضرور ہوتی ہے کہ اگر وہ کسی مسلمان کو میسر آ جائے جس میں وہ اللہ تعالیٰ سے دنیا و آخرت کی کسی بھلائی کا سوال کرے تو اللہ اسے وہ خیر ضرور عطا فرماتا ہے اور یہ گھڑی ہر رات آتی ہے‘‘۔ امام بہیقی نے شعب الایمان میں حضرت ابن عباسؓ سے روایت نقل کی ہے کہ نبی کریم ؐ نے فرمایا ’’ میری اُمت کے سب سے معزز لوگ حاملین قرآن اور شب زندہ دار ہیں‘‘۔ ذخیرہ احادیث میں سے یہاں چند احادیث مبارکہ کا ذکر کیا گیا ہے ۔ جو شخص بھی ان احادیث کو سنتا ہے یقینا اس کے دل میں نماز تہجد کی ادائیگی کا ایک جذبہ بیدار ہوتا ہے اور اس جذبے میں اس وقت مزید اضافہ ہو جاتا ہے جب نبی کریم ؐ کے معمولات سامنے آتے ہیں ،اس سلسلے کی احادیث بھی بہت زیادہ ہیںیہاں ان احادیث سے حاصل ہونے والے چند نکات ذکر کیے جاتے ہیں تاکہ ان کی روشنی میں یہ متعین کیا جا سکے کہ شب بیداری کے حوالے سے نبی کریم ؐ کے معمولات کیا تھے اور تاکہ ہمارے لیے بھی ان معمولات کو اختیار کرنا آسان ہو جائے ۔ صحیح بخاری اور مسلم کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم ؐ رات کو نماز عشاء پڑھنے کے بعد جلدی سو جایا کرتے تھے ۔سنن نسائی اور ترمذی کی ایک روایت میں ہے کہ نبیؐ بیدار ہو کر کچھ دیر تک سبحان رب العالمین فرماتے تھے اور پھر کچھ دیر تک سبحان اللہ وبحمدہ فرماتے تھے ۔اسی طرح بخاری اور مسلم کی روایات سے سورۃ آل عمران کا آخری رکوع پڑھنا بھی ثابت ہے ۔نیز کچھ اور دعائیں بھی آپ ؐسے منقول ہیں ان میں سے جو دعا بھی یاد ہو اسے پڑھ لینا چاہیے اور اگر سب ہی کی توفیق مل جائے تو بہت بڑی سعادت ہے ۔ مسلم کی ایک روایت کے مطابق نبی کریم ؐ نماز تہجد کا جب آغاز فرماتے تھے تو پہلے دو مختصر رکعتیں پڑھتے تھے اور صحابہ کرام ؓ کو بھی اسی کی تلقین فرمایا کرتے تھے۔ رات کی اس نماز میں آپؐ کی قرات درمیانی آواز کی ہوا کرتی تھی اتنی کہ حجرہ مبارک میں اگر کوئی جاگ رہا ہوتا تو وہ سن لیتا اور اگر کوئی سو رہا ہوتا تو اس کی نیند میں خلل نہ آتا۔بعض اوقات نبی کریم ؐ اتنا طویل قیام فرماتے تھے کہ قدم مبارک ورم آلود ہو جاتے ،صحابہ کرام ؓ عرض کیا کرتے تھے یا رسول ؐاللہ اتنی محنت اور مشقت کیوں برداشت کرتے ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ نے آپؐکے لیے مکمل معافی کا وعدہ اور اعلان فرمایا ہے ۔نبی کریم ؐ فرماتے کیا میں اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں ؟ اللہ تعالیٰ ہمیں ختم الرسلؐ کے اسوہ حسنہ کی روشنی میں شب بیداری کی اس نعمت سے مالا مال فرمائے ۔ آمین ٭٭٭
مکمل تحریر اور تبصرے>>

Tuesday 17 December 2013

اچھے اخلاق:

ایک دفعہ ایک آدمی ظہر کی نماز پڑھنے کے لئے مسجد جا رہا تھا ۔رکعات چھوٹنے کے خوف سے جلدی جلدی چل رہا تھا۔ راستے میں اس کا گزر کھجور کے درخت کے پاس سے ہوا، دیکھا کہ ایک آدمی ڈیوٹی کے لباس میں ملبوس کھجور توڑنے میں مشغول ہے۔ اسے دیکھ کر بہت متعجب ہوا اور سوچا کہ یہ کیسا آدمی ہے جو نماز کا اہتمام نہیں کرتا، اور کام میں اس قدر غرق ہے کہ گویا اس نے اذان سنی ہی نہیں۔ غصہ کی حالت میں زور سے چیخا اور کہا: اترو نماز کے لئے، آدمی نے اطمینان سے کہا، ٹھیک ہے، اترتا ہوں۔ پھر اس آدمی نے دوبارہ کہا: نمازپڑھنے کے لئے جلدی کرو، اے گدھے! اے گدھے! یہ سن کر آدمی زور سے چیخا اور کہا: میں گدھا ہوں! پھر کھجور کا ایک تنا توڑ کر جلدی جلدی اترنے لگا تاکہ اس کا سر پھوڑ دے۔ یہ دیکھ کر اس آدمی نے تولیہ سے اپنا ڈھانپ لیا تاکہ وہ پہچان نہ سکے اور دوڑ کر مسجد میں داخل ہو گیا۔ شدید غصے کی حالت میں وہ آدمی کھجور کے درخت سے اترا ، گھر گیا، نماز پڑھی، کھانا کھایا، تھوڑا آرام کیا اور پھر کام کی تکمیل کے لئے کھجور کے درخت کے پاس آیا۔ پھر تھوڑی دیر میں عصر کی نماز کا وقت ہو گیا۔ پھر وہی آدمی جو ظہر کے وقت نماز کے لئے کھجور کے درخت کے پاس سے گزرا تھا، عصر کی نماز کے لئے بھی اسی راستہ سے گزرا، پھر دیکھا کہ آدمی درخت کے اوپر اپنے کام میں مشغول ہے، لیکن اس دفعہ آدمی نے گفتگو کا انداز بدل دیا اور کہا : السلام علیکم، کیا حال ہے۔ اس نے جواب دیا، الحمدللہ، خیریت ہے۔ آدمی نے کہا : سناؤ! اس سال پھل کیسا ہے؟ اس نے کہا ، الحمدللہ ، اچھا ہے۔ آدمی نے کہا: اللہ تجھے توفیق دے اور تجھے رزق دے اور روزی میں برکت اور وسعت دے اور اہل وعیال کے لئے کئے گئے عمل اور کوشش کو رائیگاں نہ کرے۔ وہ آدمی یہ دعائیہ کلمات سن کر بہت خوش ہوا اور اس دعا پہ آمین کہا۔ پھر اس آدمی نے کہا:لگتا ہے کہ کام میں کافی مشغولیت کی وجہ سے آپ نے عصر کی اذان نہیں سنی! اذان ہو چکی ہے، اور اقامت ہونے والی ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ آپ درخت سے اتر جاتے، تھوڑی دیر آرام کرتے اور نماز باجماعت پالیتے اور نماز کے بعد اپنے کام کو پورا کرلیتے۔ اللہ آپ کی حفاظت کرے گا اور آپ کو صحت وتندرستی عطا کرے گا۔ یہ دعائیہ کلمات سن کر اس نے کہا: ان شاءاللہ ان شاءاللہ، اور درخت سے اترنے لگا، پھر اس آدمی کے پاس آیا اور گرم جوشی کے ساتھ اس سے مصافحہ کیا اور کہا: اچھے اور عمدے اخلاق وعادات پہ میں آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں، لیکن ظہر کے وقت جو آدمی میرے پاس سے گزرا تھا اور جس بداخلاقی سے پیش آیا تھا، اگر میں اسے پالیتا تو اسے بتلادیتا کہ گدھا کون ہے؟
مکمل تحریر اور تبصرے>>

Saturday 14 December 2013

دماغی صحت

دماغی صحت
دماغ کو مناسب طور پر کام کرنے کے لیے ہر 100 ملی لیٹر خون میں سے 70 سے 100 ملی گرام گلوکوز درکار ہوتا ہے
دماغی انسانی جسم کے کل وزن کا صرف دو فیصد ہوتا ہے لیکن جسم کی پوری قوت کا بیس فیصد حصہ اسی کے مصرف میں ہوتا ہے اور یہ بات بڑی دلچسپ ہے کہ دماغ غذا کو چکنائی کی صورت میں ذخیرہ نہیں کرتا- اس لئے اس کے مسلسل کام کرنے اور اس کی پرورش اور نشونما کے لئے مستقل غذا کی فراہمی کی ضرورت رہتی ہے-
اسی وجہ سے چند مخصوص غذائوں کی کمی دماغ پر اثر انداز ہوسکتی ہے جس کا نتیجہ ذہنی اور جسمانی مسائل ہوتے ہیں لہٰذا یہ جاننا کہ کس قسم کی غذا ہماری دماغی صحت کے لئے اچھی ہے‘ ہماری مکمل صحت مندی کا ضامن ہوسکتا ہے-
یہاں ہم کچھ غذائوں پر بات کریں گے جو ہماری صحت اور ذہنی کام کے لئے بے حد اہم ہیں-
گلو کوز (Glucose)
دماغ کو بہت اچھی طرح کام کرنے کے لئے ہر 100 ملی لیٹر خون میں 70 سے 100 ملی گرام گلوکوز درکار ہوتا ہے-
اگر کسی انسان کے گلوکوز کی سطح (Glucose Level) میں زبردست کمی ہوجائے تو نتیجہ ذہنی انتشار‘ بے ہوشی کے دوروں‘ دماغ کی شریان پھٹنا ہوسکتا ہے یہاں تک کہ موت بھی واقع ہوسکتی ہے- اس صورت حال کی سنجیدگی اس کی وجوہات پر خاص توجہ دینے پر مجبور کرتی ہے-
انسولین (Insulin) کی زیادتی
انسولین جسم کے خلیوں میں گلوکوز کو جذب کرلیتا ہے-اسی لئے انسولین کی زیادتی سے دماغ میں موجود ضروری گلوکوز کی کمی واقع ہوسکتی ہے- ذیابطیس کے مریضوں کو اس قسم کی شکایت کا شدید خطرہ رہتا ہے کیونکہ انہیں انسولین انجیکٹ کیا جاتا ہے-
شکر کی زیادتی
(Reactive Hypoglycemia)
اسی طرح غذا میں مٹھاس کی زیادتی سے گلوکوز کی کمی واقع ہوجاتی ہے- کیونکہ چینی Pancreas کو انسولین پیدا کرنے میں مدد دیتی ہے جس سے لازما گلوکوز کی کمی ہوجاتی ہے-
طویل اور بے معنی ڈائٹنگ
طویل عرصے کے لئے مکمل بھوکا رہنے سے نہ صرف دماغ میں گلوکوز کی کمی ہوجائے گی بلکہ دوسرے ضروری غذائی اجزاءکی بھی قلت ہوجائے گی اور جسم صحیح طور پر کام نہیں کرے گا- ان ضروری اجزاءمیں ایک وٹامن بی کمپلیکس ہے جس کے بغیر ہمارا جسم چکنائی کو قابل استعمال قوت میں تبدیل نہیں کرسکتا جو کہ جسم اور دماغ دونوں کے لئے بہت ضروری ہے-
سوڈیم اور پوٹاشیم
گلوکوز کے علاوہ دماغ کو مستقل طور پر سوڈیم اور پوٹاشیم کی بھی ضرورت ہوتی ہے جس سے پیغامات کا تبادلہ ممکن ہوتا ہے-اعصابی نظام کی کارکردگی کے لے ان دونوں کی ضرورت ناگزیر ہے۔
سوڈیم کی کمی سے الٹیاں آسکتی ہیں بھوک غائب اور حواس کام کرنا چھوڑ سکتے ہیں۔
پوٹاشیم کی شدید کمی سے بے چینی‘ غنودگی‘ بے حسی‘ حتیٰ کے پاگل پن کی صورت حال بھی پیدا ہوسکتی ہے- پوٹاشیم کی کمی کی اصل وجوہات‘ کثرت پیشاب‘ یا اسپرین اور بعض دوائوں کا استعمال ہے۔
پروٹین
پروٹین Amino Acids اور Polypeptides کی شکل میں خون میں شامل ہوتی ہے اور پھر دماغ اسے خون سے حاصل کرتا ہے-دماغ Amino Acids کو خاص طور پر Neurotransmitters بنانے کے لیے استعمال کرتا ہے دراصل یہ وہ کیمیکل ہیں جو جسم کے بہت سارے کاموں کو اعتدال میں رکھتے ہیں مثلاً یاداشت‘ بھوک‘ نیند‘ درد اور جذبات وغیرہ- اس کے علاوہ دماغ Amino Acids سے اپنے لئے قوت بھی حاصل کرتا ہے- Amino Acidsوہ Enzymes ہیں جو غذا کو جزو بدن بنانے کے عمل کے ذمہ دار ہوتے ہیں اور ہارمونز کی پیداوار میں بھی مدد دیتے ہیں‘ فراہم کرتے ہیں-اس لئے پروٹین کی کمی کے خاصے خطرناک نتائج ہوسکتے ہیں جس میں ذہنی توازن کا بگڑ جانا بھی شامل ہے-
چکنائی (Fats)
پروٹین کی طرح چکنائی بھی دو طرح کے اجزاءکی صورت میں جسم میں داخل ہوتی ہے-
Glycerol (2) Fatty Acids (1) ان اجزاءکو دماغ Myelin بنانے کے لئے استعمال کرتا ہے- Myelin ایک نہایت اہم مادہ ہے جو جسم کے تمام خلیوں‘ جس میں دماغ بھی شامل ہے‘ کو احاطہ کئے ہوئے ہے-Myelin کے بغیر پیغامات کا تبادلہ ممکن نہیں- یہ بات دلچپسی کا باعث ہے کہ ہمارا جسم ہر قسم کے Fatty Acids پیدا کرلیتا ہے سوائے Linoleic Acid کے جو کہ دماغ کے صحیح طور پر کام کرنے کے لئے بہت ضروری ہے Linoleic Acid کی کمی یا مکمل عدم دستیابی سے یادداشت کا کمزور ہوجانا‘ شدید الجھن‘ مالیخولیاتی رعشہ پیدا ہوسکتا ہے-خوش قسمتی سے Linoleic Acidبڑی آسانی سے دستیاب ہے- صرف ایک چائے کا چمچہ یا مکئی کا تیل اتنی مقدار میں Linoleic Acid فراہم کردیتا ہے جوکہ ایک بالغ انسان کی ضرورت کے لئے کافی ہے-
حیاتین اور معدنیات
دماغ کو صحیح طور پر کام کرنے اور اس کی نشونما کے لئے تمام حیاتین اور معدنیات کی ضرورت رہتی ہے لیکن ان میں سے کچھ زیادہ اہم ہوتے ہیں جن میں فولاد (آئرن) وٹامن بی اور سی شامل ہیں-
دماغ وٹامن بی 6 سے Neurotransmitters بنانے کے علاوہ Myclin کی مرمت اور پروٹین کی قوت میں تبدیلی کرنے کا کام بھی لیتا ہے- وٹامن بی 6 کی کمی سے دماغ میں غیر معمولی برقی عمل کا خدشہ ہوتا ہے جس کا نتیجہ پٹھوں میں شدید اینٹھن کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے-
دوسری طرف وٹامن سی دماغ میں فولاد اور پروٹین کی فراہمی میں اہم کردار ادا کرتا ہے-
اس کی کمی کے باعث تھکن‘ شدید ذہنی دبائو‘ سر کا درد اور Hypersensitivity کی شکایات ہوجاتی ہیں-
وٹامن بی 6- اور سی کی طرح فولاد Neurotransmittersکی پیداوار اور غذائی اجزاءکو قوت میں تبدیل کرنے کا ذمہ دار ہوتا ہے- فولاد کی کمی سے جیسے کسی چیز پر توجہ نہ دے سکنے کا مسئلہ پیدا ہوسکتا ہے اسی لئے ذہنی کارکردگی کو بہتر سے بہتر کرنے کے لئے جسم کے اندر اس کی سطح مناسب ہونا ضروری ہے- ایک دن میں ایک عوت کو Iron 18 mg. اور مرد کو صرف Iron 10 mg. کی ضرورت ہوتی ہے-
فولاد کی کمی سے ہمارا جسم دوسری دھاتوں کو زیادہ سے زیادہ جذب کرنے لگتا ہے جن میں (Lead) بھی شامل ہے ۔ اسی لئے کھانے پینے کی اشیاءکو ڈبوں (Cans) کے کھلنے کے بعد ان میں نہیں چھوڑنا چاہئے- بصورت دیگر سیسے کی بھاری مقدار کھانے میں شامل ہوجاتی ہے-
تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ Cadmium (ایک نیلگوں سفید دھات) ہماری سیکھنے کی صلاحیتوں پر برے طریقے سے اثر انداز ہوتا ہے- یہ مضر دھات قلعی کئے ہوئے پائپ‘ چھنے ہوئے آٹے‘ وہ سبزیاں جو High Cadmium زمین پر اگائی گئی ہوں اور کھانے پینے کی وہ اشیاءجو مختلف مراحل سے گزاری جاتی ہیں کے ذریعے ہم تک پہنچتی ہے-
اچھی غذا اور ذہنی صحت
کثرت سے کھانا یا کھانے میں ناغے کرنے سے ذہنی کارکردگی پر خاصا گہرا اثر پڑتا ہے- اسکول کے بچوں پر یہ بات صادق آتی ہے- دیکھا گیا ہے کہ جو بچے صبح کا ناشتہ کرتے ہیں ان کی کارکردگی ان بچوں سے جو ناشتہ نہیں کرتے یا نامناسب خوارک کا استعمال کرتے ہیں‘ سے بہت بہتر ہوتی ہے- وجہ؟ ان کے گلوکوز کی سطح میں کمی-
اس بات کی بھی بڑی اہمیت ہے کہ غذا میں کیا اجزاءشامل ہیں- مثلاً جس غذا میں نشاستہ کی مقدار زیادہ ا ور پروٹین بہت کم ہو‘ وہ غذا عدم توجہی اوریاداشت میں خلل ڈالنے کا سبب بن جاتی ہے- تحقیق سے یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ کھانے پینے میں غیر معمولی تبدیلی سے ذہنی کارکردگی پر بہت منفی اثر پڑتا ہے-
اچھی غذا بہتر یادداشت کے لئے
یادداشت کی دو قسمیں ہوتی ہیں- طویل مدتی یاداشت (Long Term) اور مختصر مدتی یاداشت (Short Term) یا جو کہ سیکھنے کے عمل کی ذمہ دار ہوتی ہے Choline Chlorideسے متاثر ہوتی ہے-
ذہنی صحت کے قومی ادارے میں کئے گئے دو تجربوں‘ جن میں 20 سے 30 سال کی عمر کے لوگوں Choline Chloride کے صرف دس گرام کی خوراک دی گئی ہے سے یہ ثابت ہوا کہ Choline Chloride سے ان کی ذہنیءکارکردگی بہت بہتر ہوگئی اور ان میں جن لوگوں کی کارکردگی سب سے زیادہ بہتر ہوئی‘ بہت کمزور یادداشت کے مالک تھے-
Choline کے کچھ نقصانات بھی ہیں چونکہ Cholineجسم میں پوری طرح جذب نہیں ہوپاتا- آنتوں میں موجود Bacteria اسے Trimethylamine میں بدل دیتے ہیں جس سے فضلے میں سخت ناخوشگوار بو پیدا ہوجاتی ہے-
Lecithin ایک بہتر انتخاب ہے
Lecithin جن غذائوں سے حاصل کیا جاسکتا ہے ان میں بڑے کا گوشت‘ بچھڑے کا جگر‘ انڈہ‘ جو کا آٹا‘ مونگ پھلی‘ (Red Snapper)ایک قسم کی مچھلی (Trout)، سفید چاول اور گندم کا بھوسا شامل ہے-
مگر Lecithinکے استعمال میں جو مسئلہ ہے وہ وزن بڑھنے کا ہے- Lecithin ایک قسم کا ٰات ہے جس کا ایک گرام‘ 9 کیلوریز کے برابر ہے-
ایک اچھی متوازن غذا کے علاوہ دوسری اہم باتیں جیسے کہ اچھی نیند‘ نشہ آور ادویات اور شراب نوشی سے پرہیز اور ذہنی ورزش بھی اچھی یادداشت قائم رکھنے کے طریقے ہیں-
مکمل تحریر اور تبصرے>>

سورج سےمتعلق

سورج سےمتعلق 26 دلچسپ حقائق
  1. سورج کے گرد نو اہم سیارے گردش کرتے ہیں : عطارد ، زہرہ ، زمین ، مریخ ، مشتری، زحل ،Uranus، نیپچون ، اور پلوٹو (جدید تحقیق کی بنا پر پلوٹو کو 2006 میں ہمارے نظامِشمسی سے خارج قرار دیا گیا ہے)۔
  2. سورج نظام شمسی کی 99،85 ٪ کمیت پر مشتمل ہے۔
  3. سائز، حرارت اور کیمیائی ساخت کی بناء پر G2 dwarf کے طور پر ایک درجہ بندی کیا گیا سورج، ایک درمیانے سائز کا ستارہ ہے۔ ایک G star تھوڑا ٹھنڈا ہوتا ہے (تقریباً 5،000-6،000 کیلِون کے درمیان درجہ حرارت) اور پیچیدہ کیمیسٹری کا حامل ہوتا ہے،جس کا مطلب ہے یہ ہیلیم سے بھاری کیمیکلز پر مشتمل ہے۔
  4. ایکG2 star کی اوسط زندگی کی بنیاد پر ، سورج کی موجودہ عمر اندازے کے مطابق 4.6 اربسال ہے
  5. ہر سیکنڈ میں سورج چار ملین ٹن ہائیڈروجن خرچ کرتا ہے، جس سے پتا چلتا ہے کہ سورج 75 فیصد ہائیڈروجن،23 فیصد ہیلئم اور 2 فیصد بھاری عناصر پر مشتمل ہے۔
  6. سائنسدانوں کو معلوم ہوا ہے کہ سورج اپنی کور میں جمع شدہ ہائیڈروجن کو اگلے پانچ ارب سال تک جلانا جاری رکھے گا اور اس کے بعد ہیلئم سورج کا پرائمری ایندھن بن جائے گا۔
  7. تقریباً 109 زمین جیسے سیارے سورج کی سطح پر فٹ آسکتے ہیں جبکہ زمین جیسے دس لاکھ سے زیادہ سیارے سورج کے اندر فٹ آسکتے ہیں۔
  8. تقریبا ہر 11سال بعدسورج مجموعی طور پر اپنی مقناطیسیpolarity اُلٹتا ہے : اس کا شمالی مقناطیسی قطب جنوبی قطب بن جاتا ہے جبکہ جنوبی قطب شمالی قطب میں تبدیل ہوجاتا ہے۔
  9. سورج زمین سے ستارہ قریب ترین ستارہ ہے تقریباً 149.60ملین کلومیٹر اور 92.96 ملین میل دور۔ ۔ ۔ ۔ ۔
  10. اس کی کور پر، سورج کا درجہ حرارت تقریباً 15 ملین ڈگری سیلسئس ہوتا ہے(تقریباً27 ملین ڈگری فارن ہائٹ)۔
  11. سورج اپنے محور پر ہر 25.38 (زمین کے) دنوں یا 609،12 گھنٹوں میں ایک چکر لگاتا ہے۔
  12. 100.000.000.000ٹن بارود سے ہر سیکنڈ میں دھماکہ کیا جائے تو سورج سے پیدا کی گئی توانائی کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔
  13. زمین پر کسی 150 پونڈ وزنی شخص کا وزن سورج پر 4.200 پاؤنڈ ہوگا کیونکہ سورج کی کشش ثقل زمین سے 28 گُنا زیادہ ہے۔
  14. سورج حرارت اور چارج ذرّات کی ایک اسٹریم خارج کرتا ہے جسےشمسی ہوا کے طور پر جانا جاتا ہے، جو کہ 280 میل ( 450 کلومیٹر) فی سیکنڈ کی رفتار سے نظامِ شمسی میں سفر کرتی ہیں۔
  15. Solar flares (جیٹ کی صورت میں) شمسی ذرّات ہوتے ہیں جوکہ دھماکے سے سورج سے خارج ہوتے ہیں یہ مواصلاتی رابطوں میں خلل ڈال سکتے ہیں۔
  16. تمام سیارے اپنے اپنے مدار سورج کے گرد گھومتے ہیں اور ایک ہی سمت میں ۔اینٹی کلاک وائز، اور ایک ہی planeپر جسےecliptic کہا جاتاہے۔
  17. مصر ، بھارت اور یورپی ، اورMeso امریکی ثقافت، ان تمام خطوں میں جو مذاہب پائے جاتے تھے ان سب سورج کی عبادت کی جاتی تھی۔
  18. قدیم مصر میں ، سورج خدا “را” اعلی معبودوں میں سے اہم شخصیت تھا. اس نے اعلیٰ درجہ حاصل کیا کیونکہ یہ مانا جاتا تھا کہ اس نے اپنے آپ کو اور آٹھ دوسرے خداؤں کو پیدا کیا ہے۔
  19. Aztecمذہب میں ، سورج دیوتاؤں Tezcatlipoca  اور Huitzilopochtli کی طرف سے وسیع پیمانے پر انسانی قربانی کا مطالبہ تھا۔
  20. جاپان میں ، سورج دیویAmaterasu ، کو کافی اہمیت دی جاتی تھی اور اسے دنیا کی عظیم حکمران غور کیا جاتا تھا۔
  21. حروف جن سے مل کر جاپان کا نام بنتا ہے،کا مطلب ہے سورج کو اصل اور اس کے پرچم میں چڑھتے سورج کو دکھایا گیا ہے۔
  22. لیبیا میں ، دونوں نر اور مادہmummies پر ٹیٹوز دریافت ہوئے ہیں جن سے سورج کی عبادت ظاہر ہوتی ہے۔
  23. سولہویں صدی میں ، نیکولس کوپرنیکس کا کہنا تھا کہ یہ زمین ہے جوکہ سورج کے \گرد گھومتی ہے۔ تاہم ، نظامِ شمسی کے بارے میں کوپرنیکس کے نظرئیے کو کئی سال تک قبول نہیں کیا گیا ، یہاں تک کہ نیوٹن نے حرکت کے قوانین پیش کیے جس سے کوپرنیکس کے نظرئے کو تقویت ملی۔
  24. یونانی فلسفی ارسترکھس وہ پہلا شخص تھا جس نے یہ دعویٰ کیا کہ زمین سورج کے گِرد گھومتی ہے۔ 
  25. موجودہ ثبوتوں سے پتہ چلتا ہے کہ شمسی سرگرمیوں میں اتار چڑھاو زمین پر آب و ہوا میں تبدیلی کا باعث بنتا ہے ، آب و ہوا کے سائنسدانوں اور astrophysicists کی اکثریت پر اس بات پر متفق ہے کہ قدیم اور موجودہ دور میں عالمی سطح پر درجہ حرارت میں اچانک اضافہ کے لئے سورج ذمہ دار نہیں ہے بلکہ انسانی نسل اس کے لیے زیادہ قصور وار ہے۔
  26. ایک دہائی کے دوران سورج کی کرنوں کی پیداوار میں بہت معمولی تبدیلی واقع ہوئی ہے۔ایک فیصد کے دسویں حصّے کے برابر ۔۔۔۔۔، جو کہ اتنی بڑی تبدیلی بھی نہیں ہے کہ زمین پر درجہ حرارت کو ریکارڈ کرنے کے لیے ایک ناپے جانے کے قابل سگنل فراہم کر سکے۔
مکمل تحریر اور تبصرے>>

Tuesday 10 December 2013

Sunday 8 December 2013

Friday 6 December 2013

ہیپاٹائیٹس سی کا علاج


ہیپاٹائیٹس سی 
ایک مشکل العلاج مرض تصور کیا جاتا ہے. اور اسکے لیے نہایت مہنگی ترین ویکسین استعمال کروائی جاتی ہے. جوکہ جگر میں ضرورت سے زیادہ سوداء کو پیدا کرکے اس بیماری کے وائرس کو ڈیڈ کرنے کا کام کرتی ہے۔ اور وہ بھی اکثر و بیشتر ناکام رہتی ہے بالخصوص ان مریضوں کے لیے جو اس بیماری کے حملہ آور ہونے سے پہلے بھی ضعف جگر کے مریض ہوں.اور جن پر یہ ویکسین کارگر ثابت ہوتی ہے ان میں بھی وائرس کو ڈیڈ تو کر دیتی ہے لیکن اسکا اخراج نہیں کر پاتی.اسی وجہ سے ایلوپیتھک طرز علاج میں اسے نہایت خطرناک اور مشکل العلاج بلکہ بسا اوقات ناقابل علاج مرض سمجھا جاتا ہے.لیکن ایسا نہیں ہے. میں نے اب تک کئی ایک مریضوں کا علاج کیا ہے جن میں سے اکثر کا دورانیہ علاج دس دن سے بھی کم تھا.حال ہی میں پھر ایک ایسا مریض گزشتہ ہفتہ آیا اور اب اسکا علاج مکمل ہو چکا ہے اور ہیپاٹائیٹس سی مکمل طور پر ایسے غائب ہو چکا ہے جیسے گدھے کے سر سے سینگ.چونکہ آج کل حج کا موسم ہے اور عموما عازمین حج اس وقت پریشانی کا شکار ہو جاتے ہیں جب شہادہ طبیہ کے حصول میں یہ بیماری آڑے آجاتی ہے.تو سوچا کہ اسکا طریقہ علاج جو میں نے تقریبا تین سال سے زائد عرصہ سے اپنایا ہوا ہے اور ہمیشہ اسکو رزلٹ ایبل پایا ہے یہاں شئیر کردوں کہ کسی کا بھلا ہو جائے.یہ طریقہ علاج نہایت ہی سادہ اور آسان اور سستا ہے .لیکن اسکو حقیر نہ سمجھا جائے کہ یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہوگی.
سب سے پہلے پانچ دن تک مریض آب جو سیاہ ( کالے جو کا پانی ) روزانہ رات کو سوتے ہوئے کم ازکم 250 ملی لیٹر پیے .
چھٹے دن سے 6 رتی پپیسر اور 3رتی سوسی 
اور ایک کیپسول 500ملی گرام کا انڈین کوڑ کا بھر کر 
روزانہ صبح وشام پانچ دن تک استعمال کرے اور آخری خوراک لینے سے قبل ٹیسٹ کروالے۔ ان شاء اللہ رپورٹ نیگٹو ہوگی۔
یاد رہے کہ یہ دس دن کا علاج صرف ان افراد کے لیے ہے جنہوں نے ایلو پیتھک ویکسینشن نہیں کروائی۔ 
اور جو اس عذاب سے دو چار ہو چکے ہیں انکا علاج ذرا لمبا ہو جاتا ہے اور بسا اوقات چھ ماہ پر بھی محیط ہو سکتا ہے ایک ایسا مریض ہمارے پاس آیا تھا اسکا علاج تقریبا پانچ ماہ میں مکمل ہوا تھا.
پرہیز :
ہر قسم کی بادی , ترش , چٹپٹی , تیز مرچ مصالحہ دار ,گھٹی اشیاء 
دوائی میں مذکور سوسی ایک اصطلاحی نام ہے جو کہ ہلدی , ملٹھی اور سونف کو پیس کر ہموزن ملانے سے تیار ہوتی ہے.اسی طرح 
پپیسر سے مراد ہے: بادام :چار تولہ۔ ست ملٹھی : دو تولہ۔
سونف : ڈیڑھ تو لہ۔ کالی مرچ : آدھا تولہ۔
مکمل تحریر اور تبصرے>>

Wednesday 4 December 2013

اللہ ھُو

مکمل تحریر اور تبصرے>>

حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کی دعا

حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ اکثر اپنے خطبے کا آغاز اس دعا سے فرمایا کرتے تھے۔’’اے پروردگار!
امام اور امت، حاکم اور محکوم دونوں کو صلاحیت نصیب کر ۔۔۔ ان کے دلوں میں ایک دوسرے کی محبت ڈال ۔۔۔ انہیں نیکی کی توفیق دے اور ایک دوسرے کےشر سے محفوظ رکھ ۔۔۔اے مولا!تو ہمارے مخفی رازوں سے مطلع ہے، ان کی اصلاح کر ۔۔۔ تجھے ہمارے گناہوں کی خبر ہے، انہیںمعاف فرما ۔۔۔ تو ہمارے عیبوں سے آگاہ ہے، اُن کی پردہ پوشی فرما ۔۔۔ تو ہماری ضرورتوں کو جانتا ہے، انہیں پورا فرما ۔۔ جن باتوں سے تو نے ہمیں منع کیا ہے، انہیں*کرنے سے ہمیں*محفوظ رکھ ۔۔ اور ہمیں توفیق دے کہ ہم تیرے احکام کے پابند رہیں ۔ ہمیں اپنی اطاعت و عبادت کی عزت نصیب کر اور گناہوں کی ذلت میں نہ ڈال ۔ اپنے ماسوا سے ہمیں اپنی طرف کھینچ لے ۔ جو تجھ سے ہمیں*دور کرے، اسے ہم سے دور کر دے ۔ ہمیں اپنا ذکر کرنے کا طریقہ سکھا اور صبر و شکر کی توفیق دے ۔۔ اور اطاعت و عبادت میں ہمیں خلوص و یقین نصیب کر ۔اے پروردگار!
ہم بھول جائیں یا ہم سے قصداً کوئی خطا ہو جائے تو درگزر فرما اور ہم پر اتنا بوجھ نہ ڈال جتنا کہ تو نے ہم سے پچھلی امتوں پر ڈالا تھا۔
اے مولا!جس بات کی ہم میں طاقت نہ ہو اس میں تو ہمیں*مجبور نہ کر ۔۔۔ ہم سے نرمی فرما اور ہمارے گناہوں کو بخش دے اور اپنا فضل  کرم ہمارے شامل حال رکھ۔ تو ہی ہمارا مالک اور حقیقی مددگار ہے ۔ تو کافروں پر ہماری مدد فرما‘‘۔
مکمل تحریر اور تبصرے>>

Tuesday 3 December 2013

Archive

Blog Archive