Tuesday 24 September 2013

عبادات

اللہ والوں کي نماز
 نماز اس شخص کي طرح پڑھني چاہيے جسے يقين ہو کہ يہ اس کي زندگي کي آخري نمازہے حضرت خاتم بلخي رحمتہ اللہ عليہ سے کسي نے پوچھا، آپ نماز کيسے پڑھتے ہيں؟ آپ نے فرمايا، (جب نماز کا وقت ہوتاہے تو اچھي طرح وضو کر کے جائے نماز پر اطمينان سے کھڑا ہوجاتا ہوں ار و يہ تصور کرتا ہوں کہ کعبہ ميرے سامنے ہے، جنت ميرے دائيں طرف اور دوزخ ميرے بائيں طرف ہے اور ميں پل صراط پر کھڑا ہوں، اور ميں سمجھتا ہوں کہ موت کا فرشتہ ميرے سر پرہے اور يہ ميري زندگي کي آخري نماز ہے؟
پھر ميں نہايت عاجزي سے اللہ اکبر کہتا ہوں، معاني کو ذہن ميں رکھ کر تلاوت کرتا ہوں اور نہايت خشو ع و خضوع سے نماز ادا کرتا ہوں پھر اللہ تعالي کي رحمت سے اس کے قبول ہونےکي اميد رکھتا ہوں اور اپنے اعمال کے ناقص ہونے کي وجہ سے اس کے ٹھکراديے جانے کا خوف کرتا ہوں)  اللہ اکبر!
يہ ہے اللہ والوں کي نماز! باري تعالي ہميں اولياء کرام کے نقش قدم پر چلنے کي توفيق عطا فرمائے آمين

نماز کي قبوليت کا گمان رکھيے
 نماز کے دوران جو دنياوي خيالات آئيں، ان کي طرف توجہ نہ کريں بلکہ انکي پرواہ کيے بغير اپنے ذہن کو نماز ميں پڑھے جانے والے الفاظ اور ان کے معاني کي طرف متوجہ کرنے کي کوشش کرتے رہيں؟
بعض لوگ يہ سوال کرتے ہيں کہ ہميں يہ اطمينان کيسے ہو کہ ہم نے جو نماز پڑھي اسے اللہ تعالي نے قبول فرماليا؟ اس کا جواب سمجھنے کے ليے اس حديث پاک پر غور کيجئے، ارشاد ہوا ، اللہ تعالي قيامت ميں اپنے بندے کے ساتھ ويسا معاملہ کرے گا جيسا بندے نے اپنے رب کے ساتھ ظن رکھا ہوگا؟ لہذا خوف خدا کے ساتھ ساتھ عبادت کے قبول ہونے کا حسن ظن رکھنا بھي ضروري ہے؟
علماء کرام فرماتے ہيں، اگر تم نے فجر کي نماز پڑھي اور پھر ظہر کي نماز بھي پڑھ لي تو يہ نيک گمان کرو کہ اللہ تعالي نے تمہاري فجر کي نماز قبول فرمالي? پھر جب نماز عصر پڑھ لو تو ظہر کے قبول ہونے کا اطمينان کرلو، اسي طرح ہر اگلي نماز ادا کرنے کے بعد پچھلي نماز قبول ہونے کا اطمينان کر لو کيونکہ اگر اللہ تعالي تمہاري نماز فجر قبول نہ فرماتا تو تمہيں نماز ظہر ميں حاضر ہونے کي توفيق نہ ديتا? رب کريم کا تمہيں ہر اگلي نماز ادا کرنے کي توفيق دينا اس بات کي دليل ہے کہ اس نے تمہاري پچھلي نماز کو قبول فرماليا ہے؟

 نماز، متقی بنادیتی ہے
 ارشاد باری تعالی ہوا، (بیشک نماز منع کرتی ہے بے حیائی اور بری بات سے)۔ (العنکبوت ۴۵، کنز الایمان)
اس آیت سے معلوم ہوا کہ نماز بے حیائی اور برے کاموں سے روکتی ہے یعنی جو شخص پابندی سے نماز کو اس کے حقوق و آداب کا لحاظ رکھتے ہوئے ادا کرتا ہے، رفتہ رفتہ وہ تمام برے کاموں کو چھوڑ دیتا ہے اور متقی بن جاتا ہے۔
(ایک انصاری جوان سید عالم صلی اللہ علیہ والسلم کے ساتھ نماز پڑھا کرتا تھا اور بہت سے کبیرہ گناہوں کا ارتکاب بھی کرتا تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ والسلم سے اسکی شکایت کی گئی، آپ نے فرمایا، اس کی نماز کسی روز اس کو ان بری باتوں سے روک دے گی۔ چنانچہ جلد ہی اس نے توبہ کی اور اسکا حا ل بہتر ہوگیا۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا، جس کی نماز اسے بے حیائی اور برے کاموں سے نہ روکے وہ نماز ہی نہیں۔ تفسیر خزائن العرفان

خشوع و خضوع کی اہمیت
آقا و مولٰی صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان عالیشان ہے ،  (اللہ تعالی کی عبادت ایسے کیا کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو، اگر یہ نہ ہوسکے تو کم از کم یہ ضرور یقین رکھو کہ وہ تمہیں دیکھ رہا ہے)۔  (بخاری)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جو شخص اچھی طرح وضو کر کے سب نمازیں وقت پر ادا کرے، خشوع و خضوع سے قیام کرے، رکوع اور سجدہ بھی اطمینان سے کرے اور پوری نماز اچھے طریقے سے تو وہ نماز چمکدار بن جاتی ہے اور اسے یوں دعا دیتی ہے، اے نمازی ! اللہ تیری ایسے ہی حفاظت کرے جیسے تو نے میری حفاظت کی۔ اور جو نماز کو بری طرح ادا کرے یعنی صحیح وضو نہ کرے، رکوع و سجدہ بھی اچھی طرح نہ کرے تو وہ نماز بد دعا دیتی ہے کہ اللہ تجھے ایسا ہی برباد کرے جیسے تو نے مجھے برباد کیا۔ پھر وہ نماز پرانے کپڑے کی طرح لپٹ کر نمازی کے منہ پر ماردی جاتی ہے۔ (طبرانی)
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، بد ترین چور وہ ہے جو نماز میں سے چوری کرے۔ صحابہ کرام نے عرض کی،یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !  وہ نماز میں سے کیسے چوری کرتا ہے؟ فرمایا، وہ رکوع اور سجدے اچھی طرح ادا نہیں کرتا۔ (مسند احمد، طبرانی)
ایک اور حدیث پاک میں پابندی سے سب نمازیں خشوع و خضوع سے ادا کرنے والوں کو مغفرت کی خوشخبری دی گئی۔ (ابو داؤد)
حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کا ارشاد ہے کہ (خشوع کرنے والے وہ ہیں جو اللہ تعالی سے ڈرتے ہیں نماز سکون سے پڑھتے ہیں)۔
ان احادیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ تمام حقوق آداب کا لحاظ رکھتے ہوئے خشوع و خضوع اور اطمینان و سکون سے نماز ادا کرنی چاہیے۔
نماز با جماعت کی فضیلت
 آقا و مولٰی صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد گرامی ہے، (با جماعت نماز پڑھنا  اکیلے نماز پڑھنے سے ستائیس (۲۷) درجے زیادہ افضل ہے)۔ (بخاری ، مسلم)
محبوب کبریا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، (میرا دل چاہتا ہے کہ چند جوانوں سے کہوں کہ بہت سا ایندھن جمع کر کے لائیں پھر میں ان کے پاس جاؤں جو بلا عذر گھروں میں نمازیں پڑھتے ہیں اور ان کے گھروں کو جلادوں)۔  (مسلم، ابو داؤد)
نور مجسم صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان عالیشان ہے، (جو اپنے گھر سے طہارت و وضو کر کے فرض نماز ادا کرنے کے لئے مسجد جاتا ہے اسکے ہر ایک قدم پر ایک گناہ معاف ہوتا ہے اور دوسرے قدم پر ایک درجہ بلند ہوتا ہے)۔  (مسلم)
حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا، (جو شخص اذان کی آواز سنے اور بلا عذر نماز کو نہ جائے اور گھر میں پڑھ لے، اس کی وہ نماز قبول نہیں ہوتی)۔  صحابہ نے عرض کی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !  عذر سے کیا مراد ہے؟ ارشاد فرمایا، (خوف یا مرض)۔  (ابو داؤد)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے، (اگر نماز با جماعت سے پیچھے رہ جانے والا جانتا کہ اس جانے والے کے لیے کیا اجر ہے تو وہ گھسٹتا ہو احاضر ہوتا)۔  طبرانی
 

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Archive