Tuesday 24 September 2013

چقندر


چقندر
شلجم کی مانند مشہور ترکاری ہے۔ یہ باہر اور اندر سے سرخ ہوتی ہے۔ اس کےپتے پالک کے پتوں سے مشابہ ہوتے ہیں۔ چقندر کا ذائقہ گاجر کے مانند شیریں ہوتا ہے۔ یہ بھارت، پاکستان، شمالی افریقہ اور یورپ میں کثرت سے سبزی کے طور پر کاشت کیا جاتا ہے۔ اگرچہ اس کی جنگلی قسم بھی ہے مگر ان کو خوارک اور علاج دونوں کیلئے بیکار سمجھا جاتا ہے۔
چقندر کی پھولی ہوئی جڑ اور پتے خوارک میں استعمال ہوتے ہیں۔ یہ سلاد کے طور پر پکایا جاتا ہے۔ اسے ابال کر کھاتے ہیں۔ گوشت کے ساتھ سالن کے طور پر پکایا جاتا ہے۔ اس کا اچار ڈالتے ہیں۔
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ ایک عورت چقندر کو جو کے آٹے کے ساتھ اس طرح پکاتی کہ وہ بوٹیاں لگنے لگتیں۔ یہ کھانا وہ جمعہ کے دن بناتی تھی۔ سارے مسلمانوں کو جمعہ کے دن کا انتظار ہوتا کیونکہ وہ نماز جمعہ کے بعد اس کھانے کو کھاتے۔ (بخاری)
حضرت ام المنذر رضی اللہ تعالٰی عنہا روایت فرماتی ہیں، میرے گھر رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے اور ان کے ہمراہ حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ بھی تھے۔ میرے یہاں اس وقت کھجور کے خوشے لٹک رہے تھے۔ ان کی خدمت میں وہ پیش کئے گئے۔ وہ دونوں کھاتے رہے اور اس کے دوران رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے فرمایا کہ تم اب مذید نہ کھاؤ کہ ابھی بیماری سے اٹھنے کی وجہ سے کمزور ہو۔ پھر میں نے ان کے لئے چقندر کا سالن اور جو کی روٹی پکائی۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں! علی رضی اللہ تعالٰی عنہ تم اس میں سے کھاؤ کہ یہ تمھارے لئے مفید ہے۔
چقندر سے جگر اور تلی کی بیماریوں کا علاج
چقندر کھانے سے جگر کا فعل بہتر ہوتا ہے اور تلی کی سوزش کو کم کرتا ہے۔ چقندر کے پانی کو شہد کے ساتھ پیا جائے تو بڑھتی ہوئی تلی کو کم کرتا ہے اور جگر میں پیدا ہونے والی رکاوٹوں کو دور کرتا ہے۔ شہد اور چقندر کا پانی نہ صرف یرقان میں مفید ہے بلکہ صفرا کی نالیوں میں پتھری یا دوسرے اسباب سے پیدا ہونے والی رکاوٹوں کا علاج بھی ہے۔
محدثین کرام نے چقندر کے بارے میں جو مشاہدات رقم کئے ہیں، ان میں سےاکثر نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے مشاہدات کے برعکس ہیں۔ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے لئے چقندر کے سالن کو اس وقت پسند فرمایا جب وہ بیماری سے اٹھے تھے۔ نقاہت محسوس کر رہے تھے۔ ایسے میں ان کو ایسی غذا دینی مقصود تھی جو آسانی سے ہضم ہو سکے اور ان کی کمزوری کو دفع کرے۔ اس غرض کے لئے نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے چقندر کا سالن اگر پسند فرمایا تو یہ یقینی بات ہے کہ اس سالن میں کمزوری کو دور کرنے اور جلد ہضم ہو جانے کی صلاحیت موجود تھی۔

چقندر کی کیمیاوی ہئیت پر غور کریں تو اہم ترین بات جو سامنے آتی ہے، وہ اس میں شکر کی موجودگی ہے۔ عام طور پر یہ مقدار 24 فیصدی کے لگ بھگ ہوتی ہے۔ یہ عام بات ہے کہ لوگ بیماری کے دوران یا اس کے بعد کی کمزوری کے لئے گلوکوز دیتے ہیں۔ شکر اور نشاستہ کی قسم خواہ کوئی ہو، جسم کے اندر جا کر ایک مختصر سے عمل کے بعد گلوکوز میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ اس لئے چقندر کے دیگر اجزاء سے قطع نظر بھی کریں تو شکر کی موجودگی کمزوری کے لئے یقیناً فائدہ مند ہوگی۔ سبزی اور پھل جیسے بھی ہوں، ان میں ناقابل یضم مادہ کثیر مقدار میں ہوتا ہے جو قبض کو دور کرتا ہے۔
دردسر اور درد دانت اور آنکھوں کی سوزش کا علاج
چقندر کی جڑوں کا جوس نکال کر اگر اس کو ناک میں ٹپکایا جائے تو سر درد اور دانت درد دور کو فوراً دور کرتا ہے۔ اسے اگر اس کے اطارف میں لگایا جائے تو آنکھوں کی سوزش اور جلن میں مفید ہے۔ چقندر کے پانی کو روغن زیتون میں ملا کر جلے ہوئے مقام پر لگانا مفید ہے۔ سفید چقندر کا پانی جگر کی بیماریوں میں اچھے اثرات رکھتا ہے۔
چقندر کے بواسیر اور قبض پر اثرات
چقندر کے قتلوں کو پانی میں ابال کر اس پانی کی ایک پیالی صبح ناشتہ سے ایک گھنٹہ پہلے پینے سے پرانی قبض جاتی رہتی ہے اور بواسیر کی شدت میں کمی آ جاتی ہے۔ یورپ اور ایشیاء میں اکثر لوگ چقندر کے قتلوں کو ابال کر کھانے کے ساتھ سلاد کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔
چقندر کے نسوانی اعضاء پر اثرات
سرخ چقندر کو نسوانی اعضاء کے لئے مقوی مانا گیا ہے۔ رحم کی کمزوری کے لئے بطور سبزی یا اس کا جوشاندہ ایک طویل عرصہ تک استعمال کرنا مفید ہے۔
امراض جلد میں چقندر کے فوائد
جلد کے زخموں، بفہ اور خشک خارش میں چقندر کے قتلوں کو پانی اور سرکہ میں ابال کر لگانا مفید ہے۔ اس مرکب کو دور چار مرتبہ لگانے سے سر کی خشکی غائب ہو جاتی ہے۔ سرکہ کی موجودگی کی وجہ سے زیرناف خارش میں بھی مفید ہے۔
چقندر ایک مفید اور مقوی غذا اور خارش کی متعدد قسموں کے لئے مقامی استعمال کی قابل اعتماد دوا ہے۔
چقندر کے دیگر فوائد
چقندر کے پتوں کا پانی نکال کر اس سے کلی کرنا اسے مسوڑھوں پر ملنے سے دانت کا درد جاتا رہتا ہے۔ بعض اطباء کا خیال ہے کہ ایسا کرنے کے بعد آئندہ درد نہیں ہوتا۔ سر کے بال کم ہوں تو چقندر کے پانی سے دھونا مفید ہے جبکہ نجم الغنی خاں اس میں بورہ ارضی ملا کر استسقاء اور ہاتھوں اور پیروں کے ورم پر لیپ کرنے کی تجویز کرتے اور فائدہ بیان کرتے ہیں۔
چقندر کے اجزاء دست آور ہیں جبکہ اس کا پانی دستوں کو بند کرتا ہے۔ سرخ قسم کو پکا کر کھانا کمزوری اور ضعف باہ میں مفید ہے۔ اس کو رائی اور سرکہ میں ڈال کر ہکانے کے بعد کھایا جائے تو یہ جگر اور تلی ست سدے نکال دیتا ہے۔ اسے کافی دنوں تک کھانے سے درد گردہ و مثانہ اور جوڑوں کے درد کو فائدہ ہوتا ہے۔
یہی ترکیب مرگی کی شدت کو کم کرنے میں مفید ہے۔ حکیم مفتی فضل الرحمٰن نے لکھا ہے کہ چقندر کے قتلے کاٹ کر ان کو پانی میں خوب ابالا جائے۔ اس پانی کے ساتھ نقرش یا گنٹھیا ولاے جوڑوں کو بار بار دھونے سے درد اور ورم جاتا ہے۔
اطباء نے لکھا ہے کہ چقندر کی اصلاح کے لئے سرکہ اور السی شامل کرنا مفید ہے کیونکہ اس طرح کرنے سے پیٹ میں نفخ نہیں پیدا ہوتا۔
(الماخوذ: فیضان طب نبوی صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وصحبہ وبارک وسلم
)

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Archive